منظور تھا ذکر اُس رُخِ انور کی ضیا کا ہر ذرّہ اک آئینہ ہوا ارض و سما کا!!

منظور تھا ذکر اُس رُخِ انور کی ضیا کا ہر ذرّہ اک آئینہ ہوا ارض و سما کا!!

منظور تھا ذکر اُس رُخِ انور کی ضیا کا
ہر ذرّہ اک آئینہ ہوا ارض و سما کا!!
کل چہرۂ مہ تاب کو دیکھا تو یہ جانا
اک عکس ہے یہ آپ کے نقشِ کفِ پا کا
کیفیتِ انفاسِ معنبر کو جو سوچا
سو بار ہوا دل سے گزر موجِ صبا کا
سب سلسلے خوش بو کے چلے آپ کے در سے
مہکے گا ابد تک یہ چمن صدق و صفا کا
خلوت ہی نے جلوت کے دریچے سبھی کھولے
روشن ہے چراغ آج تلک کنجِ حرا کا
جاں آپ کی ہے مہبطِ انوارِ الٰہی
دل آپ کا ہے مرکزِ انوار، خدا کا
ہے منتظرِ لمسِ نظر آپ کے در پر
ہر ایک گلِ تازہ مرے نخلِ نوا کا
ہے غضِ بصر ضابطۂ خلقِ پیمبر
اک باب ہے یہ آپ کے آئینِ حیا کا
صد شکر ہمیں آپ کی اُمت میں بنایا
احسان و کرم خاص ہے یہ ربّ عُلا کا
رحمت نے اُسے نورِ ہدایت سے نوازا
اُٹھا جو قدم راہ روِ راہِ ہدیٰ کا!
مطلوب ہو جب رب کی رضا، سر کو جھکا دیں
اِس باب میں اُسوہ ہے یہ محبوبِ خدا کا
بازیچۂ اطفال بنی نعتِ پیمبر
میلاد بنا مشغلہ ہر نغمہ سرا کا
ق
اے وائے ستم، مدحِ نبی کو بھی مغنی
پہناتے ہیں ملبوس مزامیر و غنا کا!
٭٭
ہے راہ نما ہادئ عالم کی عزیمت
رُخ کیسے بدلنا ہے زمانے کی ہوا کا
یاں لطف و مدارات، وہاں اوجِ شجاعت
یہ محفلِ اصحاب، وہ میداں ہے وغا کا
تکمیلِ وفا، اصل میں تھی، فتح٭کی تمہید
تھا فرض جواب آلِ خزاعہ کی صدا کا
ظالم سے کسی طور وہ راضی نہیں ہوتے
شیوہ ہے ہمیشہ سے یہی اہلِ صفا کا
٭٭

ہے نعتِ پیمبر کا تقاضا کہ بہرحال
ہر قول اطاعت میں ڈھلے اہلِ نوا کا
لاتا ہے شفاعت کی بشارت کو جلو میں
آتا ہے لبِ شوق پہ جو حرف ثنا کا
دامانِ پیمبر سے جو وابستہ ہے احسنؔ
فتنوں سے ہے محفوظ وہ بندہ ہی خدا کا
حفیظ الرحمن احسن (لاہور)
٭۔ ۶ھ میں صلح حدیبیہ کے بعد بنوخزاعہ رسول اللہﷺ کے حلیف بن گئے تھے جب کہ بنوبکر قریش کے حلیف بنے۔ اِس قبیلہ نے بنوخزاعہ پر دست ستم دراز کیا اور اُن کے کچھ لوگوں کو حرم شریف میں بھی قتل کرنے سے باز نہ آئے۔ بنوخزاعہ کا ایک وفد حضورﷺ سے امداد کا طالب ہوا۔ چناںچہ حضورﷺ نے معاہدہ کی تنسیخ کرتے ہوئے مکہ پر لشکرکشی فرمائی، قریش نے شکست کھائی اور مکہ حضورﷺ کے زیرنگیں آگیا۔ بنوخزاعہ پر ظلم کا بھی اِزالہ ہوا۔ یہ معاہدے اور وعدے کی تکمیل تھی۔ (ح۔س۔ا)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے