اذکار و انوارِ ’’حدائق بخشش‘‘

اذکار و انوارِ ’’حدائق بخشش‘‘

شہزادؔ احمد۔ کراچی


اذکار و انوارِ ’’حدائق بخشش‘‘
نعتیہ شاعری کے فروغ میں ’’حدائق بخشش‘‘ کا مرکزی کردار ہے


پاک و ہند میں اردو نعتیہ شاعری پر ’’حدائق بخشش‘‘ کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ پاک و ہند میں ’’حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے بہت زیادہ کام ہوئے ہیں۔ اب مولانا احمد رضا خاں پر ساری دنیا بالخصوص پاک و ہند میں ایم اے، ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ۔ ڈی کے مقالات ہی نہیں بلکہ ڈی لٹ یعنی پوسٹ ڈاکٹریٹ مقالے بھی لکھے جارہے ہیں۔ یہ تمام کام اپنی اپنی جگہ سرمایہ ہیں، مگر وہ حضرات کتنے خوش بخت ہیں کہ جنھوں نے ابتدا میں ہی اس کی ضرورت کو محسوس کر کے کام شروع کر دیا تھا۔
راقم نے ایسے ہی چند مقالہ نگاروں کی یاد کو تازہ کیا ہے۔ اُردو کے پورے نعتیہ ادب میں ہمیں کوئی دوسرا شاعر ایسا نظر نہیں آتا کہ جس نے اپنی نعتوں سے ایک زمانے کو سیراب کیا ہو، جس کے نعتیہ دیوان کی شروحات ایک تسلسل سے لکھی جارہی ہوں۔ اُس کے سلام، بلاغت نظام پر آئے دن نئی نئی تضمینات سامنے آرہی ہوں۔ بلاشبہ پاک و ہند کے شعرائے کرام نے نعتیہ شاعری کو ہر حوالے سے دوام بخشا ہے۔



مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی 1857ء سے ایک سال پہلے یعنی 14؍جون 1856ء کو بریلی (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔٭۲آپ نے کُل 65؍سال کی عمر پائی۔ آپ کا وصال ۲۵؍ صفر المظفر ۱۳۴۰ھ / 28 اکتوبر 1921ء کو بریلی (انڈیا) میں ہوا۔ اس حیاتِ مستعار میں آپ نے 55؍علوم و فنون سے سیرابی حاصل کی۔ ایک ہزار سے زیادہ کتب چھوٹی بڑی، عربی، فارسی اور اُردو زبانوں میں یادگار چھوڑی ہیں۔٭۲ یوں تو آپ کے تمام کام ہی لائق تبریک ہیں۔ مگر خصوصیت کے ساتھ قرآن پاک کا اُردو ترجمہ ’’کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن‘‘، فتاویٰ رضویہ کی 12؍جلدیں ’’العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘ (جو تخریج کے ساتھ ۳۰ جلدوں میں شائع ہو چکا ہے) اور آپ کا نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ سرِدست ہماری فکر کا محور صرف ’’حدائق بخشش‘‘ ہے۔
’’حدائق بخشش‘‘ یقینا اسرارِ نعت کا بیش بہا خزینہ ہے۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کا مطالعہ کرنے والے کبھی تشنہ کام نہیں رہتے ۔ اگر میں یہ کہوں تو بہت مناسب ہوگا کہ ’’حدائق بخشش‘‘ وہ پہلا زینہ ہے جو اپنے شائق کو بارگاہِ رسالت (ﷺ) میں لے جاتا ہے۔ جب شائق اس بارگاہِ عشق میں داخل ہوجاتا ہے تو یہاں پر اسے وہ سب کچھ مل جاتا ہے۔ جس کی اُسے تلاش ہوتی ہے۔ اس طرح سے یہ پہلا زینہ اُس کے لیے آخری زینہ ثابت ہوتا ہے۔ پہلے زینے سے تربیت شروع ہوجاتی ہے۔ اُسے تمام انبیائے کرام، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار، تابعین و تبع تابعین اور اولیائے کاملین و بزرگانِ دین کی محبت سے سرشار کر دیا جاتا ہے۔
حدائقِ بخشش (۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء)



’’حدائق بخشش‘‘ آپ کا نعتیہ دیوان تین حصوں پر مشتمل ہے، جس میں اُردو کے علاوہ فارسی اور عربی میں بھی نعتیں شامل ہیں۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار عشاقانِ رسول ﷺ کی فہرست میں ہوتا ہے۔ آپ مقبول شعرا کی صف میں شامل ہیں۔ آپ کا نعتیہ کلام کافی شہرت کا حامل ہے۔ جیسے جیسے شعبۂ نعت کو فروغ مل رہا ہے آپ کی نعتیہ شاعری کی پذیرائی بھی روزافزوں ہے۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کا سال تصنیف ۱۳۲۵ھ / ۱۹۰۷ء ہے۔ اس نعتیہ دیوان کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ایک صدی گزر جانے کے باوجود یہ نعتیہ دیوان مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اس کے اثرات روز بروز نمایاں تر ہوتے جا رہے ہیں۔
نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ ہمہ جہت ہے۔ اس کی مختلف جہتوں پر صاحبانِ فکر و نظر نے اپنے اپنے انداز میں کام کیا ہے۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کی شروحات بھی لکھی گئی ہیں ۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کی نعتوں پر تضمینات نگاری ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بعض شعرا کرام نے سلامِ رضا (مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام) کی تضمین نگاری پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دی ہے۔ اس کے علاوہ نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ کے فکر و فن اور شعر و سخن پر صاحبانِ شعر وادب نے مبسوط مقالات قلم بند کیے ہیں۔
سردست ہمارا موضوع صرف ’’حدائق بخشش‘‘ کے حولے سے ہونے والے چند نمایاں کاموں کو سامنے لانا ہے جو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
اب آئندہ ہم ’’حدائق بخشش‘‘ کے لفظی مفہوم کو دیکھیں گے۔


’’حدائق بخشش‘‘ کا لفظی مفہوم

’’حدائق‘‘ عربی زبان کا لفظ اسم اور مذکر ہے۔ حدائق کے معنی حدیقہ کی جمع باغات ہیں۔٭۳ جب کہ ’’بخشش‘‘ فارسی زبان کا لفظ اسم اور مونث ہے۔ بخشش کے معنی انعام، عطیہ، معافی، عفو، درگزر کے ہیں۔٭۴ ’’حدائق بخشش‘‘ کے مرادی معنی یہ ہوئے کہ ایسے باغات جو انعام اور عطیہ ہیں معافی عفو اور درگزر کا۔ یعنی ’’حدائق بخشش‘‘ بلاشبہ بخشش کے باغات کا ایک جہان ہے۔
’’حدائق بخشش‘‘ کے لفظی مفہوم کے بعد اب ’’حدائق بخشش‘‘ کی طباعت و اشاعت کو دیکھا جائے گا۔
’’حدائق بخشش‘‘ کی طباعت و اشاعت
حضرت رضا بریلوی کی زندگی میں ’’حدائق بخشش‘‘ نہیں چھپا۔ سب سے پہلے ’’حدائق بخشش‘‘ کی طباعت و اشاعت کے بارے میں شمس بریلوی کی رائے آپ کے سامنے پیش کی جائے گی۔
جب میں نے اس تحقیقی جائزہ کو شروع کیا تو ’’حدائق بخشش‘‘ کا جو مطبوعہ نسخہ ملا (کہ بازار میں صرف یہی ایک مطبوعہ نسخہ ہے) وہ بے شمار اغلاط سے پُر ہے، میرے پاس یا میرے احباب میں سے کسی کے پاس حضرت رضاؔ کے کلام کا کوئی قلمی نسخہ موجود نہیں ہے اور نہ بریلی سے آپ کے سجادہ نشین حضرت مولانا مولوی مفتی اعظم شاہ مصطفی رضا خاں صاحب دام برکاتہٗ سے کسی ایسے نسخے کے ملنے کا امکان تھا اس لیے مجبوراً اس راہ میں بھی اپنی فکر کا سہارا لیا۔٭۵



شمس بریلوی ’’حدائق بخشش‘‘ کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے کہتے ہیں:
حضرت رضا قدس سرہٗ کے وصال کے بعد مکتبہ رضویہ بریلی کے کارپردازوں نے اس کی ترتیب و تدوین کی طرف توجہ کی اور ان ہی کی مساعی سے یہ دیوان زیورِ طبع سے آراستہ ہوا۔ بس جیسا اُن کی سمجھ میں آیا اس طرح اس کو مرتب کر دیا اور جیسا کہ ہماری شخصیت پرستی کا شیوہ رہا ہے حضرت رضاؔ کے دیوان کی صحیح اور ادبی ترتیب کی طرف آج تک کسی نے توجہ نہیں کی۔٭۶
مندرجہ بالا رائے کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کا نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ ان کی زندگی میں شائع نہیں ہوا۔ مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری پر سب سے پہلا سیر حاصل اور مبسوط مقالہ لکھنے کا شرف شمس بریلوی کو حاصل ہے۔ مقالہ نگار خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے صحبت یافتہ تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت انہی حضرات کی معیت میں گزرا تھا۔ یہ نسبت اور تعلق کسی دوسرے قلمکار کو حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شمس بریلوی کی رائے میں زیادہ وزن ہے۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے شمس بریلوی کی تحقیق درست دکھائی دیتی ہے۔
اب ایک اور محقق پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کی رائے کو دیکھا جائے گا۔
’’حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کی رائے بھی یہی ہے کہ ’’حدائق بخشش‘‘ حضرت رضا خاں بریلوی کی زندگی میں نہیں چھپا۔ ڈاکٹر مسعود صاحب فرماتے ہیں:
’’حدائق بخشش‘‘ حصہ دوم حضرت رضا بریلوی کی زندگی میں نہیں چھپا بلکہ (۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) کے بعد مرتب کر کے شائع کیا گیا۔ ترقیمے میں اس کی صراحت اس طرح کردی گئی ہے: اس حصے میں تمام وہ نظمیں جمع کردی گئی ہیں جن کی خود نظم و ترتیب کے وقت وصیت فرمائی تھی۔ ابھی بڑا حصہ کلام کا باقی ہے جو بچپن کا کلام ہے اور دیگر مشاغل علمیہ کے سبب اس پر نظرثانی نہ فرما سکے۔ میں اس کلام کو شائع کرکے یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ان کا بچپن دوسروں کے شباب سے بڑھ چڑھ کر تھا۔٭۷



پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد نے ’’حدائق بخشش‘‘ (۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء) کے حصہ دوم کا طبع اوّل (مطبوعہ حسنی پریس، بریلی ناشر و طابع مولانا حسنین رضا خاں، ’’حدائق بخشش‘‘ حصہ اوّل کا قدیم نسخہ مطبوعہ بریلی اور حصہ سوم کا قدیم نسخہ مطبوعہ بدایوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ مگر سالِ اشاعت پر کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ البتہ ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء یعنی وصال کے بعد مرتبہ دیوان کا ذکر کیا ہے۔
’’حدائق بخشش‘‘ کی مندرجہ بالا رائے سے حضرت شمس بریلوی کی رائے کی تائید ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر مسعود صاحب کی رائے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ واضح رہے کہ ہر دو حضرات ماہر رضویات اور ثقہ حضرات کی فہرست میں شامل تھے۔ ہر دو حضرات کی زندگی فکر رضا یعنی عشق رسول(ﷺ) کی ترویج و اشاعت میں بسر ہوئی ہے۔ اب ہم ایک اور محقق مولانا عبدالحکیم شرف قادری مرحوم کو دیکھیںگے۔
مولانا عبدالحکیم شرف قادری مرحوم اپنے ایک مضمون ’’امام احمد رضا بریلوی اور ’’حدائق بخشش‘‘ (حصہ سوم)‘‘ میں فرماتے ہیں (مولانا صاحب نے ۲۶؍صفرالمظفر لکھ دیا ہے جب کہ درست ۲۵؍صفرالمظفر ہے)
۲۶؍ صفرالمظفر۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء کو امام احمد رضا بریلوی کا وصال ہوا، اس وقت تک ان کا بہت سا عربی، فارسی اور اُردو کلام مطبوعہ کتابوں اور (غیرمطبوعہ) بیاضوں میں بکھرا پڑا تھا اسے جمع کرنے کی طرف مولانا حسن رصا خاں حسن بریلوی نے توجہ فرمائی اور مختلف غزلیں، قصیدے اور اشعار بغیر کسی ترتیب کے ایک مجموعے میں جمع کیے۔ پھر یہ مجموعہ بھی بریلی سے غائب ہوگیا۔



مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں فرماتے ہیں :
پھر یہ مجموعہ بھی غائب ہو گیا۔ میں بہت ہی کم عمر تھا جب یہ مجموعہ میں نے دیکھا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ بدایوں کے بعض اصحاب آئے، مجھ سے مجموعہ دیکھنے کو لیا پھر وہی بدایوں لے گئے یا کیسے غائب ہوا؟ معلوم نہیں۔ وہی مارہرہ شریف پہنچا، یا اس کی نقل اور کب پہنچی؟٭۸
’’حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے مولانا حسن رضا خاں بریلوی کا توجہ فرمانا۔ مختلف غزلیں، قصیدے اور اشعار بغیر کسی ترتیب کے ایک مجموعے میں جمع کرنا اور پھر اس مجموعے کا بریلی سے غائب ہوجانا، پھر مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی نوری کا بیان کہ یہ کیسے غائب ہوا؟
یہ تمام باتیں اس بات کی علامت ہیں کہ ’’حدائق بخشش‘‘ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی حیات میں شائع نہیں ہوا اور نہ ہی اس کی ترتیب مولانا احمد رضا بریلوی کی ازخود کردہ ہے۔
اب ہم آئندہ ایک اور محقق، فاضل مقالہ نگار ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی کو دیکھیںگے۔
ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی ریڈریونی ورسٹی نئی دلّی (انڈیا) نے مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے نعتیہ کلام ’’حدائق بخشش‘‘ کی ازسرنو تصحیح و تقدیم کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کا فنی و عروضی جائزہ‘‘ بھی پیش کیا ہے۔ اپنے جائزے میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
خوش نصیبی سے اس وقت ہمارے سامنے وہ مبارک نسخہ موجود ہے جو حضور فاضل بریلوی کی حیات میں حضرت صدرالشریعہ کی زیر نگرانی شائع ہوا تھا۔۔۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام کی حیات مقدسہ میں ’’حدائق بخشش‘‘ کی طباعت کم از کم دو بار ہو چکی تھی۔ لہٰذا یہ کہنا عقلاً و نقلاً کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے کہ ’’حدائق بخشش‘‘ (اوّل) کی تدوین کا کام حضرت امام کی حیات میں نہیں ہوا تھا۔٭۹



ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب نے اپنی بات کی تائید میں فتاویٰ رضویہ جلد 12 کے حوالے سے ایک استفتا (استفسار) یعنی مسئلہ اور جواب دونوں کا ذکر کیا ہے۔ شرر صاحب نے مولانا احمد رضا صاحب کی حیات میں طباعت کم از کم دو بار کا ذکر کیا ہے۔ ان دونوں اشاعتوں کی سالِ اشاعت کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اپنی بات کو گمان غالب سے سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔ یقینا یہ بات بھی اپنے پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی اگر ’’حدائق بخشش‘‘ کے سالِ اشاعت کے ہونے یا نہ ہونے کا ذکر کر دیا جاتا۔
لہٰذا میری تحقیق کے مطابق مولانا احمد رضا بریلوی کا نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ ان کی زندگی میں نہیں چھپا۔ اگر اس بات کو درست بھی مان لیا جائے تو پھر بھی اس دیوان کی درست اور ادبی ترتیب سوالیہ نشان بنی رہے گی۔ اس کی درست اور ادبی ترتیب کی ایک جھلک شمس بریلوی کی مرتب کردہ ’’حدائق بخشش‘‘ کی ترتیب نو میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جسے دنیائے سنّیت میں کوئی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔
اب ’’حدائق بخشش‘‘ کے مطبوعہ نسخوں کو دیکھا جائے گا۔
’’حدائق بخشش‘‘ کے مطبوعہ نسخے
’’حدائق بخشش‘‘ کے مختلف مطبوعہ نسخے اکثر گاہے بگاہے شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت میرے پیش نظر 27؍نومبر 1926ء کو ’’حدائق بخشش‘‘ (بار سوم) کا نسخہ موجود ہے۔ جسے رضوی کتب خانہ و دفتر حسنی پریس بریلی نے محمد حسنین رضا خاں ابن مولانا حسن مرحوم کی نگرانی میں شائع کیا ہے۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کے حصہ اوّل کے شروع کے 4؍صفحات موجود نہیں ہیں۔ صفحہ نمبر5 سے اس کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے حصہ دوم پر 1000 جلد، بار سوم اور کاتب بدر رقم نے 27-11-1926 کی تاریخ رقم کی ہے۔ دونوں حصوں کے 80، 80؍صفحات ہیں۔ یہ ’’حدائق بخشش‘‘ دو حصوں اور 160؍صفحات پر مشتمل ہے۔٭۱۰یہ ’’حدائق بخشش‘‘ مجھے صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری کی ذاتی لائبریری سے دیکھنے کو ملی تھی۔ اب رضا اکیڈمی بمبئی انڈیا کی شائع شدہ ’’حدائق بخشش‘‘ کو دیکھا جائے گا۔



’’حدائق بخشش‘‘ رضا اکیڈمی بمبئی (انڈیا) نے آرٹ پیپر پر چار رنگوں میں دیدہ زیب انداز سے شائع کی ہے۔ اسی ’’حدائق بخشش‘‘ میں ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی کا تحریر کردہ ’’حدائق بخشش کا فنی و عروضی جائزہ‘‘ بھی شامل ہے۔ 368؍صفحات پر مشتمل یہ ’’حدائق بخشش‘‘ جولائی 1997ء میں شائع کی گئی ہے۔٭۱۱ کتاب کے ہر صفحے پر خوش نما اور شان دار بارڈر خوب صورتی میں مزید چار چاند لگا رہا ہے۔ پیلی زمین پر ’’حدائق بخشش‘‘ کے الفاظ ’اسود‘ رنگ میں بہت واضح ہیں، جس سے کتاب کے حسن میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ راقم نے رضا اکیڈمی بمبئی کی جانب سے شائع ہونے والی ’’حدائق بخشش‘‘ کی تسامحات کی جانب اشارا کیا ہے۔ اس نشان دہی کا مطلب دل آزاری یا حوصلہ شکنی نہیں بلکہ آئندہ ان اغلاط کو روکنا مقصود ہے۔ ان اغلاط کی ترویج کی جانب بھی کچھ ا شارے کر دیئے ہیں تاکہ انھیں بھی روکا جاسکے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی کا فاضلانہ اور ادیبانہ فنی و عروضی جائزہ ایک تاریخی کام ہے۔ اس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ فاضل مقالہ نگار نے فنی اور عروضی حوالے سے شعری نکات کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔
رضا اکیڈمی بمبئی کے بعد اب ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا ، کراچی کی مطبوعہ ’’حدائق بخشش‘‘ کو دیکھا جائے گا۔
’’حدائق بخشش‘‘ (حصہ اوّل و دوم) ادارہ تحقیقات امام احمد رضا، پاکستان، کراچی نے شائع کی ہے جس پر یہ عبارت جلی انداز سے تحریر ہے ’’اغلاط سے مبرا جدید ایڈیشن‘‘۔ یہ ’’حدائق بخشش‘‘ بھی رضا اکیڈمی بمبئی سے شائع ہونے والی کتاب کا پرتو ہے۔ اس کے تصحیح نگار بھی ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی ہیں۔ 288 صفحات پر مشتمل یہ ’’حدائق بخشش‘‘ 1999ء میں شائع کی گئی ہے۔ ٭۱۲ ’’اغلاط سے مبرا جدید ایڈیشن ‘‘ ہماری توجہ کا مرکز ہے۔ بانی رضا اکیڈمی بمبئی محمد سعید نوری نے ’’حدائق بخشش‘‘ کے ’’پیش لفظ‘‘ میں پوری دنیا میں ’’حدائق بخشش‘‘ کا صحیح نسخہ قرار دیا تو ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی نے اِسے ’’اغلاط سے مبرا جدید ایڈیشن‘‘ قرار دے دیا۔ مکتبۃ المدینہ کراچی نے بھی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے شائع کردیا ہے۔ اب وہی اغلاط کتابی انداز میں محو سفر ہیں جو رضا اکیڈمی بمبئی کی شائع کردہ ’’حدائق بخشش‘‘ میں تھیں۔ ان اداروں سے ہماری مؤدبانہ درخواست ہے کہ آئندہ شائع ہونے والے ایڈیشن میں ا ن اغلاط کو درست کر دیا جائے تو یہ بھی ایک عظیم خدمت ہوگی۔



اب ایک اور ’’حدائق بخشش‘‘ مکتبۃ المدینہ کو دیکھا جائے گا۔
’’حدائق بخشش‘‘ (حصہ اوّل و دوم) مکتبۃ المدینہ مسجد کھارادر کراچی نے بھی شائع کی ہے۔ دونوں حصے 308؍صفحات پر مشتمل ہیں۔ سالِ اشاعت ندارد ہے۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کے اندرونی صفحات میں پہلے صفحہ پر ’’حدائق بخشش‘‘ (کامل) اور تذکرہ امام احمد رضا کے بعد صفحہ نمبر13 پر ’’حدائق بخشش‘‘ (مکمل) کے الفاظ درج ہیں۔ یہ ’’حدائق بخشش‘‘ کسی طور پر بھی کامل اور مکمل نہیں ہے۔ اس میں حصہ سوم کی نعتیں بھی شامل نہیں ۔ یہ بھی ’’حدائق بخشش‘‘ کا وہی نسخہ ہے جس کے تصحیح نگار ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی ہیں۔ ٭۱۳ مگر یہاں پر ڈاکٹر شرر صاحب کا نام نہیں دیا گیا ہے کیوںکہ اس میں بھی وہی اغلاط ہیں جو ’’حدائق بخشش‘‘ رضا اکیڈمی بمبئی اور ادار ۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی میں شامل ہیں۔ اس ’’حدائق بخشش‘‘ کے اندرونی سرورق پر مولانا احمد رضا بریلوی کی غلط سال وفات کا ذکر ہے۔ اس صفحہ کی عبارت دیکھئے ۔ (المتوفی ۱۳۴۰ھ بمطابق 1941ء) ابتداء میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ غلطی سہواً ہو گئی ہے۔ مگر اس کتاب میں ’’حدائق بخشش‘‘ کی نعتوں سے پہلے ’’تذکرہ امام احمد رضا‘‘کے نام سے تفصیلی تعارف موجود ہے۔ اسی تذکرہ میں آگے چل کر صفحہ 10 پر وفات ’’حسرتِ آیات‘‘کے عنوان سے سال وفات کو پھر اسی انداز سے دُہرایا گیا ہے۔ (۲۵ صفر ۱۳۴۰ھ/1941ء) وصال کی درست تاریخ ملاحظہ کیجیے۔ وصال ۲۵ صفرالمظفر ۱۳۴۰ھ/ 28؍اکتوبر 1921ء بریلی ہے۔
’’حدائق بخشش‘‘ کے مختلف مطبوعہ نسخے آپ نے دیکھے۔ اب آئندہ ’’حدائق بخشش‘‘ کی بعض تسامحات کو دیکھا جائے گا۔


’’حدائق بخشش‘‘ کی بعض تسامحات

’’حدائق بخشش‘‘ (مطبوعہ ، رضا اکیڈمی بمبئی (انڈیا) جولائی 1997ء) میں دو تسامحات وہ ہیں کہ جن کی نشاندہی بہت ضروری ہے تاکہ آئندہ اشاعت میں اس کی درستگی ہو سکے۔ یہ دونوں اغلاط ایسی ہیں کہ جن سے کلامِ رضا کا حسن ماند پڑ رہا ہے۔ کتاب یقینا سفر کرتی ہے۔ اس کے ناجانے کتنے ایڈیشن شائع ہو کر پوری دنیا میں پہنچ چکے ہوں گے۔ جب کہ اس کی تتبع میں کئی اداروں نے متذکرہ ایڈیشن کو چھاپ بھی دیا ہے۔ ہنوز یہ سلسلہ دراز ہے۔
اوّلاً ’’حدائق بخشش‘‘ کے صفحہ 55 پر اعلیٰ حضرت کی یہ نعت شائع ہوئی ہے:
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
اس نعت کا قافیہ کھائے، جائے، اٹھائے، جگائے ہے جب کہ اس کی ردیف ’’کیوں‘‘ ہے۔ مطبوعہ ’’حدائق بخشش‘‘ میں تیسرا شعر اس طرح سے درج ہے۔ خط کشیدہ لفظ کو غور سے دیکھیں:
بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائیں کیوں
اس شعر میں قافیہ بدل کر ’’گنوائیں‘‘ ہو گیا ہے۔ جب کہ اس کا قافیہ ’’گنوائے‘‘ ہونا چاہیے۔ کیوںکہ مکمل نعت ایک ہی قافیہ و ردیف کھائے کیوں، جائے کیوں میں ہو رہی ہے۔ تو اسے بھی ’’گنوائے کیوں‘‘ ہونا چاہیے۔
ثانیاً ’’حدائق بخشش‘‘ کے صفحہ 110 پر یہ نعت شائع ہوئی ہے۔
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
جانِ مُراد اب کدھر ہائے تیرا مکان ہے
اسی نعت میں آگے چل کر صفحہ 111 پر آٹھواں شعر ان الفاظ میں درج ہے:
تجھ سا سیاہ کار کون اُن سا شفیع ہے کہاں
پھر وہ تجھی کو بھول جائیں دل یہ ترا گمان ہے




خاکم بدہن خط کشیدہ لفظ کی وجہ سے یہ شعر ذومعنی ہو گیا ہے۔ یہاں پر اعلیٰ حضرت کا مقصود ہے، ’’مجھ سا سیاہ کار کون، اُن سا شفیع ہے کہاں‘‘ ’’حدائق بخشش‘‘ کے دیگر نسخوں میں لفظ ’’مجھ‘‘ بھی درج ہے۔ راقم کی تحقیق کے مطابق یہاں لفظ ’’مجھ‘‘ ہی درست ہے۔ اس ضمن میں مزید دو حوالے پیش کر رہا ہوں۔
اس نعت میں لفظِ ’’مجھ‘‘ استعمال کرنے والوں میں دو نام شامل ہیں۔ اوّلاً حضرت شمس بریلوی نے اپنی مرتبہ ’’حدائق بخشش‘‘ (مطبوعہ، مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی، 1976ء) کے صفحہ نمبر138 اور ثانیاً، سخن رضا مطلب ہائے ’’حدائق بخشش‘‘ کے شارح مولانا صوفی محمد اوّل قادری (مطبوعہ مکتبہ دانیال، اُردو بازار لاہور، 1992ء) نے صفحہ197 پر لفظ ’’مجھ‘‘ ہی استعمال کیا ہے۔ یہی لفظ موقع محل اور شعری ضرورت کے حوالے سے درست دکھائی دیتا ہے۔
ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی کی مرتبہ ’’حدائق بخشش‘‘ کے علاوہ اور بھی اداروں سے شائع ہونے والی ’’حدائق بخشش‘‘ میں لفظ ’’تجھ‘‘ ہی کی کارفرمائی موجود ہے۔
’’حدائق بخشش‘‘ کی بعض تسامحات کے بعد اب آئندہ ’’حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے ہونے والے مختلف النوع کاموں کو دیکھا جائے گا۔

’’حدائق بخشش‘‘ اور شانِ رسالت

’’حدائق بخشش ‘‘کا عمیق و سرسری مطالعہ درحقیقت رسول اکرم ﷺکی بارگاہ میں لے جاتا ہے۔ شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بہ زبانِ اعلیٰ حضرت بیان ہوتی ہے ۔ تو اس کے آثار و ثمرات ضرور نمایاں ہوتے ہیں۔ ’’حدائق بخشش‘‘کے فیوض و برکات جن حضرات پر آشکارا ہوئے۔اُن کی ایک طویل فہرست ہے۔ اِن حضرات میں سے صرف چند کے نام اُن کے کام کی روشنی میں پیش خدمت ہیں۔ یہ وہ قابلِ قدر ہستیاں ہیں کہ جنھیں حقیقی شہرت اس نعتیہ کلام ’’حدائق بخشش‘‘کے وسیع مطالعہ اور مستقل غواصی سے حاصل ہوئی ہے۔
’’حدائق بخشش‘‘کے حوالے سے اب ہم اس سلسلے میں ہونے والے اوّلین کام دیکھیںگے۔


وثائق بخشش (حصہ اوّل) شرح حدائق بخشش - فروری1976ء

’’وثائق بخشش (حصہ اوّل) شرح حدائق بخشش‘‘ مولانا ابوالظفر غلام یٰسین رازؔ امجدی اعظمی مرحوم کی تصنیفِ لطیف ہے۔ جس کے ناشر مکتبہ امجدیہ دارالعلوم قادریہ رضویہ ملیر سعود آباد کراچی ہیں۔ فروری 1976ء میں شائع ہونے والی یہ شرح 286؍صفحات پر مشتمل ہے۔٭۱۴
مفتی غلام یٰسین راز امجدی اپنی شرح وثائق بخشش کے ’’دیباچہ‘‘ میں رقم طراز ہیں :
فاضل بریلوی کے نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ کی شرح اپنے چند طلبہ کے اصرار پیہم پر چند اشعار کی شرح اپنے اساتذہ کے پسند فرمانے کے بعد شروع کی جس میں مجھے کافی کاوشیں کرنی پڑیں۔ میں نے کو شش کی ہے کہ اعلیٰ حضرت کے کلام کا مفہوم آسانی سے سمجھا جاسکے۔٭۱۵
مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے یہ پہلی شرح ہے۔ جس کے منتخب اشعار ’’وثائق بخشش شرح حدائق بخشش‘‘ کے نام سے سامنے آئے ہیں۔ اشعار کی شرح کے حوالے سے مفتی راز امجدی نے اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت جامع انداز میں اپنے خیالات کو پیش کیا ہے۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کی تفہیم کے حوالے سے یہ اوّلین کاوش انفرادیت کی حامل ہے۔ ’’وثائق بخشش (حصہ اوّل) شرح حدائق بخشش‘‘ منتخب اشعار کی شرح ہونے کے باوجود کافی حد تک ’’حدائق بخشش‘‘ کی فکر سے آشنا کردیتی ہے۔
’’وثائق بخشش شرح حدائق بخشش‘‘ کے بارے میں مولانا عبدالمصطفیٰ ماجدؔالازہری مرحوم اپنی ’’تقریظ مبارک‘‘ میں فرماتے ہیں:
میں نے بھی اس شرح کو سنا ہے اور خیال ہے کہ معانی و مطالب سمجھانے کی یہ پہلی کامیاب کوشش ہے ۔ شعرا،ادبا اس پر تنقیدی و تعمیر ی نظر ڈال کر بہترین رہنمائی کرسکتے ہیں۔٭۱۶



’’وثائق بخشش شرح حدائق بخشش‘‘ بلاشبہ اپنے موضوع کے حوالے سے ایک عمدہ کوشش ہے۔ جس کی اوّلیت کا افتخار اور اختصار ہر دور میں نمایاں رہے گا۔
اب ’’حدائق بخشش‘‘ کے ضمن میں ایک اور فاضل محقق ڈاکٹر طلحہ رضوی برق کو دیکھا جائے گا۔
ڈاکٹر طلحہ رضوی برق ا پنی کتاب ’’اُردو کی نعتیہ شاعری /1974ء‘‘ میں ’’حدائق بخشش‘‘ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں فرماتے ہیں:
آپ کی ’’حدائق بخشش‘‘ ہر دو حصص ایک ایسی متاعِ بے بہا ہے جس پر اُردو شاعری ہمیشہ ناز کرے گی۔ حضرت رضا کی نعتیں سادہ، سہل، عام فہم، سوز و گداز قلب اور عاشقانہ جذبات سے مملو ہوتی ہیں۔ فنی نقطہ نظر سے بھی مشکل زمینوں میں بندش و تراکیب اور قدرتِ فن کا سارا حسن رکھتی ہے۔٭۱۷
کلام رضا کا تحقیقی اور ادبی جائزہ ۔ جولائی 1976ء
کلام رضا کا تحقیقی اور ادبی جائزہ حضرت شمس بریلوی مرحوم کی تصنیف ہے۔ جسے مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی نے شائع کیا ہے۔ جولائی 1976ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب 572صفحات پر مشتمل ہے۔٭۱۸
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے نعتیہ کلام کا تحقیقی اور ادبی جائزہ معروف جائزہ نگار شمس بریلوی کی ندرت نگاری کا آئینہ دار ہے۔ جس میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی نعتیہ شاعری کے ہر پہلو کو نمایاں اور اس کے ادبی مقام کو پیش کیا گیا ہے۔



اس تحقیقی اور ادبی جائزہ کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں نعتیہ کلام پر جائزہ کے علاوہ ’’حدائق بخشش‘‘ کامل اور حصہ سوم کے منتخبات بھی شائع کیے گئے ہیں۔ اس مقالہ کی دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری پر سب سے پہلا مقالہ ہے، جس میں فکرِ رضا کی انفرادیت اور نعتیہ سرمایہ شعر و سخن کو نئے انداز میں سے پیش کیا گیا ہے۔ جس سے مقالہ نگارکی موضوع سے مطابقت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت شمس بریلوی اپنے مقالے کی بابت کہتے ہیں:
میں نے بقدر سلیقہ اور اپنے مبلغ علم کے سہارے کچھ عنوانات قائم کر کے انھی عنوانات کے تحت آپ کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ اور حضرت احمد رضا خاں بریلوی کی نعتیہ شاعری کے ہرہر پہلو پر تفصیل سے لکھا ہے اور اس ادبی جائزہ میں میں منفرد ہوں کہ اعلیٰ حضرت کی شاعری اور حضرت احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ کی’’نعتیہ شاعری‘‘ نامی کتابچوں نے جوا یک سرسری تعارف کی رسم ادا کی تھی میں نے اس کے تکملہ کی کوشش کی ہے۔٭۱۹
مندرجہ بالاسطور کی روشنی میں یہ بات حقیقت سے قریب ہے کہ فاضل مقالہ نگار نے اپنے منتخب کردہ موضوع کا حق ادا کیا ہے۔ جب کہ اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے بعض نئے گوشوں کوبھی اجاگر کیاہے۔ اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری پر کام کرنے والوں کے لیے یہ مقالہ سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس سلسلے میں اب ایک اور بالغ نظر نقاد و ادیب پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو دیکھا جائے گا۔
پروفیسرڈاکٹرفرمان فتح پوری اپنی کتاب’’اُردو کی نعتیہ شاعری/1974ء‘‘میںرقم طراز ہیں:
مولانا صاحب شریعت بھی تھے اور صاحب طریقت بھی۔ صرف نعت و سلام اور منقبت کہتے تھے اور بڑی دردمندی و دل سوزی کے ساتھ کہتے تھے۔ سادہ و بے تکلف زبان اور برجستہ و شگفتہ بیان ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ان کے نعتیہ اشعار اور سلام سیرت کے جلسوں میں عام طور پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ ٭۲۰


امامِ نعت گویاں -1977ء

’’امام نعت گویاں‘‘ سیّد محمد مرغوب المعروف مولانا اختر الحامدی ضیائی مرحوم کی تصنیف ہے۔ جسے مکتبہ فریدیہ جناح روڈ ساہیوال نے شائع کیاہے۔ 1977ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب 144؍صفحات پر مشتمل ہے۔٭۲۱
متذکرہ مقالہ مولانا احمد رضاخاں بریلوی کے نعتیہ کلام کی فنی خوبیوں پر مشتمل ہے۔ یہ مقالہ صفِ اوّل کے ان مقالوں میں شمار کیا جاتا ہے، جو آپ کی شاعری کے حوالے سے اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ امامِ نعت گویاں میں اخترالحامدی نے اعلیٰ حضرت کے کلام کا مختصر مگر جامع تعارف کرایا ہے۔ اس کے علاوہ حضرتِ رضا کے کمالاتِ شاعری پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
اخترالحامدی اپنی کتاب کی بابت رقم طراز ہیں:
اگرچہ کتاب’’امامِ نعت گویاں‘‘ اس نابغۂ روزگار کے ُکل محاسنِ شعری کا احاطہ نہیں کرسکی ہے، پھر بھی احقر نے باوجود علالت و مصروفیت بعض ایسے نقوش کو اجاگر کیا ہے اور جو قابل توجہ ہیں۔ میری یہ کوشش ’’نقشِ اوّل ‘‘ ہے’’نقشِ آخر ‘‘نہیں۔٭۲۲
امام نعت گویاں کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مرحوم اپنی’’تقدیم‘‘ میں کہتے ہیں:
حضرت رضا بریلوی کی شاعری پر لکھنے کے لیے جناب اخترالحامدی جیسے صاحب نسبت جلیلہ فاضل کی ضرورت تھی۔ پیش نظر مقالہ میں انھوںنے حضرت رضا کے کلام میں حسنِ تغزل، مضمون آفرینی، رعنائی خیال، جدتِ تخیل، برجستگی اور نشست اوّل الفاظ، روز مرہ و محاورہ، سلاستِ زبان و بیان، تشبیہات و استعارات ، صنائع لفظی و معنوی وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔ اصنافِ سخن میں نعت کے علاوہ قصیدہ اور رباعی کا بھی ذکر کیا ہے اور اس انداز سے کہ حضرتِ رضا کے کمالاتِ شاعری کا دل پر نقش مرتسم ہوجاتا ہے۔٭۲۳



متذکرہ کتاب کی بابت پروفیسر محمد عبدالسمیع ضیاؔ چشتی سیالوی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
انھیں مساعی مشکورہ میں زیر نظر کتاب ’’امامِ نعت گویاں‘‘ بھی ہے۔ جس کا موضوع ’’حدائق بخشش‘‘ کی صوری معنوی خوبیاں بیان کر کے حضرت رضاؔ بریلوی کو فن نعت گوئی کا امام ثابت کرنا ہے۔٭۲۴
مندرجہ بالا آرا کی روشنی میں حضرت اخترالحامدی کی کتاب امام نعت گویاں کی افادیت اور اہمیت مزید دوچند ہوجاتی ہے۔
اِسی تناظر میں اُردو نعتیہ ادب کے سب سے پہلے محقق پروفیسر ڈاکٹر سیّد رفیع الدین اشفاق کو دیکھا جائے گا۔
پروفیسرڈاکٹرسیّد رفیع الدین اشفاق اپنے تحقیقی مقالے ’’اُردو میں نعتیہ شاعری /1976ء‘‘ میں فرماتے ہیں:
مولانا کے دیوان ’’حدائق بخشش‘‘کے تین حصے ہیں اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے یہ دیوان شروع سے آخر تک ایسی محبت اور عقیدت سے بھرا ہوا ہے کہ ایک دیندار اگر اسے اپنے لیے ذریعہ نجات سمجھے تو کوئی بعید نہیں ہے۔٭۲۵

سخنِ رضا مطلب ہائے حدائق بخشش - 1992ء

’’سخن رضا مطلب ہائے حدائق بخشش‘‘ کے شارح مولانا صوفی محمد اول قادری رضوی سنبھلی ہیں۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے دیوان کی مختصر تشریح کے حوالے سے یہ کتاب بڑے سائز میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے صفحات 432 اور ناشر مکتبہ دانیال غزنی اسٹریٹ اردوبازار لاہور ہیں۔ کتاب پر سالِ اشاعت ندارد ہے، مگر پیش لفظ میں جگہ جگہ عبارتوں سے سالِ اشاعت 1992ء کو ظاہر کیا گیاہے۔٭۲۶



ایم طفیل نے اس کتاب کا ’’پیش لفظ ‘‘ لکھا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:
برصغیر میں مذہبی اقدار کے فروغ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبات دلوں میں موجزن کرتے اور بالخصوص محافلِ میلاد کے ذوق و شوق میں حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کی خدمات چند ے آفتاب و چندے ماہتاب ہیں اور مولانا محمد اوّل شاہ کی طرف سے ان کی تصانیف کی شرح درا صل سلام مصطفا ز احمد رضا شرح محمد اوّل اعلیٰ حضرت بریلوی کے لیے ان کے دلی جذبات و عقیدت و محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔٭۲۷
صوفی محمد اوّل صاحب نے سخن رضا مطلب ہائے ’’حدائق بخشش‘‘ کے اشعار کو بہت سلیقہ سے سجایا ہے۔ اس مختصر تشریح کی ترتیب ایک نظر میں ملاحظہ کیجیے۔ سب سے پہلے اشعار دیے گئے ہیں اس کے بعد’’مشکل الفاظ کے معنی‘‘ اور پھر مطلبِ اشعار بیان ہوئے ہیں۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کی تفہیم کے حوالے سے یہ ایک اور قابلِ قدر کو شش ہے۔ اول صاحب نے اشعار کی تشریح میں اختصار کو ملحوظ رکھا ہے۔ لغوی حوالے سے اشعار کی تشریح بیان کی ہے۔ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کے سب سے پہلے شعر کا مطلبِ اشعار ملاحظہ کیجیے:
یا الٰہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہ مشکل کشا کا ساتھ ہو



مطلب اشعار: ہمہ وقت ہر جگہ یاالٰہی تیر ی بخشش میرے ساتھ ہو ۔ میں اگر کسی مشکل میں پھنس جاؤں تو شاہ مشکل کشارحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد مشکل کشائی کا ساتھ ہو۔٭۲۸
اوّل صاحب نے پوری کتاب میں یہی انداز برقرار رکھا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی زیادہ اہتمام سے دیے گئے ہیں، جن سے اشعار سمجھنے میں کافی آسانی ہوتی ہے۔
نعتیہ ادب کے ایک اور اہم محقق و تذکرہ نگار پروفیسر سیّد محمد یونس شاہ گیلانی کو دیکھا جائے گا۔
پروفیسر سیّد محمد یونس شاہ گیلانی اپنی کتاب ’’تذکرہ نعت گویان اُردو/ 1984ء‘‘ (جلد دوم) میں کہتے ہیں :
مولانا کی نعت میں زبان کا استعمال نہایت خوب ہے، الفاظ و معانی کے رموز سے واقف تھے اس لیے پیرایہ اظہار کے لیے کہیں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جگہ جگہ قرآن و حدیث کے حوالے بھی اشعار میں پائے جاتے ہیں۔ عشق و محبت کے راز و نیاز، حقائق و معارف، مضامین نبوت و الوہیت کے امور کو بڑی خوبی سے ادا کیا ہے۔٭۲۹


شرح سلام رضا - جون 1993ء

’’شرح سلامِ رضا‘‘ کے شارح مفتی محمد خان قادری ہیں۔ مرکز تحقیقاتِ اسلامیہ 205؍شادمان لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔ اس کی اشاعتِ اوّل جون 1993ء اور اشاعتِ دوم 1994ء میں ہوئی۔ 586؍صفحات پر مشتمل یہ شرح ’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔٭۳۰
مفتی محمد خان قادری ’’شرح سلامِ رضا‘‘ کے حوالے سے اپنے ’’پیش لفظ‘‘ میں رقم طراز ہیں:
یہ سلام پہلے بھی پڑھا اور سنا تھا مگر اب اس سلام سے جو والہانہ لگاؤ اور وابستگی ہوئی اس کے بیان کے لیے الفاظ نہیں۔ فی الفور کیا کہ شاہکار ربویت میں ہر عضو مصطفوی پر مختلف مرویات کے بعد آپ کا متعلقہ شعر بھی شامل کردیا تا کہ قارئین لذت و حلاوت پانے کے ساتھ ساتھ اس سلام کے علمی پہلوؤں سے بھی آگاہ ہوں اور انھیں یہ اندازا ہو کہ اس سلام کا موجد و خالق علم و عرفان کے کتنے بلند مقام پر فائز ہے۔ اسے اپنے آقا کریم سے کتنی محبت و شیفتگی ہے۔ اس نے صورت و سیرت مصطفوی کا کتنی گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا ہے۔٭۳۱
’’شرح سلامِ رضا‘‘ کے شارح مفتی محمد خان قادری کی غرض و غایت آپ نے ملاحظہ کی۔ یہ ’’شرح سلام رضا‘‘ یعنی ’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ اعلیٰ حضرت کے کام، کلام اور سلام کو سمجھنے کے لیے بہت مفید اور معاون ہے۔ اس شرح کے حوالے سے مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری نقشبندی مرحوم اپنی ’’تقدیم‘‘میں فرماتے ہیں:
ہمارے جواں سال اور عالی ہمت دوست مولانا مفتی محمد خان قادری سلامِ رضا کی شرح لکھنے میں مصروف ہیں، ان کے بعد اس عنوان پر مزید کام کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔٭۳۲
مفتی محمد خان قادری کی ’’شرح سلامِ رضا‘‘ کی بہت ساری خصوصیات ہیں۔ اولاً مفتی صاحب کا طرزِ تحریر بہت رواں ہے۔ ترتیب میں پہلے شعر پھر اس کے الفاظ و معنی دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اشعار کو نہایت تفصیل سے اور عالمانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ صرف شرح نہیں بلکہ عشق رسولﷺ کی ایک مؤثر تحریک ہے۔
مرصع اور سحر اندازِ تحریر لکھنے والے پروفیسر محمد اقبال جاوید کی رائے کو دیکھا جائے گا۔
پروفیسر محمد اقبال جاوید اپنے مرتبہ انتخابِ نعت ’’مخزنِ نعت /1979ء‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:
تغزل کی نشتریت میں چھپا ہوا، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو والہانہ پن، مولانا کی شخصیت اور شاعری میں نظر آتا ہے اس نے ان کی نعت گوئی کو ایک مستقل ادبی حیثیت دے دی ہے کیوں کہ وہی فن پارہ عظیم ہوتا ہے جو فن کار کی شخصیت کا سچا اور اُجلا عکس ہو۔٭۳۳


الحقائق فی الحدائق المعروف شرح حدائق بخشش -اپریل 1994ء

’’الحقائق فی الحدائق المعروف شرح حدائق بخشش‘‘ کے شارح مولانا محمد فیض احمد اویسی مرحوم ہیں۔ ’’شرح حدائق بخشش‘‘ کی پہلی جلد 1994ء میں مکتبہ اویسیہ رضویہ بہاولپور کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ پہلی جلد 368 صفحات پر مشتمل ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد اور خود شارح نے اس پر مضامین لکھے ہیں۔٭۳۴
مولانا محمد فیض احمد اویسی معروف اور مشہور عالم دین تھے۔ ’’شرح حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے 25؍جلدیں تحریر فرمائی تھیں۔ جس میں سے 14؍جلدیں اشاعت پزیر ہو چکی ہیں۔ ٭۳۵ 9؍جلدیں ہنوز تشنہ طبع ہیں۔ مولانا فیض صاحب کا اندازِ تحریر طوالت لیے ہوئے ہے۔ عالم دین ہونے کے سبب اسلوبِ نگارش صرف عالمانہ ہی نہیں بلکہ اکثر مناظرانہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایک عام آدمی کے لیے تو یہ سب چیزیں بہت زیادہ طوالت لیے ہوئے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مولانا اویسی صاحب نے ’’شرح حدائق بخشش‘‘کی تشریح و تفہیم کے لیے ہر مناسب اور رائج طریقہ کار کو اپنایا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد مرحوم اپنی ’’تقدیم‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’حدائق بخشش‘‘ کی مکمل و مبسوط شرح میرے علم میں نہیں، اس سلسلے میں اوّلیت کا سہرا حضرت علامہ فیض احمد اویسی دامت برکاتہم کے سر معلوم ہوتا ہے۔۔۔ علامہ اویسی صاحب نے کلام رضا کے جن پہلوئوں کو اُجاگر کیا ہے وہ ایک ادیب و دانش ور کے لیے ممکن نہ تھے۔٭۳۶



مولانا محمد فیض احمد اویسی ’’شرح حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے معلومات بہم پہنچاتے ہوئے فرماتے ہیں :
دورانِ تصانیف ایک دن خیال آیا کہ ’’حدائق بخشش‘‘ کی شرح بھی لکھ ڈالوں۔ اس میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سمندر موجزن ہے۔ ممکن ہے فقیر کو اسی سے ایک بوند نصیب ہو جائے۔٭۳۷
مولانا اویسی صاحب پہلے اعلیٰ حضرت کی نعت کا شعر دیتے ہیں۔ اس کے بعد ’’حل لغات‘‘ کے طور پر معنی و مفاہیم مختصراً دیتے ہیں۔ پھر اس کی ’’شرح‘‘ بیان کرتے ہیں۔ موضوع سے متعلق قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ کے انبارلگا دیتے ہیں۔ بعض جگہ علمی انداز، عقلی انداز اور منطقی انداز کو بھی پیش کرتے ہیں۔ بزرگانِ دین کے اقوال و قصائص کو بھی بے تکان بیان کرتے ہیں۔
’’شرح حدائق بخشش‘‘ کی جلد دوم اس وقت میرے پیش نظر ہے۔ اس میں اعلیٰ حضرت کیُ کل ایک حمد اور پانچ نعتوں کی تشریح و تفصیل 368 صفحات میں بیان کی گئی ہے۔ صفحات کی تعداد سے مولانا اویسی صاحب کی زود بیانی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا صاحب کا طرزِ تحریر دلچسپ اور معلوماتی ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ مگر عصر حاضر میں ضرورت صرف ایسے شارح کی ہے جو غالب و اقبال کو ایک ایک جلد کی صورت میں میسر آئے ہیں۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کی شرح بھی مفہومی انداز میں صرف ایک جلد پر مشتمل ہونا چاہیے تاکہ ایک زمانہ ’’حدائق بخشش‘‘ سے فیض یاب ہو سکے۔ ’’شرح حدائق بخشش‘‘ کی جلدوں کی تعداد پڑھنے والے کو امتحان سے دوچار کر دیتی ہے۔
اب ایک اور فاضل محقق ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی کو دیکھا جائے گا۔
ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے ’’اُردو شاعری میں نعت گوئی/1991ء‘‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:



شیدائے رسول مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے ذکر کے بغیر اُردو کی نعتیہ شاعری کا تصور محال ہے آپ کی ’’حدائق بخشش‘‘ ہر دو حصص ایک ایسی متاعِ بے بہا ہے، جس پر اُردو شاعری ہمیشہ ناز کرے گی۔٭۳۸

انتخاب ’’حدائق بخشش‘‘ - 1995ء

انتخاب ’’حدائق بخشش‘‘ حضرت رضا بریلوی کے مرتب پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مرحوم ہیں۔ اس انتخاب کے ناشر سرہند پبلی کیشنز کراچی (سندھ) ہیں۔ 320؍صفحات پر مشتمل یہ انتخاب 1995ء میں شائع ہوا۔٭۳۹
ڈاکٹر مسعود احمد کا مرتبہ انتخاب ’’حدائق بخشش‘‘ ایک عمدہ کاوش ہے جسے انتہائی خوب صورتی اور نفاست سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔ ابتدائیہ، حضرت رضا بریلوی ایک نظر میں، حضرت رضا بریلوی دانش وروں کی نظر میں، جاں نثاری و فداکاری، سرمستی و سرشاری، حسان بن ثابت دربارِ رسالت میں، انتخاب ’’حدائق بخشش‘‘ (نعتیہ کلام کا انتخاب) غزلیات، قصائد، رباعیات، آئینہ حضرت رضا بریلوی، تعارف حضرت رضابریلوی، حضرت رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری اپنے آئینے میں، اختتامیہ، مناجات رضا۔
ڈاکٹر مسعود صاحب ماہر رضویات کے طور پر معروف تھے۔ ساری زندگی عشق رسول کے پیغام کو بہ زبان اعلیٰ حضرت بیان کرتے رہے۔ یہ انتخاب فکر رضا کی مسلسل ریاضت کا آئینہ دار ہے۔ ’’حضرت رضا بریلوی ایک نظر میں‘‘ معلومات افزا کاوش ہے۔ ’’حضرت رضا بریلوی دانش وروں کی نظر میں‘‘ خاصہ کی چیز ہے۔ جس میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے مشاہیر نے مولانا احمد رضا بریلوی کے فکر و فن کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ’’جاں نثاری و فداکاری‘‘ کے عنوان سے سورہ توبہ کی آیت 24 پیش کی گئی ہے جس میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم جہاد کو واضح کیا گیا ہے۔ ’’حضرت حسان بن ثابت دربار رسول میں‘‘ کے حوالے سے شرح شمائل ترمذی شریف اور ابودائود شریف کی وہ حدیث نقل کی گئی ہے جس میں سیدنا حسان بن ثابت کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھا جاتا تھا جس پر آپ کھڑے ہو کر نعت مصطفی بیان کرتے تھے۔ اس کے بعد انتخاب ’’حدائق بخشش‘‘ کا نعتیہ کلام شروع ہوتا ہے۔



ڈاکٹر مسعود صاحب اپنے اختتامیہ میں اپنے اس انتخاب کے بارے میں فرماتے ہیں:
وہ بہرحال اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلیے راقم نے قلم اُٹھایا اور بحمداللہ تعالیٰ نومبر1993ء میں یہ نتخاب مرتب ہو گیا۔ اس انتخاب کے لیے بریلی شریف کے قدیم نسخے سامنے رکھے گئے تاکہ غلطیوں کا زیادہ احتمال نہ رہے۔٭۴۰
ڈاکٹر مسعود صاحب کے انتخاب کے بارے میں ڈاکٹر شرر صاحب نے جن فروگزاشتوں کا ذکر کیا ہے وہ درست ہیں۔ آئندہ ایڈیشن میں اس کو درست کیا جا سکتا ہے۔
اب آئندہ ایک اور محقق نعت ڈاکٹر اسماعیل آزاد فتح پوری کو دیکھا جائے گا۔
ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری اپنے تحقیقی مقالے ’’اُردو شاعری میں نعت 1992ء‘‘ (حالی سے حال تک) میں فرماتے ہیں:
مولانا کا سارا کلام وفور جذبات سے سرشار ہے۔ اسی لیے وہ جذبات نگاری اور عقیدت مندی میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ کلام کی متناسب روانی سبک سیر ہے، جو معنوی انبساط کے علاوہ ذہنی انبساط بھی عطا کرتی ہے۔٭۴۱

حدائق بخشش کا فنی و عروضی جائزہ - جولائی 1997ء

’’حدائق بخشش کا فنی و عروضی جائزہ‘‘ ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی کی تصحیح و تقدیم سے مزین ہے۔ جسے رضا اکیڈمی بمبئی (انڈیا) نے شائع کیا ہے۔ جولائی 1997ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب 368؍صفحات پر مشتمل ہے جس میں ’’حدائق بخشش‘‘ کے دونوں حصے شامل ہیں۔٭۴۲



’’حدائق بخشش کا فنی و عروضی جائزہ‘‘ ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی کی ایک کامیاب کوشش ہے جس میں موصوف نے ’’حدائق بخشش‘‘ میں ہونے والی بعض تسامحات کا ذکر کیا ہے۔ ’’اغلاط کتابت‘‘ کے عنوان سے غلطیوں کی نشان دہی فرمائی ہے۔ ’’طبع اوّل کے اغلاط‘‘ کو واضح کیا ہے۔ ’’نعت گوئی‘‘ کے حوالے سے ’’حدائق بخشش‘‘ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ’’چند اشعار کی تشریح‘‘ کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ ’’باب العروض‘‘ کے در کو بھی وا کیا ہے۔ ’’علم القوافی‘‘ کی بھی وضاحت فرمائی ہے۔ ’’کچھ انتخاب ’’حدائق بخشش‘‘ کے بارے میں‘‘ (مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد مرحوم) بعض فروگزاشتوں کا ذکر کیا ہے۔ آخر میں ایک صفحہ کا ’’اختتامیہ‘‘ بھی تحریر کیا ہے۔ بے شبہ یہ کام لائق تحسین اور قابل صد مبارک باد ہے۔ اس کی جتنی بھی پزیرائی کی جائے کم ہے۔
بانی رضا اکیڈمی بمبئی محمد سعید نوری فرماتے ہیں:
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ الحمدللہ برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری دنیا میں ’’حدائق بخشش‘‘ کا اتنا شان دار اور صحیح نسخہ شاید اب تک منظر عام پر نہ آیا ہوگا۔(ص3)
جہاں تک اس نسخہ کا شاندار ہونا ہے یہ بات درست ہے بلاشبہ یہ تزئین و خوب صورتی کے حوالے سے قابل قدر ہے۔ اس کی ستائش ہونی چاہیے مگر یہ کہنا قطعی درست دکھائی نہیں دیتا کہ یہ صحیح نسخہ ہے۔ اس میں بھی اغلاط ہیں۔ یہ صرف ’’یک نگاہے گاہے گاہے‘‘ والی بات ہے۔ اگر بنظر غائر اس کا جائزہ لیا جائے تو اغلاط و اسقام کی تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ ’’حدائق بخشش‘‘ کے اس نسخہ کو اب تک شائع ہونے والے تمام نسخوں میں خوب صورتی کے لحاظ سے اوّلیت کے مقام پر فائز کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ کہنا کہ پوری دنیا میں ’’حدائق بخشش‘‘ کا یہ سب سے صحیح نسخہ ہے، درست نہیں ہے۔
ڈاکٹر شرر مصباحی ’’حدائق بخشش‘‘ کی اوّلین اشاعت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار فرماتے ہیں :



خوش نصیبی سے اس وقت ہمارے سامنے وہ مبارک نسخہ موجود ہے جو حضور فاضل بریلوی کی حیات میں حضرت صدر الشریعہ کی زیرنگرانی شائع ہوا تھا … اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام کی حیات مقدسہ میں ’’حدائق بخشش‘‘ کی طباعت کم از کم دو بار ہو چکی تھی۔ لہٰذا یہ کہنا عقلًا و نقلاً کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے کہ ’’حدائق بخشش‘‘ (اوّل) کی تدوین کا کام حضرت ا مام کی حیات میں نہیں ہوا تھا۔٭۴۳
الحمدللہ! ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی نے نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ کی اس حقیقت کو تو واضح فرمادیا ہے کہ اس کی اشاعت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی کی حیات میں ہو چکی تھی۔ جس کے شرر صاحب نے حوالے بھی دیئے ہیں۔ مگر یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچے گی جب تک ان دونوں اشاعتوں کے سال اشاعت کو واضح نہ کیا جائے۔ سال اشاعت کے حوالے سے ڈاکٹر شرر صاحب کی تحقیق خاموش ہے۔
اب آئندہ ایک اور تحقیق نگار ڈاکٹر مظفرعالم جاوید صدیقی کو دیکھا جائے گا۔
ڈاکٹر محمد مظفر عالم جاوید صدیقی اپنے تحقیقی مقالے ’’اُردو میں میلاد النبی/1998ء‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
مولانا احمد رضا خاں نے میلادِ نبوی کے بیان میں نثر کے علاوہ اپنی میلاد و نعتیہ شاعری میں بھی جابجا اس موضوع کے حوالے سے کبھی نہ بجھ سکنے والے چراغ روشن کیے ہیں۔٭۴۴


فنِ شاعری اور حسان الہند۔ 2004ء

’’فن شاعری اور حسان الہند‘‘ مولانا عبدالستار ہمدانی مصروفؔ برکاتی نوری کی تصنیف ہے۔ جس کی اشاعتِ دوم ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا انٹرنیشنل کراچی کے زیر اہتمام 2004ء میں عمل میں آئی۔ 320؍صفحات پر مشتمل یہ کتاب اعلیٰ حضرت کے نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔٭۴۵
فن شاعری اور حسان الہند اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک منفرد کاوش ہے۔ اس کتاب کے مصنف اہلِ زبان نہ ہونے کے باوجود بھی زبان و بیان پر کامل دسترس رکھتے ہیں۔ مصروف برکاتی اپنی کتاب کے ’’سبب تصنیف‘‘ میں کہتے ہیں:
نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘سے راقم الحروف نے صنعت تجنیس کامل کے ایک سو تیس (۱۳۰) اشعار کی تشریح بنام ’’عرفان رضادر مدح مصطفی‘‘ تقریباً ایک ہزار صفحات میں اختصاراً مرقوم کی۔ بعدہٗ کتاب کا مقدمہ لکھنا شروع کیا۔ گمان تو یہ تھا کہ دس پندرہ صفحات میں مقدمہ پوراہوجائے گا۔ لیکن دورانِ تحریر ذہن میں مضامین کی آمد شروع ہوئی اور وہ مضامین بوسیلۂ قلم صفحۂ قرطاس پر منقش ہوتے گئے اور اس تسلسل نے اتنا طول پکڑا کہ مقدمہ مقالہ بن گیا۔٭۴۶
مصروف برکاتی کے سبب تصنیف کے بعد’’فن شاعری اور حسان الہند ایک جائزہ‘‘ ڈاکٹر مسز تنظیم الفردوس کراچی کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔ آپ فرماتی ہیں:
علامہ موصوف نے کلام رضا میں محاورات اور کہاوتوں کی عکاسی ، رسم و رواج کی عکاسی، مقامی الفاظ و محاورات کے ساتھ سنسکرت کے الفاظ کی فراوانی پر سیر حاصل اور تفصیلی بحث کی ہے۔ ساتھ ہی اعلیٰ حضرت کے اشعار پر بے بنیاد اعتراضات کا جواب بھی علامہ نے انتہائی مدلل انداز میں فراہم کیاہے۔٭۴۷



’’حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے لکھی جانے والی یہ کتاب صرف ’’حدائق بخشش‘‘ کا ہی احاطہ نہیں کرتی بلکہ اردو شاعری خصوصاً اردو نعتیہ شاعری پر نقد و نظر اور تحقیق و تدقیق کے حوالے سے بھی ایک گرانقدر سرمایہ ہے۔
اسی حوالے سے اب ایک اور نعتیہ محقق ڈاکٹر عاصی کرنالی کو دیکھا جائے گا۔
اُردو حمد ونعت پر فارسی شعری روایت کا اثر‘‘ یہ ڈاکٹر عاصی کرنالی کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے۔ وہ کہتے ہیں :
جس کثرت سے آپ کے نعت و سلام جلسوں میں پڑھے جاتے ہیں اور نعت خوانوں کی تنظیموں اور گروہوں میں متداول و مروج ہیں، اس شرف میں کوئی آپ کا مماثل و شریک نہیں ہے۔٭۴۸

مختصر شرح سلامِ رضا - 2004ء

’’مختصر شرح سلامِ رضا‘‘کے شارح محمد نعیم اللہ خان قادری ہیں۔ اس کے ناشر فیضان مدینہ پبلی کیشنز، کامونکے پنجاب، پاکستان اور اس کا سال اشاعت 2004ء ہے۔ اس کا بارِ اوّل 176؍صفحات پر مشتمل ہے۔ اس پر مضامین و آرا پروفیسر محمد اکرم رضا اور شارح محمد نعیم قادری کی ہیں۔٭۴۹
راقم یہ شرح ازخود نہیں دیکھ سکا تھا۔ اس کا ذکر برادرم غوث میاں نے محمد طاہر قریشی کی مرتبہ فہرست کتب خانہ (نعت ریسرچ سینٹر) کے حوالے سے کیا تھا۔ راقم نے حصولِ برکت کے لیے اس کتاب کو بھی اپنے مضمون میں شامل کرلیا ہے۔ اس مختصر شرح سلامِ رضا کے صفحات کی تعداد بھی 176 ہے۔ اس کی کامل شرح کا کیا عالم ہوگا۔
اب اسی سلسلے میں ایک اور فاضل محقق نعت پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کو دیکھا جائے گا۔
ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’برصغیر پاک وہند میں عربی نعتیہ شاعری /2002ء‘‘ میں فرماتے ہیں۔
مولانا کی نعتیہ شاعری کا مرکزی نقطہ توسل و استغاثہ ہے۔ ان کے ہاں شعری حکایت کا تصور نہیں ہے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے دل کی آواز اور روح کی پکار بناتے ہیں۔ ان کا رُجحان طبعی خود سپردگی اور جاں دادگی کا غماز ہے۔ کیف آمیز وجدانی احساسات نے ان کی شاعری کو والہانہ پن عطا کیا ہے۔ وہ جس زبان میں بھی اظہار کرتے ہیں یہی طرزِ ادا اپناتے ہیں۔ بے ساختہ پکار ان کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔٭۵۰


نعت رنگ کراچی (اعلیٰ حضرت احمد رضا شاہ بریلوی نمبر) - دسمبر 2005

’’نعت رنگ‘‘ کراچی کا شمارہ نمبر18؍دسمبر 2005ء میں اعلیٰ حضرت احمد رضا شاہ بریلوی نمبرکے طورپر سامنے آیاہے۔ 804؍صفحات پرمشتمل یہ نمبر اقلیم نعت، بی50- ، سیکٹر 11 -اے، نارتھ کراچی سے شائع ہوا ہے۔ نعت رنگ کراچی کے مرتب سیّد صبیح الدین صبیح رحمانی ہیں۔٭۵۱
صبیح رحمانی دنیائے نعت میں کئی حوالوں سے معروف ہیں۔ ان کا کام انفرادیت اور اہمیت کا غماز ہے۔ ’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ کے خوب صورت اور دیدہ زیب سرورق کے سائے میں یہ شمارہ رنگ رضا کی مختلف سمتوں اور جہتوں کا شاہد ہے۔
رنگ رضا کی دھنک رنگ دیکھیے ۔ ’’فکر و فن‘‘ کے عنوان سے 22 مقالہ نگاروں کے مختلف مضامین۔ ’’تضامین برکلام رضا‘‘ کہنے والوں میں 7؍شعرائے کرام شامل ہیں۔ ’’خصوصی مطالعہ‘‘ میں دو قلمکاروں کے مضامین ہیں۔ ’’رنگ رضا‘‘ میں 5؍شعرا نے کلام کہے ہیں۔ ’’کلام رضا کے تحقیقی زاویئے‘‘ میں 7 مقالہ نگاروں کے سیر حاصل مقالے شامل ہیں۔ ’’مذاکرہ‘‘ کے عنوان سے مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ آخری حصہ ’’خطوط‘‘ پر مشتمل ہے۔
صبیح رحمانی اپنے ’’ابتدائیہ‘‘ میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں اُردو کے وہ خوش نصیب اور مقبولِ خاص و عام نعت گو ہیں جن پر بہت لکھا گیا ہے۔ اُردو کے کسی اور نعت گو پر اتنا نہیں لکھا گیا جتنا مطبوعہ مواد مولانا پر موجود ہے۔ لیکن مقالات و مضامین کی یہ کثرت ہمارے لیے خوشی کا باعث تو ہوسکتی ہے، اطمینان کا نہیں۔٭۵۲



صبیح رحمانی کے مرتبہ ’’نعت رنگ‘‘ کے ’’اعلیٰ حضرت احمد رضا شاہ بریلوی نمبر‘‘ میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے علم وادب، فکر و فن اور شعر و سخن کے تمام موضوعات زیربحث آئے ہیں۔ موضوعات کے تنوع اور وسعت کے سبب اس نمبر کو بلاشبہ ایک تاریخی دستاویز سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
اب آئندہ ایک اور قابل قدر شخصیت ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط (بھارت) کو دیکھا جائے گا۔
ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط (بھارت) ’’فتاویٰ رضویہ اور نعت کا موضوع‘‘ میں فرماتے ہیں۔
برصغیر میں فاضل بریلوی اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں نوراللہ مرقدہٗ کی شخصیت کو محب اور مداحِ رسول ﷺ کے ساتھ ہی فقہ میں تبحر علمی کے لحاظ سے سے بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ کی فراست علمی اور فقہی بصیرت کو آپ کے معاصرین بھی مانتے تھے اور آج بھی ان کی بعض تخلیقات علمیہ کو بنظر استحسان دیکھا جاتاہے۔٭۵۳
مولانا احمد رضا رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری - دسمبر 2005
’’مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر سراج احمد قادری بستوی (بھارت) کے تحقیقی مقالہ کی دوسری جلد کا نام ہے اور ’’مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے شائع ہونے والی کتب کا تعارف‘‘ بھی ہے۔ سردست ہمارے پیش نظر ڈاکٹر سراج احمد بستوی کا وہ مضمون ہے جو نعت رنگ کراچی کے شمارہ نمبر18دسمبر 2005ء ’’اعلیٰ حضرت احمد رضا شاہ بریلوی نمبر‘‘ میں شائع ہوا ہے۔٭۵۴



مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے شائع ہونے والا مضمون اس موضوع سے متعلق کافی معلومات فراہم کرتا ہے فاضل مقالہ نگار نے عرق ریزی و دیدہ وری سے اس کو سجایا ہے۔ ہم صرف کتب اور قلمکاروں کے نام پیش کرنے پر اکتفا کررہے ہیں۔
(1)کلام حضرت رضا قدس سرہٗ کا تحقیقی اور ادبی جائزہ’ شمس بریلوی، (2) تاریخ نعت گوئی میں حضرت رضا بریلوی کا منصب ، شاعر لکھنوی، (3) مولانااحمد رضا خاں بریلوی کی نعتیہ شاعری، ملک شیر محمد خان اعوان آف کالا باغ، (4) اعلیٰ حضرت کی شاعری پر ایک نظر، سیّد نور محمد قادری، (5)عرفانِ رضا، پروفیسر ڈاکٹر الٰہی بخش اختر اعوان، (6) امام شعر و ادب، مولانا وارث جمال بستوی، (7) کلامِ رضا، اصغر حسین نظیر لدھیانوی (8) اقبال و احمد رضا، راجا رشید محمود (9) کلامِ رضا کے نئے تنقیدی زاویئے، ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی (10)فن شاعری اور حسان الہند، مولانا عبدالستار ہمدانی (11)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے قصیدہ معراجیہ پر ایک تحقیقی مقالہ، پروفیسر مرزا نظام الدین بیگ جام بنارسی (12) ارمغانِ رضا (بزبانِ فارسی)، پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد (13) فقیہ اسلام بحیثیت عظیم شاعر و ادیب، پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری (14) مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری: ایک تحقیقی مقالہ، ڈاکٹر سراج احمد قادری بستوی (15) امام احمد رضا: ملک سخن کے شاہ، عقیل احمد خاں اکبرآبادی، (16) غزلیات رضا: انتخاب از ’’حدائق بخشش‘‘ ، مولانا امجد رضا خاں امجد، (17) انتخاب ’’حدائق بخشش‘‘ ، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد (18) کعبی کی کتاب: سلام رضا تضمین و تفہیم اور تجزیے کا تنقیدی جائزہ، مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی (19) الحقائق فی الحدائق المعروف شرح حدائق بخشش، مولانا فیض احمد اویسی مرحوم، (20) عرفانِ رضا : در مدح مصطفی مولانا عبدالستار ہمدانی (21) شرح سلام رضا، مولانا مفتی محمد خان قادری (22) شرح مثنوی ردّ امثالیہ، قاری غلام محی الدین خاں قادری شیری (23) نوبہارِ نوازش بحل حدائق بخشش، مفتی عنایت احمد نعیمی (24) بساتین الغفران، الایوان العزمی امام احمد رضا بریلوی (بزبان عربی)، پروفیسر حازم محمد احمد عبدالرحیم المحفوظ (جامعہ ازہر ، مصر)



مولانا احمد رضا خان بریلوی کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے 24 کتب تھیں، جن میں چھوٹی کتابوں کے علاوہ ضخیم کتب بھی شامل ہیں۔ مقالہ نگار نے محبت رضا، عقیدتِ رضا اور تحقیق رضا کو مدنظر رکھا ہے۔ ہر کتاب پر جامع اور معلوماتی انداز میں تبصرہ موجود ہے۔ یہ تعارف اور تبصرہ اتنا مکمل اور مربوط ہے کہ جس سے مکمل کتاب کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ موصوف کی تحریر میں جاذبیت اور روانی پائی جاتی ہے۔
اسی حوالے سے اب ایک اور علمی و ادبی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی مرحوم کو دیکھائے جائے گا۔
ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی مرحوم اپنے مضمون ’’سلامِ رضا کے دو باغوں کی سیر‘‘ میں فرماتے ہیں:
حضرت احمد رضا خاں صاحب کی زبان و بیان نے ان کی عقیدت کی گیرائی اور گہرائی کا ساتھ دیا ہے اور ایسی ایسی تراکیب اور صفات ہمارے سامنے آئی ہیں جن سے ہماری زبان، زیادہ نوری، قدسی صفت اور نئے احکامات کی امین بن گئی ہے۔٭۵۵


شروحات حدائق بخشش - دسمبر 2005ء

’’شروحات حدائق بخشش‘‘ منصور ملتانی (کراچی) کا 7صفحات پر مشتمل ایک مضمون ہے جو ’’نعت رنگ‘‘ کے شمارہ نمبر18؍دسمبر 2005ء میں شائع ہوا ہے۔ جس میں مضمون نگار نے اپنے تئیں شروحات حدائق بخشش کو پیش کیا ہے۔ یہ موضوع مضمون نگار کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ موصوف نے بس سامنے کی چند چیزوں کو زمانی ترتیب نہیں بلکہ بے ترتیبی سے پیش کردیا ہے۔٭۵۶
منصور ملتانی صاحب نے سب سے پہلے ’’الحقائق فی الحدائق شرح حدائق بخشش‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ جس میں موصوف کہتے ہیں ’’جسے 25؍جلدوں میں علامہ فیض احمد اویسی نے لکھا ہے اور جس کی اب تک25؍جلدیں اشاعت پزیر ہو چکی ہیں۔‘‘ (یہ بات درست نہیں ہے)
واضح رہے کہ مولانا فیض ا حمد اویسی نے کل 25؍جلدوں میں اس شرح کو مکمل کیا تھا جس کی تادمِ تحریر 14؍جلدیں اشاعت پزیر ہو چکی ہیں۔ 9؍جلدیں ہنوز تشنہ طبع ہیں۔
’’وثائق بخشش‘‘ از مفتی غلام یٰسین امجدی اعظمی کی اوّلین شرح کو دوسرے نمبر پر شامل کیا ہے۔ ’’وثائق بخشش‘‘ شروحاتِ حدائق بخشش میں اوّلیت کے مقام پر فائز ہے۔ جو فروری 1976ء میں کراچی سے شائع ہوئی تھی۔



منصور ملتانی نے عام انداز سے اس موضوع پر لکھا ہے۔ موصوف نے بنظرغائر نہیں بلکہ بنظر طائر اس کا سرسری جائزہ لیا ہے۔ صاحبِ مضمون نے شروحاتِ حدائق بخشش کے تعارف سے پہلے 18 عنوانات پر مشتمل مصنّفین کے ناموں کے ساتھ ایک فہرست بھی دی ہے۔ بارہویں نمبر اور اٹھارویں یعنی آخری نمبر پر ان دونوں کا ذکر کیا ہے جو شرح کلامِ امام اہل سنّت کے نام سے سامنے آئی ہیں۔ اب دونوں میں کیا درست ہے یہ مضمون نگار ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔
شرح کلام امام اہل سنّت از عبدالقادر بدایونی، ماہ نامہ، نوری کرن، بریلی، اگست 1964ء اور شرح کلامِ امامِ اہل سنت از ابرار قادری بدایونی، ماہ نامہ، نوری کرن، بریلی، اکتوبر 1965ء
کیا دو مختلف حضرات نے ایک ہی نام سے شرح کلامِ امامِ اہل سنت کو رقم کیا ہے۔ یا یہ ایک ہی آدمی کی کاوش ہے جسے دو مختلف ناموں سے بے دھیانی میں شائع کردیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!
اب اسی تناظر میں مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی کو دیکھا جائے گا۔
مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی اپنی ایک تحریر ’’رضا کی زباں تمھارے لیے‘‘ میں فرماتے ہیں:
نعت گوئی کے حوالے سے بھی زبان و بیان اور اُردو کے نعتیہ ادب کو اعلیٰ حضرت مجدد بریلوی علیہ الرحمہ پر ناز رہے گا۔ نعت گوئی کے باب میں ان کا سکہ ایسا بیٹھا ہے کہ ملک سخن کی شاہی کرتے نظر آتے ہیں۔ کلام الامام امام الکلام کا مقولہ ایسی ہی ہستیوں کے کلام پر صادق آتا ہے۔٭۵۷


شرح کلام رضا فی نعت المصطفیٰ (شرح حدائق بخشش)- 2006ء

’’شرح کلام رضا فی نعت المصطفیٰ شرح حدائق بخشش‘‘ کے شارح مولانا مفتی غلام حسن قادری ہیں۔ 2006ء میں مشتاق بک کارنر، الکریم مارکیٹ، اُردو بازار لاہور نے اِسے شائع کیا ہے۔شرح حدائق بخشش بڑے سائز کے 1108؍صفحات پر مشتمل ہے۔٭۵۸
مولانا غلام حسن قادری نے ’’حدائق بخشش‘‘ کی ایک سو ایک اُردو نعتوں کو شرح کا جامہ پہنایا ہے۔ قطعات و رباعیات کے ساتھ ہی درود و سلامِ رضا کی عام فہم اور آسان اُردو شرح قرآن و سنت کے سیکڑوں دلائل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ جب کہ معاصر شعراء کے کلام سے بھی اس شرح کو تقویت پہنچائی گئی ہے۔ اس شرح کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ اس کے حوالے سے مولانا محمد منشا تابش قصوری ضیائی نے ’’نشانِ منزل (شارح حدائق بخشش)‘‘ کا تعارف رقم کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :
اس شرح کا انداز بڑا ہی نرالا اور انوکھا ہے نہ صرف ’’حدائق بخشش‘‘ کے اشعار کی نثری شرح کی بلکہ دیگر شعرا کے اشعار کو شامل کرکے اسے نظم سے بھی آراستہ کرنے کی سعی بلیغ فرمائی ہے۔ جو حضرت شارح کے وسیع مطالعہ پر دال ہے۔٭۵۹
مولانا غلام حسن قادری کی ’’شرح حدائق بخشش‘‘ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ شارح نے آج سے 35 سال پہلے لکھا ہوا مقالہ ’’کلام اعلیٰ حضرت کی خصوصیات اور فنی خوبیاں‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ مقالہ اخترالحامی رضوی مرحوم کا تحریر کردہ تھا جو سب سے پہلے کتاب ’’امام نعت گویاں‘‘ 1977ء کے نام سے طبع شدہ ہے۔ جسے دوبارہ عنوان بدل کر اسے ’’شرح حدائق بخشش‘‘ میں شامل کیا گیا ہے۔ یقینا اس اولین مقالے کی وجہ سے ’’شرح حدائق بخشش‘‘ کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ کیوںکہ اس مقالے میں اعلیٰ حضرت کے نعتیہ کلام کے فنی نکات بیان کیے گئے ہیں۔ اخترالحامدی کے اس مقالے کے مطالعے کے بعد اعلیٰ حضرت کے نعتیہ کلام ’’حدائق بخشش‘‘ کی شرح آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ مولانا اخترالحامدی رضوی آج سے 32؍سال پہلے (یکم رمضان المبارک ۱۴۵۱ھ مطابق 4؍جولائی 1981ء حیدر آباد سندھ) میں انتقال فرما چکے تھے۔٭۶۰ اس شرح میں مولانا اخترالحامدی کو ’’مدظلہ‘‘ لکھا گیا ہے۔٭۶۱
اب ایک اور قابل قدر ادیب پروفیسر ڈاکٹر فاروق احمد صدیقی کو دیکھا جائے گا۔



پروفیسر ڈاکٹر فاروق احمد صدیقی ’’کلامِ رضا میں توحید کی ضیاباریاں‘‘ میں رقم طراز ہیں :
رسول کی مدح و ثنا بالواسطہ طور پر خدائے عزوجل ہی کی حمد وثنا ہے۔ اسی لیے حقیقت شناس حضرات کے نزدیک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف سے خالق کی تعریف ہی مقصود و متصور ہوتی ہے۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ’’حدائق بخشش‘‘ کے دونوں حصے (تیسرا حصہ میرے پیش نظر نہیں ہے) نعت رسول کے ساتھ ساتھ توحید الٰہی کے جلوئوں سے بھی معمور و مستنیر ہیں۔٭۶۲

اُردو نعت گوئی اور فاضل بریلوی - فروری 2008ء

’’اُردو نعت گوئی اور فاضل بریلوی‘‘ ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کا پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ ہے۔ جسے ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا انٹرنیشنل کراچی پاکستان نے فروری 2008ء میں شائع کیا ہے۔ 678؍صفحات پر مشتمل یہ مقالہ بہت اہتمام سے شائع کیا گیا ہے۔ ٭۶۳
اس مقالے کے نگراں پروفیسر ڈاکٹر زاہد حسن وسیم بریلوی، روہیل کھنڈ یونیورسٹی، بریلی، انڈیا تھے۔
مقالہ نگار ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کو 1994ء میں ڈاکٹریٹ کی سند تفویض ہوئی۔ یہ مقالہ نو ابواب پر مشتمل ہے۔



پہلا باب، نعت کی تعریف، مختصر تاریخ اور عہد بعہد ارتقاء کا جائزہ، دوسرا باب: اُردو میں نعت گوئی کی ابتداء، تیسرا باب : امام احمد رضا فاضل بریلوی کا عہد (سیاسی، سماجی، تہذیبی، تمدنی اور ادبی پس منظر)، چوتھا باب: امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی - حیات اور شخصیت کا تفصیلی جائزہ، پانچواں باب: تخلیقی رویے اور محرکات شاعری کا جائزہ، چھٹا باب: امام احمد رضا فاضل بریلوی کی نعت گوئی کے انفرادی خدوخال، ساتواں باب: امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی کی روحانی و عشق نبی کی مخلصانہ تہہ داریاں، آٹھواں باب: امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کی نعت گوئی کا ادبی مقام اور علمی مرتبہ، نواں باب: اُردو نعت کی تاریخ میں نعت نگار کی حیثیت سے ا مام احمد رضا فاضل بریلوی کا مقام۔
صاحب زادہ سید وجاہت رسول قادری (صدر،ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا، انٹرنیشنل کراچی) فرماتے ہیں :
ڈاکٹر عزیزی صاحب نے اپنے چاروں طرف چراغاں کیا ہوا ہے اور رضا کے نام کی دھوم مچائی ہوئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ رضا کی نگرانی میں بزمِ رضا سجائے رضا کے علم و فن کے چراغ سے چراغ جلا رہے ہیں۔٭۶۴
ڈاکٹر طلحہ رضوی برق اپنی ’’تقریظ‘‘ میں فرماتے ہیں :
ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کا یہ قابل قدر کارنامہ فاضل بریلوی پر اس جہت سے کام کرنے والوں کے لیے ایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس سے صرفِ نظر کرکے اس موضوع پر کوئی گفتگو کی جاسکے۔٭۶۵
پیش نظر مقالہ کلام رضا، ادب برائے ادب،ادب برائے زندگی اور ادب برائے بندگی کا نمائندہ ہے۔ اُردو نعت کے ا نفرادی خدوخال میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی نعت گوئی کا ادبی مقام اور علمی مرتبہ کا تعین کیا گیا ہے۔
’’حدائق بخشش‘‘ کے حوالے سے پروفیسر محمد اکرم رضا کو دیکھا جائے گا۔
پروفیسر محمد اکرم رضا اپنے ایک مضمون ’’جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’حدائق بخشش‘‘ آپ کا وہ زندۂ جاوید نعتیہ سرمایہ ہے کہ جس کے اشعار کی خوش بو مشامِ فطرت کو ہمیشہ معنبر کرتی رہے گی۔ آپ نے نعت رسول ﷺ کو اپنے لیے حاصلِ حیات بنا لیا۔٭۶۶



آخر میں، میں اپنے اس مقالے ’’اذکار و انوارِ حدائق بخشش‘‘ کو صاحب طرز ادیب اور معروف نقاد رشید وارثی مرحوم کے ان مرصع الفاظ پر ختم کر رہا ہوں جو انھوں نے اپنے مقالے ’’کلامِ رضا میں مناقب اہل بیت اطہار کی جلوہ گری‘‘ میں بیان فرمائے ہیں:
ہندوستان کے عظیم فقیہ اور استاذِ نعت گویان مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ اہلِ سنت کے حقیقی عقائد اور عشقِ صادق کا ترجمان ہے۔٭۶۷
اس مقالے کے مکمل ہونے کے بعد بھی دو اہم حوالے سامنے آئے ہیں۔ جس کی بابت راقم تفصیلی تو نہیں بلکہ اشاراتاً ذکر کرسکے گا۔ کیوںکہ یہ دونوں اہم کام میری دسترس سے دُور ہیں۔ جس کا راقم مطالعہ نہیں کرسکا۔
اس سلسلے کا پہلا حوالہ ملاحظہ کیجیے:

’’حدائق بخشش‘‘ کا اوّلین ایڈیشن

پروفیسر ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی٭۶۸(ڈائریکٹر ادارۂ افکارِ حق، بائسی، پورنیہ، بہار، انڈیا) کی ’’حدائقِ بخشش‘‘ پر تحقیق اور اس کے سالِ اشاعت کے تعین پر ایک معلوماتی مضمون ’’حدائقِ بخشش کا اوّلین ایڈیشن‘‘ شائع ہوا۔ یہ مضمون ماہ نامہ ’’جہانِ رضاؔ‘‘ (لاہور، اپریل 2012ء) کے شمارہ۱۸۸ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جس میں فاضل مقالہ نگار نے مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی کی زندگی میں اُن کے نعتیہ دیوان ’’حدائقِ بخشش‘‘ کے تین بار چھپنے کا ذکر کیا ہے۔ غلام جابر شمس مصباحی صاحب پہلی اشاعت کے بارے میں خود بھی متذبذب ہیں۔ ۱۳۲۵ھ /1907ء یہ ’’حدائقِ بخشش‘‘ کے مرتب ہونے کی تاریخ ہے۔ جس پر کسی کو اختلاف نہیں۔ موصوف پہلی اشاعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’۱۳۲۵ھ یا ۱۳۲۶ھ ہی میں اس کا پہلا حصہ پہلی بار شائع بھی ہوا تھا۔‘‘ ۱۳۲۵ھ کا مطلب ہے 1907ء اور 1908ء یہ دو سال ہیں۔ اس میں پہلی اشاعت کا تعین نہیں ہے۔ اس کی دوسری اشاعت کے بارے میں شمس مصباحی فرماتے ہیں کہ اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۳۲۷ھ/1909ء میں چھپا۔ جس میں ہفت روزہ ’’دبدبۂ سکندری‘‘ رام پور کے مدیر کی رائے کو پیش کیا گیا ہے۔ اگر مدیر کی رائے کے ساتھ ہی ’’دبدبۂ سکندری‘‘ کی سالِ اشاعت کا شمارہ اور جلد نمبر بھی دے دیا جاتا تو یہ بات اور بھی متحقق ہوجاتی۔ تیسری اشاعت کا احوال بھی ملاحظہ کیجیے۔ ۱۳۲۹ھ/1911ء میں مولانا امجد علی اعظمی صدرالشریعہ کے زیراہتمام ’’حدائقِ بخشش‘‘ کا جو نسخہ چھپا۔ وہ اس سلسلے کی تیسری اشاعت ہے۔ بہرحال یہ بات لائق تحسین ہے کہ موصوف نے ’’حدائقِ بخشش‘‘ کی مختلف اشاعتوں کے بارے میں اپنی صائب رائے کو پیش کیا۔



اب اس سلسلے کا دوسرا حوالہ دیکھیے:
سلامِ رضا کے چند اشعار
’’سلامِ رضا کے چند اشعار‘‘ کی شرح ایم جلال الدین٭۶۹ کی تحریرکردہ ہے۔ 104؍صفحات پر مشتمل یہ شرح 1998ء میں گجرات سے شائع ہوئی ہے۔ یہ تمام معلومات مجھے حضرت حسان حمد و نعت بک بینک کراچی پاکستان کے روحِ رواں غوث میاں صاحب نے 15؍اپریل 2012ء کو بذریعہ موبائل فون فراہم کی تھیں۔ اس وقت تک یہ مقالہ مکمل ہوچکا تھا۔ ویسے بھی ’’سلامِ رضا کے چند اشعار‘‘ والی کتاب میں نہیں دیکھ سکا ہوں۔ وگرنہ اس پر بھی تفصیلی اور معلوماتی اظہارِخیال پیش کرتا۔

حوالہ جات

٭-1 مسعود احمد ، محمد، پروفیسر ڈاکٹر عبقری الشرق مولانا احمد رضا خاں بریلوی ادارۂ مسعودیہ 6/2 ، 5۔ای ناظم آباد کراچی 1977ء ص6
٭-2 ایضاً ص 6
٭-3 فیروز الدین، مولوی الحاج فیروزاللغات (نیا ایڈیشن) فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈلاہور، س ن ، ص 564
٭4۔ ایضاً، ص 184
٭5۔ شمس بریلوی، علامہ کلام رضا کا تحقیقی اور ادبی جائزہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی جولائی 1976ء ص 15
٭6۔ ایضاً ص 17
٭7۔ مسعود احمد ، ڈاکٹر انتخاب ’’حدائق بخشش‘‘ سرہند پبلی کیشنز کراچی 1995ء ص 308
٭8۔ صبیح رحمانی (مرتب) نعت رنگ، کراچی کتابی سلسلہ شمارہ نمبر18 دسمبر 2005ء ص 581
٭9۔ شرر مصباحی، فضل ا لرحمن، ڈاکٹر ’’حدائق بخشش‘‘ کا فنی و عروضی جائزہ رضا اکیڈمی بمبئی (انڈیا) 1997ء ص 4, 5, 9



٭10۔ وجاہت رسول قادری، سید صاحبزادہ (ذاتی لائبریری سے دیکھنے کو ملی تھی)
٭11۔ شرر مصباحی ص 368
٭12۔ شرر مصباحی (تصحیح) ’’حدائق بخشش‘‘ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی 1999 ء ص 288
٭13۔ مکتبۃ المدینہ ’’حدائق بخشش‘‘ مکتبۃ المدینہ ، شہید مسجد کھارادر کراچی س ن ص 38
٭-14 رازؔ امجدی وثائق بخشش (حصہ اوّل) ’’شرح حدائق بخشش‘‘ مکتبہ امجدیہ دارالعلوم قادریہ رضویہ ملیر سعود آباد کراچی فروری 1976ء ص 286
٭-15 ایضاً ص 3 ٭-16 ایضاً ص 8
٭17۔ برق، طلحہ رضوی،ڈاکٹر اُردو کی نعتیہ شاعری دانش اکیڈمی ملکی محلہ آرہ بہار (انڈیا) جنوری 1974ء ص 54
٭18۔ شمس بریلوی کلام رضا کا تحقیقی اور ادبی جائزہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی جولائی 1976ء ص 13
٭19۔ اخترالحامدی امام نعت گویاں مکتبہ فریدیہ جناح روڈ ساہیوال 1977ء ص 144ء
٭20۔ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اُردو کی نعتیہ شاعری آئینہ ادب چوک مینار انارکلی، لاہور 1974ء ص 86
٭-21 اخترالحامدی امام نعت گویاں مکتبہ فریدیہ جناح روڈ ساہیوال 1977ء ص 9
٭-22 ایضاً ص 24 ٭-23 ایضاً ص 30
٭-24 اول قادری، مولانا، صوفی سخن رضا مطلب ہائے ’’حدائق بخشش‘‘ مکتبہ دانیال اُردو بازار لاہور 1992 ص 432
٭25۔ اشفاق، سید رفیع الدین ، ڈاکٹر اُردو میں نعتیہ شاعری اُردو اکیڈمی سندھ کراچی اکتوبر 1976ء ص 380
٭-26 اول قادری، مولانا، صوفی سخن رضا مطلب ہائے ’’حدائق بخشش‘‘ مکتبہ دانیال اُردو بازار لاہور 1992 ص 5
٭-27 ایضاً 27
٭-28 قادری، مفتی محمد خان شرح سلامِ رضا مرکز تحقیقات اسلامیہ لاہور دوم 1994ء ص 586
٭29۔ یونس شاہ گیلانی، سید ، پروفیسر تذکرہ نعت گویانِ اُردو مکہ بکس اردو بازار لاہور نومبر 1984ء ص 131
٭-30 قادری، مفتی محمد خان شرح سلامِ رضا مرکز تحقیقات اسلامیہ لاہور دوم 1994ء 33
٭-31 ایضاً ص 21
٭-32 فیض احمد اویسی ، مولانا شرح حدائق بخشش اوّل مکتبہ اویسیہ رضویہ بہاولپور 1994ء ص 368
٭-33 جاوید اقبال، محمد، پروفیسر مخزنِ نعت (انتخاب) علمی کتاب خانہ ، اُردو بازار لاہور مارچ 1979ء ص 16
٭-34 قریشی ، محمد طاہر فہرست کتب خانہ نعت ریسرچ سینٹر نارتھ ناظم آباد کراچی ص 20
٭-35 شرح حدائق بخشش اوّل ص 7
٭36۔ فیض احمد اویسی ص 12 ٭37۔ ایضاً ص 15
٭38۔ عثمانی، شاہ رشاد، ڈاکٹر اُردو شاعری میں نعت گوئی مجلس مصنّفین اسلامی گیا، (انڈیا) 1991 ء ص 249
٭39۔ مسعود احمد، پروفیسر ص 320 ٭40۔ ایضاً ص 306
٭41۔ آزاد فتح پوری، محمد اسماعیل، ڈاکٹر اُردو شاعری میں نعت (جلد دوم) شمیم بک ڈپو لکھنو(انڈیا) 1992ء ص 54
٭42۔ شرر مصباحی ص 362 ٭43۔ ایضاً ص 4, 5
٭44۔ جاوید صدیقی، محمد مظفر عالم، ڈاکٹر اُردو میں میلادالنبی فکشن ہائوس، مزنگ روڈ لاہور مارچ 1998ء ص 526
٭-45 مصروف برکاتی نوری، مولانا عبدالستار ہمدانی فن شاعری اور حسان الہند ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا انٹرنیشنل کراچی 2004 ء ص 320 ٭-46 ایضاً ص 15 ٭-47 ایضاً ص 12
٭48۔ عاصی کرنالی، ڈاکٹر اردو حمد و نعت پر فارسی شعری روایت کا اثر اقلیم نعت کراچی جون 2001ء ص 365
٭49۔ قریشی ، محمد طاہر ص 176
٭50۔ اسحاق قریشی، محمد، ڈاکٹر برصغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری محکمہ اوقاف حکومت پنجاب دسمبر 2002ء ص 869
٭51۔ صبیح رحمانی (مرتب) نعت رنگ کراچی (اعلیٰ حضرت احمد رضا شاہ بریلوی نمبر) شمارہ نمبر18، دسمبر 2005ء ص 804
٭52۔ ایضاً ص 14 ٭53۔ ایضاً ص 562 ٭54۔ ایضاً ص 640
٭55۔ ایضاً ص 28 ٭56۔ ایضاً ص 701 ٭57۔ ایضاً ص 352
٭-58 غلام حسن قادری، مولانا شرح کلامِ رضا فی نعت المصطفیٰ المعروف شرح حدائق بخشش مشتاق بک کارنر ، الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور ص 22 ٭-59 ایضاً ص 22
٭-60 عقیل احمد عباسی لیلۃ النعت ، کراچی ، مجلہ گل بہار نعت کونسل پاکستان لیاقت چوک گلبہار کراچی 1994-95ء ص 40
٭-61 شرح کلامِ رضا فی نعت المصطفیٰ ص 23
٭62۔ نعت رنگ ص 20
٭63۔ عزیزی، عبدالنعیم، ڈاکٹر اُردو نعت گوئی اور فاضل بریلوی ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا انٹرنیشنل کراچی 2008ء ص 678
٭64۔ ایضاً ص 8 ٭65۔ ایضاً ص 14
٭66۔ نعت رنگ ص 111 ٭67۔ ایضاً ص 230
٭68۔ شمس مصباحی، غلام جابر، ’’حدائقِ بخشش کا اوّلین ایڈیشن‘‘، مشمولہ ’’جہانِ رضا‘‘ (لاہور) اپریل 2012ء، ص36
٭69۔ جلال الدین، ایم، سلامِ رضا کے چند اشعار‘‘ گجرات پنجاب پاکستان، 1998ء، ص104
{٭}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے