لائوں کہاں سے حوصلہ آرزوئے سپاس کا جبکہ صفات یار میں دخل نہ ہو قیاس کا

لائوں کہاں سے حوصلہ آرزوئے سپاس کا جبکہ صفات یار میں دخل نہ ہو قیاس کا

حسرت موہانیؔ


لائوں کہاں سے حوصلہ آرزوئے سپاس کا
جبکہ صفات یار میں دخل نہ ہو قیاس کا


عشق میں تیرے دل ہوا ایک جہان بیخودی
جان خزینہ بن گئی حیرتِ بے قیاس کا


رونقِ پیرہن ہوئی خوبیٔ جسمِ نازنین
اور بھی شوخ ہوگیا رنگ ترے لباس کا


دل کو ہو تجھ سے واسطہ، لب پہ ہو نامِ مصطفی
وقت جب آئے اے خدا خاتمۂ حواس کا


لطف و عقائے یار کی، عام ہیں بس کہ شہرتیں
قلبِ گناہ گار میں نام نہیں ہراس کا


طے نہ کسی سے ہوسکا تیرے سوا معاملہ
جان امید وار کا، ’’حسرتؔ‘‘ محوِ یاس کا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے