قلم لاکھوں ہوں کاغذ پر خمیدہ مگر کب لکھ سکیں تیرا قصیدہ

قلم لاکھوں ہوں کاغذ پر خمیدہ مگر کب لکھ سکیں تیرا قصیدہ

پروفیسرسہیل اخترؔ ( بھاولپور)


قلم لاکھوں ہوں کاغذ پر خمیدہ
مگر کب لکھ سکیں تیرا قصیدہ


کروں جن لفظوں سے تیری ثنا میں
ابھی وہ لفظ ہیں ناآفریدہ


بھٹکتا ہے تخیل میرا ایسے
ہو جیسے دشت میں آہو رمیدہ


اگر کچھ لکھ سکے شاید تو لکھے
بیاضِ سادہ پر اشکِ چکیدہ


سماعت سے نگاہوں میں اتر آ
شنیدہ کے بود مانند دیدہ


یہ کیسا دور ہے اے رب اکبر
ہر اک انسان ہے مردم گزیدہ


مسرت کی شعاعوں سے منور
کر اے مولا ہمارے قلب و دیدہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے