کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال ترا

کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال ترا

الطاف حسین حالی



کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا
باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال ترا


ہے عارفوں کو حیرت اور منکروں کو سکتہ
ہر دل پہ چھا رہا ہے رعب جمال تیرا


گو حکم تیرے لاکھوں یاں ٹالتے رہے ہیں
لیکن ٹلا نہ ہرگز دل سے خیال تیرا


پھندے سے تیرے کیونکر جائے نکل کے کوئی
پھیلا ہوا ہے ہر سو عالم میں جال تیرا


ان کی نظر میں شوکت جچتی نہیں کسی کی
آنکھوں میں بس رہا ہے جنکے جلال تیرا


دل ہو کہ جان، تجھ سے کیونکر عزیز رکھیے
دل ہے سو چیز تیری، جاں ہے سو مال ترا


ہے پیر زال سے دل اس کا قوی زیادہ
رکھتی ہے آسرا یاں جو پیرزال تیرا


ہے پاس دوستوں کے تیری یہی نشانی
یا رب! کبھی نہ پائے زخم اندمال تیرا


بیگانگی میں حالی! یہ رنگِ آشنائی
سن سن کر سر دھنیں گے قال، اہل ِ حال تیرا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے