شہرِ طیبہ کا کتنا حسیں رنگ ہے یہ زمیں دیکھ کر آسماں دنگ ہے

شہرِ طیبہ کا کتنا حسیں رنگ ہے یہ زمیں دیکھ کر آسماں دنگ ہے

شہرِ طیبہ کا کتنا حسیں رنگ ہے
یہ زمیں دیکھ کر آسماں دنگ ہے
جس کے سینے میں عشقِ محمد نہیں
اس کا دل دِل نہیں سنگ ہے سنگ ہے
تُل سکے جس میں توقیرِ شاہ حرم
کائنات اُس ترازو کی پاسَنگ ہے
اُن کا مرہونِ منّت ہوں شام و سحر
ورنہ جینے کا مجھ کو کہاں ڈھنگ ہے
وردِ صلِ علیٰ نے وہ بخشی جلا
دل کی دُنیا سے کافور ہر زنگ ہے
یا الٰہی مدینے کا مشتاق ہوں
ہند میں تو مری زندگی تنگ ہے
عاشقو! حُبِ دنیا سے منھ موڑ لو
اتباعِ نبی نفس سے جنگ ہے
سرورِ دیں کی فرقت میں ہوں بے قرار
صبح بے نور ہے شام بے رنگ ہے

اُمتی ہوں میں اُمی لقب کا نعیم
اُن کے غم سے مرا دل ہم آہنگ ہے
نعیم ابن علیمؔ (دُھولیہ ۔بھارت)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے