آزمائش میں مجھے کاہے کو ڈالا ربی میں کہاں ایسا تیرا نیکیوں والا ربی

آزمائش میں مجھے کاہے کو ڈالا ربی میں کہاں ایسا تیرا نیکیوں والا ربی

حبیب راحب حباب


آزمائش میں مجھے کاہے کو ڈالا ربی
میں کہاں ایسا تیرا نیکیوں والا ربی


مار جائے نہ مری آس کو پالا ربی
میری اوقات ہی کیا خاک سفالہ ربی


سارا عالم ہے ترے نور کی لو سے جھلمل
سارے عالم میں ترے دم سے اجالا ربی


میری تخیل میں رکھ شمع ہدایت روشن
فکر کی آنکھ میں پڑ جائے نہ جالا ربی


خون دل سے ہو چراغاں سرمژگاں ایسا
اشک بن جائیں میرے لولوئے لالہ ربی


تیری رحمت کا طلب گار ہے راحتؔ کب سے
تیرے محبوب کا دے دے کے حوالہ ربی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے