جو درِ سرکار سے ناآشنا رہ جائے گا در بدر کی خاک وہ پھر چھانتا رہ جائے گا

جو درِ سرکار سے ناآشنا رہ جائے گا در بدر کی خاک وہ پھر چھانتا رہ جائے گا

جو درِ سرکار سے ناآشنا رہ جائے گا
در بدر کی خاک وہ پھر چھانتا رہ جائے گا
یہ مشیت تھی کہ اک شب عبد اور معبود میں
دو کمانوں سے بھی کم کا فاصلہ رہ جائے گا
کیا خبر تھی اُن کے در پر دم بخود ہوجائیں گے
لب پہ آتے آتے حرفِ مدعا رہ جائے گا
چیز ہی ایسی ہے نعتِ مصطفیٰ کی چاشنی
بعد مرنے کے بھی ہونٹوں پر مزا رہ جائے گا
دولتِ حبِ شہِ کونین ہے کل کائنات
گر یہ دولت لٹ گئی تو اور کیا رہ جائے گا
آج بھی دنیا میں ہیں ایسے غلامانِ نبی
کوئی قدسی دیکھ لے تو دیکھتا رہ جائے گا
روزِ محشر کام آئے گی نبی کی پیروی
اور جو کچھ ہے وہ دنیا میں دھرا رہ جائے گا
دیکھنا مٹ کر رہیں گے ایک دن سارے نقوش
اک محمد مصطفیٰ کا نقشِ پا رہ جائے گا
کیا نہ آئے گا پیامِ حاضری اس بار بھی
کیا پھر اب کے سال بھی یہ بے نوا رہ جائے گا

چھوڑ بیٹھا دامنِ سرکار اے حافظؔ اگر
یہ بتا ناداں ترے ہاتھوں میں کیا رہ جائے گا
حافظ عبدالغفار حافظ (کراچی)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے