اُندلس میں نعتیہ شاعری کے محرکات و موضوعات

اُندلس میں نعتیہ شاعری کے محرکات و موضوعات

ڈاکٹر محمد شریف سیالوی۔ملتان


اُندلس میں نعتیہ شاعری کے
محرکات و موضوعات


ناقدین کا خیال ہے کہ اسلامی اندلس میں عربی ادب اور علوم دراصل مشرقی روایات ہی کا تسلسل ہیں۔٭۱ مختلف علوم مثلاً عربی نعت و ادب، صرف و نحو، شعر و بلاغت، قرأت و تفسیر، فقہ و تصوف اور فلسفہ و حکمت میں اسلامی دور کے اساطین علم و فن کی گہری چھاپ ہے۔٭۲ اندلسی علما نے حیرت انگیز حد تک مشرقی علوم کو اپنایا بلکہ ان میں معتدبہ اضافہ بھی کیا، مثلاً شعر میں روایتی اصنافِ سخن کے علاوہ نظم بدیع، موشحات اور اْجال تو صرف اہل اندلس کی اختراع ہیں۔٭۳ مذکورہ بالا اصناف اور ممتاز شعرا مثلاً ابن المعتز، ابن قزمان و غیرہا پر کئی تحقیقی مقالات لکھے جاچکے ہیں لیکن دینی ادب کے حوالے سے اندلس میں نعتیہ شاعری کے ارتقا اور محرکات و موضوعات پر کوئی مبسوط کام نہیں ہوا۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ عربی زبان و ادب میں نمایاں حصہ ان اندلسی علما کا ہے جو مشرقی اسلامی ممالک سے قرطبہ، شاطبہ، اشبیلیہ، مالقہ اور دیگر بلاد و امصار اندلس میں وارد ہوئے نیز یہ امر بھی حقیقت ہے کہ اندلسی علما کی خاصی تعداد نے مشرق میں واقع علمی مراکز سے بھرپور استفادہ کیا اور پھر ان ادبی اور علمی روایات کو اپنے ہاں متعارف کروایا۔٭۴
نعتیہ شاعری کے حوالے سے سب سے بڑا محرک تو ایمان بالرسول اور آپ کی محبت و اتباع ہے۔ بہ تقاضائے ایمان ہر مومن، پیغمبر اسلامﷺ کے حضور قلب و نگاہ فرشِ راہ کرنے کو تیار رہتا ہے اور جس شخص کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہو یہ کیوںکہ ہوسکتا ہے کہ وہ بارگاہِ رسالت میں ہدیۂ عقیدت پیش نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ صدرِ اسلام سے ہی یہ روایت حضور رسول پاکﷺ کے صحابہ سے آرہی ہے۔٭۵
البتہ فقہ و تصوف کے علما نے نعتیہ شاعری کو محبت و عقیدت کے علاوہ علم کا پیرایہ مہیا کیا، اندلس میں بھی علما، فقا اور صوفیا کا ایک جم غفیر ملتا ہے جنھوںنے یادِ رسولﷺ کے گل دستے سجا کر قلب و نظر کی تازگی کا اہتمام کیا، اس کارِخیر میں حکام، امرا اور سلاطین بھی پیچھے نہیں رہے۔ علامہ مقری نے ان محافل کا حال بڑی تفصیل سے پیش کیا۔٭۶
اندلسی نعتیہ شاعری میں موضوعات اور اسالیب کے لحاظ سے بڑا تنوع ہے۔ تشبیب سے قصیدے کا آغاز ہوتا ہے، کہیں وارداتِ قلبی کا بیان نمایاں ہے تو کہیں سراپا قدس کی تعریف و ثنا ہے، معجزات اور کمالاتِ مصطفوی کا تذکرہ بڑی عقیدت سے ہے۔ عروض و قوافی کی مناسبت سے قصیدہ بانت سعاد٭۷ کی تضمین اور وزن پر متعدد قصیدے نظم کیے گئے۔ توشیح، تخمیس اور تسدیس میں نعتیں لکھی گئیں، نظم بدیع میں ایسے قصائد ہیں جن میں قافیہ حروفِ ہجا کی ترتیب سے آتا ہے، کہیں قصیدے کے ہر بیت کے اوّل و آخر میں خاص حرفِ تہجی کا التزام کیا گیا۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں درود و سلام، شفاعت کی درخواست، خلفائے راشدین، صحابہ و اہل بیت علیہم الرضوان کے ساتھ تعلق خاطر نعت کے اہم اجزا تھے۔
ابو زکریا یحییٰ بن محمد بن خلدون (۷۸۰ھ) کا نعت گوئی میں خاص مقام تھا، وہ ذکر دیارِحبیب، فراق کی صورت میں عاشق کی کیفیات اور سوز و گداز نیز اپنی قلبی واردات کے ساتھ قصیدے کا آغاز کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔٭۸
ما علی الصب فی الھوی من جناح
أن یری حلف عبرۃ و افتضاح
و اذا ما المحب عیل اصطبارا
کیف یصغی الی نصیحۃ لاحی
ترجمہ : محبت میں عاشق کے لیے کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کے ساتھ آنسو اور رُسوائی دیکھے، عاشق جب بے صبرا ہو جائے تو وہ کیوںکر ملامت کرنے والے کی نصیحت پر کان دھرتا ہے۔
بارگاہِ نبوی میں گل ہائے عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کا اعتراف اور ربّ العزت کے حضور جذبۂ محبت رسول کو بطورِ وسیلہ پیش کرتے ہیں۔٭۹
و اخساری یوم القیامۃ ان لم
یغفر اللّٰہ زلتی و اجتراحی
لم اقدم وسیلۃ منہ الا
حب خیر الوریٰ الشفیع الماحی
ترجمہ : ہائے خسارہ ہے بروزِ قیامت اگر اللہ میری لغزش اور گناہ نہ بخش دے، میں بجز خیرالوریٰ شفیع و ماحی کی محبت کے کوئی وسیلۃ پیش نہیں کرسکتا۔
محبت رسول وسیلۂ نجات اور ذریعہ بخشش ہے۔ وادی آش کے عبداللہ بن عبدالعظیم النمیری اسی فکر کو یوں نظم کرتے ہیں۔٭۱۰
بعثت و دادی و اشتیاقی وسیلۃ
و انی فی باب الرجاء باسط کفا
و ان ذنوبی کالجبال رجاحۃ
و حبک یا مولای، ینسفھا نسفا
أخیرۃ خلق اللّٰہ شوقی اذا بنی
وکدت بحمل الشوق والحب ان افنی
صلاتی و تسلیمی علیک مردد
اجوز علی حد الصراط بہ خطفا
ترجمہ : میں نے اپنی محبت اور شوق کو بطور وسیلہ بھیج دیا، میں اس درِ اُمید پر اپنا ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں، اگرچہ میرے گناہ پہاڑ کی طرح بھاری ہیں لیکن میرے آقا آپ کی محبت انھیں ریزہ ریزہ کرسکتی ہے۔ اے مخلوق خدا میں سب سے بہتر! میرے شوق نے مجھے پگھلا دیا اور قریب ہے اس عشق و محبت میں فنا ہوجائوں، آپ پر بار بار اپنا درود و سلام پیش کرتا ہوں تاکہ پل صراط کی تیز دھار سے آنکھ جھپکنے میں گزر جائوں۔
وارداتِ قلبی اور جذباتِ محبت کی حسین تصویر عبدالعزیز علی الغرناطی کے ہاں ملتی ہے۔٭۱۱
القلب یعشق والمدامع تنطق
برح الخفاء فکل عضو منطق
ان کنت اکتم ما اکن من الجوی
فشحوب لونی فی الغرام مصدق
فلکم سترت عن الوجود محبتی
والدمع یفصح مایسر المنطق
فمتی نظرت فأنت موضع نظرتی
و متی نطقت فما یغیرک انطق
یا سائلی عن بعض کنہ صفاتہ
کل اللسان و کل عنہ المنطق
ترجمہ: دل محبت کناں ہے اور آنسو گویا ہیں، خفا ہٹ گیا اور ہر عضو بولنے لگ گیا، اگر میں مخفی عشق کو پوشیدہ بھی رکھتا تو محبت میں رنگت کی تبدیلی اس کی تصدیق کردیتی، کب تک میں اس محبت کو چھپا سکوںگا کیوںکہ آنسو اس پوشیدہ امر کا اظہار کردیتے ہیں، میں جب بھی دیکھتا ہوں میری نگاہوں کا مرکز آپ ہیں اور جب بولنا چاہوں تو آپ کے بغیر بول نہیں سکتا۔ مجھ سے آپ کی صفات کی حقیقت کے بارے میں پوچھنے والے سن لے کہ زبان و کلام آپ کی توصیف میں کند اور عاجز ہوجاتے ہیں۔
اثیرالدین ابو حیان محمد بن یوسف (متوفی ۷۴۵ھ) نے قصیدہ بانت سعاد کے وزن پر قصیدہ ترتیب دیا پہلا بیت یوں ہے۔٭۱۲
لا تعذلاہ فما ذوالحب معذول
العقل مختبل والقلب متبول
ترجمہ : عاشق کو ملامت نہ کرو عاشق کو ملامت نہیں کی جانا چاہیے اس لیے کہ اس کی عقل خراب ہے تو دل بیمار۔
اس طویل قصیدہ میں معجزاتِ رسول کا بیان ہے۔٭۱۳
و کم لہ معجزات غیرالقرآن أتی
فیہ تضافر منقول و معقول
فللرسول انشقاق البدر نشہدہ
کما لموسی انفلاق البحر منقول
و نبع ماء فرات من اناملہ
کالعین ثرت فما الھتان ما الفیل
وروی الخمیس و ھم زھاء سبعمئی
مع الرکاب فمشروب و محمول
و رد عین بکف جاء یحملھا
قتادۃ ولہ شکوی و تعویل
والجذع حسن الیہ حین فارقہ
حنین و لھا لھا المرؤم مثکول
و اشبع الکثر من قل الطعام و لم
یکن یمعرہ بالکثر تقلیل
و فی جراب ابی ھر عجائب کم
یمتاز منہ فمأکول و مبذول
العنکبوت بباب الغار قد نسجت
حتی کأن رداء منہ مسدول



Urdu Naat Lyrics

ترجمہ : قرآن کے علاوہ بھی آپ کے کئی معجزے ہیں جن پر نقلی اور عقلی روایات بکثرت ہیں، ہم دیکھتے ہیں رسول اللہ کے لیے شق بدر کا ایسا معجزہ ہے جیسے حضرت موسیٰ کے لیے سمندر کا پھٹ جانا منقول ہے۔ آپ کی انگلیوں سے گویا فرات کا پانی بہہ نکلا جیسے کوئی چشمہ زوردار طریقہ سے پھوٹ نکلے، ہتان اور نیل کی یہاں کیا حیثیت! سات سو سے زائد افراد پر مشتمل لشکر بمع اپنی سواریوں کے سیراب ہوا، پانی پیا بھی اور ضرورت کے لیے ساتھ بھی لے لیا گیا، حضرت قتادہ ہتھیلی پر اپنی آنکھ رکھ کر لائے تو اسے صحیح سلامت اپنی جگہ پر لوٹا دیا، ان کی فریاد اور بھروسا بھی تو آپ ہی پر تھا، کھجور کا تنا آپ کی جدائی اور شدید محبت میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اس لیے کہ آپ کی ذات سے مامتا کی سی محبت ہے۔ تھوڑے کھانے سے کئی افراد کو سیر کردیا، کھانے والوں کی کثرت کو یہ کم کھانا محروم اور بے توشہ کرنے والا نہ تھا، حضرت ابوہریرہ کے توشہ دان کے کتنے عجائب ہیں اس میں سے کھایا بھی جاتا ہے اور خرچ بھی کیا جاتا ہے، مکڑی غار کے دھانے پر جالا بن دیتی ہے گویا ایک چادر ہے جسے لٹکا دیا گیا ہو۔
بیانِ معجزات میں کئی اور نمونے بھی پیش کیے جاسکتے، بغرض اختصار ابوبکر احمد بن جزی کے قصیدے سے چند اشعار درج کیے جاتے ہیں، اس قصیدہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہر بیت کا عجز (دوسرا مصرع) امرائوالقیس٭۱۴ کے مشہور قصیدہ سے ماخوذ ہے۔ ملاحظہ ہو:٭۱۵
الم ترأن الطبیۃ استشفعت بہ
تمیل علیہ ھونۃ غیر مجفال
و قال لھا عودی فقالت لہ نعم
ولو قطعوا رأسی لدیک او صالی
و اضحی ابن حجش بالعسیب مقاتلا
و لیس بذی رمح و لیس بنبال
و حسبک من سوط الطفیل اضائۃ
کمصباح زیت فی قنادیل ذبال
ترجمہ : کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہرنی آپ سے سفارش کی درخواست کرتی ہے، بڑے آرام اور بے خوفی سے۔ آپ نے فرمایا لوٹ کر آجانا تو، اس نے کہا، ’’ہاں‘‘ اگرچہ آپ کے پاس وہ میرا سر اور سب جوڑ ہی کاٹ ڈالیں، ابن حجش کھجور کی شاخ سے ہی لڑنے لگے وہ نہ تو نیزے والے تھے اور نہ ہی تیر انداز، طفیل کی لاٹھی یوں روشنی دیتی ہے گویا قندیل میں رکھا ہوا زیتون کے تیل سے روشن بتی والا چراغ ہو۔
قدیم قصیدہ کے اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے دیارِ محبوب کی طرف جانے والے کو پیغام دینا، بارگاہِ محبوب کے آداب کی پاسداری پر تاکید اور عاشقِ دل فگار کی حالتِ زار بیان کرکے محبوب کی توجہ کا طالب ہونا اور اسی نوعیت کے دوسرے رجحانات کا اندلسی نعتیہ شاعری میں واضح اظہار ہوتا ہے، لسان الدین ابن الخطیب٭۱۶ کا قصیدہ جو انھوںنے سال ۷۶۳ھ کی محفل میلاد میں سنایا، چند ابیات یہ ہیں:٭۱۷


 
Urdu Naat Lyrics

نشدتک یا رکب الحجاز تضألت
لک الارض مہمااستعرض السھل وامتدا
اذا أنت شافھت الدیار بطیبۃ
و جئت بھا القبر المقدس واللحدا
و أنست نورا من جناب محمد
یجلی القلوب الغلف والاعین الرمدا
فتب عن بعید الدار فی ذلک الحمی
و اذ ربہ دمعا و عفر بہ خدا
و قل یا رسول اللّٰہ عبد تقاصرت
خطاہ و اضحی من احبتہ فردا
ترجمہ : اے حجاز کے سوار! زمین کے طویل و عریض میدان تمھارے لیے سکڑ جائیں، جب طیبہ کی سرزمین دیکھے اور وہاں اس قبرِ مقدس پر حاضر ہو تو بارگاہِ محمدیﷺ کے نور سے مانوس ہوجانا کیوںکہ یہ نور بند دلوں کو اور آشوب زدہ نگاہوں کو جِلا بخشتا ہے۔ اپنے گھر سے دُور اس پناہ گاہ میں رجوع کر، اپنے آنسو بہا اور خاک پاک اپنے رخسار پر ڈال دے، عرض کرنا یارسول اللہ ایک غلام ہے جس کے قدم چلنے سے قاصر ہیں اور وہ چاہنے والوں سے بچھڑ کر تنہا رہ گیا ہے۔
مدیح الرسول کی صنف میں لسان الدین ابن الخطیب کا کلیدی کرادر ہے، ان کی اولاد اور تلامذہ کی ایک کثیر تعداد کو نعتیہ شاعری میں درجۂ کمال حاصل تھا۔ یہ لوگ محض شاعر ہی نہ تھے بلکہ علومِ شریعت کے ماہر بھی تھے، اس لیے ان کے نعتیہ قصائد میں قرآن و سنت اور تاریخ و آثار کے حوالے ملتے ہیں، اندلس میں قاضی عیاض کی ’’کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفی‘‘ بڑی مقبول تھی، ہر خاص و عام اس کتاب کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتا، یہی وجہ ہے کہ نعتیہ قصائد کے مضامین کا سب سے بڑا ماخذ بھی یہی کتاب ہے۔ لسان الدین ابن الخطیب کے متعدد قصائد ہیں جو انھوںنے امرا و سلاطین کے زیراہتمام محافل میلاد میں پڑھے، ان کے قصائد میں مضامین کے اعتبار سے خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کے فضائل، محاسن، شمائل اور معجزات و کرامات کا بیان ان کی سیرت، تاریخ اور علومِ دینیہ سے آگہی کا عمدہ ثبوت ہے۔ ادبی اور اسلوبِ نگارش کے اعتبار سے وہ نظم و نثر ہر دو میں ایک دبستان اور روایت کے بانی ہیں۔ یومِ ولادتِ رسولﷺ پر ان کے قصیدے کے چند اشعار:٭۱۸



Urdu Naat Lyrics

لمولدک اھتز الوجود فاشرقت
قصور ببصری ضأت الھضب والوھدا
و من رعبہ الاوثان خرت مھابۃ
و من ھولہ ایوان کسری قد انھدا
رعی اللّٰہ منہ لیلۃ اطلع الھدی
علی الارض من آفاقھا القمر السعدا
ترجمہ : آپ کی ولادت سے کائنات جھوم اُٹھی، بصریٰ کے محلات تک روشنی پھیل گئی، بلندی و پستی چمک اُٹھی، آپ کے رعب سے بت اوندھے منھ گر پڑے اور آپ کے دبدبہ سے ایوانِ کسریٰ گر گیا، اس رات کی خیر ہو جس میں زمین پر بلندیوں سے ہدایت کا خوش بختی والا چاند طلوع ہوا۔
عبداللہ بن لسان الدین ابن الخطیب نے اپنے والد کی روایت کو برقرار رکھا، سال ۷۶۴ھ کی محفل میلاد میں نعتیہ قصیدہ پڑھا جس کا ایک شعر یوں ہے:٭۱۹
و اکرم بلیلۃ میلاد
علی کل وقت و عصر و جیل
محفل میلاد سال ۷۶۵ھ کے قصیدے میں سے چند اشعار ذیل میں ہیں:٭۲۰
للّٰہ مولدہ الذی انوارہ
صدعت ظلال للضلال بھیما
شرعت من التائید سیف ھدایۃ
اردت ظباہ فارسا والروما
ترجمہ : آپ کا یومِ ولادت تو اتنا عظیم ہے کہ اس دن کے انوار نے گم راہی کی سخت تاریکیوں کو پھاڑ ڈالا، تائیدِ الٰہی سے ہدایت کی ایسی تلوار سونت لی جس نے فارس و روم کو تباہ کردیا۔
یومِ ولادت سیّدالمرسلینﷺ کی مناسبت سے ابن الحیان کے نعتیہ قصائد اور بالخصوص صلوۃ و سلام اندلیس شاعری کے امتیازات و خصائص کا نمائندہ ہیں ملاحظہ ہو:٭۲۱
دنت النجوم الزھر یوم ولادتہ
و رأت حلیمۃ ایۃ السیادتہ
و تحدثت سعد بذکر سعادتہ
فتفاء لوا نعم الیتیم یتیما
صلوا علیہ و سلموا تسلیما
ترجمہ : آپ کی ولادت کے روز روشن ستارے قریب آگئے، حلیمہ نے آپ کی سیادت (سروری) کی نشانی دیکھ لی، سعدیہ نے اپنی خوش بختی کا تذکرہ کیا تو انھوںنے اسے نیک فال جانا اور کہا یہ یتیم بہت خوب ہے۔
درود و سلام پر مشتمل اکثر قصائد تخمیس کی نوع سے ہیں، ابواسحاق ابراہیم بن سہل الشبیلی٭۲۲ کا اس اسلوب میں قصیدہ میلادیہ ہے۔٭۲۳


 
Urdu Naat Lyrics

ابدی جبین أبیہ شاھد نورہ
سجعت بہ الکھان قبل ظہورہ
کالطیر غرد معربا بصفیرہ
عن وجہ اصباح یطل نسیما
صلوا علیہ و سلموا تسلیما
ترجمہ : آپ کے والد محترم کی پیشانی نے آپ کے نور کو ظاہر کیا، کاہنوں نے آپ کے ظہور سے قبل ہی اس نور کی توصیف کی، گویا پرندہ اپنی آواز سے اس طلوعِ صبح کی خبر دے رہا ہے جو بادِ نسیم کو اوپر سے جھانکتا ہے۔
اندلسی نعتیہ شاعری میں درود و سلام پر مبنی تخمیس کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ تقریباً ہر نعت گو شاعر نے اس اسلوب میں کلام موزوں کیا اور بدیع کے حوالے سے اس میں خوب جدت پیدا کی۔ مثلاً مالک بن المرحل مالقی کا ایک نعتیہ قصیدہ ہے ہر بند کو خاص حرفِ تہجی سے شروع کیا اور اسی پر ختم کیا اور پھر یہ قطعات حروفِ ہجا کی ترتیب کے ساتھ ہیں۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو۔٭۲۴
الف، اجل الانبیاء نبی
بضیائہ شمس النھار تضیئی
و بہ یؤمل محسن و مسیئی
فضلا من اللّٰہ العظیم عظیما
صلوا علیہ و سلموا تسلیما
قاف، قوافی النظم عنہ تضیق
أیطیقہ الانسان لیس یطیق
فالخلق فی التقصیر عنہ خلیق
ولو أنھم ملئوا الفضاء رقوما
صلوا علیہ و سلموا تسلیما
ترجمہ : الف: انبیا میں سے عظیم نبی جس کی چمک سے دن کا سورج چمک پاتا ہے، نیک و بد کی اُمید آپ ہی سے وابستہ ہے، آپ اللہ کی طرف سے فضل عظیم ہیں۔
قاف : قافیہ شعر آپ کے بارے تنگ دامن ہوجاتے ہیں، بھلا کوئی انسان آپ کے وصف و ثنا کا حق ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟ طاقت نہیں رکھتا، مخلوق آپ کے وصف سے عاجزی کے لائق ہے خواہ وہ کائنات کے صفحہ کو لکھنے سے بھر دے۔
طبقہ صوفیا میں سے ابن العریف متوفی ۵۳۶ھ کے نام مدح الرسولﷺ میں بہت نمایاں ہے۔ ’’مطالع الانوار و منابع الاسرار‘‘ کے چند آخری اشعار مطالعہ فرمایئے:٭۲۵
صلی الا لہ علی النبی اھادی
ماذت الارواح بالاجساد
صلی علیہ اللّٰہ ما ھمع الحیا
فسقی البلاد برائح أو غادی
صلی علی خیر الانام محمد
من خصہ بالنور و الارشاد
صلی الا لہ علی رسول خاتم
ختم النبوۃ بالکتاب الھادی
ترجمہ : اللہ کی طرف سے رحمت ہو نبی ھادی پر جب تک ارواح جسموں میں پناہ گزین ہیں۔ اللہ کی طرف سے رحمت ہو آپ پر جب تک موسلادھار بارش ہوتی رہے اور صبح و شام شہروں کو سیراب کرتی رہے۔
الہ کی طرف سے سلام ہو محمدﷺ پر جو خیرالانام ہیں اور جنھیں اللہ نے نور و ارشاد کے ساتھ خاص کردیا۔
اللہ کی طرف سے سلام ہو رسولﷺ خاتم پر کہ ہدایت والی کتاب دے کر آپ پر نبوت کو ختم کردیا۔
اسی طرح تسدیس میں محمد بن العفیف الحسنی الصفوی٭۲۶ کے علاوہ بہت سے شعرا نے قصائد نظم کیے۔
چوںکہ اس مضمون میں نعتیہ قصائد کے تفصیلی موضوعات اور ان کے شواہد کا احاطہ مقصود نہیں اس لیے اشارات اور منتخبات پر اکتفا کیا گیا، بایں ہمہ اس سرسری جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نعتیہ شاعری ایک خاص طبقہ میں روایت کا درجہ رکھتی ہے اس سے مراد صوفیا و صالحین اور ان کے معتقدین کا گروہ ہے۔ صوفیائے اندلس میں سے شیخ محی الدین ابن عربیؒ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ میں ہزاروں اشعار بارگاہِ رسالتﷺ میں نذر کرتے ہیں۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو۔٭۲۷
الا بابی من کان ملکا و سیدا
و آدم بین الماء والطین واقف
فذاک الرسول الا بطحی محمد
لہ فی العلا مجد تلید و طارف
اذا رام امرا لایکون خلافہ
و لیس لذاک الامر فی الکون صارف


 
Urdu Naat Lyrics

 

ترجمہ : میرے ماں باپ قربان اس شاہ اور سردار پر جو اس وقت بھی تھا جب آدم پانی اور گارے میں تھے۔
محمدﷺ بطحا کے والی اور وہ عظیم رسولﷺ ہیں جن کی بزرگی قدیم موروثی بھی ہے اور نئی بھی۔
جب وہ کسی امر کا ارادہ کرلیتے ہیں، تو اس کے خلاف نہیں ہوسکتا، کائنات میں کوئی اس امر سے آپ کو پھیر نہیں سکتا۔
یا حبذا المسجد من مسجد
و جبذا لہ الروضۃ من مشھد
و حبذا طیبۃ من بلدۃ
فیھا ضریح المصطفی احمد
صلی علیہ اللّٰہ من سید
لولاہ لم نفلح ولم نھتد
ترجمہ : مسجدوں میں سے مسجد نبوی خوب ہے اور زیارت گاہوں میں سے روضہ رسولﷺ خوب ہے، شہروں میں طیبہ خوب ہے جس میں احمد مصطفیﷺ کی قبر انور ہے۔ اس سرورِ کائنات پر اللہ کی رحمت ہو، وہ نہ ہوتے تو نہ ہم فلاح پاتے اور نہ ہدایت۔
موضوعات مدح الرسولﷺ کی نسبت سے اندلسی نعتیہ شاعری کا ایک اور پہلو بھی سامنے آتا ہے وہ یہ کہ آپ کی ذات والا صفات سے محبت اور تعظیم کے ساتھ ساتھ آپ کے متعلقات بھی لائق تعظیم و احترام اور ذریعۂ برکت گردانے جاتے۔ اس پس منظر میں نقش نعل پاک کی برکت کو والہانہ انداز میں نظم کیا گیا۔ اس موضوع پر مقری کی ایک مستقل تالیف ’’فتح المتعال فی مدح النعال‘‘ سے ایک اندلسی خاتون کے قصیدے کے چند ابیات بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔٭۲۸
سالثم المتمثال اذا لم اجد
للثم نعل المصطفی من سبیل
لعلنی احظی بتقبیلہ
فی جنۃ الفردوس اسنی مقیل
ترجمہ : اگر مصطفی کے نعل پاک کو چہرے پر رکھنے کی کوئی صورت نہ بنی تو میں اس کے نقش پاک ہی کو اپنے چہرے پر رکھوںگی تاکہ مجھے اس کے چومنے کی برکت سے جنت الفردوس میں بلند ٹھکانہ نصیب ہو۔
عربی زبان کے علاوہ موریسکی اور اسپانوی زبانوں میں بھی یہ صنف شاعر منتقل ہوئی۔ عیسیٰ بن جابر کے قصائد مدحیہ میں سے چند ابیات کا عربی ترجمہ پیش خدمت ہے۔٭۲۹
یا ربنا، صل علیہ
و اشملنا بحبک معہ
و اخرجنا فی جماعتہ
فی رحاب محمد
یا حبیبی یا محمد
والصلاۃ علی محمد
و من یرد حسن المآل
و بلوغ المقام العالی
فلیکثر فی ظلام اللیالی
من الصلاۃ علی محمد
یا حبیبی یا محمد
والصلاۃ علی محمد
اسپانوی زبان واقعہ اسرا و معراج کے ساتھ ڈانٹے کی "Paradise Lost" (ڈانٹے کی کتاب کا اصل نام ’’ڈوائن کومیڈی (Divine Comedy)‘‘ ہے۔ ادارہ) کو اتنی مناسبت ہے کہ اس رائے کے قائم کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ مذکور بالا کتاب کا اصلی ماخذ اسلامی ادب ہے۔٭۳۰
حواشی و مراجع
٭۱۔ تیارات النقد الأدبی فی اندلس، ص۱۱، د، مصطفی علیان عبدالرحیم مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۸۶ء
٭۲۔ تفصیل دیکھیے مقدمۃ ابن خلدوق، عبدالرحمن بن محمد بن خلدون، متوفی ۸۰۸ھ، صفحات ۴۳۷۔۵۱۳، منشورات الاعلمی للمطبوعات، بیروت بلا تاریخ ظہرالاسلام، احمد امین المصری: ۳/۸۲۔۹۸، دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان ۱۹۶۹ء
٭۳۔ موشح کی لغوی اور اصلاحی تحقیق دیکھیے، تاج العروس، ۲/۲۴۶، مقدمہ ابن خلدون، ص۵۸۳۔۵۸۸، تاریخ آداب العرب للرافعی : ۳/۱۶۰، تاریخ الفکر الاندلسی، ص۱۴۳، ’’زجل‘‘ دیکھیے تاریخ الفکر الاندلسی، ص۱۴۳، الزجل فی الاندلس، ہ، عبدالعزیز الاھوانی، نفح الطیب : ۹/۲۲۸، تاریخ النقد الادبی عند العرب، ص۵۰۸، ۱، احسان عباس، دارالثقافۃ، بیروت ۱۹۸۶ء، ظہرالاسلام: ۳/۱۸۷، ۱۹۱۔۲۰۳
٭۴۔ نفح الطیب، احمد المقری : الباب الخامس والباب السادس، تاریخ الادب الاندلسی (عصر سیادۃ قرطبہ)، ص۱۱، دارالثقافۃ، ۱۹۶۹ء، ظہرالاسلام: ۳/۵۶۔۶۳، ۱۰۶، ۲۲۔۲۷
٭۵۔ کتاب الاغانی، ابو الفرج الاصفہانی : اخبار حسان بن ثابت، ۴/۱۳۷۔۱۴۰، مؤسسۃ جمال للطباعۃ، والنشر، بیروت بلاتاریخ۔
٭۶۔ نفح الطیب، احمد مقری : ۹/۲۱۳۔۲۱۵
٭۷۔ کعب بن زہیر کا مشہور قصیدہ ہے اس کا پہلا بیت ہے۔
بانت سماد فقلبی الیوم مبتول متیم اثر ھالم یفسد مکبول
٭۸۔ المجموعۃ النبھانیۃ فی المدائح النبویۃ، یوسف النبھانی : ۱/۶۰۱، مطبعۃ المعارف، بیروت، ۱۳۲۰ھ
٭۹۔ المجموعۃ النبھانیۃ فی المدائح النبویۃ، یوسف النبھانی : ۱/۶۰۲، مطبعۃ المعارف، بیروت، ۱۳۲۰ھ
٭۱۰۔ المجموعۃ النبھانیۃ فی المدائح النبویۃ، یوسف النبھانی : ۲/۳۸۵، مطبعۃ المعارف، بیروت، ۱۳۲۰ھ
٭۱۱۔ المجموعۃ النبھانیۃ فی المدائح النبویۃ، یوسف النبھانی : ۲/۴۴۹، مطبعۃ المعارف، بیروت، ۱۳۲۰ھ
٭۱۲۔ المجموعۃ النبھانیۃ فی المدائح النبویۃ، یوسف النبھانی : ۵۲، مطبعۃ المعارف، بیروت، ۱۳۲۰ھ
٭۱۳۔ المجموعۃ النبھانیۃ فی المدائح النبویۃ : ۳/۵۲



Urdu Naat Lyrics

٭۱۴۔ امرئوالقیس جاھلی شعرا میں سے ہے۔ معلقات میں پہلا قصیدہ اسی کا ہے۔ یہاں جس قصیدے سے اقتباس ہے وہ معلقات میں شامل نہیں۔
٭۱۵۔ المجموعۃ النبھانیۃ : ۳۲۸۔۳۲۹
٭۱۶۔ مقری نے اپنی کتاب نفح الطیب کی آخری جلد میں لسان الدین بن الخطیب اور ان کے تلامذہ کی علمی و ادبی خدمات پر مفصل لکھا۔ وہ بلوشہ میں پیدا ہوئے، غرناطہ میں پروان چڑھے، وزارت کے عہدے پر فائز رہے، کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وفات ۷۷۶ھ میں ہوئی۔ معجم المؤلفین : ۱۰/۲۱۶
٭۱۷۔ المجموعۃ النبھانیۃ : ۲/۳۸
٭۱۸۔ المجموعۃ النبھانیۃ : ۲/۴۱
٭۱۹۔ المجموعۃ النبھانیۃ : ۳/۳۵۱
٭۲۰۔ المجموعۃ النبھانیۃ : ۴/۹۷
٭۲۱۔ نفح الطیب : ۱۰/۲۹۰
٭۲۲۔ ابراہیم بن سہل الاسرائیلی (متوفی ۶۴۹ھ) کا شمار ادبا و شعرا میں ہوتا ہے۔ پہلے یہودی تھے پھر مسلمان ہوئے، مدح رسولﷺ میں کئی شعر کہے۔ معجم المؤلفین : ۱/۳۷
٭۲۳۔ نفح الطیب : ۱۰/۲۹۹
٭۲۴۔ نفح الطیب : ۱۰/۳۰۷، ۳۰۸
٭۲۵۔ نفح الطیب : ۱۰/۳۴۵
٭۲۶۔ نفح الطیب : ۱۰/۳۴۱
٭۲۷۔ الفتوحات المکیۃ : الشیخ الاکبر محی الدین ابن عربی الطائی (دارالکتب العربیۃ الکبری، مصر)
٭۲۸۔ فتح المتعال فی مدح النعال، احمد المقری، ص۲۷۳، طبعہ أولی، دائرہ معارف نظامیہ، ۱۳۳۴ھ
اس موضوع پر اندلسی شعرا کا کلام اسی کتاب کے صفحات ۲۶۷ اور ۲۷۶ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
٭۲۹۔ تاریخ الفکر الاندلسی، مترجم حسین مؤنس، ص۵۱۶، ۵۱۷، طبعہ اولیٰ، مکتبہ النہضۃ المصریۃ، ۱۹۵۵ء
٭۳۰۔ تاریخ الفکر الاندلسی، مترجم حسین مؤنس، ص۵۵۱، ۵۷۳، طبعہ اولیٰ، مکتبہ النہضۃ المصریۃ، ۱۹۵۵ء
{٭}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے