سیّد صبیح رحمانی کی نعت شناسی

سیّد صبیح رحمانی کی نعت شناسی

پروفیسر محمد اکرم رضا۔ گوجرانوالہ



سیّد صبیح رحمانی کی نعت شناسی

سیّد صبیح رحمانی کا شمار ان خوش بختوں میں ہوتا ہے جنھیں فکر و شعور کی پختگی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی حضور رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعریف و توصیف کی تجلیت کے وفور سے ذہن و قلم کے ضوبار ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ افکار کی گہرائیاں انھیں لامتناہی عالمِ نور میں پروانہ وار بڑھنے کا حوصلہ بخشتی ہیں۔ آہستہ آہستہ رحمتِ کونین اور سرورِ کائنات کا حصارِ نور اپنے وجود میں کھو جانے کا حوصلہ عطا کرنے لگتا ہے۔ مدحتِ حضورﷺ سے گلزارِ ترنگ کی کلیاں چنتے ہوئے انھیں ناممکناتِ دہر پر ممکناتِ وقت کی کشادگی کا گمان ہونے لگتا ہے۔ مگر اس گمان کی جلوہ ریزی عارضی نہیں بلکہ حسنِ دوام کا رنگ ان کے ظاہر و باطن کو ہر آن نئی فکری توانائی بخشتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کی تمام حسیات بیدار اور وہم و خیال کا ہر گوشہ بختِ رسا کا علم بردار محسوس ہوتا ہے۔
سیّد صبیح رحمانی کو خوش بختیوں کا یہ گل دستہ اتفاقاً نصیب نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے انھیں شب و روز کا گداز بارگاہِ رسولﷺ میں نذر کرنا پڑا۔ ابھی عمر نے کوئی خاص سفر بھی نہیں کیا تھا کہ کراچی کے نعتیہ ماحول میں ایمان آفریں لَے کا مظاہرہ کرتے ہوئے نعت خوانوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا اور ان کی نعتیں پڑھتے پڑھتے انھیں یک لخت یوں محسوس ہوا جیسے نعت خواں صبیح رحمانی کے باطن کے خول میں دراڑیں پڑھ رہی ہیں اور اندر سے ایک نعت گو شاعر طلوع ہونے کے لیے بے قرار ہے۔ جب تقدیر کے ستاروں کی جنبش کو صبیح رحمانی کی نعت گوئی منظور ہو تو گزرے ہوئے خاموش اور کم گو ماضی سے ایسا ہی ہنگامہ پرور، حکمت آزما، بلند عزم اور جمالِ نعت کو حاصلِ حیات سمجھنے والا عہدِحاضر کا صبیح رحمانی منصہ شہود پر اُبھرے گا۔ اسی کیف و سرور کو اپنے دل و جان میں بسائے مستقبل کے ستاروں کی چمک سے آباد صبیح رحمانی معروف نقادِ نعت اور نام ور شاعر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے ہاں جا پہنچا جو اسے شاید پہچانتے بھی نہیں تھے۔ مدعا زبان پر لائے کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو نعت سنانا چاہتا ہوں (اپنی نہیں کسی اور کی) ایک نعت سے کئی نعتوں کا مرحلہ طے ہوگیا تو عرض کیا کہ اب میں آپ کو اپنی نعت سنانا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب چونکے اور فرمایا کہ سُنا دو۔ انھوں نے ایک ہی وقت میں تیرافگنی کا خوب مظاہرہ کیا۔ پہلے نعت گوئی منوالی اور پھر اپنی نعت کی داد پالی۔ وہ دن اور آج کا دن صبیح رحمانی کا قلم اور زبان دونوں رُکنے کا نام نہیں لیتے۔ اشہب قلم کی روانی اگرچہ کم رفتار سہی مگر خوب تر ٹھہری۔ نئے جزیرے دریافت ہوئے۔ کراچی جو کہ پہلے ہی نعت کے زمزموں سے گونج رہا تھا اس میں نئے نئے پودوں کی پنیری کاشت کی تاکہ کراچی کی مرکزیت ہر لحاظ سے مسلم ہوجائے۔ اب صبیح رحمانی کے حوصلوں میں غیرمعمولی فراخی، فروغِ نعت کے حوالے سے نئی جودت، مستقبل شناس فکر میں نئی گہرائی اپنی جگہ بنا چکی تھی۔ اس لیے آگے بڑھتے گئے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا کہ کہیں میں پتھر کا نہ ہوجائوں۔ یہ تو خود تیشۂ قلم سے کھیلنے والا تھا۔ اس جادہ پیما کے قدموں کی رفتار تیز سے تیز ہوتی گئی اور کراچی کو مرکز بناکر پاک و ہند میں فروغ و اشاعتِ نعت کے وہ جھنڈے گاڑے کہ ہر طرف سے مبارک باد و تحسین کے غلغلے بلند ہوتے گئے۔ اوسط قد کے صبیح رحمانی نے ہمالہ پر کمندیں ڈال دیں اور کامیاب و کامران رہا۔ یہیں سے ’’نعت رنگ‘‘ کا وہ سلسلہ شروع کردیا جس نے اغیار کو پریشان اور اپنوں کو فرطِ مسرت سے حیران کردیا۔ یہاں احساس ہوتا ہے کہ یہ سرخروئی عین توفیقِ خداوندی ہے۔ اگر یہ نہ کہیں تو پھر کیا کہیں۔




کیا فکر کی جولانی کیا عرضِ ہنرمندی
توصیفِ پیمبر ہے توفیقِ خداوندی
صبیح رحمانی کے ساتھ بھی یہی زادِ سفر تھا۔ توصیف جب توفیقِ خداوندی بن کر ان کے باطن میں ظہور پزیر ہوئی تو فروغ و اشاعتِ نعت کے تصور نے جنم لیا۔ یہ مدھم سا احساس ایک چنگاری سے الائو کی صورت اختیار کرگیا اور اس مردِ باخدا نے ’’نعت رنگ‘‘ کے عنوان سے ایک شمعِ نور فروزاں کردی جس کی ضو سے پاک و ہند کے بے شمار کو رنجتوں کو عشق و عقیدتِ حضور کا سلیقہ عطا ہوا۔ اس مجلہ کے دوسرے شمارے میں انھوںنے ہر قسم کی جھجک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ُکھل کر اظہارِ خیال کیا۔
حیرت اور دُکھ تو اس بات کا ہے کہ آج بھی نعت کو دوسرے درجے کی صنفِ سخن سمجھ کر اس پر سرسری گفتگو ہورہی ہے۔ حالاںکہ اس عہد کا نعتیہ ادب اتنا ہی زندہ اور متحرک ہے جتنا کہ دوسری اصنافِ ادب۔ آج کا نعت گو مکمل طورپر آگہی رکھتا ہے اور کربِ ذات سے مسائلِ کائنات تک غور کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انسانیت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سیرتِ اطہر کو بے چین اور سکون کی طالب دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے کہ یہی راستہ ہے جو نسلِ انسانی کی بقا اور فلاح کا راستہ ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ادبی تناظر میں نعتیہ ادب کا مطالعہ اس صنفِ سخن کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پورے ادب کے ساتھ انصاف کے مترادف ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے نقاد اس گراں پایہ نعتیہ سرمائے کو انتقاد کی کسوٹی پر رکھ کر اس کے معنوی اور فنی پہلوئوں کو دیکھیں اور اس میں ہیئت کے تجربوں اور تازہ کاری کے رجحان پر نظر رکھ کر اس کی صحیح قدر و قیمت کا تعین کریں۔٭۱





’’نعت رنگ‘‘ کی تمام اشاعتیں اور صبیح رحمانی کی ادبی ریاضت اس حقیقت کی شاہد ہیں کہ انھوں نے اس ابتدائیہ میں جس عزم اور پیغام کا اظہار کیا ہے آج تک اس پر قائم ہیں بلکہ آج تو یہ عالم ہے کہ ۱۹۹۵ء کا یہ پودا ایک نخلِ تناور کا رُوپ اختیار کرچکا ہے۔ صبیح رحمانی کی طویل اور مختصر تحریروں اور اشاعتی ذمہ داریوں نے ان کی آواز کو برِصغیر کے نعت شناسوں کی آواز بنا دیا ہے۔ ’’نعت رنگ‘‘ کی صورت میں صبیح رحمانی نے جو پودا گلشنِ نعت کی زینت بنایا تھا وہ بہت جلد فروغِ نعت و مدحت سے ایک زمانے کے مشامِ فکر کو معنبر کرنے لگا۔ سیّد صبیح رحمانی نے فروغ و اشاعتِ نعت کی حقیقی رُوح تک رسائی حاصل کی اور تنقید و تحقیقِ نعت کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اور نظم و نثر کے ممتاز اصحابِ فکر قلم کاروں اور نعت کے حوالے سے تحقیق و جستجو میں مصروف مضمون نگاروں کو ’’نعت رنگ‘‘ کے پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے لگے۔ صبیح رحمانی کے ذوقِ نعت شناسی نے پہچان لیا کہ رسائل و جرائد کے ہجوم میں کوئی طرحِ نو ایجاد کرنا پڑے گی۔ اس میں وہ بہت جلد کامیاب ہوگئے اور پاک و ہند کے بلند فکر ناخدایانِ سخن کو ’’نعت رنگ‘‘ کی لڑی میں پرو دیا۔ یہاں نام گنوانا مقصود نہیں فقط اس امر کو اجاگر کرنا ہے جن نقادوں اور قلم کاروں کا ذوقِ ادب اس مجلے کی زینت بنا وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ہوکر رہ گئے۔ ’’نعت رنگ‘‘ کی جلوہ سامانی اور صبیح رحمانی کی مستقل مزاجی نے ان کی نعت شناسی کو قبولیتِ عام کی سند عطا کردی۔ سیّد صبیح رحمانی نے فروغِ نعت کے حوالے سے دوسروں سے لکھوایا ہی نہیں بلکہ خود بھی بہت کچھ لکھا کیوںکہ ہر نیک عمل کا آغاز گھر سے ہی ہونا چاہیے۔ نعتیہ کتب کے دیباچے، افتتاحی مضامین، تقاریظ کے علاوہ نعت کے حوالے سے مختلف موضوعات پر بھی قلم اُٹھایا اور خوب اُٹھایا۔ ایک طائرانہ نظر ہم ان کے نعتیہ مضامین پر ڈالتے ہیں۔
مجلہ نعت کے اوّلین شمارے میں نعتیہ شاعری میں ہائیکو کی روایت کے حوالے سے ان کے مضمون سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صبیح رحمانی ہر پہلو سے کسی طرح فروغِ نعت کے عصری تقاضوں سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں۔ ہائیکو کا جائزہ لیتے ہوئے نعت کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:





پاکستان میں علمی تحقیقی اور تخلیقی سرگرمیاں قرآن، حدیث، تفسیر اور سیرتِ نبویﷺ پر آواز دیا کرتی ہیں اور جہاں تک شعری سرگرمیوں کا تعلق ہے نعت گوئی مقبول سے مقبول تر ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تعارف کے پہلے ہی مرحلے پر ہائیکو کہنے والے شعرا نے اسے نعت کے زمزموں سے ہم کنار کرنے کی سعی کی ہے۔ ہائیکو نعتوں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ان شعرا نے ہائیکو کے ایمانی اظہار سے فائدہ اُٹھاکر سرورِ کونینﷺ کی مدح سرائی میں اپنی عقیدت مندی اور اخلاص کا اظہار ایک نئے انداز سے کیا ہے۔ ان ہائیکو نعتوں میں جس جامع اشاریت اور بلیغ زمزیت کا احساس موجود ہے وہ ہائیکو کی محاکائی فضا کو مزید تقویت بخشتا ہے۔٭۲
’’نعت رنگ‘‘ کے دوسرے شمارے میں ان کا ایک اور مضمون بھی شائع ہوا ہے۔ عنوان ہے ’’دبستانِ کراچی کی نعتیہ شاعری‘‘۔ اس مضمون میں انھوں نے تاریخی تسلسل کے ساتھ نہایت معلوماتی پیرائے میں کراچی کے دبستانِ شاعری کی نعتیہ کاوشوں کا جائزہ لیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
نعت یقینا حصولِ ثواب اور نجاتِ اُخروی کا وسیلہ ہے۔ لیکن بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ آج نعت گوئی حسین کلام کی بھی آخری منزل کے درجے تک پہنچ چکی ہے۔ بات یہ ہے کہ وہ ذاتِ گرامی جو حسن، جمال، کمال اور توازن کی آخری مثال ہے جس نے گفتگو و کلام کے آداب متعین فرمائے۔ اس کا ذکر بھی ذکر کرنے والوں کے کلام کو اسی کے قائم کردہ معیار کے مطابق بنا دیتا ہے۔٭۳




کسی بھی نعت گو کی ادبی وسعتوں کا اندازہ اس کے فکری حدودِ اربعہ کا تعین کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ صبیح رحمانی کی نعت شناسی کی اٹھان فکر و فن کا شکوہ لیے ہوئے ہے۔ جُوں جُوں آگے بڑھتے ہیں ان کی ادبی وسعتوں کے نئے نئے گوشے سامنے آجاتے ہیں۔ انھوں نے نعت گوئی کے لیے ہر رنگ اور ہر پہلو اختیار کیا۔ لہٰذا ان کی نعت شناسی کے لیے بھی ان تمام زاویوں کو دیکھنا پڑتا ہے جن سے وہ دوچار ہوئے۔ غزل، نظم، قطعہ بند، ہائیکو، سانیٹ سمیت انھوںنے کتنے ہی زاویوں کو جلابخشی ہے۔ اس لیے ان کی نعت شناسی کا مطالعہ ان تمام زاویوں پر ایک نظر دوڑانے کا پیغام دیتا ہے۔ انھوںنے تمام اسالیب کو نعت کے سانچے میں ڈھالا اور بڑے احسن طریقے سے ڈھالا۔ گورنمنٹ کالج شاہدرہ کے اوّل مجلہ ’’اوج‘‘ کے نعت نمبروں (۱۹۹۲ء) میں ان کے مضامین اور ’’نعت رنگ‘‘ میں ان کی تحریروں سے ان کی نعت شناسی کے کتنے ہی گوشے سامنے آنے لگتے ہیں۔
صبیح رحمانی نے نعت میں تحقیق و تنقید کا محض پرچم ہی نہیں لہرایا بلکہ اس کے لیے مدتوں ادبی ریاضت کی ہے۔ مختلف نثری اور شعری نعتیہ کتب پر اُن کے دیباچے اور تقاریظ اس حقیقت کے گواہ ہیں۔ انھوںنے تذکرہ نویسی کے حوالے سے بڑے احسن انداز سے لکھا ہے:




تذکرہ نگاری ہماری ادبی روایت کا قابلِ احترام حصہ ہے۔ اگر غور کریں تو تذکرہ نگاری نہ تو پوری طرح تاریخ نویسی کا فن ہے اور نہ مکمل طور پر شعری تنقید کا حصہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے۔ تذکرہ نگاری دراصل ہمارے ذوقِ شعری کی آئینہ داری اور ہمارے مزاج کی ایک جیتی جاگتی تصویر کا نام ہے اور اس طرح سے تاریخِ ادب و شعر سے الگ ایک منفرد فن کی حیثیت رکھتی ہے۔٭۴
اس وقت ہمارے پیشِ نظر صبیح رحمانی کی تذکرہ نگاری کے حوالے سے کئی تحریریں ان کی فکری محاکمہ نگاری کا پیغام دیتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ ہم فقط ان کی ایک تفریظ سے اقتباس پیش کررہے ہیں:
یہ ایک ایسا ادبی انتخاب ہے جو ہماری شاعرات کی نئی نسلوں کا آئینہ دار بن کر ہمارے سامنے آیا ہے۔ اس کے مطالعے سے جہاں ہمیں اپنی شاعرات کی پاکیزہ عقیدتوں کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ وہیں ان کی شعری صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں غوث میاں نے خالص تحقیقی انداز میں خواتین کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے ہونے والے کاموں کا جائزہ لیا جس سے کتاب کی افادیت میں کئی گُنا اضافہ ہوگیا ہے۔٭۵





صبیح رحمانی کی نعت شناسی کی خوش بو بے شمار دلوں کی دھڑکنوں میں آباد ہوچکی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم تنقیداتِ نعت پر ان کی قلمی جدوجہد کا سلسلہ آگے کو بڑھائیں ہم ایک نظر ان کی نعتیہ شاعری پر ڈالنا ضروری ہے۔ اچھا نقاد وہی ہوسکتا ہے جس کا ذہن شعری وسعت سامانیوں سے ہم آہنگ ہو۔ ہم نے ایسے متشاعر بھی دیکھے ہیں جو ایک شعر بھی ڈھنگ کا نہ کہہ سکے اور جب نام کمانے کے لیے تنقید کے میدان میں آئے تو یہاں بھی خائب و خاسر رہے۔ بحمدللہ صبیح رحمانی ایسے بلندپایہ سخن ورہیں جن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ آپ محض اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ اچھے نعت خواں بھی ہیں۔ ان کا کلام انھی کی زبان سے سُنتے ہیں تو دل و دماغ مسحور ہوجاتے ہیں۔ آج ان کی متعدد نعتیں زبان زد عام ہیں۔ آپ خود نہ بھی پڑھیں تو جگہ جگہ منعقد ہونے والی محافلِ نعت میں آپ کا ارمغانِ عقیدت آپ کی عدم موجودگی کے باوجود آپ کی موجودگی کا سامان بخش رہا ہوتا ہے۔ آپ کے نعتیہ کلام کی مترنم بحریں اپنے جاودانی حسن کا احساس بخشتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ یہ رتبہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے کہ ان کی زندگی ہی میں ان کا کلام اپنی عظمت کا احساس بخش رہا ہو۔ صبیح رحمانی کی نعتیہ اڑان از خود ان کی نعت شناسی کا جائزہ لینے کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ فروغِ نعت کے حوالے سے ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
لب پہ نعتِ پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
میرے نبی سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
پست وہ کیسے ہوسکتا ہے جس کو حق نے بلند کیا
دونوں جہاں میں ان کا چرچا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
بتلا دو گستاخِ نبی کو غیرتِ مسلم زندہ ہے
ان پر مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے





اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اَن مٹ وابستگی اور کبھی ختم نہ ہونے والی پیوستگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کا قلم عشق و عقیدت کی خوش بوئے صد رنگ میں کھو جاتا ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:
کوئی مثل مصطفیؐ کا کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا
کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا
کسی وہم نے صدا دی کوئی آپ کا مماثل
نو یقین کار اُٹھا، کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا
مرے طاقِ جاں میں نسبت کے چراغ جل رہے ہیں
مجھے خوف تیرگی کا کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا
ریاض حسین چودھری صبیح رحمانی کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
صبیح رحمانی الفاظ کا چنائو بڑی احتیاط سے کرتے ہیں۔ جذبوں کو بے لگام نہیں ہونے دیتے اور جدت طرازی کے شوق میں فن کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کی نعت میں سُبک ندی کا ٹھہرائو اور دھیماپن ہے۔ صبیح رحمانی کی نعت ہوائے تازہ کا ایک خُنک جھونکا ہے۔ ان کی نعت وادیٔ جاں میں تازہ کاری کی ایک خوب صورت مثال ہے۔ صبیح رحمانی نے الفاظ کو معانی کے نئے پیراہن عطا کرنے کی شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر سعی کی ہے۔٭۶
ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کی فکر صبیح رحمانی کی شعری سرفرازیوں کا یوں اظہار کرتی ہے:



صبیح رحمانی کی شاعری جو تمام تر حصارِ نعت میں ہے، کے دو حوالے نمایاں ہیں۔ اعتماد اور عجز۔ یہ بظاہر متصادم اوصاف ہیں مگر شاعر کی ادب شناسی اور قلبی استقلال نے ان کو یک جا کردیا ہے۔ ذاتِ ممدوح کی عظمتوں اور رفعتوں کا شعور اور دراقدس کی فیض بخشیوں کا ایقان اسے اعتماد عطا کرتا ہے، جب کہ مدح نگاری کی نزاکتوں کا احساس اور اپنی کم مائیگی کا اعتراف اسے سراپا نیاز بنا دیتا ہے۔٭۷
صبیح رحمانی کی نعت نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے بجا طور پر احساس ہوتا ہے کہ انھوںنے فکری بلند پروازی کو فقط ایک یا دو آشیانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ وہ تو کسی بھی آشیانے کو اپنی منزل قرار نہیں دیتے بلکہ شاہین شہِ لولاکﷺ بن کر فقط گنبدِ خضریٰ کی رُوحانی منزل کی جانب اپنے ارتقائی سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انھیں اس ضمن میں ہرگام پر یہ احساس دامن گیر ہے کہ اس بارگاہِ معلیٰ القاب تک رسائی کے ضمن میں کسی فکری تساہل یا نظریاتی کج روی کا شکار نہ ہوجائیں۔ یہی احساس انھیں پلکوں کو عقیدت کے آنسوئوں سے باوضو رکھنے کا ڈھنگ عطا کرتا ہے۔ ان کی نعت شناسی کے ضمن میں درج ذیل اشعار پیش نظر ہیں:
لو ختم ہوا طیبہ کا سفر دل و جد میں ہے جاں وجد میں ہے
ہے گنبدِ خضریٰ پیشِ نظر دل و جد میں ہے جاں وجد میں ہے
پڑھتی ہے فضا قرآن کرتا ہے وضو ایمان یہاں
اللہ غنی یہ کیف و اثر دل وجد میں ہے جاں وجد میں ہے
ایک کونے میں ہیں سر جھکائے ہوئے منھ چھپائے ہوئے
گردنیں ہیں کہ بارِ ندامت سے خم ہیں مواجہ یہ ہم
لمحے لمحے پہ آیات کا نور ہے نعت کا نُور ہے
نور افشاں دُرودی فضا دم بہ دم ہیں مواجہ پہ ہم
فرشتوں نے مری لوحِ عمل پر روشنی رکھ دی
ثنا خوانِ محمد لکھ دیا اوّل سے آخر تک





صبیح رحمانی نے نعت لکھتے ہوئے نعت کی عظمت و فضیلت کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ نعت دُرودی نغمہ ہے۔ لاہوتی فضائوں سے اُبھرنے والا نغمۂ نور ہے۔ نعت صرف شاعری نہیں بلکہ عین رحمتِ ربّ غفور ہے۔ انھیں نعت کہتے ہوئے بجا طور پر اپنی خوش بختی پر ناز ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ فکر بھی سانس کو روکے ہوئے ہے کہ کہیں نعت کہتے ہوئے فخر و مباہات کا جذبہ نعت کے حقیقی مقصود و مدعا سے دُور نہ لے جائے۔ صبیح رحمانی کی نعت اپنے اندر فکر و ادب کی بلند پروازی بھی رکھتی ہے، شعریت بھی اور وہ تمام داخلی لوازم بھی جو خارجی عوامل سے مل کر خوبصورت اور دل پزیر تخلیقی اسلوب بناتے ہیں۔ شاعر کی نعت شناسی ہمارے سامنے عشق و عقیدت کے بے شمار دریچے کھول دیتی ہے۔ ایسے دریچے جن پر عجز و انکسار نے سایہ کیا ہوا ہو۔ ہم ان اشعار پر صبیح رحمانی کی شعری نعت شناسی کے سفر کو تمام کرتے ہیں:
میں نے اس قرینے سے نعت شہ رقم کی ہے
شعر بعد میں لکھا، پہلے آنکھ نم کی ہے
ان کو سوچتے رہنا بھی تو اک عبادت ہے
اور یہ عبادت بھی ہم نے دم بہ دم کی ہے
میں غزل سے دُور آیا، جب سے یہ شعور آیا
نعتِ مصطفیٰ لکھنا، آبرو قلم کی ہے
اور جب شاعر نعت کو حسنِ عبادت سمجھ کر لکھ رہا ہو تو پھر یہ مقام اسے کیوں عطا نہ ہوگا۔
ملے مجھے بھی زبانِ بوصیری و جامی
مرا کلام بھی مقبولِ عام ہوجائے
مزا تو جب ہے فرشتے یہ قبر میں کہہ دیں
صبیح مدحتِ خیرالانام ہوجائے



صبیح رحمانی کی تنقید نگاری بھی عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ بلندیوں کی جانب مسلسل محوِ پرواز ہے۔ ہم نے نثر اور شاعری میں ان کے نعتیہ ذوقِ تحقیق کے حوالے سے تفصیلات سے جان بوجھ کر گریز کیا ہے۔ ورنہ ہر مقام پر ان کی نعت شناسی قلم کو تھام لیتی ہے اور مزید سخن آرائی کا تقاضا کرتی ہے۔ صبیح رحمانی ویسے بھی ایجاز و اختصار کا سہارا لیتا ہے۔ نظم ہو یا نثر بڑی بات کو چند جملوں میں ادا کردینا انتہائی دشوار ہوتا ہے مگر صبیح نے ان دشواریوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اختصار نویسی سے کام لیا ہے۔ تفصیلات سے ہٹ کر ہم ان کی تنقیدی تحریروں میں سے چند کے مختصر اقتباسات پیش کرتے ہیںـ:
توحید و رسالت میں حفظِ مراتب کا شعور اور اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے حمد و نعت کی تخلیق ایک ایسی خصوصیت تھی جو انھیں معاصر شعرا میں ممتاز کرتی تھی۔ ایسی خصوصیت کو حاصل کرلینا اس قدر مشکل نہیں ہوتا جتنا اس کو جلابخش انداز میں قائم رکھتا ہے۔٭۸
ایک اور نعتیہ مجموعے کے حوالے سے یوں ادب پیرا ہیں:
عارف قادری کو بھی مداحیٔ حضور کا شرف حاصل ہے اور میں بھی ایسے ہی غلاموں کی آخری صف میں شامل ہونے کی خوش گمانی میں مبتلا ہوں۔ انھوںنے بھی نعت خوانی سے نعت گوئی کا سفر اختیار کیا ہے اور میرا کاروانِ عقیدت بھی انھی مراحل سے گزرا ہے۔ انھوں نے بھی نعت گوئی کے ذریعے توشۂ آخرت جمع کرنے کی راہ نکالی ہے اور میں بھی اسی اُمید پر سانسیں گِن رہا ہوں۔٭۹




سیّد منظور الکونین پر لکھی گئی کتاب پر ان کا اظہار خیال دیکھییـ:
آج ہمارے کئی خوش فہم دوست عصرِ حاضر میں نعت خوانی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو نعت خوانی کے دورِ عروج سے تعبیر کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ لیکن حساس اور باشعور طبقہ اسے بجا طور پر نعت خوانی کا دورِ ابتدا سمجھتا ہے۔ شاہ صاحب بھی ایسے ہی طبقے میں شامل ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ نعت خوانی کے شعبے میں ناخواندگی کی شرح کے کم ہونے سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کے پیشِ نظر اس فن کو مقصدِ ادب اور اخلاص رکھنے والے شعورِ نعت سے بہرہ ور افراد تیار کیے جائیں۔٭۱۰
نعت و مدحت کے حوالے سے ایک اور کتاب پر ان کے اختصاریہ سے اقتباس:
انھوںنے عقیدت و ارادت سے مہکتی ہوئی نعتیں لکھی ہیں جن میں فنی رچائو بھی ہے اور پختگیٔ اسلوب کی کرشمہ آرائی بھی اور فن کے اسی دل کش و دل پزیر امتزاج نے ان کی نعت گوئی کو حسنِ عقیدت، پاکیزگی خیال اور جمالیاتی فکر کا نادر نمونہ بنا دیا ہے۔٭۱۱
ایک اور تنقیدی شہہ پارہ میں صبیح کی تحریر سے چند سطور پیشِ نظر ہیں:
نعت گو شعرا کی مقبولیت میں روحانی اسباب کا بہت دخل ہوتا ہے۔ نعتوں میں لفظ و بیان کا حسن اگر جذبے کی سچائی کے ساتھ جلوہ گر ہو تو اس کی پزیرائی ادبی سطح پر بھی ہوتی ہے اور اس حلقے میں بھی جہاں ذوق و شوق کی فراوانی اورعشق کی جولائی کا تموج روحانی طورپر محسوس کیاجاتاہے۔اقبال عظیم کا شمار اُردو کی نعتیہ روایت کے ایسے ہی شعراء میں ہوتا ہے۔٭۱۲



ان کے قلم سے ایک اور نعت گو شاعر کے فکری محاسن کا جائزہ ملاحظہ کیجیے۔ یہاں بھی ہم نے مختصر سے اقتباس کو نذرِ قارئین کیا ہے:
عزیز احسن کی نعت گوئی حُبِّ رسولﷺ سے لے کر سیرت و کردار اور تعلیمات و پیغامِ مصطفی کے تذکارِ مبارک کے مضامین سے آراستہ ہے۔ انھوںنے شعری طور پر محبت و شیفتگی کے اظہار کے ساتھ منصبِ نبوت اور پیغامِ رسالت کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔ اسی لیے ان کی نعت گوئی رسمی نہیں بلکہ حقیقی نعت گوئی کے میلانات سے عبارت ہے۔ ان کے ہاں شعر برائے شعر کہنے کا رجحان کم اور پیغام کی ترسیل کا جذبہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔٭۱۳
آپ نے صبیح رحمانی کی نعتیہ تنقید کے حوالے سے ان کی ادبی تگ و تاز ملاحظہ فرمائی۔ صبیح رحمانی کی نعتیہ تحقیق سے اقتباسات پیش کیے گئے۔ مقصود اس امر کا اظہار تھا کہ صبیح کس درجہ بلندفکر نعت گو ہیں۔ کیوںکہ فکر و ادب کی جولانیوں اور فنی تقاضوں سے بے بہرہ صاحبِ قلم کسی بھی نعت گو کے حوالے سے متوازن اور نتیجہ خیز رائے نہیں دے سکتا۔ صبیح رحمانی کی نعت شناسی کا جائزہ لینا ہو تو ایک پہلو ان کی نعتیہ تحقیق پر قلم فرسائی کا بھی ہے۔ نثری مجموعے ہوں یا نعتیہ دیوان، ان کی رائے ہر مقام پر برجستہ نظر آتی ہے۔ بعض تحقیقی نعتیہ کتب اور شخصیات پر بھی ان کی تحریریں قاری کے ذہن کو وسعت خیال عطا کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ نعت شناسی کا کمال ہے کہ صبیح کا قلم نعت (نثر، نظم) کے ہر مرحلۂشوق پر نئے سے نئے اسالیب اور فکری پیمانوں کا سہارا لے رہا ہے۔
ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی کی نعت شناسی کے حوالے سے اپنی مرتبہ کتاب ’’نعت نگر کا باسی‘‘ کے افتتاحی مضمون میں لکھتے ہیں:
اب کہ جب نعت کا پھریرا ہر چہار سمت اُڑ رہا ہے۔ اس مقدس صنف کی طرف وہ شعرا بھی مائل نظر آتے ہیں جو اس سے قبل نام نہاد ترقی پسندی کے دام فریب کا شکار تھے اور حمد و نعت کی شاعری کو شاعری ماننے کو بھی تیار نہیں تھے۔ تاہم یہ ایک اچھا شگون ہے کہ صبح کے بھولے شام کو گھر آگئے۔ تخلیقِ نعت کا چرچا تو عام ہوا لیکن نعت میں ادب شناسی، موضوع کی نزاکتوں کی تفہیم اور شعری جمالیات یا شعریات کی سمت نمائی کا عمل ’’نعت رنگ‘‘ کے اجراسے قبل اس سرعت سے آگے نہیںبڑھ سکاتھا۔کشفی صاحب نے نقدِنعت کی اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جب کہ ادب کے بہت سے سکہ بند نقاد تحسین نعت کے عمل میں شامل ہی نہیں ہوسکے۔٭۱۴




صبیح رحمانی کی نعت شناسی کا اندازہ ’’نعت رنگ‘‘ پر مختلف حوالوں سے لکھی گئی تحقیقی کتب سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ سب صبیح رحمانی کے شوقِ رندانہ ہی کی جلوہ گری ہے۔ ’’نعت رنگ اہلِ قلم کی نظر میں‘‘، ’’اشاریہ نعت رنگ‘‘، ’’فن اداریہ نویسی اور رنگِ نعت‘‘، ’’نعت رنگ میں شائع ہونے والی نعتیں‘‘ (وغیرہ وغیرہ) سمیت مجلہ ’’نعت رنگ‘‘ پر خوب کام ہوا ہے۔ اصحابِ تحقیق نے فکر انگیز انداز میں اپنی صلاحیتوں کے جواہر تراشے ہیں۔ دورِ حاضر میں فروغِ نعت کے لیے کی گئی کاوشوں کا اندازہ لگاتے ہوئے صبیح رحمانی نے جس طرح قلبی جذبات کا تحریری اظہار کیا ہے۔ اس سے فقط ایک اقتباس اصحاب فہم و شعور کی نذر ہے:
یہ سب بہت حوصلہ افزا ہے لیکن قابلِ اطمینان نہیں۔ گزشتہ صدی کے مجموعی ادبی کاموں کے تناظر میں نعت پر ہونے والے ان کاموں کی رفتار اور مقدار ہمیں نہ صرف بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ اکیسویں صدی میں فروغِ نعت کے حوالے سے ایک مربوط لائحہ عمل کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ فروغِ نعت کی یہ ساری انفرادی کاوشیں خوش آئند ہیں تاہم ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا ’’نعت‘‘ نے خود کو ایک صنفِ ادب کے طور پر تسلیم کروالیا ہے۔ اس سوال کا جواب ہمیں انفرادی طور پر اثبات میں اور اجتماعی یعنی اداروں کی سطح پر نفی میں ملتا ہے۔ آیا نعت اب تک ادبی صنف کا درجہ حاصل نہیں کرسکی یا پھر ان اداروں کے بالانشینوں میں اس صنف کا کوئی حقیقی نمائندہ موجود ہی نہیں۔٭۱۵



نعت شناسی کے حوالے سے صبیح رحمانی کی جملہ کاوشوں کا جائزہ لیں تو ’’نعت رنگ‘‘ کا مقام سب سے بلند نظر آتا ہے۔ ان کی نعت نگاری اپنی جگہ نعتیہ کتب کی اشاعت اپنی جگہ انھوں نے ’’نعت رنگ‘‘ کو تنقید و تحقیق کا فکری مینار بنا کر اس سے جو ثمرات حاصل کیے ہیں، وہی بالآخر ان کی تمام صلاحیتوں کا ارمغان بن گئے۔ نعت پر رسائل تو مختلف ادوار میں شائع ہوتے رہے اور ہوتے رہیںگے۔ نعتیہ کتب دیوان اور فنِ نعت سے متعلقہ کتب بھی شائع ہوتی رہیںگی۔ مگر ان میں اکثر کا شمار تذکرہ نگاری میں ہوتا ہے۔ ’’نعت رنگ‘‘ ادبی حسن سے ملبوس ہوکر اُبھرا اور تنقیدی و تحقیقی آشیانوں کی جانب محوِ پرواز ہوگیا۔ ایک دو شمارے تک تو اصحابِ قلم نے خاص توجہ ہی نہ دی اور یہی گمان کیا کہ دوچار شماروں کے بعد اس کی تنقیدی اُٹھان مدہم پڑجائے گی۔ مگر اصحابِ تحقیق یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ’’نعت رنگ‘‘ رُکنے یا رفتار مدھم کرنے سے ناآشنا تھا اور اس کی تنقیدی جدوجہد نئے سے نئے نقوش اُبھار رہی تھی جو منزل کی جانب اس کی ثابت قدمی کا سراغ دے رہے تھے۔
’’نعت رنگ‘‘ کے باہمت مدیر نے اپنی تحریروں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ ایک زمانے کو شریکِ سفر کرنے میں کامیاب رہا۔ آہستہ آہستہ اس کے تحقیقی چراغ برصغیر پاک و ہند کے درجنوں ادیبوں کے دلوں میں تواتر سے اُجالا کرنے لگے۔ کراچی سے ’’نعت رنگ‘‘ نعت شناسی کے نام پر نعتیہ تنقید کا علم لے کر اُبھرا اور کراچی، حیدرآباد، سرگودھا، لاہور، گوجرانوالہ سے ہوتا ہوا ہندوستان کے بہی خواہانِ ادب کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ صبیح رحمانی اکیلے سفر کرنے کا روادار نہیں بلکہ وہ تو ایک زمانہ ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ’’چھوٹا سا اک لڑکا ہوں پر کام کروںگا بڑے بڑے‘‘ کے مصداق یہ شاعرِ خوش نوا جواں عمری میں ہی ’’نعت رنگ‘‘ کے تنقیدی خدوخال سے بے شمار لکھاریوں کو ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ حالاںکہ یہ وہ سعادت ہے جو سن و شعور پر وقت کے صحرا کی گرد کی دبیز تَہ جمنے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔




صبیح رحمانی کی نعت شناسی نے تنقید و تحقیق کے نام پر خوب گُل کھلائے۔ صبیح رحمانی نے نعت لکھی اور لکھوائی۔ تنقید و تحقیق کو نعتیہ نثر اور شاعری کی چاشنی عطا کی۔ برصغیر پاک و ہند کے نام ور قلم کار اور نوآموز اہلِ نظر فرطِ شوق سے ادھر متوجہ ہوئے۔ نوآموزوں نے بزرگ اور بلند تر قلم کاروں سے اکتسابِ فیض کیا اور اُن میں سے بعض جلد ہی تحقیق کے میدان میں تیزی سے چلنے لگے۔ آج ’’نعت رنگ‘‘ صبیح رحمانی کا ہی ترجمان نہیں بلکہ اس کے پلیٹ فارم سے نئے نئے اسالیب تحقیق پر کام ہوا ہے۔ گمنام اور بلند بام شخصیات کو موضوعِ فکر بنایا جارہا ہے۔ تاریخ کی اوٹ میں پنہاں کتنی ہی شخصیات کی نعت شناسی پر کام ہورہا ہے اور اس بہانے صبیح رحمانی کی نعت شناسی ازخود اہلِ ادب کے دلوں پر اُجاگر ہورہی ہے۔
ایک اچھے نعت شناس کی طرح صبیح رحمانی بھی نعت و مدحت کے حوالے سے اپنے مقصد و مدّعا کو فراموش نہیں کرسکتے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب جیسی ’’فنا فی الغزل‘‘ شخصیت پر لکھتے ہوئے بھی انھیں نعت کے فکری تقاضوں کی بجاآوری کا خیال رہتا ہے جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ نعت کے حوالے سے کچھ لکھنا ان کے لیے دل سوزی اور فکر سامانی کا ذریعہ ہے۔ ملاحظہ ہو:



لیکن مقامِ حیرت ہے کہ غالبیات کے اس سرمائے میں ہمیں غالب کی نعت نگاری پر کوئی ٹھوس اور قابلِ قدر کام نظر نہیں آیا۔ ضمناً کسی مضمون میں اس عنوان سے تذکرہ ہوجانا کوئی قابلِ ذکر بات نہیں۔ حالاںکہ غالب کے کلام کی الہامی جہت کی طرف ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے بڑے پرزور انداز میں متوجہ کیا تھا اور الہام کا درجہ اسلامی معاشرے میں کسی نہ کسی انداز میں دین سے جڑا ہوا ہے۔ غالب نے باقاعدہ نعت نہیں کہی لیکن عجیب بات ہے کہ اُردو شعراء میں ایک رجحان غالب کی زمینوں میں نعت کہنے کا بھی پیدا ہوا جس میں ہند و پاک کے متعدد نامور شعرا نے حصہ لیا اور نعتیہ ادب کو مزید باثروت کیا۔ اس طرح کئی مجموعے صرف غالب کی زمینوں میں کہی گئی نعتوں کے منصہ شہود پر آگئے۔٭۱۶
اس دیباچہ کے اختتام پر صبیح رحمانی نہایت رعنائی فکر کے ساتھ یوں سخن پیرا ہیں:
چناںچہ باعثِ تخلیقِ کائناتﷺ کی توصیف و ثنا کا معاملہ اس خاک داں کے ایک منفرد اور اہم شاعر کے حوالے سے زیرِبحث لانا ہماری کوشش کی حد تک روا تھا، سو وہ ہم نے کردیکھی۔٭۱۷
’’نعت رنگ‘‘ اور صبیح رحمانی کے حوالے سے ایک اور تحریر سے درج ذیل سطور قابلِ توجہ ہیں:
سیّد صبیح رحمانی کی فکرِ تازہ اور ہمہ گیر سوچ کی بدولت نعت پر تنقید کا دائرہ پھیلا اور پھیلتا چلا گیا۔ ’’نعت رنگ‘‘ کو علمی و ادبی د نیا میں جو اعتبار حاصل ہوا ہے بقولِ صبیح رحمانی وہ اس لیے نہیں کہ یہ جریدہ ایک خاص موضوع سے متعلق ہے یا اس کا مقصد حُبِّ رسالتﷺ کی تبلیغ و ترویج ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نعتیہ ادب میں موجود برسوں کے تنقیدی جمود کو توڑنے اور اس پر ہونے والی گفتگو کو ایک خاص روایتی فضا سے نکال کر خالص ادبی و شعری معیارات کے تناظر اور شرعی مسلمات کی روشنی میں پرکھنے اور نعت کو ادبی سطح پر عام کرنے کی کوششوں کے سبب ہے۔٭۱۸
’’نعت رنگ‘‘ کا سب سے بڑا اعزاز تنقیداتِ نعت کو فروغ دینا ہے۔ اس ضمن میں ان کی کاوشیں ہر طبقۂ ادب کے نزدیک لائقِ تحسین ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے ہمیشہ مداومتِ عمل سے کام لیا ہے۔ یعنی جس طور پر تنقیدی شعور کو اُجاگر کرنے اور ادب کی فکری و فنی جہتوں کو نمود بخشنے کے کام کا آغاز کیا آج تک اس پر قائم ہیں۔ ہر فکری کم تری کے احساس سے بے نیاز ہوکر اور ہر غلط روش سے بے پروا ہوکر اپنے اشہبِ فکر کو منزلِ شوق کی جانب رواں دواں رکھنے کی کوشش کی ہے اسے ہمیشہ جذباتِ تحسین سے دیکھا جائے گا۔ ایک ممتاز نقاد کے لفظوں میںـ:

صبیح رحمانی کی محنت اور توجہ قابلِ تعریف ہے۔ انھوںنے اپنی استعداد سے بڑھ کر کاوش کی ہے اور اپنی ذات میں ایک ادارے کا کام کیا ہے۔ تنقیداتِ نعت میں ’’نعت رنگ‘‘ کی کارکردگی دیکھ کر ان کے لیے دل سے دُعا نکلتی ہے۔ ان کی محنت اور مختلف مسالک سے جڑے ہوئے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کے شائستہ رویوں کی قدر و قیمت کا وہی لوگ صحیح اندازہ کرسکتے ہیں جو تنقیدِ نعت جیسے نازک معاملات و مسائل سے جڑے ہوئے ہیں اور نعت کے فکری و فنی مسائل کے بارے میں مسلسل غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ کی ادبی میراث اور اب تک کی ادبی کارکردگی کا اندازہ ایک اور طرح بھی کیا جاسکتا ہے۔ آپ ایک لمحے کو سوچیے کہ اگر جریدے کا اجرا نہ ہوا ہوتا تو آج ہم تنقیداتِ نعت کی کن کن باریکیوں اور خوش سلیقگیوں سے محروم ہوتے۔٭۱۹
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ’’نعت رنگ‘‘ اور صبیح رحمانی آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ جس طرح تاج محل اور شاہ جہاں ایک دوسرے کی پہچان ہیں اسی طرح ’’نعت رنگ‘‘ صبیح رحمانی کے اُفقِ ادب سے جلوہ گر ہوا اور ان کا ترجمان بن گیا۔ ایک اقتباس دیکھیے:
عصرِ حاضر میں جب نعتیہ شاعری اپنے فن اور اسلوب کے اعتبار سے تخلیقی شاعری کا ایک معتبر حوالہ بن رہی ہے، ’’نعت رنگ‘‘ نے فکر و تنقید اور تحقیق دونوں کو یک جا کردیا ہے۔ نعتیہ ادب پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا رہا ہے لیکن ادبی حیثیت سے اس کا جائزہ بہت کم نظر آتا ہے۔ اگر کچھ کام ہوا بھی ہے تو وہ یک جا نہیں۔ اس اعتبار سے ’’نعت رنگ‘‘ کے شمارے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ نے قلیل عرصے میں اس قدر ٹھوس اور بنیادی مواد فراہم کیا ہے کہ اس کے مشمولات آئندہ نعت پر کام کرنے والوں کی حوالہ جاتی ضرورت بنیںگے۔٭۲۰




ذکر ہو رہا ہے ’’نعت رنگ‘‘ کی ادبی و تنقیدی جولانیوں کا اور ہر ایک پر یہ صورتِ حال واضح ہے کہ اس تاج محل کے پس پردہ صبیح رحمانی کی ادب افروزیاں کارفرما ہیں۔ ہم نے ’’نعت رنگ‘‘ کی ادبی جدوجہد اور صبیح رحمانی کے حوالے سے لکھا ہے ’’چھوٹا سا اِک لڑکا ہوں پر کام کروںگا بڑے بڑے‘‘ اسے ہماری جانب سے محض سخن گسترانہ بات نہ سمجھئے بلکہ اس کا پسِ منظر دیکھیے جو دلچسپ بھی ہے اور صبیح رحمانی کے ادبی خدوخال اور نعت شناسی کو ماپنے کا ایک پیمانہ بھی:
نعت ختم ہوئی۔ سب لوگ کچھ دیر خاموش رہے۔ یہ خاموشی حقیقی داد تھی۔ مقطع سے شاعر کا تخلص تو معلوم ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد کہا: ’’میاں یہ کس کی نعت ہے؟‘‘ میں نے پوچھا ’’میری ہی ہے‘‘ شرماتے ہوئے نعت گو نے جواب دیا۔ ’’آپ کا پورا نام؟‘‘ ’’صبیح رحمانی‘‘۔ ’’تم اتنے کم عمر ہو کہ خیال ہوا کہ کسی اور کی نعت ہے‘‘۔ ’’حضرت! میں اُنتیس برس کا ہوں۔‘‘ میں نے ایک بار پھر صبیح رحمانی کو غور سے دیکھا۔ سترہ اٹھارہ سال کا نظر آنے والا یہ نوجوان اپنے آپ کو اُنتیس سال کا کہہ رہا ہے۔ یہ تھا ’’جادۂ رحمت‘‘ کے شاعر صبیح رحمانی سے میرا تعارف۔ پھر صبیح رحمانی کبھی کبھی میرے پاس آنے لگے۔ صبیح رحمانی بھی اس جادہ پر اپنے سفر کا آغاز کرچکے ہیں۔ ان میں نشاطِ تخیل بھی ہے اور ذہن کی وہ وسعت بھی جو ایمان کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔٭۲۱





اس اقتباس سے یہ اندازہ لگانا ہے کہ اس کم عمر مگر جواں فکر ادیب نے فنی پختگی اور فکری سربلندی کی منزلیں کس تیزی سے طے کیں جو ایک زمانہ ہی اس کے ساتھ چل پڑا۔ سیّد صبیح رحمانی کی اور خوبیاں اپنی جگہ مگر ان کی جو خوبی انھیں ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے وہ نعت شناسی ہے۔ وہ نعت شناسی ہی ہے جس نے ان سے زبان زد عام ہونے والی نعتیں کہلوائیں۔ انھیں تنقیدی شعور عطا کیا۔ ایسا شعورِ نعت شناسی کہ اس کے اپنے تو اپنے تھے، ناقدین بھی شریکِ سفر ہوگئے۔ صبیح رحمانی نے فروغِ نعت کے لیے ہر پہلو آزمایا۔ ان کی نعت شناسی کا جادو ہر مقام پر سر چڑھ کر بولتا رہا۔ حتیٰ کہ خطوط کی اشاعت میں بھی متوازن اور مفید رویہ اپنانے کی سعی کی۔ صبیح رحمانی کی فکر کے حوالے سے درج ذیل سطور پیش ہیں:
ہم اس بات کی طرف بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ مقالہ نگاروں سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں۔ علاوہ ازیں اگر علم و ادب اور فنون کی دُنیا میں یہ اختلافات نہ ہوتے تو فکر و نظر کے بہت سے گوشے اپنے امکانات کے ساتھ ہمارے سامنے نہ آجاتے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ فکری اختلاف شخصی مخالفت نہ بننے پائے اور اختلاف کرتے ہوئے لہجے کی متانت اور اسلوب کی شرافت پیشِ نظر رہے۔٭۲۲




مجلہ ’’نعت رنگ‘‘ نے ابتدا میں تو اصحابِ علم کو کچھ پریشان کیا کیوںکہ انھیں تحقیق و تنقید کے حوالے سے نئی راہیں تراشنا تھیں۔ غیردریافت شدہ فکری جزیروں کے حدودِ اربعہ کو اہلِ نظر کے سامنے لانا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اصحابِ شوق نے ’’نعت رنگ‘‘ کے تحقیقی رویوں کو قبول کرلیا اور اسی راہ پر چل نکلے جدھر ’’نعت رنگ‘‘ کا اشارہ ہورہا تھا۔ یہ صبیح رحمانی کی نعت شناسی بھی ہے اور ’’نعت رنگ‘‘ کی ادبی بلاخیزی بھی۔ اس ضمن میں چند جملے نذرِ قارئین ہیں:
’’نعت رنگ‘‘ نے ثقہ و معتبر قلم کاروں کی توجہ نعت کی طرف مبذول کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ ’’نعت رنگ‘‘ ہی کا کرشمہ ہے کہ کئی ایک اربابِ علم کا نعت کے حوالے سے تحقیقی کام کتابی شکل میں محفوظ ہونے لگا ہے۔ نعتیہ ادب میں اس سُرعت سے تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی پیش رفت متحیر ُکن ہے اور اس کا سہرا ’’نعت رنگ‘‘ کے سر ہے۔٭۲۳
صبیح رحمانی کی نعت شناسی کا ایک قابلِ تحسین پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے تحقیق و جستجو کے حوالے سے کام کرنے والے ادیبوں اور نعت گوئی کی بہار بکھیرنے والے شعرا کو بعد از وصال فراموش نہیں کیا۔ انھوںنے تواتر کے ساتھ ان کار کنوں سے فکری ریاضت کروائی اور جب یہ اصحابِ نعت ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے تو صبیح رحمانی نے ’’نعت رنگ‘‘ کو ذریعۂ اظہار بناکر ان مرحومین کو پیشِ نظر رکھا۔ کسی کے لیے گوشۂ خاص وقف کیا تو کسی کا اختصار سے ذکر کردیا۔ کبھی ’’وفیات‘‘ تو کبھی گوشۂ رفتگاں کا عنوان قائم کرتے ہوئے ان کی سخن پیرائی کا تذکرہ ضرور کر ڈالا۔ انھوں نے نثر میں ایجاز و اختصار سے بھی کام لیا۔ جامعیت کو مختصر الفاظ میں سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی۔ بعض مقامات پر ان کے ان اختصاریوں پر نثرِ معریٰ یا خاکہ نگاری کا گمان گزرتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی تحریروں سے دو تین اقتباسات نذرِ قارئین ہیں تاکہ ادب پیمائوں کو ہماری گفتگو کی صداقت کا یقین ہوسکے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی کی بے وقت رحلت پر لکھتے ہیں:
آفتاب ڈوب گیا لیکن اس کا نور باقی ہے۔ پھول مرجھا گیا لیکن مہک کون مٹا سکتا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب نقوی اپنی ذات میں مکمل ادارہ تھے۔ ایک ایسا دارہ جس کی مساعیِ جمیلہ سے پوری اُردو دنیا میں نعتیہ ادب کے ذوق کا زبردست احیاء ہوا۔ ڈاکٹر نقوی نے اپنی صلاحیتوں اور خدمات کے سبب اپنی زندگی میں بھی عروج پایا اور مرنے کے بعد بھی وہ اسی بامِ عروج پر نظر آرہے ہیں ’’میں بعدِ مرگ بھی بزمِ وفا میں زندہ ہوں‘‘۔٭۲۴




حضرت حفیظ تائب کی بلند فکر شخصیت کے حوالے سے ان کے قلم سے اشک سامانی کا سامان دیکھیے:
آج ہم حیران ہیں کہ حفیظ تائب کا پُرساکس کو دیں۔ ان کی تعزیت کس سے کریں۔ مگر دوستو! ہمیں اندازِ نظر بدلنا ہے۔ ہم خدایانِ ذکرِ صاحب کوثر کو حفیظ تائب کا پُرسا دیتے ہیں۔ ہم اُردو نعت کے در و بام سے ان کی تعزیت کرتے ہیں۔ لیکن ایک آواز آرہی ہے کہ اس نقل مکانی پر ماتم کیسا؟ تعزیت کیسی؟ وہ زندگی میں بھی شہنشاہِ امم کی محفل کے حاضر باشوں میں تھے اور اب تو کوثر یہ ہاتھ میں لیے ہوئے صاحبِ کوثر کے حضور پہنچ گئے ہیں۔ اب وہ ہوںگے اور وہ شراب جس کے پینے کے بعد کبھی تشنگی محسوس نہیں ہوتی۔٭۲۵
ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی کے وصال پر ان کا اندازِ غم دیکھیے:
حقیقت یہ ہے کہ حضرت کے چلے جانے سے مجھ پر کھلا کہ یتیمی کس احساس کا نام ہے۔ دل کا کٹنا صرف محاورہ نہیں، بے سائباں ہونا صرف لفظ نہیں بلکہ ان کے پیچھے احساس کا اِک جہاں آباد ہے۔ حضرت کی شخصیت مجموعۂ کمالات تھی۔ ادب، لسانیات، خاکہ نگاری، شاعری، نعت گوئی، تنقید، سیرت نگاری وہ کون سا شعبہ تھا جہاں آپ نے اپنے کام سے اَن مٹ نقوش نہ چھوڑے ہوں۔٭۲۶


سیّد احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے یوں غم آفرینی کا مظاہرہ کرتے ہیں:
چند ستارے اوجھل ہوکر بھی اپنے نام اور کام کی اتنی روشنی چھوڑ گئے ہیں کہ وقت کی گرد اُن کے کارناموں کو دھندلانے میں ناکام رہے گی۔ احمد ندیم قاسمی ادب کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے۔ ان کے ہاں نعت ایک ایسی تخلیقی جہت پیدا کرتی ہوئی نظر آتی ہے جہاں حُسنِ موضوع، جذبے کی صداقت اور تاثیر ایسی اکائی میں ڈھل جاتے ہیں جس سے زندہ رہنے والی نعت وجود میں آتی ہے۔٭۲۷
مظفر وارثی کے حوالے سے ان کے تاثراتِ الم کا جائزہ لیجیے:
ان کی نعت گوئی نعتیہ ادب میں بیان کی تازگی، عشق کی سرشاری اور والہانہ پن میں ہمیشہ حوالہ بنی رہے گی۔ ان کی آواز کی مٹھاس اور مخصوص دل نشیں ترنم ان کی نعت کے وسیع تر ابلاغ میں معاونت کے ساتھ ساتھ مقبولیت میں اضافے کا باعث بنا۔ ان کی آواز میں نعتیہ نظمیں اور نعتیں اس قدر مقبول ہوئیں کہ حکومتی ایوانوں سے لے کر اسکولوں اور کالجوں تک ان کی گونج سُنائی دیتی تھی۔٭۲۸



اگر آج صبیح رحمانی اتنا کچھ کر پائے ہیں تو اس کا سبب نعت شناسی کا وہ لاہوتی جذبہ ہے جو قلب و ذہن کو روحانی لطافت، افکار کو عرفانی وسعت اور قلم کو نظریاتی وُسعت عطا کرتا ہے۔ صبیح رحمانی نے نعت شناسی کو اپنے جذبوں میں بسایا، فروغِ نعت کو اپنا مقصدِحیات بنایا، تحقیق و جستجو کو نشانِ منزل ٹھہرایا۔ یہ جذبے کی سچائی اور خلوص کی فراوانی تھی جس نے ہند و پاک کے مستند شعراء اور ناقدین کو صبیح کا گرویدہ بنا لیا۔ یہ ’’مسافر جادۂ رحمت‘‘ منزل کی جانب اکیلا ہی چلا تھا مگر اس کے لفظوں کا نظریاتی حُسن دلوں میں گھر کرتا گیا۔ یہ خلوص کی شدت ہی تھی کہ انھوں نے جس سے خطاب کیا اسی کو اپنا ہم آہنگ کرلیا۔ جو اصحابِ قلم اپنی خوبیوں کو دلوں کی گہرائیوں میں سموئے ہوئے بیٹھے تھے اور اس احساس سے لرزیدہ تھے کہ نعت شناسی اور نعتیہ تحقیق کے حوالے سے ان کے لکھے ہوئے جملے کہیں ان کے ادبی وقار کی پامالی کا باعث نہ بن جائیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ نے ان اصحابِ تحقیق کو لکھنے اور بولنے پر آمادہ کیا تو پھر ان کا قلم حقائق اور صداقتوں کے ستارے اس تیزی سے تراشنے لگا کہ قارئین دم بخود کہ کیا یہ وہی ادب آزما تھے جو اپنے اپنے گوشۂ عاقبت میں سمٹے ہوئے تھے۔
اس جذبے کو تگ و تاز اور لامکانی پرواز بخشنے کے لیے سیّد صبیح رحمانی سے کہیں زیادہ ان کی نعت شناسی کے پیغام عالم گیر نے زندگی آور کردار ادا کیا۔ آج زمانہ جانتا ہے کہ صبیح رحمانی صاحبِ ترتم نعت گو شاعر ہیں۔ صاحبِ اسلوب قلم کار اور نثرنگار ہیں۔ الفاظ و تراکیب اور حسنِ بیان کی مملکت کو انھوںنے بڑے احسن طریقے سے اپنے متاثرکن جذبات کا اسیر کر رکھا ہے۔ ان کی مدیرانہ چابک دستی ہند و پاک کے مدیرانِ باتدبیر کے لیے جگہ لائقِ تحسین ہے، مگر انھوںنے جس طور سے نعت کو پہچانا، اس کے مفہوم و مُدّعا کو لکھنے والوں کے دلوں میں اُتارا اس کی بدولت ان کی نعت شناسی ہمیشہ اصحابِ شعر و ادب سے سپاسِ عقیدت کی حق دار بنی رہے گی۔
خدائے قدوس ان کی ممدوحِ کائناتﷺ کی نعت و توصیف کے حوالے سے کی جانے والی کاوشوں کو زمانے بھر کے لیے نور بنائے رکھے۔ ایسی شمع نُور جس سے پھوٹتی ہوئی روشنی ہر لحظہ دلوں کو عقیدت آشنائی کے آداب بخشتی رہے گی۔ ہم صبیح رحمانی کی نعت شناسی کے حوالے سے زیرِنظر تحریر کا اختتام انھی کے ان اشعار پر کررہے ہیں:
قلم خوش بو کا ہو اور اس سے دل پر روشنی لکھوں
مجھے توفیق دے یا رب کہ میں نعت نبی لکھوں
قلم کی پیاس بجھتی ہی نہیں مدحِ محمد میں
میں کن لفظوں میں اپنا اعترافِ تشنگی لکھوں
جبینِ وقت پر حسّان و جامی کی طرح چمکوں
صبیح ان کی غلامی کو متاعِ زندگی لکھوں
آمین بحرمۃ سیّد المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام





مآخذ

٭۱۔ ابتدائیہ نعت رنگ ۲، صبیح رحمانی، کراچی دسمبر ۱۹۹۵ء
٭۲۔ نعت رنگ ۱، صبیح رحمانی، اقلیمِ نعت، کراچی
٭۳۔ نعت رنگ ۲، کراچی، دسمبر ۱۹۹۵ء
٭۴۔ بہرزماں بہر زیاں، نور محمد میرٹھی، ادارۂ فکرِ نو کراچی، ۲۰۰۶ء
٭۵۔ خواتین کی نعتیہ شاعری، غوث میاں، حضرت حسان بُک بینک پاکستان، ۲۰۰۲ء
٭۶۔ جادۂ رحمت کا مسافر، ریاض حسین چودھری، آفتاب اکیڈمی کراچی، ۲۰۰۱ء
٭۷۔ جادۂ رحمت کا مسافر، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، آفتاب اکیڈمی کراچی، ۲۰۰۱ء
٭۸۔ ممدوحِ خلائق، آفتاب کریمی، اقلیمِ نعت کراچی ۲۰۰۸ء
٭۹۔ بختِ رسا، محمد عارف قادری، المدینہ دارالاشاعت، اُردو بازار لاہور، ۲۰۰۸ء
٭۱۰۔ حضور و سرور، ارسلان احمد ارسل، اُردو بازار لاہور، ۲۰۱۱ء
٭۱۱۔ ارمغانِ حافظ، حافظ عبدالغفار حافظ، اقلیمِ نعت کراچی ۲۰۰۲ء
٭۱۲۔ زبورِ عجم، اقبال عظیم، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، ۲۰۱۰ء
٭۱۳۔ شہپرِ توفیق، عزیز احسن، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، ۲۰۰۹ء
٭۱۴۔ نعت نگر کا باسی، سیّد صبیح الدین رحمانی، اقلیمِ نعت کراچی، ۲۰۰۸ء
٭۱۵۔ فنِ اداریہ نویسی اور نعت رنگ، ڈاکٹر افضال احمد انور، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، ۲۰۱۰ء
٭۱۶۔ غالب اور ثنائے خواجہ، سیّد صبیح الدین رحمانی، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، ۲۰۰۹ء
٭۱۷۔ ایضاً
٭۱۸۔ ’’نعت رنگ‘‘ اہلِ علم کی نظر میں، ڈاکٹر شبیر احمد قادری، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، ۲۰۰۹ء
٭۱۹۔ نعت رنگ (ابتدائیہ) ڈاکٹر ریاض مجید، نعت رنگ ۲۲ کراچی، ستمبر ۲۰۱۱ء
٭۲۰۔ اشاریہ نعت رنگ، محمد سہیل شفیق، نعت ریسرچ سینٹر کراچی ۲۰۰۹ء
٭۲۱۔ نعت شناسی جادۂ رحمت کا مسافر، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، ۲۰۱۱ء
٭۲۲۔ نعت رنگ شمارہ ۴، کراچی، مئی ۱۹۹۷ء
٭۲۳۔ نعت رنگ ۱۶، قیصر نجفی، کراچی
٭۲۴۔ فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ، ڈاکٹر افضال احمد انور، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، مارچ ۲۰۱۰ء
٭۲۵۔ نعت رنگ ۱۷، سیّد صبیح رحمانی، کراچی، نومبر ۲۰۰۴ء
٭۲۶۔ ایضاً ٭۲۷۔ ایضاً
٭۲۸۔ مجلہ نعت رنگ، سیّد صبیح رحمانی، شمارہ ستمبر ۲۰۱۱ء، نعت ریسرچ سینٹر کراچی
{٭}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے