سارے عالم میں جو پھیلی ہوئی زیبائی ہے کتنی حیران ہر اک چشم تماشائی ہے

سارے عالم میں جو پھیلی ہوئی زیبائی ہے کتنی حیران ہر اک چشم تماشائی ہے

امتیازملک آسیؔ سلطانی (کراچی)



سارے عالم میں جو پھیلی ہوئی زیبائی ہے
کتنی حیران ہر اک چشم تماشائی ہے


مہر و ماہ و فلک و ارض یہ سارا گلشن
میرے مالک یہ تری انجمن آرائی ہے


خیر بھی تو نے اتارا ہے غضب بھی تو نے
امتیاز اس میں روا رکھنا ہی دانائی ہے


دستِ انسان کو دیکھوں کہ میں پتا دیکھوں
ان لکیروں سے بھی ثابت تری یکتائی ہے


حکم اللہ کا ہر ایک بشر کو ہے یہی
خیر کی راہ چلو بس یہی اچھائی ہے


تو مجھے جسم میں محسوس ہوا کرتا ہے
جب میسر مجھے ہوتی شب تنہائی ہے


حمد لکھنے کی جو آسیؔ کو ہوئی ہے توفیق
میرے اللہ ترا حسنِ پذیرائی ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے