صحابہ کرام کی نعتیہ شاعری اور ہم

صحابہ کرام کی نعتیہ شاعری اور ہم

پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی۔ فیصل آباد


صحابہ کرام   کی نعتیہ شاعری اور ہم


نعت یوں تو مدح نگاری کی قدیم روایت کا ایک حصّہ ہے کہ اوصاف وشمائل کے تذکرے انسان کے اساسی جذبوں کے ترجمان ہیں، صدیوں کا تناظر گواہ ہے کہ انسانی معاشروں میں تائید و تردید کے داعیات جنم لیتے رہے ہیں۔خوش ہوئے تو مدح سرائی اختیار کرلی، بگڑے تو ہجونگاری اپنالی، یہ الگ بات کہ خوشی ہونے اور بگڑ جانے کے محرکات مختلف رہے انفرادی رجحانات بھی کارفرما رہے اور مجموعی میلانات پر اثرانداز ہوئے مگر ایک حقیقت انسانی معاشرے کا ہمیشہ سے امتیاز رہی کہ مجموعی فکر مثبت رویوں سے ہمکنار رہی۔ ہر اچھی چیز، ہر اچھی صورت، ہر تابندہ سیرت اور ہرخوش کن مظہر انسانوں کی توجہ کے لیے نہ جذاب رہا، ایک دمکتا ہوا ستارہ، ایک مہکتا ہوا پھول اور ایک عطربیز وجود سب کے لیے پرکشش رہا۔ اس لیے ان حوالوں سے زبانیںمرطوب رہیں اور ذہن معطر، یہ بھی خال خال ہوا کہ کسی بدحواس نے کھلتا ہوا گلاب دیکھنے سے انکار کردیا تو کسی کند ذھن نے مشک بار لہروں کو تسلیم کرنے سے مگر انسان کی مجموعی روش حقیقت آشنائی کا ثبوت دیتی رہی، یہ بھی تسلیم کہ اظہار کے پیرائے اور انداز مختلف رہے کہ ہر ایک کی قوتِ اظہار مختلف تھی اور یہ بھی بجا کہ تسلیم کے مشتملات بھی متضادت رہے کہ ہر کسی کی متاثر ہونے کی صلاحیت جدا تھی، اس تمام تنوع کے باوجود مدح اور ہجو انسانی معاشروں کا متوازی بروز رہا ہے۔
عرب کا ماحول فطرت آشنا تھا کہ اُن کا رابطہ زمینی حقائق کے ساتھ پیہم استوار تھا اس لیے اُن میں شدت جذبات ذاتی پسندوناپسند کے باوجود مدح کا معیار تقریباً یکساں رہا، اوصافِ مدح بھی کم وبیش مشترک تھے اور اندازِ مدح بھی صدیوں سے ایک ہی ڈگر پر تھا۔عربوں کی مدح نگاری کا تجزیہ واضح کرتا ہے کہ اُن کے نزدیک۔
مدح کوئی غیرحقیقی اظہار بیان نہ تھا۔
مدح کے عناصر وہی تھے جو اُن کے معاشروں میں لائق احترام تھے۔
مدح، ذریعہ معاش نہ تھا۔


Urdu Naat Lyrics



مدح، مدّاح کے خالص اور سچے جذبوں کی ترجمان تھی، یہی وجہ تھی کہ جب زہیر بن ابی سلمیٰ سے کسی نے کہا کہ میرے حق میں کچھ شعر کہو کہ انعام دوں گا تو جواب یہ تھا۔ ’’اِفْعَل حَتّی اَقْولُ‘‘ کوئی کارِ نمایاںکرو کہ ’’میں شعر کہوں یعنی مدح انعام کے لالچ کے لیے نہیں ہوتی بلکہ حقیقت کے خوش گوار بیان کے لیے ہوتی ہے۔‘‘
جاہلی دور میں اگر مدح صداقت شعار تھی تو ہجو بھی حقیقی جذبوں کی ترجمان تھی، اس کا واضح اظہار اُس وقت ہوتا ہے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر پرزور ردّعمل ظاہر ہوتا ہے، ایسے ماحول میں الزام تراشی بھی عمومی روّیہ ہوسکتی تھی مگر حیرت ہے کہ جان کے دشمن بھی کردار وسیرت پر ایک الزام نہ لگاسکے بلکہ جب بھی اظہار خیال کا موقعہ ملا تو حقیقت حال کے بیان کے ہی پابند رہے اسی کی بہترین مثال قیصر روم کے دربار میں حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا وہ اعتراف ہے جو سراسر صداقت پر مبنی ہے حالانکہ آپ اُس وقت اسلام نہ لائے تھے بلکہ معاندین کا سالار تھے اور روم کے علاقے میں اسلحہ خریدنے کے لیے ہی گئے تھے جو مدینہ منورہ پر حملے کے لیے درکارتھا، یہ اظہار خیال عرب فطرت کا غماز تھا، اس سے بڑھ کر اور کیا شہادت ہوسکتی ہے کہ اپنے صدیوں سے راسخ عقیدے کا تارپود بکھرتا دیکھ رہے تھے اور مخالفت کے جذبے بھی پکارتے تھے مگر نہ کسی غلط بیانی کا شکار ہوئے اور نہ کسی منافقت کا، مکہ مکرمہ کے تیرہ سال گواہ ہیں کہ وہاں یاتومومن پیدا ہوئے یا کافر، کوئی منافق نہ بنا، وہ یا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح حمایت میں کھڑے تھے یا ابوجہل کی طرح مخالفت میں، ایک اپنی آخری آرام گاہ بھی پہلو میں چاہتا ہے تو دوسرا گردن بھی لمبی کٹوانا چاہتا ہے کہ کٹی ہوئی گردن بھی اُس کے مخالف ہونے کی تصدیق کرے۔
عربوں کا یہی مزاج اسلام کی صداقت شعاری سے اور پختہ ہوگیا، وہ تو حالت کفر میں بھی یہ تسلیم کرتے تھے کہ نبوت کا یہ دعویدار ہمیں پسند تو نہیں مگر ہے سچا۔ اعتماد اس حد تک تھا کہ گھر کا گھیرا ڈالے کھڑے تھے کہ باہر نکلیں تو قتل کردینا ہے مگر جن کو قتل کرنا چاہتے تھے اپنی امانتیں اُسی وجود مکرم کے پاس تھیں، واضح تھا کہ اس حد تک دشمنی کہ قتل کرنا چاہتے تھے مگر اس کے باوجود یقین تھا کہ یہ امین کا وجود ہے جو زندہ رہے تو امانت سلامت ہے اور اگر اُن کی خواہش کے مطابق قتل بھی کردیاگیا تو امانتیں پھر بھی محفوظ ہیں۔‘‘یہ عملی اعتراف تھا جس کا وہ ہر ہرقدم پر اظہار کررہے تھے۔



Urdu Naat Lyrics

عربوں کی یہی عادت اُن کی شاعری میں نمایاں ہوئی، وہ خوش ہوتے تو مدح کرتے، بگڑتے تو ہجو کہتے مگر ہردوصورتوں میں حقائق کو پیش نظر رکھتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر بھی دوگروہوں میں بٹ گئے ایک گروہ اسلام لے آیا اور دوسرا مخالفت پر کمربستہ ہوگیا، شعر اُن کے اظہار کا لائق اعتماد اور قابل فخر ذریعہ تھا اس لیے بعثت نبوی کے ساتھ ہی شعراء بھی دوحصّوں میں بٹ گئے، ایک گروہ اسلام لانے والوں کا تھا جس کی عقیدت ومحبت کا مرکز ذات رسالت مآبﷺ تھی اس لیے اس گروہ کی ہر صلاحیت مدح سرائی کے حوالے سے ترتیب پانے لگی، نثر ہو یا نظم ہر لفظ مودّب ہوگیا اور ہر شعر تقدیس کا جامہ اوڑھے حاضر دربار ہوا، محبت کی فراوانی تھی جو عشق کی حدیں بھی پار کررہی تھی،جذبوں میں جولانی اور خیالات میں مستیاں تھیں مگر حیرت ہے کہ جوش و خروش کے ہنگام بھی اُن کے ہاں کوئی ایسی صورت پیدا نہ کرسکا جو ازخود کار مبالغے یا خلاف واقعہ طرز ادا کا نمونہ پیش کرے۔ اس کے برعکس کفر پر اصرار کرنے والے شاعر اپنی تمام تر قوت بیانی کے باوجود کوئی ایسا الزام نہ تراش سکے جو معاندت کے جذبوں کا عکس ہو، ہجویہ شاعری غم وغصّہ کا پرتو تھی کردارکشی کی صورت نہ تھی، اسی لیے یہ ہجو یہ قصائد بھی عوام کو ذاتِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے گرویدگی میں حائل نہ ہوسکے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدحیہ شاعری ایک توازن کی آئینہ دار ہے آج تک کوئی ایسا شعر روایت نہیں جس میں رفعت منزلات کے بیان میں الوہیت کا گمان ہوسکتا ہو اور نہ ہی کوئی ایسا شعر موجود ہے جو منصب کے تقاضوں سے بے خبری پر دلالت کرتا ہو، یہ تو یقینی بات ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرب حاصل تھا اور قرب کی لذتیں وارفتگی کا مظہر ہوتی ہیں مگر اُن کے اندر دینی تعلیمات ایسی راسخ ہوچکی تھیں کہ جذباتی بے ثباتی قریب نہ آئی، اُن کے لیے وہ لمحات جب انھوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جہان فانی سے تشریف لے جاتے دیکھا اور اُن کی نظروں سے وہ عہدکامل اوجھل ہوگیا جس کو وہ دیکھ کر زندہ تھے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ انتہائی شدید لمحات میں بھی توازن نہ کھویا، مراثی کا لفظ لفظ شدت جذبات کا عکاس تو ضرور ہے مگر دینی ثقاہت اور ایمانی متانت ہر ہرلفظ سے عیاں ہے ، حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو تو وہ نسبت بھی حاصل تھی جو جذباتی ردّعمل کی محرک ہوتی ہے۔ یقینا اُن کا صدمہ سب سے بڑھ کرتھا اور اظہار بھی بے مثل ہوا مگر حدودِ شریعت کی پاسداری قائم رہی۔ فرماتی ہیں:
کما دٗا عَلٰی مَنْ شَمَّ تُرْبَۃَ اَحْمَدَ
اَنْ لَا یَشَمَّ مَدَی الزَّمَانِ غَوَالِیا
صُبَّتْ عَلَیَّ مَصَائَبٌ لَوْا َنَّھَا
صُبَّتْ عَلَی الْاَیّامِ عُدْنَ لِیَالِیَا
اُس کے لیے کیا ہے کہ احمدﷺ کی تربت کو سونگھ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے خوش بو نہ سونگھے مجھ پر ایسے مصائب آگرے ہیں کہ اگر وہ مصائب دنوں پر گرتے تو وہ راتیں ہوجاتیں۔



Urdu Naat Lyrics

جذبے کی شدت دیدنی ہے مگر ہر لفظ حقیقت کا عکاس ہے اور ایک والہانہ عقیدت کا غماز ہے۔
حضرت صفیہ بنت عبدالملطب رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں، والہانہ محبت رکھتی تھیں، ان کے جذبات محبت میں فراق کا کتنا ارتعاش ہوگا یہ اُن کے مرثیہ کے لفظ لفظ سے عیاں ہے مگر آخر پر وہی کہا جو ایک دیندار خاتون کو کہنا چاہیے تھا، فرماتی ہیں
فَلَوْ اَنَّ رَبَّ الْعَرْشِ اَبْقَاکَ بَیْنَنَا
سَعِدنَا وَلٰکِنْ اَمْرُہُ کَانَ مَاضِیَا
کہ اگر رب العرش آپ کو ہمارے درمیان باقی رکھتا تو یہ ہماری سعادت ہوتی مگر اُس کا حکم تو نافذ ہونے والا ہے۔‘‘ کیا کوئی گلہ زبان پرآیا، کوئی کلمہ بے ترتیب ہوا، اُن کا حسن توازن کبھی بھی یہ نہ کہہ سکتا کہ ’’کیا تیرا بگڑنا جو نامرتا کوئی دن اور‘‘ یہی وہ راست روی تھی جو ہیجانی لمحات میں بھی برقرار رہتی ہے۔
ابوسفیان بن الحارث رضی اللہ عنہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زاد تھے، اُن کو مفارقت کے اس لمحے کس قدر غم ہوگا یہ اُن کے مرثیے سے واضح ہے۔ ذرا مرثیے کے تیور دیکھئے فرماتے ہیں:
اَرِقْتُ وَیَاتَ لَیْلیٰ لَا یَزُوْلُ
وَلَیْلُ أَفِی اَلْمَصِیْبَۃِ فِیْہِ طُوْلُ
یعنی میں شب بھر بیدار رہا کہ رات ختم ہونے والی نہ تھی،حقیقت یہ ہے کہ غم زدہ کی رات طویل ہی ہوتی ہے مگر اس غم کے باوجود قدرت کے فیصلے سے انکار نہیں کیا۔
برملا فرماتے ہیں:
قَلْمَ تَرَ مِثْلَہٗ فِی النَّاسِ حَیًّا
وَلَیْسَ لَہٗ مِنَ الْمَوْلیٰ عَدِیْلُ
یعنی ہم نے زندہ لوگوں میں سے کوئی بھی اُن کا مثل نہیں دیکھا اور نہ ہی وفات پانے والوں میں کوئی اُن کا بدل ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں یہ صدمہ واضح طور پر اثر آفریں رہا مگر اس صدمے کا دورانیہ لمبا نہ تھا، پہلا سال بلکہ مہینہ ہی ان جذبات کے اظہار کے لیے وقف رہا، بعد میں اُن کی دوربین نظروں نے نبوت کا دوام اور رسالت کی ہمہ گیری کا جلد احساس کرلیا اوروہ غم کی فضا سے نکل آئے، بعد کی طویل صدیاں گواہ ہیں کہ ملت مسلمہ کے ہاں مراثی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی وجود نہیں رہا، شاعر ہوں یا نثرنگار وہ صفات شماری اور مدح سرائی کی کیفیات میں ایسے وارفتہ ہوئے کہ قرب و بُعد کے بعض اثرات کے باوجود زندہ نبی کا تذکرہ ہی حرز جاں بنا۔ معلوم ہوا کہ باشعور قوم نے حیات رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی اپنی عقیدتوں کی بنیاد رکھی اور نعت کی پاکیزہ صنف کو ہی دوام حاصل ہوا، تذکارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی محرومی کا احساس نہ ہوتا تھا بس اگر کبھی لہجہ رنجیدہ ہوتا تو وہ حاضری دربار سے محرومی کے حوالے سے ہی تھا، صحابہ کرم رضی اللہ عنہم کے ہاں ذات رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مستقل مرکز یقین تھی اس لیے اُن کی صفات شماری میں حیات اور وفات کی حدبندی نہ تھی، جب بھی شاعرانہ جذبے مچلتے تھے تو ایک روشن وجود سامنے آتا تھا، یہی روشنی ہر نعت گو کے کلام کا حوالہ ہے۔یہی وجہ تھی کہ جو قصیدے چلتا پھرتا وجود یکھ کر کہے گئے وہ قطعاً اُن سے مختلف نہ تھے جو بظاہر نظروں سے اوجھل وجود کے لیے کہے گئے تھے بقول علامہ اقبال علیہ الرحمۃ۔ نظر بالغ ہو اورمستقیم ہوتو وہ وجود مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اب بھی چلتا پھرتا، اُٹھتا بیٹھتا نظرآتا ہے، ایمان کی یہی حد اُمت کے لیے تابندگی کا باعث ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جتنے بھی قصائد موجود ہیں اُن کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ اُن کے موضوعات کیا تھے اور ذات رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت کیا تھی؟ اس کا اشارہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اشعار سے بخوبی ہوجاتا ہے کہ وہ آپ کے نسل درنسل کے سفر کو کس طرح کرم آفریں سمجھتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے اس کرم بخشی کا اعلان کرتے ہیں مثلاً:
وَاَنْتَ کَمَا وُلِدْتَ اَشْرَقَتِ الْأَرْ
ضُ وَضَا ئَ تْ بِنُوْرِکَ الْاُفْقُ
جب آپ کی ولادت ہوئی تو زمین روشن ہوگئی اور آفاق آپ کے نور سے چمک اٹھے۔ کیا یہ واقعہ لمحاتی تھا یاکہ دائمی، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا عقیدہ سنیے۔
فرماتے ہیں:
فَتحَنَ فِیْ ذٰلِکَ الضِّیَاء وَفی النُّوْرِ وَسٔبُلِ الرَّشَادِ نخْتٰرِقُ
ہم آج بھی اُسی روشنی، اُسی نور اور اُسی راہِ ہدایت پر چل رہے ہیں۔
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس نور کے انقطاع کے قائل نہ تھے کہ یہ روشنی اُن کو ہر قدم اور زندگی کے ہر موڑ پر حاصل تھی۔ یہ یقین اس لیے تھا کہ اُن کا ایمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ کاملہ ابد کے حصار میں ہیں اور اُن کی نظر سے کوئی بھی محروم نہیں ہے، یہی وہ اعتماد تھا جو ہر شاعر کو کہیں بھی ہو اور کسی دور میں بھی ہو حضوری کی لذت عطا کرتا رہا ہے۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا یہ یقین ہر شاعر کے وجدان کا حصّہ رہا ہے۔ فرماتے ہیں:
نَبِیٌّ یَرَی مَالَا یَرَی النَّاسُ حَوْلَہٗ
وَیَتْلُو کِتَابَ اللّٰہِ فِیْ کُلِّ مَشْھَدِ
آپ ایسے نبی نہیں کہ وہ دیکھتے ہیں جو اور لوگ اپنے گرد بھی نہیں دیکھتے اور آپ ہر مشہد پر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں یہی وجہ تھی کہ دُور دُور سے دستِ سوال دراز ہوا کہ یہ دست بصارتوں کے آئینے میں ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وجود رسالت کے ظاہری حسن وجمال کا بھی تذکرہ کرتے تھے اور اس حسن کو دائمی سمجھتے تھے، مثلاً حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر:
مَتٰی یَبْدُ فِیْ الدَّاجِی الْیَھِیْمِ حَیبِیْنُہٗ
بَلُح مِثْلَ مِصْبَاحِ الدُّجی الْمُتَوَقِّدُ
جب گھٹاٹوپ اندھیرے میں آپ کی پیشانی ظاہر ہوتی ہے توہ اندھیروں میں چمکتی ہوئی قندیل کی طرح چمکنے لگتی ہے۔
اور یہ اشعار تو ہر صاحب ذوق کی زبان پر ہوں کہ:
وَاَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطٌّ عَیْنِی
وَ اَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تِلدِ الِنسَائُ
خُلِقْتَ مُبَرّا مِنْ کُلِّ عَیْبِ
کَأَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَائُ


Urdu Naat Lyrics

آپ سے حسین تر تو کبھی بھی میری آنکھ نے نہیں دیکھا اور آپ سے جمیل تر کو تو کسی عورت نے جنم نہیں دیا۔
آپ ہر عیب سے پاک پیدا کئے گئے ہیں۔ گویا کہ جیسا آپ نے چاہا آپ کو پیدا کردیاگیا۔
ثناخوانی کے ساتھ قلبی جذبات کی فراوانی بھی شامل ہوجائے تو مدح نگار نئے سے نئے انداز انتخاب کرتا ہے اور مدح کی وسعت کو بے کنار کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایسا ہونا فطری عمل ہے مثلاً حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا:
لَہٗ رَاحَۃٌ لَوْ أَنَّ مِعْشَارَ جُوْدِھَا
عَلَی الْبرِّ کَانَ الْبَرُّاَنْدَی مِن الْبَحْرِ
آپ کا دستِ فیضان ایسا ہے کہ اُس کے جودوکرم کا دسواں حصّہ بھی خشکی پرآجائے تو وہ سمندر سے زیادہ فیاض ہوجائے۔‘‘
یہی جذبوں کی شدت جب حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اندر ہنگامہ پیدا کرنے لگے تو اُن کے شعروں میں بھی فیض وبخشش کا وہ انداز در آیا کہ آپ کا وجود یکتا نظر آنے لگا، پھر جذبے اتنے جوان ہوئے کہ یہاں تک فرماگئے:
لَوْ لَمْ تَکُنْ فِیْہِ آیاتٌ مُبِیّنَۃٌ
کَانَتْ بَدِیْھَتُہٗ تُفْتِی عَنِ الْخَیْرِ
اگراس میں واضح تر آیات نہ بھی ہوتیں تو آپ کا رُخ روشن ہرخیر سے بے نیاز کردیتا۔
ہدایت و راہنمائی کے لیے صرف اور صرف رُخ تاباں ہی کا کافی ہونا شاعر کی جمال جہاں آرا سے وابستگی کا مظہر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمدوثنا ایسا عمل ہے کہ روز اوّل سے اس کی بنیاد خالق نے رکھ دی تھی جب آپ کا اسم مبارک ’’محمد‘‘ تجویز ہوگیا تھا ۔ العباس بن مرداس رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الْاِلۃ بَنَی عَلَیْکَ مَحَبَّۃُ
فی خَلْقِہٖ وَ مُحْمداً سَمَّاکَ
بے شک پروردگار نے مخلوق میں آپ کی محبت ودیعت کردی تھی اور ’’محمد‘‘ آپ کا نام رکھ دیا تھا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شاعری اُس معیار کی ترجمان تھی جو اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ترتیب پایاتھا اس لیے اُن کی شاعری مدحیہ حوالوں سے بھی راہنما رہی۔ زمانہ گزرتا گیا، حالات بوقلموں تغیرات کے نخچیر ہوئے مگر نعتیہ شاعری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعین حدود کی پابند رہی، اس معیار کو قائم رکھنے کے لیے ہر دور کے شعرا نے اہتمام کیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر شاعراس معیار کی حکمتوں کو نہ پاسکا اس لیے یا تو نعتیہ شاعری سے گریز کرتا رہا یا کبھی راہ راست سے انحراف کا شکار ہوتا رہا یہ جو اعتراض خمول شعرا کے بارے میں ہر ناقد کی زبان پر آیا کہ آخر کیا وجہ تھی جو مستند اور مشہور شعرا نعت کہنے کے اہل قرار نہ پائے، اس کا جواب بھی یہی ہے کہ نعت صرف شاعری نہیں، ہر شاعر اس کا اہل نہیں کہ یہ جذبوں کی صداقت کا شعری پیراہن میں اظہار کرے اور جب شاعری کا معیار یہ بن چکاہو کہ ’’اَشعر الشعر اَکْذَبَہ‘‘کہ بہترین شعر من پسند خام خیالوں کا مرقع ہوتا ہے، کِذب جب حسن شعر کا لازمی جزو قرار پاچکا ہو تو صداقت کا تذکرہ ایسے ماحول میں کیوںکر ممکن ہوگا، یہی وجہ تھی کہ نعتیہ شاعری کی مقبولیت اُن لوگوں کے ہاں ہی ہوئی جن کی زندگیاں پاکیزگیوں کا مرقع تھیں اور اگر سماجی محرکات یا عصری حالات نعت کہنے پر مجبور کردیں تو یہ سراسر تتبع کا سودا ہوتا ہے۔‘‘ دل کی پکار نہیں ہوتی، نعت ممدوح کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اوصاف شماری یا تاریخی حکایت کا نام نہیں، یہ تو داخل کی اُن کیفیات کا اظہار ہے جو سراسر پا بندِ آداب ہیں، وہ داخل جہاں ممدوح جلوہ گر ہے، اس لیے یہ خارج کی تصویر کشی نہیں، داخل کی عکاسی ہے اور جب داخل۔ ممدوح کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبوں سے سرشارنہ ہوتو نعت معاشرتی مجبوری ہی ہے۔ صدیوں کا نعتیہ شعر واضح کرتا ہے کہ جب بھی نعتیہ دل کی آوازبنی تو اس کا آہنگ بھی مودّبانہ رہا اور اس کے مضامین بھی حدود شریعت میں ہی رہے، امام بوصیری علیہ الرحمۃ کا قصیدہ بردہ ایک طویل قصیدہ ہے اس قدر طوالت غیر معیاری ہونے کا سبب بنتی ہے مگر پورا قصیدہ گواہ ہے کہ ایک شعر بھی صرف قافیہ اور ردیف کی مجبوری نہ بنا، ایک ایک شعر معیار کی اُس بلندی پر ہے جو دوسروں کے لیے اُسوہ ہے، مدح کا ہر پہلو موضوع سخن بنا، فضائل کی کثرت کا ذکر ہوا پھر یہ بھی کہ امام بوصیری علیہ الرحمۃ کے جذبے بھی اپنی معراج پر تھے مگر ایک شعر بھی ایسا نہ کہاگیا جس پر کوئی انگشت نمائی کرسکے، سبب یہی تھا کہ وقار رسالت اور منزاتِ نبوت سے آگاہ تھے، کوئی خیال آورد کا مظہر نہ تھا، ہر شعر مومنانہ عقیدت کا غماز تھا، جب جذبات شدید بھی ہوئے تو اُن پر حدود شریعت کا پہرہ لگادیاگیا مثلاً فرماتے ہیں:
دَعْ مَا ادَّعَتْہُ النَّصَاریٰ فِیْ نَبِیَّھِمِ
وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحاً فِیْہِ وَاحْتِکمِ
وہ دعویٰ نہ کروجو نصاریٰ نے اپنے نبی کے بارے میں کیا یعنی اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنا دیا۔ اس کے علاوہ آپ کی تعریف میں جو چاہے کہو اور حکم لگاؤ۔
یہی شعر مدح کا معیار ہے کہ مدح غلط بیانی نہ ہو بلکہ ہرہر لفظ سے عظمت آشکار ہو۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی نعتیہ شاعری نے ہر دور کے لیے معیار قائم کردیا ہے اورحدودمتعین کردی ہیں، مدح جلالت شان کا اظہار ہو، اس کے لیے مدح کو ذاتی حسن وجمال، اوصاف،خصائص، شمائل،منزلت،ہمہ گیری اور سراپاکرم ہونے کو موضوع بنایا جائے تو مدح کا حق ادا ہوتا ہے۔جب نبی اکرمﷺ ظاہری نظروں کے سامنے نہ رہے تو شوق دیدار کے جذبے شدید ہوگئے، جوں جوں زمانہ گزرتا گیا، فراق کی حمیت تڑپانے لگی، برصغیر کے شعرا کے ہاں اس فراق کا احساس شدید تر ہوا خاص طور پر اُن شعرا میں جو دیارحرم سے بچھڑ کر آئے تھے مثلاً!حسن بن علی شرتم کی پکار ہے:
فَاِنَّ لَہٗ سَبْعاً وَعِشْرِیْنَ حجَّۃ
غَرِیْباً بِاْرْضِ الّھِنْدِ یَصْبُوا اِلیٰ ھِنْدِ
بے شک اُس کو ستائیس سال ہوگئے ہوں کہ ہندوستان کی سرزمین پر ہے اور محبوب کی تڑپ لیے ہوئے ہے۔
مضامین نعت میں زمانے کی گردشوں کے ساتھ ساتھ تغیر آتا گیا، غلامی ایک عذاب بن کر آئی جس کے ازالے کے لیے حساس دل تڑپتے رہے، حالات کی ناسازگاری نے قوائے قومی کو مضحل کردیا، بادشاہت زوال پزیر ہوئی تو یہ چھوٹے چھوٹے سیارے بھی چھن گئے،‘‘ بدقسمتی یہ تھی کی اقتدار کے دور میں یہ لوگ بڑے نظر آتے تھے جیسے سانگلہ ہل کی پہاڑیاں ان کے دامن میںبسنے والوں کو اورسٹ سے بھی اونچی دکھائی دیتی ہیں مگر جب مصنوعی سہارے ٹوٹے تو نظریں اوپر اٹھیں اور پھر ایک ہی دربار نظر آیا اس لیے اُسی کی دہائی دی جانے لگی،برصغیر میں یہ پکار ہر جانب سے اٹھی اور اس تیزی سے اٹھی کہ سارا برصغیر سراپا گداز بن گیا، ایسے پرجوش ماحول میں جذبے بھی بے ترتیب ہوئے اور آوازیں بھی بے آہنگ ہوئیں۔ یہی وہ دور تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معیار ہاتھوں سے چھوٹا اور قدرے بے راہ روی پیدا ہوئی۔ ضرورت اب بھی یہی ہے کہ ہر نعت گو، سیرت کے تقاضوں کو سمجھے، قیام رسالت سے آگاہ رہنے کے لیے علمائے حق کی راہنمائی سے پابند آداب رہنے کی کوشش کرے، یہ کبھی خیال نہ آئے کہ عصرحاضر کے جذبے دور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبوں سے زیادہ قوی ہیں بلکہ محبت کا ہر مظہر قرون اولیٰ کے مظاہر سے ہم رنگ رہنا چاہیے، تقابل کا کوئی جوش بے ترتیب نہ ہونے دے کوشش یہی رہنی چاہیے کہ خیالات کو پاکیزگی کا وہی حصار حاصل رہے جو دور صحابہ رضی اللہ عنہم میں قائم ہوا تھا، نعت کے مضامین بھی سیرت کا حوالہ چاہتے ہیں کہ یہ دراصل منظوم سیرت نگاری ہی ہے، یہ تبھی ممکن ہے کہ مطالعہ سیرت ہر نعت گو کا وظیفہ حیات بنے۔ اگر ایسا ہوتا رہا تو پناہِ ربانی حاصل رہے گی اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
{٭}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے