کلام خاک سے کوئی نہ بحث نور سے ہے سحر نما ہے وہ نسبت جسے حضور سے ہے

کلام خاک سے کوئی نہ بحث نور سے ہے سحر نما ہے وہ نسبت جسے حضور سے ہے

کلام خاک سے کوئی نہ بحث نور سے ہے
سحر نما ہے وہ نسبت جسے حضور سے ہے

بلال ہو کہ اویس ارتکازِ رحمت میں
محبت اُن کی برابر قریب و دُور سے ہے

ملا ہے اُن کی عقیدت کا بوریا جس پر
دلِ غنی متمکن بڑے غرور سے ہے

ہماری چشمِ تصور میں اُن کی یادوں سے
وہ روشنی ہے جو موسوم برقِ طور سے ہے

غمِ جہاں کے تھپیڑوں سے ہو کے بے پروا
فضائے خلد میں جاں ذکرِ پُرسرور سے ہے

مصدق اُس کے ہیں انجیل اور قرآں بھی
سند روانہ جو توریت اور زبور سے ہے

مرے لبوں پہ بظاہر ہے ذکرِ دشتِ حجاز
مری مراد مگر حسن کے وفور سے ہے

سو کیسے شان کے شایاں ہو کوئی شعر شہابؔ
مقام اُن کا ورا سرحدِ شعور سے ہے
شہاب صفدر (راول پنڈی)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے