ناصرؔ آدرش (کراچی)
اک یقیں ہے وہ ذات سے آگے
جو ہے ہر طرح مات سے آگے
ہم کہ محدود کائنات یہاں
اور وہ ہے کائنات سے آگے
ابتدا کیا ہے انتہا کیا ہے
وہ تو ہے ممکنات سے آگے
ہر زبانِ نفس پہ اس کا نام
رب ہے سب کے ثبات سے آگے
اس سے مانگو اے مانگنے والو!
کون ہے اس کے ہاتھ سے آگے
عالم تیرگی کا خوف نہیں
نور ہے اس کا رات سے آگے
جو صفات خدا ملیں آدرشؔ
خود ہے وہ ان صفات سے آگے
0 تبصرے