عزیزاحسن کی نعت شناسی

عزیزاحسن کی نعت شناسی

پروفیسر محمد اکرم رضا۔ گوجرنوالہ


عزیزاحسن کی نعت شناسی


عزیزاحسن کا شمار ان ممتاز اہلِ قلم میں ہوتا ہے جو اپنے فکر آموز قلم کی نوک سے تحقیق و تنقید سے لے کر شاعری سے ہر بھرپور جذبہ کشید کرنا جانتے ہیں۔ یہ انسان کے اپنے بس کی بات نہیں بلکہ ربّ دوعالم کی عطائے خاص ہے۔ جو گنگ جذبوں کو قوتِ گویائی اور زندگی کی حرارت سے معدوم لفظوں کو مسیحائی کی قوت عطا کرتا ہے۔ عزیزاحسن ممتاز انشاپرداز، صاحبِ ذوق شاعر، بلند ہمت محقق اور نقاد ہیں۔ چند برس پیش تر ان کے جذبات قلم کی جنبشوں کو اپنی خاموشی کے حصار میں لیے ہوئے تھے مگر جب طبیعت کو جولانی اور ذہن کی تحقیقی صلاحیتوں کو منصہ شہود پر آنے کا موقع ملا تو بلند رُتبہ ادب آزما بن گئے۔ آج ایک زمانہ ان کی ہمت مردانہ پر کمندِ شوق ڈالنے کا آرزومند ہے۔ عزیزاحسن ہر آزمائش میں سرخرو اور ادب پیمائی کی ہر کٹھنائی میں محوِ تحقیق نظر آئے۔ یہ جذبۂ سربلند جب اُن کے بطنِ افکار سے طلوع ہوا تو اُس کی روشنی سے انشائے لطیف کے کتنے ہی شہ پارے زندگی بخش تب و تاب پانے لگے۔ یہ مرحلۂ شوق اب پہلے سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ محوِ سفر ہے۔
ڈاکٹر سیّد محمدابوالخیرکشفی مرحوم کا ان کے متعلق کہنا ہے:

عزیزاحسن اس قافلے کے اوّلین راہیوں میں سے ایک ہیں جن کو ان کی محنت، مطالعے اور ذوق نے اس قافلے کے سالاروں میں شامل کردیا ہے۔ عزیزاحسن کے مضامین میں نعت کے فنی تقاضوں، اُسلوب کے مسئلوں، موضوع کے مطالبوں اور دوسرے تخلیقی پہلوئوں کا جائزہ بڑی وضاحت کے ساتھ ملتا ہے۔ وہ خالص ادبی نقطئہ نظر سے نعت کا مطالعہ کرتے ہیں اور فقہی خارزاروں میں الجھ کر اپنے دامن کو تار تار نہیں ہونے دیتے۔ عزیزاحسن نے نعت کا تخلیقی مطالعہ کیا ہے۔ وہ نعت گو شعرا کے فہرست ساز نہیں۔٭۱
ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا رائے عزیزاحسن کی نعتیہ تنقید اور نعت شناسی کے حوالے سے قائم کی گئی ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے دیکھیں، عزیزاحسن کی نعتیہ تنقید نہ تو معاندانہ ہے اور نہ ہی مخالفانہ۔ انھیں نعت کے حوالے سے ہر گام پر یہی احساس ہے کہ وہ عام انسان کے حوالے سے نہیں بلکہ ممدوحِ آدم و بنی آدمﷺ کے حوالے سے لکھ رہے ہیں۔ انھیں اس شخصیت کا ادبی مقام بھی ملحوظ ہے جس کی نعت اور نعت کے حوالے سے ادبی کاوش کو انھوںنے موضوعِ تحریر قرار دیا ہے مگر سب سے زیادہ انھیں مدحت نگاری کی عظمتوں کا احساس ہے کہ کہیں مطلوبہ شخصیت کی خامیاں نکالتے ہوئے وہ نعت یا نعت نگاری کی بے ادبی و توہین کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔ بات شخصیت مذکورہ کی نہیں بلکہ اصل بات تو اس صفتِ خاص کی ہے جس نے اس شاعر کو بلندبختی عطا کردی ہے۔ محققِ نعت کا کام محض عیب جوئی یا نقص نکالنا نہیں ہے۔ یہ کام تو ادنیٰ سے ادنیٰ ناقد بھی کرسکتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ تنقید نعت کا حق بھی ادا ہوجائے اور کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا گمان تک نہ ہو۔ نعت کے حوالے سے ان کی قرآن حکیم اور احادیثِ رسول پرگہری نظر ہے۔ انھوںنے تاریخِ اسلام اور دوسرے مذاہب کی تاریخ کو خوب خوب پڑھا ہے۔ مسلم مؤرّخین اور محققین کو تو لینا ہی تھا، عزیزاحسن نے غیرمسلم تنقید نگاروں کی کاوشوں کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بلندسوچ، بالغ نظری اور فکری فضائے بے کرانہ کسی قوم کی اجارہ داری ہی نہیں ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

مائوزے تنگ ایک دہریہ ہے مگر عوامی سطح پر اپنے پیغام کا ابلاغ بھی چاہتا ہے اور اس کا معیار بھی بلند کرنے کا خواہش مند ہے۔ میں حضورﷺ کے علاوہ کائنات میں کسی کو بھی فصیح اللسان نہیں سمجھتا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر زبان کے اہلِ زبان کچھ نہ کچھ یعنی ضرورت کی حد تک فصیح ہوتے ہیں۔ اردو کا مزاج عربی جیسا نہ سہی لیکن اس زبان کے بھی فصاحت کے معیارات مقرر ہوتے ہیں۔ اس لیے نعتیہ شاعری کا شوق رکھنے والوں کو کچھ نہ کچھ فصاحت کا خیال تو رکھنا چاہیے۔ محض بچوں جیسی شاعری کرکے تو آقائے نام دار محمد مصطفیٰﷺ سے منسوب صنفِ سخن کا مذاق ہی اُڑایا اور اُڑوایا جاسکتا ہے۔٭۲
مندرجہ بالا پیراگراف بانیٔ اسلام کی فصاحت کا ڈنکا بھی بجا رہا ہے، تنقیدِ نعت کا حق بھی ادا کررہا ہے اور معاندانہ لب و لہجہ سے پہلو بچا کر نعت کی فضیلت کا مہرِ منیر بھی روشن کررہا ہے۔ ڈاکٹر محمد ابوالخیرکشفی نے عزیزاحسن کو اگر نعت کے قافلے کے مسافروں سے بلند کرکے نعت کے سالاروں میں شامل کیا تو اس کی حقیقی وجہ عزیزاحسن کی نعت کے حوالے سے ادبی اور تنقیدی کاوشوں کا تیزی سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہونا ہے۔ ان کی یہ تیزئ طبع برق رفتاری کو چھو رہی ہے۔ اس میں بہت حد تک کمال سیّد صبیح رحمانی کا ہے جنھوںنے جانے کتنے ہی عزیزاحسن اپنے دام ہم رنگ زمین میں اسیر کر رکھے ہیں اور دوسرا کمال عزیزاحسن کی انتہائی پُرخلوص سادگی کا ہے جس نے صبیح رحمانی کے اصرار کے مقابل انکار کا لفظ لبوں تک لانے کی جرأت ہی نہیں کی۔

عزیزاحسن کی نثری تحریروں میں مشرقی زعمائے ادب کے پہلو بہ پہلو مغربی ناقدین فن کے اسما اور حوالے کثرت سے ملتے ہیں۔ اسما اور حوالے لکھنے سے ہمارا مقصود صاف واضح ہے کہ وہ قاری پر اپنی ادب شناسی، ناقدانہ سربلندی اور فکری اُڑان کا رُعب ڈالنے کے لیے یہ نام درج نہیں کرتے بلکہ ان کے حوالہ جات اور اقتباسات بھی درج کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والوں کو کشادگیٔ فکر اور وسعتِ دامانِ فکر و ادب کا بھرپور احساس رہے۔ ایک جگہ اپنے آقا اور غیروں کا تقابل کرتے ہوئے کیا خوب لکھتے ہیں:
آپ دیکھیے مائوزے تنگ ایک دہریہ ہے لیکن عوامی سطح پر اپنے پیغام کا ابلاغ بھی چاہتا ہے اور اس کا معیار بھی بلند کرنے کا خواہش مند ہے۔ میں حضورﷺ کے علاوہ کائنات میں کسی کو فصیح اللسان نہیں سمجھتا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر زمانے کے اہلِ زبان کچھ نہ کچھ یعنی ضرورت کی حد تک فصیح ہوتے ہیں۔ اردو کا معیار عربی جیسا نہ سہی لیکن اس زبان کے بھی فصاحت کے معیارات مقرر ہیں۔ اس لیے نعتیہ شاعری کا ذوق رکھنے والوں کو کچھ نہ کچھ فصاحت کا خیال تو رکھنا چاہیے۔ محض بچوں جیسی شاعری کرکے تو آقائے نام دار جناب محمدرسول اللہﷺ سے منسوب صنفِ سخن کا مذاق ہی اُرایا جاسکتا ہے۔ کوئی قابلِ قبول کارنامہ انجام نہیں دیاجاسکتا۔

عزیزاحسن کا شمار ان فرزندگانِ روزگار میں ہوتا ہے جو وقت کے ایک ایک لمحے سے زندگی کا رس کشید کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ممتاز نثرنگار، مدبر، محقق، شاعرِ نعت سرا، پیکرِ غزل طراز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اردو ادب اور تحقیق و تنقید کے میدان میں دیر سے آئے مگر اس شان سے آئے کہ اصحابِ فکر و قلم کی بلند صفات کو دامن میں لے کر چلنے والی شخصیت کے حسنِ قلم کو بڑے اعزاز سے تسلیم کیا۔ بلاشبہ یہ ’’ نعت رنگ‘‘ کے چابک دست مدیر کا کمال ہے کہ جو ایک مرتبہ ان کے حلقۂ دام میں آیا، زندگی کی آخری سرحدوں کو چھو کر بھی ان سے نکل نہیں سکتا۔ مرغِ قبلہ نما آشیانہ میں لاکھ تڑپتا رہے مگر سیّد صبیح رحمانی کا شوقِ مبارزت بار بار نعرۂ مستانہ بلند کرتا ہے:
جسے ہو دعویٰ وہ آئے کرے شکار ہمیں
عزیزاحسن جیسے شہباز کو اپنی ادبی گرفت رکھنے والے شکاری کا شکار کیسے پنجۂ ہمت آزما سے نکل پائے گا۔
بلاشبہ عزیزاحسن ایسے ہی خوش بخت ادیب و شاعر ہیں کہ آج ایک زمانہ ان پر فخر کرتا ہے۔ جذبۂ تحقیق ایسا کہ گزرتے ہوئے وقت کا ہر لمحہ ان پر ناز کرے۔ تحقیق و تنقید سے لے کر شاعری تک جو بھی لکھتے ہیں خوب تر لکھتے ہیں۔ بالخصوص نعت کے حوالے سے بھی تنقید کا دامن دراز کرتے ہیں تو نہایت ادب و احترام کے ساتھ۔ دوسروں کو احترامِ نعت کے آداب سے آشنا ہونے والا خود بھلا ان سے کس طرح بے بہرہ ہوسکتا ہے۔ ان کی تحریر سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
ایک ایسی عظیم المترتب ہستی جس کو ہر دور، ہر عہد اور ہر منطقے کے لیے نمونۂ عمل بنا کر بھیجا گیا ہو، اس سراجِ منیر کے پروانوں کی تعداد اور اس شاہدِ محبوبی کے عشاق کا احصا کسی عہد میں بھی ممکن نہیں۔ ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کا اقتضا یہی ہے کہ جس ذی نفس کو بھی قلم کے ذریعے علم سکھایا گیا ہے یا علم بیان کی دولت سے مالامال کیا گیا ہے اس کے زبان و قلم سرکارِ دوعالمﷺ کی مدح سرائی میں مصروف رہیں۔٭۳
اس کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھ جائیں۔ بہت سے شعرا کے کلام کا ادبی و فنی جائزہ ہے۔
سیّد صبیح رحمانی کی بات چلی ہے تو انھی کا ایک اقتباس دیکھیے:
عزیزاحسن کا سفر تنقید اس اعتبار سے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اس اہم ترین صنفِ سخن سے متعلق بنیادی مباحث اُٹھانے والوں کی پہلی نسل میں شامل ہیں۔ وہ موضوع کو گہری ناقدانہ نظر سے دیکھتے ہیں اور نتائج اخذ کرنے سے پہلے موضوع کے داخلی اور خارجی پہلوئوں کو عموماً پیش نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مضامین میں جابجا نظر آنے والے مشرقی و مغربی ادب کے شعری و نثری حوالے ان کی وسعتِ مطالعہ کی دلیل ہیں۔٭۴

عزیزاحسن کے فکر و فن کا محاکمہ کرتے ہوئے پروفیسرشفقت رضوی اپنی کتاب ’’نعت رنگ کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ‘‘ میں عزیزاحسن کا بھرپور جائزہ لیتے ہیں، لیکن یہ حرفِ آخر نہیں بلکہ ناقد کی ناقد کے بارے میں رائے ہے۔ مگر عزیزاحسن سے اختلاف ممکن ہے تو شفقت رضوی بھی معاندانہ رویے کی تہمت کی زد میں آسکتے ہیں۔ اس کا ہمیں بجا طورپر کئی مقامات پر شدت سے احساس ہوا۔ عزیزاحسن کے مباحث پر انھوںنے اپنی تنقید کا پیمانہ سخت رکھا ہے مگر جب حق آشنائی اپنے پردے اُٹھاتی ہے تو پروفیسر صاحب کو بھی عزیزاحسن کی محنت اور عشقِ مصطفیﷺ کے حسن میں ڈوبی ہوئی رائے کا احترام سے ذکر کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی رائے سے چند سطور ہم نقل کررہے ہیں:
عزیزاحسن کراچی کے ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوںنے علم و فن میں پاکیزہ خیالی اور تقدیس حرف پر زور دیا ہے اور ان عناصر کو شاعری بالخصوص حمد و نعت کے لیے لازمی عناصر بتائے ہیں۔ وہ اقلیمِ نعت کے اہم رکن ہیں، شاعر ہیں، تنقیدنگار ہیں اور ہر علمی و فنی معاملہ میں اپنی رائے رکھتے ہیں اور اپنے انفرادی لہجہ و اسلوب میں اظہار کرتے ہیں۔ کراچی میں حمد و نعت کی تنقید و تشریح کے لیے جو دوچار اہم نام ملتے ہیں ان میں عزیزاحسن نے اپنا وقار بنا لیا ہے۔۔۔ عزیزاحسن نے نعتیہ شاعری اور عمومی شاعری کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ ان دونوں کے درمیان فرق کی وضاحت پر زور دیا ہے۔٭۵

اس خوب صورت رائے کے باوجود پروفیسر صاحب نے عزیزاحسن سمیت کسی کو معاف نہیں کیا۔ انھوںنے دوسروں کی طرح عزیزاحسن کے ہاں بھی انگریزی الفاظ کی بوچھاڑ پر تنقید کی ہے کہ شاید وہ قاری پر رُعب ڈالنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، عزیزاحسن انگریزی میں سوچتے اور اردو میں لکھتے ہیں۔ بہرحال مسلسل مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ ان کی انگریزی دانی کے فیض عام سے ایک زمانے کو متاثر کرنے کی شدت میں کمی آرہی ہے۔ ہم شفقت رضوی کو اس لحاظ سے داد دیتے ہیں کہ انھوںنے (اپنے نزدیک) عزیزاحسن کے دل آویز اور محبوب فکر گفتگو کو جی بھر کے سراہا ہے۔
عزیزاحسن کی نعت شناسی عصرحاضر کی ظلمات میں ایک شمع روشن ہے جس سے نجانے کتنے ہی دلوں پر جمے ہوئے فکری مادّیت کے جالے اُتر رہے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ یہ جیسا لکھتے ہیں ویسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے فکر و نظر اور خیالات و اظہار میں تفاوت نہیں۔ اس لیے نقدِ نعت پر لکھتے ہوئے جب یہ نظمیاتی نعت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہاں نور آفریں فضا کے بکھرنے کا احساس ہوتا ہے۔ جب جذبے خالص، الفاظ پاکیزہ، مصرعے کوثر و تسنیم کے حسن سے کیف آفرینی کشید کیے ہوئے ہوں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ جو بات چلی ہے۔ عزیزاحسن کی نعت شناسی کی تو ہم مضمون کی ترتیب و تدوین سے چند لمحے مستعار لے کر ادھر کا رُخ کرتے ہیں:

قائم ہو جب بھی بزم حساب و کتاب کی
میں شان دیکھ پائوں رسالت مآب کی
مجھ پہ یہ لطف کم تو نہیں ہے کہ ہجر میں
کرتا ہوں نذر شعرِ عقیدت جناب کی
ہر فرد سیرتِ شہِ والا میں ڈھل کے آئے
تجسیم ہو تو یوں ہو نئے انقلاب کی
عزیزاحسن نے مندرجہ بالا اشعار میں عشق و عقیدتِ حضورﷺ کے جواہر بکھیرے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’شہپرِ توفیق‘‘ ذوق و شوق کی صد رنگی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ اسی شوق کی ہم رنگ ایک اور نعت کے دو اشعار دیکھیے:
خرد کی تیرہ شبی میں اگر سحر ہوجائے
تو رُوح عشقِ محمد سے معتبر ہوجائے
چلو رسولِ گرامی سے عرض کرتے ہیں
حضور! لطف کی اس سمت اک نظر ہوجائے
عزیزاحسن کی نعتیہ شاعری پر اسوۂ احمد سے وابستگی کی ایک گہری چھاپ لگی ہے۔ ایک صاحبِ نظم مسلمان جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے گہری عقدیت رکھتا ہے اور آپ کے ہر رنگ کو اپنانا چاہتا ہے تو اسوۂ حضور ہی وہ سہارا ہے جس کی بدولت منزلِ مقصود اس کا مقدر بن سکتی ہے:
جس کے طفیل راہِ عمل مستیز ہو
منبع ہے روشنی کا عجب اسوۂ نبی
یوں سیرتِ رسول میں ڈھل جائوں میں عزیز!
بن جائے عرف و نام و نسب اسوۂ نبی
ہم ان کے قلزمِ اشعار سے چند قطرے قارئین کی نذر کرتے ہوئے اشعار پر رُک کر بات آگے بڑھاتے ہیں:
میرا ہر ایک لفظ مری مدح، میرا فن
’’کیا شے ہے‘‘ عظمتِ شہِ والا کے سامنے
پھر بھی میں انکسارِ ہنر، عجزِ فن عزیز
کرتا ہوں پیش اس لیے آقا کے سامنے
درکار ہیں گہر، مری جھولی میں ہیں خزف
احساسِ بے بضاعتیٔ فن قبول ہو٭۶
’’شہپرِ توفیق‘‘ (عزیزاحسن کا نعتیہ مجموعہ) کے حوالے سے سیّد صبیح رحمانی کے فلیپ سے ایک اقتباس ہے:
عزیزاحسن کی نعت گوئی حبِ رسولﷺ سے لے کر سیرت و کردار اور تعلیمات و پیغامِ مصطفیٰﷺ کے تذکارِ مبارکہ کے مضامین سے آراستہ ہے۔ انھوںنے شعری طورپر محبت و شیفتگی کے اظہار کے ساتھ ساتھ منصبِ نبوت اور پیغامِ رسالت کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔ اسی لیے ان کی نعت گوئی رسمی نہیں بلکہ حقیقی نعت گوئی کے میلانات سے عبارت ہے۔ ان کے ہاں شعر برائے شعر کہنے کا رجحان کم اور پیغام کی ترسیل کا جذبہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ اقبال کی طرح بھٹکے ہوئے راہی کو پھر سوئے حرم لے جانے کے خواہش مند ہیں اور اس کا اظہار جابجا ان کے کلام میں نظر آتا ہے۔٭۷
عزیزاحسن کی نعت شناسی کے حوالے سے ان کے قلم سے ٹپکنے والے یہ الفاظ ان کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کررہے ہیں:

میں نے جو کچھ لکھا ہے اُسے احساس کی قندیل سے روشن کرکے لکھنے کی سعی کی ہے۔ تاہم تخلیقی قوت یا شعری صلاحیت کو اپنی شعوری کوشش سے ایک خاص حد سے زیادہ جلا نہیں دی جاسکتی۔ چناںچہ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ میری نعتیہ تخلیقات میرے تنقیدی شعور یا شعری آدرش پر پوری اُترتی ہیں۔ رجحان ساز شعری نمونے پیش کرنے کا دعویٰ بھی نہیں کرتا۔ تاہم اتنا ضرور عرض کرسکتا ہوں کہ میں نے شعری بنت کو سنوارنے کی شعوری کوشش بھی کی ہے اور شعری متن کو عقیدت اور عقیدے کی حدود سے تجاوز کا بھی موقع نہیں دیا ہے۔ نعتوں کے ضمن میں مجھے یہ زعم بھی نہیں ہے کہ یہ مجھ سے سرکار ابد قرار حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے لکھوائی ہیں۔ میں کسی بھی بات کو حضور سے منسوب کرتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ نعت کہنے اور اسے مسلسل سنوارنے کا داعیہ پیدا ہوجانا کم از کم اس بات کا اشارہ ضرور ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں کرم کی برسات کی کچھ بوندیں مجھ تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ لہٰذا اپنے اندوختے کی اشاعت کے حوالے سے مجھے تحدیثِ نعمت کے احساس نے مہمیز کیا ہے۔٭۸
عزیزاحسن نے انھی فکری و تحریر مصروفیات کے دور میں ایم فل کی ڈگری لے لی۔ مقالے کا عنوان تھا ’’مثنوی رموزِ بے خودی کا فکری و فنی جائزہ‘‘ یہ مقالہ ۸؍مارچ ۲۰۱۱ء کو نعت ریسرچ سینٹر کراچی کے زیراہتمام شائع ہوا۔ اس کے صفحات ۲۲۴ ہیں۔ اس میں انھوںنے بھرپور انداز سے مثنوی بے خودی کی مختلف جہات کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا یہ مقالہ بار بار رُکتا رہا۔ ملازمت کی مصروفیات اور تبادلوں نے پریشان کیے رکھا۔ آپ نے تاریخِ اسلام میں ایم اے کیا تھا جب کہ ایم فل کے لیے فارسی میں ایم اے کی ضرورت تھی۔ آپ کے اقبال پر مضامین بھی شائع نہیں ہوئے تھے جب کہ نگراں کا تقاضا متعدد مضامین کا تھا۔ یہاں قدرت نے خود مسیحائی کی۔ عزیزاحسن لکھتے ہیں:

میرے اصرار پر ڈاکٹر رحیم بخش نے مجھے تین مضامین لکھنے کا حکم دیا۔ اور جب میں نے وہ مضامین لکھ کر پیش کردیے تو انھوںنے مجھے داخلہ دلوا دیا۔ ابھی چار میں سے صرف تین سمسٹرز کا نتیجہ میرے حق میں آیا تھا کہ مجھے ۱۹۹۲ء کے وسط میں کراچی آنا پڑا اور میں دفتری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر صرف آڈیٹر بن کر رہ گیا۔٭۹
اقبال نعت سے دُور نہیں۔ عزیزاحسن کی نعت شناسی کے عناصر میں اقبال کی شاعرانہ تب و تاب بطورِ خاص شامل ہے۔ لکھتے ہیں:
اقبال کا نام بچپن ہی سے کان میں پڑ گیا تھا۔ کیوںکہ میں اسکول میں ان کی نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ لہک لہک کر پڑھا کرتا تھا۔ لیکن اقبال سے محبت مجھے اس وقت ہوئی جب میں نے یہ جانا کہ وہ اپنے آقا و مولا جناب محمد الرسول اللہﷺ کے سچے شیدائی تھے اور انھوںنے اپنی تمام تر فکری و تخلیقی صلاحیتیں اسلام کی تشریح و تعبیر کرنے، دعوتِ قرآن کو عام کرنے اور جذبۂ حبّ رسولﷺ کی روشنی پھیلانے کے لیے وقف کردی تھیں۔٭۱۰
نعت شناسی کے ضمن میں عزیزاحسن کا کہناہے کہ ’’اسلوبیاتی سطح پر شعر میں شعریت کے عناصر جتنے زیادہ ہوںگے اتنی ہی اس شعر کی شعری و ادبی قدر بڑھ جائے گی۔ زبان کے امکانات کی وسعت، لفظیات کا صوتی اور معنوی جمال، استعارہ، علامت اور روزمرہ کا برمحل اور ابلاغ آگیں استعمال بھی شعر کی قدر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ میری کوشش اور خواہش ہے کہ نعتیہ ادب کی تنقید بھی ان تمام رجحانات کی حامل ہوسکے جن کو عام شاعری کی پرکھ اور تحسین کے لیے اب تک برتا گیا ہے۔ نفسِ مضمون، متن یا مافیہ کی حساسیت اور فضیلت بہرحال نعتیہ شاعری کو عام شاعری سے جدا اور بلند رکھتی ہے۔ تنقیدی عمل میں اس بات کا ہمیشہ لحاظ رکھا جائے گا یا رکھا جانا چاہیے۔٭۱۱

گویا عزیز احسن کا مدعا یہ ہے کہ نعتیہ شعر کو ہر لحاظ سے مرصع و مسجع ہونا چاہیے اور شاعری کے حسن میں جس قدر عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور جس قدر تراکیب و تشبیہات اپنی بہار دکھاتی ہیں وہ سب نعتیہ شاعری کے حسن و جمال کا باعث بننے چاہییں۔ اس ضمن میں جب ہم عزیزاحسن کی نعتیہ شاعری اور بعض تنقیدی مقالات پڑھتے ہیں تو ان کے الفاظ کا بجا طورپر احساس ہوتا ہے۔ عزیزاحسن کی نعتیہ تنقید اور نعتیہ شاعری کے مختلف مراحل ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ ان کے فکر و علم نے کئی ادوار دیکھ رکھے ہیں۔ یقینا انھوںنے وہ کرب ناک دُور بھی دیکھا ہوگا جب نعتیہ شاعر کو ادب کے ناخدا معمولی سا شعری یا تنقیدی مقام بھی دینے کو تیار نہیں ہوںگے اور یہ دور بھی دیکھا ہے جب چاروں طرف نعت و مدحت کا قلزمِ نور بہہ رہا ہے اور نعت کو ایک صنفِ شاعری سمجھنے سے انکار کرنے والے آج اس کی زرنگار چھائوں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ عزیزاحسن کی نعت شناسی ایک سطحی قسم کے شاعر کی کاوشوں سے زندگی اخذ نہیں کرتی بلکہ یہ تو ایک زمانے کو ساتھ لے کر چلتی ہوتی محسوس ہوتی ہے اور عزیزاحسن کی کاوشیں احساس دلاتی ہیں کہ یہ نعت شناسی کے بلندتر مقام و مرتبہ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہ بات ہم نے آغاز میں کہی ہے اور اب اردو نعتیہ ادب کے کانوں میں اپنا بلند آہنگ لہجہ منتقل کرکے کہناچاہتے ہیں کہ عزیزاحسن نعتیہ تنقید کی مقبولِ عام صنف کے مقبول عام قلم کار ہیں۔ لکھنے پہ آئیں تو بہت تیزی سے لکھتے ہیں اور نعت شناسی کے حوالے سے انکا قلم کب مواج نہیں ہوتا۔ وہی ’’نعت رنگ‘‘ جسے سیّد ڈاکٹر ابوالخیرکشفی مرحوم نے اپنے عہد کی حقیقت کو نعت کے زمزموں سے آباد کرنے کے لیے پہلا مسافر قرار دیا تھا۔ عزیزاحسن ان کے ایک فلیپ کے مطابق نعت کے قافلے کے مسافر ہی نہیں بلکہ سالار بھی ہیں۔

لیکن جب ہم ’’نعت رنگ‘‘ کا تنقیدی پرچم تھامے سیّد صبیح رحمانی کو حالات کی پریشان کن سختیوں اور مخالفینِ تنقیدِ نعت کے خلاف صف آرا دیکھتے ہیں تو ہوا کا رُخ بدلنے والے سیّد صبیح رحمانی پر پیار آتا ہے۔ یہ پیار میری بھی اسی طرح مجبوری ہے جیسے عزیزاحسن کی ہے۔ معلوم نہیں اس سیّدزادے شاہِ گردوں طراز نے اپنے قصرِ نوبہار کے کنگروں پر عزیزاحسن جیسے کتنے شاہین بٹھا رکھے ہیں کہ جو اُڑنا بھی چاہیں تو اُڑ نہ پائیں۔ ان کنگروں کے کنارے بڑے مضبوط اور جان دار ہیں۔ نعت شناسی کا سفر طویل سہی مگر لائقِ صد مبارک باد ہے۔ بہرحال یہ مسلّمہ امر ہے کہ اس سفر کے طے ہونے پر جو منزل مراد ملتی ہے وہ کونین سے بڑھ کر قیمتی ہے اور کیا خبر کہ صبیح رحمانی، عزیزاحسن کو اس منزلِ کو پہنچا چکے ہوں۔ انھی کے حوالے سے:
عزیزاحسن اردو کے علمی و ادبی حلقوں اور بالخصوص نعتیہ حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ ایک باکمال شاعر، سنجیدہ ادیب اور صاحبِ بصیرت نعت شناس کی حیثیت سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ انھوںنے اپنے عہد کی نعتیہ قضا کو تخلیقی و تنقیدی دونوں سطحوں پر متاثر کیا ہے۔ عصرِحاضر میں نعتیہ تنقیدنگاری کے فروغ و ارتقا میں ان کا اہم حصہ ہے اور اس حوالے سے ان کے غیرمعمولی کام کی اہمیت اور افادیت سے کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں۔٭۱۲
نعت کسی طور عہدِ حاضر کی معراج کہلائی اور اسے مستقل صنفِ ادب کے طورپر تسلیم نہ کرنے والے کس طور نعت کی محافل سجانے لگے، عزیزاحسن اس پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:

نعت کے سلسلے میں درباری سرپرستی کے شواہد کہیں نہیں ملتے۔ قلی قطب شاہ نے اگر نعت کہی تو وہ انفرادی ذوق تک محدود رہی۔ بس ایک رواج تھا کہ دواوین کی ابتدا حمد و نعت سے ہو۔ سو اس رواج کو بلاقیدِ مذہب ہر اردو شاعر نے بناہا تاہم مشاعروں میں شرکت کرنے والے اور کتابیں پڑھنے والے لوگوں کا طبقہ علمِ دین اور نعت کے شرعی لوازم سے پوری طرح آگاہ نہ تھا۔ اس لیے نعت پر تنقید کرنے کا رواج پیدا نہ ہوسکا۔ ایک غلط خیال یہ بھی پیدا ہوگیا تھا جس کے اثرات اب تک دکھائی دیتے ہیں کہ نعت پر تنقید کرنا سوئے ادب ہے۔ اسی غلط فہمی کی بنا پر نعت پر تنقید کرنے کی سنت تاحال تقریباً چھوٹی ہوتی ہے۔ سنت کا لفظ میں نے سنتِ رسولﷺ کے ٹھیٹ دینی معنی میں استعمال کیا ہے کیوںکہ حضورِاکرمﷺ کے تنقیدی شعور کی ایک جھلک میں انھی صفحات میں دکھا چکا ہوں۔ نعت پر نگاہِ انتقاد نہ ڈالنے کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ عموماً مستند شعرا قصیدہ گوئی اور غزل گوئی میں مگن تھے۔ انھوںنے داخلِ حسنات ہونے کے ارادے سے اِکّا دُکّا نعتیں کہہ لی تھیں جن میں کم از کم مروّجہ زبان و بیان کے معیارات کا لحاظ رکھا تھا۔ لیکن ایسی نعتوں کی اشاعت عوام میں نہ ہوسکی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے عوام کے ذوقِ طلب کی تسکین کرنے والے عاشقانِ رسولﷺ میدان میں آگئے۔٭۱۳
مگر حقیقت ہے کہ اس وقت نعت پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں نعت کی پرکھ میں شعریت و شریعت دونوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
نعت انتہائی پاکیزہ اور مطہر و منزہ صنفِ سخن ہے جسے غزل کے دبستانِ ہوس سے نعت کے چمنستانِ نور تک رسائی کے لیے ایک عرصہ کی کھٹنائیوں سے دوچار ہونا پڑا ہے پہلے تو اردو شعرا نعت کو مستقل صنفِ سخن ماننے کو تیار ہی نہیں تھے اور جب وقت کے تقاضوں نے (خاص طورپر جنرل ضیاء الحق کے دور میں) ایک حد تک مجبور کر ہی دیا کہ نعت بھی کہنی چاہیے کیوںکہ بیش تر مشاعرے، مذاکرے اور فکری مباحث میں نعت کا جادو چڑھ کر بول رہا ہے تو یہ شعرا بھی دل سے زیادہ زبان کے ساتھ نعت کے کوچے میں آ بیٹھے۔ یہ پہلے ہی درباری شاعر تھے اس لیے داد و دہش کے پھول تو نچھاور ہونے لگے مگر اپنی نعتوں کے لیے وہ خلوص کا وفور عقیدت کا جمال، روح پرور تشبیہات و استعارات کہاں سے لاتے کیوںکہ:
دل مانتا نہ ہو تو زبان میں اثر کہاں

عزیزاحسن کے بقول ایسے عالم میں بھی ان بوریا نشین اور گدڑی پوش شعرائے نعت نے اپنا فکری اور نظریاتی کوچہ الگ ہی رکھا، کیوںکہ ان کے لیے نعت محض ایک صنفِ سخن نہیں بلکہ خوشنودئ خدا و رسولِ خداﷺ کا بہانہ تھی۔ ان کی درویشی و پارسائی، نعت کے ساتھ اخلاص آمیز رویے کی آشنائی ان کے لبوں سے نعت کے گل و لالہ اچھالتی رہی۔ یہ فکر و نظر کے ستارے اُبھارتے رہے۔ یہی صورتِ حال آج بھی ہے، کچھ کو توفیقِ خدا ارزاں ہوئی اور وہ قلب و جان سے اس گلستان میں چلے ورنہ فخر و مباہات اور تعلّی پر نثار ہونے والے اسی طور ظاہری پیمانے کے ساتھ وابستہ رہے۔ ہم عزیزاحسن کی نعت شناسی پر انھی کے الفاظ میں گفتگو کو ختم کرتے ہیں:
چناںچہ میں عرض کروںگا کہ اگر آپ کے کلام میں فنی خامیاں ہیں اور فکری کجروی ہے تو آپ کو فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیے! اگر آپ کی وفا کم زور اور Commitment بودا ہوا تو آپ لاکھوں کتابیں لکھ کر بھی حشر میں اللہ اور اس کے سچے رسولﷺ کے سامنے شرمندہ ہوںگے اور دنیا میں کوئی اہلِ نظر، اہلِ علم اور دانندۂ فن آپ کو منھ نہیں لگائے گا۔ اپنے حلقے میں آپ جتنی چاہیں قبولیت حاصل کرلیں۔ ادب کا حلقہ آپ کو شاعر تسلیم نہیں کرے گا۔٭۱۴

مآخذ
٭۱۔ فلیپ ڈاکٹر سیّد ابوالخیرکشفی، نعت کے تنقیدی آفاق (عزیزاحسن)، ۲۰۱۰ء، نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
٭۲۔ عزیزاحسن، نعت کے تنقیدی آفاق، ۲۰۱۰ء، ص۷۹، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، فضلی سنز لمیٹڈ، کراچی
٭۳۔ عزیزاحسن، اردو نعت اور جدید اسالیب، ص۱۲، ۱۹۹۸ء باہتمام نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، فضلی سنز لمیٹڈ، کراچی
٭۴۔ فلیپ، اردو نعت اور جدید اسالیب، عزیزاحسن، ۱۹۹۸ء، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر، کراچی، فضلی سنز لمیٹڈ، کراچی
٭۵۔ ڈاکٹر شفقت رضوی، نعت رنگ کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ، ۲۰۰۴ء، ص۲۷۲، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر
٭۶۔ چند اشعارِ نعت از شہپرِ توفیق، عزیزاحسن، ۲۰۰۹ء، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر
٭۷۔ فلیپ سیّد صبیح رحمانی، شہپرِ توفیق، ص۲۰۰۹ء، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر
٭۸۔ نعت اور تخلیقی عمل، عزیزاحسن، شہپرِ توفیق، ۲۰۰۹ء، ص۱۵، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر
٭۹۔ مثنوی رموزِ بے خودی کا فنی و فکری جائزہ، ۲۰۱۱ء، ص۱۱، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر
٭۱۰۔ عزیزاحسن، مثنوی بے خودی کا فنی و فکری جائزہ، ۲۰۱۱ء، ص۱۰، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر
٭۱۱۔ عزیز احسن، نعت کے تنقیدی آفاق، ص۱۰، ۲۰۱۰ء، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر
٭۱۲۔ سیّد صبیح رحمانی، عزیزاحسن، فلیپ، شہپرِ توفیق، ۲۰۰۹ء، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر
٭۱۳۔ عزیز احسن، نعت کی تخلیقی سچائیاں، ص۱۱۲، مارچ ۲۰۰۳ء، باہتمام اقلیم نعت، کراچی
٭۱۴۔ عزیز احسن، نعت کے تنقیدی آفاق، ص۸۸، ۲۰۱۰ء، باہتمام نعت ریسرچ سینٹر
{٭}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے