فہیم بسمل کی نعتیہ شاعری’’ سلسلے عقیدت کے‘‘ کی روشنی میں

فہیم بسمل کی نعتیہ شاعری’’ سلسلے عقیدت کے‘‘ کی روشنی میں


فہیم بسمل کی نعتیہ شاعری’’ سلسلے عقیدت کے‘‘ کی روشنی میں


ابرارؔکرتپوری


اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول کریم کی اطاعت ایمانِ کامل ہونے کی دلیل ہے اطاعت کی تعریف یہ ہے کہ بندہ اللہ کے حکم کی تکمیل اس طرح کرے کہ اس کو اپنی جان کی پرواہ نہ رہے اور رسول کریم کی محبت اس درجہ ہو کہ اپنا سب کچھ یعنی مال و زر ، آل اولاد، ماں باپ اور اپنی جان تک قربان کرنے کا دلی جذبہ رکھتا ہو خالی زبان سے کہہ دینا محبت ِ رسول کی دلیل نہیں۔
حمد اُردو شاعری میں وہ صنفِ سخن ہے جس کے اشعار میں اللہ تعالیٰ کی توصیف و ثنا اور تعریف کی جاتی ہے ۔ اور نعت وہ صنفِ سخن ہے جس کے ذریعہ صرف اور صرف حضور سرورِ کائنات کی مدحت و توصیف کی جاتی ہے ۔ بزرگانِ اسلام نے نعت گوئی کو بہت نازک صنفِ سخن قرارد یا ہے ۔ مولانا ندوی کے مطابق’’ نعت کہنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کہ شاعر ذرا بھٹکا اور قعر مذلت میں گرا‘‘۔ علی حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے مطابق ’’ نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنے جیسا ہے البتہ حمد میں کتنا بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔‘‘ یہاں مراد ہے کہ جیسے اللہ تورحیم ہے وہ کتنا رحیم ہے اس کی رحیمی کو کسی بھی پیمانے سے ناپنا ممکن ہی نہیں ۔ اس کی رحیمی کا بیان کتنا بھی بڑھا چڑھا کر کیوں نہ کیا جائے وہ مبالغہ نہیں ہوتا ۔ چونکہ ذاتِ خدا وندی اپنی تمام صفاتِ عالیہ کے ساتھ بیکراں ہے۔

جہاں تک نعت گوئی کا تعلق ہے وہ حضور سرورِ کائنات کی حیاتِ طیبہ میں ہی شروع ہو گیا تھی اور حقیقت تو یہ ہے کہ سب سے پہلا نعت گو تو خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے ؎
ہے خدا پاک خود مصنف نعت
ہم تو تالیف کرنے والے ہیں
ہمیں چاہیے کہ اپنے پیارے نبی کی مدح کے لیے خوبصورت الفاظ چنیں ، مضامین موثر اور صداقت پر مبنی ہوں ہم شاعری کے تمام معائب و محاسن سے واقف ہوں سیرتِ رسول کریم کا مطالعہ تسلسل سے کرتے ہوں۔ رسولِ کریم کی محبت نعتیہ شاعری کی بنیاد ہے ۔ یعنی ہم جتنی زیادہ محبت آقا سے کریں گے ۔ انشا اللہ نعتیہ کلام سے اس کا برملا اظہار ہو جائیگا ۔ آقا کی محبت ، پیار ، اخلاق اور سیرتِ مبارک کے مختلف پہلوؤں اور گوشوں کا برملا اظہار نہیں تو وہ نعتیہ کلام نہیں۔
ہندوستان میں نعت گوئی اُردو زبان کی ہم عمر ہے ۔ جو تقریباً سات سو سال پر محیط ہے ، بیشتر شعرا نے نعت گوئی کی سعادت حاصل کی ہے ۔ لیکن باقاعدہ صاحبِ دیوان نعت گو شعرا بہت کم ہوئے ہیں۔ نعتیہ کلام کے مجموعے تو شائع بھی ہوتے ہیں ۔ حمد میں تو اتنا بھی نہیں۔ دورِ حاضر میں جب ہم تیس چالیس برس پہلے زمانے کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اس عرصے میں نعت گوئی کو فروغ حاصل ہوا ہے ۔ ہمارے ملک میں بھی نعتیہ کلام کے مجموعے کافی تعداد میں شائع ہو رہے ہیں۔ اچھے نعت گو شعرا بھی موجود ہیں۔ لیکن بڑا المیہ اس دور کا یہ ہے کہ پاکیزہ اصنافِ سخن حمد و نعت کے سلسلے میں نہ تو صحت مند تنقید کی طرف جامعات کے اساتذہ کا دھیان ہے نہ دیگر صاحبِ علم لوگوں کا ۔ حد ہے پاکیزہ اصنافِ سخن حمد و نعت جامعات کے نصاب میں شامل نہیں ۔
اس صورتِ حال میں جب کوئی نعتیہ کلام کا مجموعہ شائع ہوتا ہے تو بڑی مسرت ہوتی ہے۔ اور نعت گوئی و حمد گوئی کے فروغ کی اُمید یں بندھتی ہیں۔ نوجوان شاعر جنابِ فہیم بسملؔ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ’’ سلسلے عقیدت کے‘‘ نظر نواز ہوا۔ فہیم بسملؔ نے بارگاہِ رسالت مآب میں متنوع مضامین کے ساتھ فکر سخن کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کے اشعار رسول کریم سے محبت اور عقیدت کے آئینہ دار ہیں۔ میں نے اُن کی کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ انشا اللہ مستقبل میں فہیم بسملؔ نعت کے نہایت معتبر شاعر ہوںگے۔ فکرِ سخن نعت کی بھٹی میں تپ کر وہ کندن بنیں گے اور تب اُن کاکہا مستند کہلائے گا ۔ مجھے اُمید ہے کہ وہ مزید بہتر کی جستجو مسلسل کرتے رہیں گے۔ جہاں تک نعت گوئی کا تعلق ہے اس کے لیے فہیم بسملؔ کا خیال ہے ؎
رتبہ سرکارِ مدینہ کا سمجھنے کے لیے
فکر بھی لوگو! نہایت عارفانہ چاہیے

پھر اُن کا اُمتی ہونے پہ بیشک ناز بھی کرنا
ذرا واقف تو ہو لو آپ کے احکام سے پہلے

اور حبیبِ کبریا کی مدح و ثنا تو رضاے رب العالمین ہے ۔ نعت گو پر یقینا سائبان رحمت سایہ فگن ہوگا ۔ فہیم بسملؔ کہتے ہیں ؎
لیں گی خدا کی رحمتیں بڑھ کر پناہ میں
توصیف تم رسولِ خدا کی کیا کرو
رسولِ کریم کی آمد سے اس جہانِ کفر و جہل میں یقین و ایمان کی شمعیں روشن ہوئیں اور صحرا میں حق و صداقت کے گلزار مہک اُٹھے اور آپ کی گواہی سنگریزوں تک نے دی ۔ فہیم بسملؔ کہتے ہیں ؎
زمین پہ پھول کھلے عرش مشکبار ہوا
حضور! آپ کی آمد سے دو جہاں مہکے

یہ ہے مرے نبی کے کفِ پا کا مرتبہ
ارضِ عرب کے صحرا بھی گلزار ہو گئے

مٹانے تیرگی دنیا سے کفر و باطل کی
حضور حق کے اُجالوں کی شمع لائے ہیں

سچ ہے توحیدِ رسالت کی گواہی کے لیے
سنگریزوں کو بھی تو نطق عطا ہوتا ہے
اور یہ نوریں سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ فیوض و برکات مصطفا کی سبیلیں ہر جگہ موجود ہیں جن سے تشنگانِ ایمان و یقین فیضاب و سیراب ہو رہے ہیں چند اشعار بسملؔ صاحب کے ؎
آج بھی پاتے ہیں کونین اُجالے بیشک
شاہِ کونین کے ہی جلوۂ نورانی سے

حدیثِ پاک جو سنتا ہے فیض پاتا ہے
ہے بے بدل سخن آں جناب کی خوشبو

ملتی نہیں سخاوتِ سرکار کی مثال
جو کچھ ہوا وہ دستِ سوالی پہ رکھ دیا
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور سرورِ کائنات کی ذات ِ والا صفات کو تمام انسانوں اور مخلوقات سے افضل و برتر کیا بسملؔ صاحب کہتے ہیں ؎
اُس پیکرِ نوری کا مماثل نہیں کوئی
تخلیق کی ہر نوک پلک سب سے الگ ہے

آج ہم جن حالات گزررہے ہیں ان کی روشنی میں ہمیں یقین ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کو بالآخر ذاتِ مصطفی کے زیرِ سایہ آنا ہوگا۔ اس کے بغیر دنیا و عقبی کی بہتری ممکن ہی نہیں ۔ سیرتِ مصطفی نصابِ حیات اور آئینہ راہِ منزل ہے ؎
اپنائی جس نے ، پائی ہیں اس بلندیاں
دنیا میں ایک درس ہے سیرت رسول کی

ہوگئی جن پر مرے سرکار کی چشمِ کرم
مرتبے دنیا میں اُن کے بے حد اعلیٰ ہوگئے
بڑا خوش نصیب ہے جس پر نگاہِ لطفِ سرکار ہو جائے ۔ یوں تو رحمتہ اللعالمین کا کرم کس پر نہیں ۔ آپ کی نسبت تو نعمت و رحمت ہے ؎
یہ نسبتِ شہِ والا کا ہے کرم جس نے
کوئی اویس کیا تو کوئی بلال کیا

روز و شب رہنا ہے بس محو خیالِ مصطفیٰ
اوج پر آ جائے کب کس کو مقدر کا پتا

غمِ مصطفیٰ مل گیا ہے جسے بھی
وہ دنیا کے ہر ایک غم سے بری ہے

فہیم بسملؔ کا تعلق اس مردم خیز سرزمین ہے جس نے بڑے بڑے شعرا ،ادبا اور دانشور پیدا کیے جو آسمانِ شعر وادب پر مہ و نجوم کی طرح روشن ہیں۔ فہیم بسملؔ صاحب کا مجموعہ کلام’’ سلسلے عقیدت کے‘‘ اس ذاتِ مقدس کی بارگاہِ بیکس پناہ میں نذرانۂ عقیدت ہے جو ہمارا ملجا و ماویٰ ہے دعا ہے کہ بسملؔ صاحب کا یہ نعتیہ شعری مجموعہ بارگاہ ایزدی میں قبولیت حاصل کرے اور ممدوحِ مکر م کی پسندیدگی کی سند حاصل ہو۔ آمین
٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے