ادب سے جو درِ سرکار پہ خمیدہ رہا وہ بعدِ مرگ بھی دُنیا میں برگزیدہ رہا

ادب سے جو درِ سرکار پہ خمیدہ رہا وہ بعدِ مرگ بھی دُنیا میں برگزیدہ رہا

ادب سے جو درِ سرکار پہ خمیدہ رہا
وہ بعدِ مرگ بھی دُنیا میں برگزیدہ رہا

درود خوانی کی لذت نے دی جو تنہائی
میں اپنے شہر میں نادیدہ و شنیدہ رہا

سکوں نواز ہوائیں حرم سے آنے لگیں
جو آتشںِ غمِ دوراں سے دل تپیدہ رہا

تمام رات حبیبِ خدا کی فرقت میں
مہ و نجوم کا ٹولہ بھی آبدیدہ رہا

تلاشِ نقشِ کفِ پائے مصطفی کی قسم
میں جب تلک رہا طیبہ میں سرخمیدہ رہا

دمِ اخیر جو ٹوٹی ہے ڈور سانسوں کی
شفیعِ حشر کا لب پر مِرے قصیدہ رہا

نبی کا طوقِ غلامی گلے میں ہے جس کے
وہ شخص قیدِ غمِ دہر سے رہیدہ رہا

میں اپنی ذات کی تکمیل معرفت کے لئے
ہجوم کم نظراںسے بہت کشیدہ رہا

وہ ذات جس سے قمرؔبھوک و پیاس ہار گئی
حُسین ساکہاں کوئی ستم رسیدہ رہا
مولانا قمر سلطان پوری (ممبئی۔بھارت)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے