دیر تیرا ہے حرم تیرا کلیسا تیرا جستجو ہو تو بہر سمت ہے رستہ تیرا

دیر تیرا ہے حرم تیرا کلیسا تیرا جستجو ہو تو بہر سمت ہے رستہ تیرا

حسرت حسین حسرتؔ (پاکستان)


دیر تیرا ہے حرم تیرا کلیسا تیرا
جستجو ہو تو بہر سمت ہے رستہ تیرا


دل کی آنکھوں سے جو دیکھا ہے گلستاں کی طرف
رگِ گل میں بھی نظر آیا ہے رشتہ تیرا


تیری تخلیق کی وسعت کا کسے ہے ادراک
بزم افلاک میں سورج بھی ہے ذرّہ تیرا


کون سا دل ہے کہ جو خوگرِ تسبیح نہیں
کون سا سر ہے کہ جس میں نہیں سودا تیرا


شہِ کونین محمد کو بنایا تونے
نسلِ آدم پہ ہے احسان یہ کتنا تیرا


جہاں پھولوں کی لطافت وہیں کانٹوں کی خلش
لطف ہر سو ہے جہاں میں چمن آرا تیرا


صحن گلشن میں کوئی گوش بر آواز تو ہو
لالہ و گل کی زباں پر بھی ہے نغمہ تیرا


ظلمت شب کو عطا کی مہِ انجم کی چمک
صبحِ مشرق کی نہیں جبیں پر ہے اجالا تیرا


تیری آنسو تری بخشش کے ہیں عنواں حسرت
اس کے با وصف کہ بے کیف ہے سجدہ تیرا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے