حفیظؔ محمود
نام سے تیرے جو آغاز سفر کرتا ہے
راہ دشوار بھی ہوتی ہے تو سر کرتا ہے
بے ثمر کو تو ثمردار شجر کرتا ہے
سیپ کی کوکھ میں قطرے کو گہر کرتا ہے
حکم سے تیرے بدل جاتے ہیں دریائوں کے رخ
بر کو بحر اور کہیں بحر کو بر کرتا ہے
ذرے ذرے سے عیاں ہوتی ہے تیری قدرت
قطرہ قطرہ بھی تو اظہار ہنر کرتا ہے
پرکشش موسمِ برسات ہے قدرت کا ظہور
خشک اور پیاسی زمیں مینھ سے تر کرتا ہے
روشنی دن کو عطا کرتا ہے سورج تیرا
رات کو بارش انوار قمر کرتا ہے
تجھ سے خائف نظر آتا ہے پہاڑوں کا جلال
تیرا ڈر ارض و سما پر بھی اثر کرتا ہے
اس کے اک اشکِ ندامت پہ سمندر قرباں
اپنی آنکھیں جو تیرے خوف سے تر کرتا ہے
معترف ہے تری رحمت کا حفیظؔ محمود
تو کرم روز و شب و شام و سحر کرتا ہے
0 تبصرے