ہر چیز پر گمان تری ذات کا ہوا تجھ تک پہنچ گیا میں تجھے ڈھونڈتا ہوا

ہر چیز پر گمان تری ذات کا ہوا تجھ تک پہنچ گیا میں تجھے ڈھونڈتا ہوا

انجمؔ شادانی (کراچی)



ہر چیز پر گمان تری ذات کا ہوا
تجھ تک پہنچ گیا میں تجھے ڈھونڈتا ہوا


سنتا ہوں اس کی ساری خطائیں ہوئیں معاف
مقبول جس کا ایک بھی حرفِ دعا ہوا


شہ رگ کے بھی قریب ہے یہ جانتے ہوئے
طے ہم سے آج تک بھی نہ یہ فاصلہ ہوا


دیوارِ حادثات تھی حائل حیات میں
جب تیرا نام لے کے چلے راستہ ہوا


دل کے ورق پہ جب بھی لکھا میں نے تیرا نام
تیری تجلیات سے دل آئینہ ہوا


اک عمر اپنی سجدہ گزاری میں کٹ گئی
حق بندگی کا پھر بھی نہ ہم سے ادا ہوا


انجمؔ سبھی کا، کاتبِ تقدیر ہے خدا
کوئی بدل سکے گا نہ اس کا لکھا ہوا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے