سلام​ مجرئی جوہرِ قرطاس و قلم کھلتے ہیں

سلام​ مجرئی جوہرِ قرطاس و قلم کھلتے ہیں

سلام
مجرئی جوہرِ قرطاس و قلم کھلتے ہیں
طبل بجتا ہے قلمرو میں عَلم کھلتے ہیں

آمدِ ماہِ محرم سے گھروں میں اپنے
درِ فردوس کی صورت درِ غم کھلتے ہیں

یہ بھی اسرارِ دعا برسرِ مجلس ہی کھلے
لب کھلیں یا نہ کھلیں بابِ کرم کھلتے ہیں

غنچہ و گُل بھی کوئی چشمِ عزا ہیں گویا
بند ہوتے ہیں جو بے آب تو نم کھلتے ہیں

شرحِ خونِ شہداء تشنہ ء مضموں ٹھہری
رنگ احساس کے الفاظ میں کم کھلتے ہیں

دل میں رستہ ہو تو اک شب کی مسافت ہے بہت
سر میں سودا ہو تو پھر نقشِ قدم کھلتے ہیں

رخصتِ حُر بھی عجب سلسلہء رخصت ہے
معنیء جستِ غزالاں پسِ رَم کھلتے ہیں

اک طرف جادہء رَے ایک طرف راہِ اجل
زیست کرنے کے سلیقے اُسی دَم کھلتے ہیں

دشتِ تنہائی ء شبیر سے تا شہرِ رسول
راہ کیا کھلتی ہے تاریخ کے خَم کھلتے ہیں

لشکرِ کم نظراں دیکھ سکوتِ اصغر
بے زبانی میں بھی اسلوبِ حشم کھلتے ہیں

ان بندھے ہاتھوں کو محتاجِ رسائی نہ سمجھ
انہیں ہاتھوں سے تو اسبابِ نعم کھلتے ہیں

ہم بھی کم مایہ نہیں ہم بھی انیسی ہیں نصیرؔ
کوئی ہم سا ہی مقابل ہو تو ہم کھلتے ہیں
نصیر ترابی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے