ہے اس کی حمد سے عاجز مری زباں کیا کیا ثنا سے اس کی ہے قاصر یہ خوش بیاں کیا کیا

ہے اس کی حمد سے عاجز مری زباں کیا کیا ثنا سے اس کی ہے قاصر یہ خوش بیاں کیا کیا



حفیظ الرحمن ا حسنؔ(پاکستان)





ہے اس کی حمد سے عاجز مری زباں کیا کیا
ثنا سے اس کی ہے قاصر یہ خوش بیاں کیا کیا


وہ بے نیاز ہے لیکن ہے باخبر کیسا
کہ بے سنائے بھی سنتا ہے دردِ جاں کیا کیا


یہ دل، یہ شمس و قمر اور یہ لامکان و مکاں
ہیں اس کے نور سے آباد بستیاں کیا کیا


مری خطائوں کا گرچہ نہ تھا شمار کوئی
وہ مہرباں ہے رہا مجھ پہ مہرباں کیا کیا


ریاضِ دہر میں ہر سو اسی کے جلوے ہیں
نہاں نظر بھی ہوکر ہے وہ عیاں کیا کیا


ہزار چاک تھے دامانِ بندگی میں مرے
مرے کریم نے کیں پردہ پوشیاں کیا


مرے خلوص کا خود رکھ لیا بھرم اس نے
وگر نہ مجھ سے زمانہ تھا بد گماں کیا کیا


ہے اس کا نور ہی خود راہبر مرا ’’احسن‘‘
بھٹکتے پھرتے ہیں راہوں میں راہ داں کیا کیا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے