سرِ فاراں اے خوشا وہ صبح جس کو

سرِ فاراں اے خوشا وہ صبح جس کو

سرِ فاراں


 

اے خوشا وہ صبح جس کو
ساری صبحوں پر تفوق ہے نصیب
کوہِ فاراں کی فلک پیما بلندی سے ہوئی تھی آشکار
اور ہوا تھا جلوہ آرا
آفتابِ آفتاب
دامنِ جاں میں لیے وہ روشنی
جو اُجالوں کی ازل سے
تا ابد بنیاد ہے
اے خوشا وہ صبح اک دن
جو سرِ فاراں مجسم ہوگئی تھی
اور جب گویا ہوئی تو
حق نوائی کے جھڑے تھے
پھول جن کی خوش بوئوں کے
قافلے، اس روشنی کا لے کے پرچم چل پڑے تھے
تاکہ قرنوں
سے اندھیروں میں بھٹکتی
آدمیّت کو نشانِ رہ ملے
منزل ملے
قیصر نجفی (کراچی)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے