صاؔلح ابن تابش ؔکا تقدیسی شعری آہنگ
محمد حسین مشاہد رضوی
محترم صاؔلح ابن تابشؔ مالیگاؤں کے مشہور و معروف ، خوش الحان اور بزرگ شاعر ہیں۔اِنھیں میںاپنے بچپن سے سن رہا ہوں جب کہ موصوف آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ مالیگاؤں کے دفتر پر سالانہ نعتیہ انعامی مقابلوں میں ان کے عزیز ترین دوست ماسٹر ج رضوی کے ساتھ منصفی کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ انھی محفلوں میں جب آپ اپنے منفردانداز میں نعت ِ رسول ﷺ گنگنایا کرتے تھے تو ایک کیف آگیں سماں بند ھ جایا کرتا تھا۔ میرے نزدیک آپ کا شناخت نامہ نعت گوئی اور نعت خوانی کی حیثیت سے ہی مقدم رہا ہےویسے موصوف تقدیسی شاعری کے ساتھ ساتھ بہاریہ اور غزلیہ شاعری میں بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں ۔ اپنے والد ماجدقاری نذیر تابشؔ ہی کی طرحمشاعروں اورشعری نشستو ں میں آپ اپنے مخصوص لب و لہجے اور دل آویز ترنم سے محفل پر ایک روحانی سماں باندھ دیتے ہیں جو قلب و روح کو متاثر کرنے کے ساتھ کیف و سرور سے ہم کنار کردیتاہے۔آپ کی غنائیت، نغمگی اور پاٹ دار لب و لہجے کے سبب مشاعروں کی دنیا میں آپ کی موجودگی مشاعرے کی کامیابی تصور کی جاتی رہی ہے۔
آپ نے اپنی عمر کا طویل حصہ شعر و سخن کی زلف ِ برہم سنوارنے میں گزار دیا ہے ۔ مالیگاؤں میں معاصر فن کار اکثر آپ کے تلامذہ پر مشتمل ہیںجن میں بعض صاحبِ کتاب بھی ہوچکے ہیں جب کہ حضرت صاؔ لح ابن تابشؔ اپنے محبین کو طویل انتظارکے بعد ایک خوب صورت شعری مجموعے’’ اندر کا موسم‘‘ کے ذریعے شاد کام کرنے جارہے ہیں ۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میرے نزدیک آپ کا شناخت نامہ نعت گوئی اور نعت خوانی کی حیثیت سے ہی مقدم رہا ہےیہی وجہ ہے کہ میں اس نشست میں اپنی تبصراتی کاوش کا عنوان ’’اندر کا موسم ‘‘ میں شامل تقدیسی کلام کو بنارہاہوں۔
’’ اندر کا موسم ‘‘ میں 5؍ حمد ، 1؍ مناجات ، 15؍ نعتیں اور دو مناقب ایک نذرِ اہل بیت رضی اللہ عنہم جب کہ دوسری نذر خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ شامل ہے۔ شاعری کی اثر انگیزی کے لیے بحور و اوزان اور ردیف و قوافی کی حیثیت ثانوی درجہ رکھتی ہے؛ اصل چیز جذبے کی وارفتگی، خیالات کی صداقت، تخیل کی دلکشی، زبان و بیان پر دسترس اور شعریت ہے۔ درد و سوز، نغمگی و غنائیت، جذبہ و تخیل ، ندرت و جدت، محاکات و تراکیب،صنائع و بدائع ،اظہار کی برجستگی اور پیکر تراشی وغیرہ یہ وہ اجزا ہیں جو ایک اعلیٰ درجے کی شاعری کے لیے ضروری ہیں ۔ جب ان محاسن کے تناظر میں ہم صاؔلح ابن تابشؔ کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیںیہ کہنے میں باک نہیں ہوتا کہ ان کے یہاں ان شعری خصوصیات کی جلوہ گری بدرجۂ اتم نظر آتی ہے۔
عربی، فارسی کی طرح اردو شاعر ی میں بھی اللہ جل شانہٗ کی حمد تحریر کیے جانے کی روایت اردو کے آغاز سے ہی رہی ہے۔ صاؔلح ابن تابشؔ کے یہاں بھی حمد و مناجات کا رنگ و آہنگ بڑا عمدہ ہے۔ جہاں ایک بندۂ عاجز اپنے عجز و نیاز کا والہانہ اعتراف کرتے ہوئے مالکِ حقیقی جل شانہٗ کے اوصاف و کمالات ، اختیارات و تصرفات اور عنایات و نوازشات کا خوب صورت شعری بیان کرتا ہے:
تو ہی خالق تو ہی مالک ہے سب کا
کسی کا کچھ نہیں سب کچھ ترا ہے
ترے اسم مبارک کا وظیفہ
محافظ میری اک اک سانس کا ہے
بڑی ہی سادگی اور سلاست کے ساتھ رب العزت جل شانہٗ کے ہر شے پر اختیار ہونے اور اس کے نامِ مبارک کے وظیفے سے بندے کو حاصل ہونے والی برکتوں کا بیان کیا ہے۔
ایک اچھی اور عمدہ شاعری کی خوبیوں میں یہ بھی ہے کہ شاعر سوالیہ انداز میں اپنی بات کہتے ہوئے خود ہی جواب بھی دیتا جاتا ہے اور اپنے ممدوح کے اوصافِ حمیدہ کو بیان کرتا چلا جاتا ہے، صاؔلح ابن تابشؔ کے یہاںیہ آہنگ بڑی خوش اسلوبی سے برتا گیا ملتا ہے۔اللہ کریم کی ذات ہر لمحہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے وہ شہِ رگ سے بھی قریب تر ہے وہی ہمارا حقیقی محافظ ہے۔کائنات کی ہر شے میں اسی کا جلوہ ہے اور ہر شے سے اسی کی تجلی عیاں ہے ۔اسی نے رنگ رنگ کے پھل پھول اور سایہ دار پیڑ ہمارے لیے بنائے ہیں، شاعر ان مضامین کو شعری حُسن و خوبی سےمزین کرتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے:
یہ جو لمحہ بہ لمحہ مرے ساتھ ہے
ہر نظر سے پرے اک نظر کس کی ہے
کون منظر بہ منظر ہے چھایا ہوا
ساری رنگینیِ خشک و تر کس کی ہے
ڈالی ڈالی نے کی زیب تن خلعتیں
یہ عنایت شجر در شجر کس کی ہے
ان اشعار میں صنائع کے نجوم بھی چمک رہے ہیں اور بدائع کے مہر و ماہ بھی روشن ہیں ، درج بالا تینوں شعر میں’’ لمحہ بہ لمحہ‘‘ - ’’ منظر بہ منظر ‘‘ اور ’’ شجر در شجر‘‘ کے سبب’’ صنعت تکریر مع الوسائط‘‘ کے جلوے بکھرے ہیں تو ’’ خشک‘‘ اور ’’تر‘‘ جیسے متضاد الفاظ سے دوسرا شعر’’ صنعت تضاد‘‘ کا مرقع بن گیا ہے؛ جب کہ تیسرے شعر میں ’’ ڈالی ڈالی‘‘ کا جدا جدا مکرر استعمال شعر کو ’’صنعت تکریرمثنیٰ‘‘ کا آئینہ دار بناتا ہے ۔اسی طرح حمد کا یہ شعر دیکھیں :
اسے بھی بخش دے غفارِ مطلق
ہے صاؔلح نام ، سر تا پا خطا ہے
اس شعر میں’ بخش‘اور ’خطا‘ کی مناسبت سے’ غفار‘ کا استعمال بڑی عمدگی سے کیا گیا ہے جب کہ شاعر کے تخلص اور نام صاؔلح کو اگر اس کی معنوی حیثیت سے دیکھیں اور غور کریں تو بے ساختہ شاعر کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ یہاں ’’صنعت استشہاد ‘‘ کا حُسن بھی نمایاں ہوگیاہے۔
اللہ کریم کائنات کی ہر شَے کا مالک اورپالنہار ہے۔ وہی ہمارا خالق و مالک ہے ۔ اسی سے جہاں کی بہار ہے ۔ اسی سے دل کو قرار ہے ۔ اسی کے یہ لیل و نَہار ہیں۔اسی کے یہ دریا و کوہسار ہیں۔ شام کی خامشی ہو یا صبح کی نغمگی ، چمکتے دن ، اندھیری رات روپہلی چاندنی ، دھوپ چھاؤں ، گرم و سرد ،رنج و الم غرض یہ کہ ہر ہر شَے اسی کی تابع اور مطیع ہیں اور سب کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ صاؔلح ابن تابشؔ نے اپنی ایک حمد میں ان صفاتِ الٰہیہ کا بڑے احسن اندازمیں بیان کیا ہے:
نداے خواب: شامِ خامشی کا تو ہی خالق ہے
حسیں تعبیر:صبحِ نغمگی کا تو ہی خالق ہے
چمکتے دن ، اندھیر ی شب ، روپہلی چاندنی اور دھوپ
کہ گرم وسرد کارنج و الم کا تو ہی خالق ہے
ان اشعار میں خوب صورت اور عمدہ لفظیات کا استعمال کرتے ہوئے بہترین پیرایۂ اظہار میں حمد کے گل بوٹے بکھیرتے ہوئے شاعر نے یہاں بھی صنعتوں کی فصل اگائی ہے۔ ’’گرم و سرد‘‘اور ’’ رنج و الم‘‘ میں’’ تضادو طباق‘‘ اور الفاظ کا مناسبت کے ساتھ استعمال دوسرےشعر کو مراعاۃ النظیر کی مثال بھی بنادیتا ہے۔
صاؔلح حضرت کی ایک حمد جو انھوں نے بچوں کے لیے لکھی تھی بڑی ہی آسان اورسہل ہونے کے ساتھ مشہور و معروف اور شہر کے طلبہ کے درمیان زباں زد ہے،بہت سارے لوگ اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ یہ حمد آپ ہی کی ہے، جس کا مطلع ہے ـ:
ہر دل میں یاد تیری ہر لب پہ نام تیرا
دنیا میں سب سے اونچا یارب مقام تیرا
حمد کے بعد مناجات میں شاعر نے بڑی عاجزی اور للہیت کے ساتھ اپنے پروردگار کے حضور دستِ طلب دراز کیا ہے ، ہر شعر اپنی جگہ دردو غم کی صدا ہے دعا ہے کہ رب کریم اس نواے کرب کو شرفِ قبول بخشے :مناجات کے دوشعر بڑے ہی اچھوتے اور البیلے ہیں :
حسبنا اللہ شب و روز رہے وردِ زباں
لاکھ پھر معرکہ دشوار ہو، دشوار نہ ہو
اس کا غم ہو مرا غم ، میری خوشی اس کی خوشی
درمیاں ہوکے بھی ہمسائے کی دیوار نہ ہو
حمد و مناجات کے بعد ’’اندر کے موسم ‘‘میں محرابِ نعت ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ شاعر نعت نگاری کے اصولوں اور اس کی باریکیوں سے کماحقہٗ واقف ہے وہ یہ جانتاہے کہ نعت لکھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ اُسی کو حاصل ہوتا ہے جس پر فیضانِ الٰہی اور عنایت مصطفیٰ ﷺ ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ افراط و تفریط اور مبالغہ و غلو کی اس میدان میں ذرہ بھر گنجائش نہیں یہی وجہ ہے کہ صاؔلح ابن تابشؔ کے کلام میں شعری حُسن و کیف کے ساتھ ساتھ عقیدت کی والہانہ وارفتگی میں حزم و احتیاط کے رویے ہمیں جابجا دکھائی دیتے ہیں ۔ انھوںنے نبی کریم ﷺ کی تعریف و توصیف میں انھی مضامین اور موضوعات کو شعری حُسن وخوبی کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے جو فنِ نعت کے متقاضی ہیں۔ ان کے یہاں جذبات کی صداقت بھی ہے اور اظہار کی وارفتگی بھی ، شعریت کا حسن بھی ہے اورمنظر کشی کاجمال بھی، عقیدت کی آمیزش بھی ہے اور نغمگی کا کیف بھی، تراکیب کا نگار خانہ بھی ہے اور پیکر تراشی کے جوہر بھی ،انھوں نے اپنی نعتوں کے ذریعے امت مسلمہ کو سیرتِ طیبہ اپنانے کاپیغام بھی دیا ہے اور امت مسلمہ کی سنت نبوی سے دوری پر ہونے والی تنزلی کا نوحہ بھی پیش کیاہے؛ ’’ اندر کا موسم‘‘ میں شامل نعتوں سے چنیدہ اشعار نشانِ خاطر ہوں :
لطفِ قربت ، کربِ فرقت دونوں ہم آواز ہیں
میرے نغموں کی زباں ، میری فغاں صلِ علیٰ
دھوپ میں دم توڑتی انسانیت پھر جی اٹھی
آپ کی رحمت کا ہے وہ سائباں صلِ علیٰ
جو گالیاں سُن کے دیں دعائیں جو دشمنِ جاں کو دیں پناہیں
قسم خدا کی نہیں نہیں اُن کی رحمتوں کاحساب کوئی
اشکوں کے اِژدِحام میں گم تھے مرے حواس
یاد اتنا ہے ، تھا گنبد ِ خضرا نگاہ میں
بخش دی آپ نے صحراؤں کو حُسنِ تہذیب
ورنہ انسان وہی جنگلی درندہ ہوتا
صاؔلح ابن تابشؔ کی نعت گوئی محتاط وارفتگی کا حسین و جمیل مرقع ہے ، ان کے یہاں بے جا خیال آرائیاں نہیں ہیں۔ انھوں نے انھی موضوعات کو اپنے کلام میں برتا ہے جو نعت کے متقاضی ہیں ۔ ان کے یہاں عقیدت بھی ہے اور عقیدہ بھی ، انھیں یقین ہے کہ روزِ محشر نبیِ کریم ﷺ ہی شفاعت کریں گے اسی لیے وہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں یوں استغاثہ پیش کرتے ہیں :
شفیعِ محشر یہ التجا ہے کہ آپ صاؔلح کی لاج رکھنا
گنہ اگر پیش ہوںگے اُس دن نہ بن پڑے گا جواب کوئی
اسی طرح میدانِ محشر میں سایۂ دامنِ مصطفیٰ ﷺکی ایمانی خواہش کا دعائیہ آہنگ میں شعری اظہار کیا ہے؛ یقیناً یہ ہر مومن کی تمنا ہے:
اے خدا حشر میں سر پہ سورج ہو جب
سایۂ دامنِ مصطفیٰ چاہیے
شاعر غم و اندوہ میں اپنا سہارا اور دل و جان کا مدعا نبیِ مکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس کو قرار دیتا ہے اور اُنھی سے اُس کو راحت ملنے کا یقین بھی ہے:
میرے غم کا آسرا میرے نبی
میرے دل کا مدعا میرے نبی
جھوٹے جس دن ہوں گے سارے آسرے
کون دے گا آسرا؟ میرے نبی
نبیِ مکرم ﷺ کو اللہ کریم نے سلطانِ انبیابنایا اور ہر شَے پر ان کی حکمرانی رواں فرمادی ،عقیدت اور عقیدے کا یہ شعر دیکھیں کس خوبی سے صاؔلح ابن تابشؔ نے استفہامیہ لہجے میں اپنا عقیدہ بیان کردیا:
سلطانِ انبیا ہیں وہ سرکارِ دوجہاں
کتنی وسیع ان کی حکومت ہے کیا لکھوں؟
نعت گوئی میں جب تک معنی و مفہوم کی گہرائی و گیرائی کے ساتھ ساتھ عقیدت اور عقیدے کی کارفرمائی نہ ہو کلام میں تاثیر کا جوہر نہیں آپاتا ۔ رسول اللہ ﷺ پر دُرود بھیجنا اللہ کو بے حد پسندہے عشاق کے نزدیک اس کا وِرد اور وظیفہ دُکھ درد کے لیے سب سے بہترین علاج ہے ، کیسے بھی مصائب ہوں دُرود شریف پڑھ لیںتو مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں:
کیا مسائل کی آگ اور کیا سیلِ غم
دم بہ دم وردِ صلِ علیٰ چاہیے
اسی نعت کا مطلع دیکھیے سلاست وروانی کے ساتھ بڑے سہل پیرایہ میں کتنی بڑی بات کہہ دی ہے، ’’تیرگی‘‘ اور ’’ضیا‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے روشنی کے لیے ’’خاکِ دربارِبدرالدجیٰ ‘‘کی خواہش لطف و سرور کو دوبالا کررہی ہے:
دیدۂ تیرگی ہوں ضیا چاہیے
خاکِ دربارِ بدرالدجیٰ چاہیے
مسلمانوں کی کامرانی کا راز نبیِ مکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ پرعمل میں مضمر ہے،آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کی سیرت و سنت سے کوسوں دور ہیں لیکن الفت و محبت کے مدعی بھی ہیں، یہ دعویٰ اسی وقت تسلیم کیا جائے گا جب کہ ہمارا عمل بھی درست ہوگا:
میدانِ عمل میں ہم دور اُن سے ہوئے جائیں
دعویٰ ہے کہ الفت ہے سرکارِ دوعالم سے
اس عہد کی سفاک حقیقت کو اُجالتا ہوا یہ شعر بھی دیکھیں :
لپٹی ہوئی تو قدموں سے ہے غیر کی روش
ہاتھوں میں بس عَلَم ہی نبی کا ہے اِن دنوں
عمل سے دوری اور ایمان کی کمزوری کے سبب ہمارا حال بڑا ہی دگرگوں ہوچکا ہے ہم پر ظالم حکمراں مسلط ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے،اس کا سبب بارگاہِ مصطفوی ﷺ میں یوں عرض کرتے ہیں :
مومن بساطِ ظلم الٹ دیتے یانبی
ایماں کہاں صحابہ کے جیسا ہے اِن دنوں
آج پوری دنیا مادی اعتبار سے ترقی کے اوجِ ثریا پر پہنچ چکی ہے لیکن سکون کی لذت سے ناآشنا ہے ، ایسے عالم میں آقا کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ ہی ہمیں اطمینانِ قلب کی دولت سے ہمکنار کرسکتی ہے ،صاؔلح ابن تابشؔ کا نہایت ہی خوبصورت، مشہور و معروف اور زندہ ٔ جاوید شعر:
سفر ستاروں کا کرنے والے سکوں کی خاطر تڑپ رہے ہیں
اب انکی سب کالجوں میں دے دے نبی کا بخشانصاب کوئی
صاؔلح کے یہاں بعض نعتوں میں خیالات کی جدت و ندرت بڑی دل آویز اورپر کیف ہے جن میں محاکات و پیکرات کی جلوہ گری بھی ہے ، ذیل کے اشعار ملاحظہ فرمائیں؛انوکھی لفظیات کے ساتھ اچھوتے مضامین کو کس خوبی سے نظم کیا ہے۔ یہاں سمعی ، بصری ، مذوقی، حسی ، آتشیںاور حرکی پیکر تراشی ہمارے حواسِ خمسہ کو متاثر کرتی ہے ، تصویریت کا حُسن اور منظر کشی کاجمال بھی دیدنی و شنیدنی ہے:
بے نواؤں کو عجب طرزِ نوا دی تم نے
گونگے الفاظ کی تقدیر جگادی تم نے
تم سے دیکھا نہ گیا زرد ہواؤں کا ستم
پیڑ کے جسم کو پھر سبز قَبا دی تم نے
آتشیں لہجے کو برفاب و سکوں بخش کیا
سارے ہی شعلوں کو پھولوں کی ادا دی تم نے
اب بھی رگ رگ میں اجالوں کا سفر جاری ہے
قلبِ تاریک میں وہ شمع جلادی تم نے
صاؔلح ابن تابشؔ نے اپنے ایک کلام میں آمدِ مصطفیٰ ﷺ کا تذکرۂ خیر بھی کیا ہے اور آپ کی ولادتِ باسعادت پر خوشی و مسرت اور فرحت و شادمانی کا نغمہ چھیڑا ہے ،پوری نعت پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ، بلا کی نغمگی اور موسیقیت کاحامل یہ کلام محاکات، پیکرات ، تراکیب اور دیگر شعری محاسن کا حسین و جمیل مرقع بھی ہے ، چند اشعار خاطر نشیں کریں:
ان کی آمد پہ اللہ کی رحمتیں وہ انوکھے مناظر دکھاتی رہیں
لے کے جنت کے باغات کی نکہتیں مست پروائیاں گنگناتی رہیں
کسبِ نور آپ سے رات کرتی رہی ، مانگ اپنی ستاروں سے بھرتی رہی
مہرِ اسلام افق سے ابھرتا گیا اور تاریکیاں جگمگاتی رہیں
یوں نئے عہد کا خیر مقدم ہوا ، گونج اٹھیں وادیاں ، جھوم اُٹھّی فضا
رقص فرما ہوا ؤں کی شہزادیاں اونچے کہسار کے دف بجاتی رہیں
روشنی کے سفیر الغرض عمر بھر پیار کی چاندنی یوں لٹاتے رہے
پاک و صاؔلح فضائیں افق تا افق روز جشنِ مسرت مناتی رہیں
’’اندر کا موسم‘‘ میں حمد و مناجات اور نعتوں کے ساتھ ساتھ ایک منقبت حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اور ایک منقبت عطاے رسول سلطان الہند خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کی شان میں بھی ہیں جو عقیدت و محبت کے والہانہ اظہار کے ساتھ ساتھ ممدوحین سے محتاط وارفتگی کا دلکش نمونہ ہیں:
نذرِ اہل بیت:
حسین ابن علی تیری نظر تھی کس بلندی پر
کہ اربابِ خرداب تک ہیں ششدر اور حیراں سے
پکاریں کیوں نہ ان کو محسنِ انسانیت کہہ کر
ہوئی ہے سرخرو انسانیت خونِ شہیداں سے
صداقت کے امیں کٹ جائیں لیکن مر نہیں سکتے
یہی پیغام ملتا ہے شہیدِ مردِ میداں سے
نذر خواجہ غریب نواز:
جس پر ہم اہلِ ہند کرے ہیں ہزار رشک
خواجہ وہ کام کرکے دکھایا ہے آپ نے
تشنہ لبی بجھاتے رہیں گے مہ ونجوم
آئینۂ جنوں وہ دکھایا ہے آپ نے
نیندیں ، سکون ، سانسیں ، گہرہاے علم و دیں
راہِ خدا میں سب ہی لٹایاہے آپ نے
راقم جناب صاؔلح ابن تابشؔ کو ان کے اس حسین و جمیل شعری مجموعے ’’ اندر کا موسم‘‘ کی طباعت و اشاعت پر صمیم قلب سے ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہوئے مسرتوں سے سرشار دعا گو ہے کہ اللہ کریم ان کے تقدیسی شعری آہنگ کو شرفِ قبول بخشے اور توشۂ آخرت بنائے ، آمین !
----(ڈاکٹر) محمد حسین مشاہدؔرضوی
( صاؔلح ابن تابشؔ کے شعری مجموعے’’ اندر کا موسم‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں پڑھا گیا مضمون، بتاریخ 28؍ نومبر 2021ء بروز اتوار ، بمقام دالانِ ڈاکٹر پیر محمد رحمانی اسکول ، مالیگاؤں ہائی اسکول کیمپس)
0 تبصرے