مرے رب نے مجھے بخشا سلیقہ نعت گوئی کا

مرے رب نے مجھے بخشا سلیقہ نعت گوئی کا

مرے رب نے مجھے بخشا سلیقہ نعت گوئی کا
نہیں ہے ورنہ کچھ آساں ثنائے مصطفیٰؐ لکھنا

وہ جب خورشیدِ عالم تاب نکلا نور برساتا
لپیٹا بوریہ بستر ضلالت نے، بشر جاگا

نرالی شان ہے اس کی، نہیں اس سا کوئی پیدا
وہ محبوبِ خدا، شمعِ ہدیٰ، وہ صاحبِ اسرا

ہے سیرت اس کی پاکیزہ، نہایت ارفع و اعلیٰ
کہا ہے عینِ قرآں عائشہؓ نے جس کو سرتاپا

تصوّر اس نے بخشا ربِّ واحد کی عبادت کا
مٹائی بت پرستی، پرچمِ توحید لہرایا

اسی کی سعیِ پیہم سے نظامِ حق ہوا برپا
عوام آ کر ہوئے داخل بہ دینِ اللہِ اَفواجا

بنی آدم کو اس نے وسعتِ فکر و نظر بخشی
دلوں کو نغمۂ وحدت سے اس نے خوب گرمایا

قدومِ میمنت سے مزرعِ ایماں کی زرخیزی
چمن دیں کا عرق ریزی سے اس کی ہی پھلا پھولا

فسادِ قلب کا تریاق، تعلیماتِ پاکیزہ
علاجِ دردِ انساں ہے ترا دینِ مبیں حقّا

تمام اطرافِ عالم میں اسی کا آج شہرہ ہے
تمام اطراف بجتا ہے اسی کے نام کا ڈنکا

قلوبِ زنگ خوردہ کو مجلّا کر دیا اس نے
زِ اَنوارِ حقیقت کر دیا ہے مثلِ آئینہ

جِلا ملتی ہے ایماں کو مِرے، اے قبلۂ ایماں
تری باتوں پہ جب کہتا ہوں آمَنّا و صدَّقنا

وہ گھل مِل کر ہی بیٹھا جب بھی بیٹھا ہم نشینوں میں
اُٹھا دی اس نے محفل سے تمیزِ بندہ و آقا

شفیعِ عاصیاں تو ہے، نظرؔ ہے بندۂ عاصی
شفاعت کی اسے تجھ سے بندھی امید ہے کیا کیا

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے