ہوں میں بھی اس کا مرا بست و در بھی اس کا ہے سفر بھی اس کا ہے زادِ سفر بھی اس کا ہے

ہوں میں بھی اس کا مرا بست و در بھی اس کا ہے سفر بھی اس کا ہے زادِ سفر بھی اس کا ہے

کرشن کمارطورؔ (دھرم شالہ)


ہوں میں بھی اس کا مرا بست و در بھی اس کا ہے
سفر بھی اس کا ہے زادِ سفر بھی اس کا ہے


گو ہوں کم امکاں مگر اس کی دسترس میں ہوں
ہنر بھی اس کا ہے سودِ ہنر بھی اس کا ہے


جلا کے راکھ کرے وہ کہ فصل روشنی دے
دیا ہے اس کا اگر تو یہ گھر بھی اس کا ہے


جو وہ دکھائے گا مجھ کو وہی میں دیکھوں گا
نظر بھی اس کی ہے ذوقِ نظر بھی اس کا ہے


اگر وہ چاہے تو بھر دے یہ جھولیاں میری
ثمر بھی اس کے اگر تو شجر بھی اس کا ہے


ہمیں تو چلنے سے ہے کام طورؔ چلتے ہیں
سفر نما بھی وہی ہے سفر بھی اس کا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے