کروں پہلے توحیدِ یزداں قلم جھکا جس کے سجدے کو اول قلم

کروں پہلے توحیدِ یزداں قلم جھکا جس کے سجدے کو اول قلم

میرغلام حسن حسنؔ دہلوی



کروں پہلے توحیدِ یزداں قلم
جھکا جس کے سجدے کو اول قلم


سرِ لوح پر رکھ بیاضِ جبیں
کہا دوسرا کوئی تجھ سا نہیں


قلم پھر شہادت کی انگلی اٹھا
ہوا حرف زن یوں کہ رب العلا


نہیں کوئی تیرا نہ ہوگا شریک
تری ذات ہے وحدہ‘ لاشریک


پرستش کے قابل ہے تو اے کریم
کہ ہے ذات تیری غفور رحیم


رہ حمد میں تیری عزو جل
تجھے سجدہ کرتا چلوں سر کے بل


وہ الحق کہ ایسا ہی معبود ہے
قلم جو لکھے اس سے افزود ہے


سبھوں کا وہی دین ایمان ہے
یہ دل ہیں تمام اور وہی جان ہے


تروتازہ ہے اس سے گلزار خلق
وہ ابر کرم ہے موادارِ خلق


اگرچہ وہ بے فکر و غیور ہے
وَلے پرورش سب کی منظور ہے


کسی سے برآوے نہ کچھ کام جاں
جو وہ مہرباں ہو توکُل مہرباں


اگرچہ یہاں کیا ہے اور کیا نہیں
پر اس بن تو کوئی کسی کا نہیں


موئے پر نہیں اس سے رفت وگزشت
اسی کی طرف سب کی ہے بازگشت


رہا کون اور کس کی بابت رہی
موئے اور جیتے وہی ہے وہی



نہاں سب میں اور سب میں ہے آشکار
ہے سب اس کے عالم ہیں مژدہ ہزار


درے سب ہیں اس سے وہی سب سے پیش
ہمیشہ سے ہے اور رہے گاہمیش


چمن میں ہے وحدت کے یکتا وہ گل
کہ مشتاق ہی اس کے سب جزو کل


اسی سے ہے کعبہ اسی سے کنشت
اسی کا ہے دوزخ اسی کا بہشت


جسے چاہے جنت میں دیوے مقام
جسے چاہے دوزخ میں رکھے مدام


وہ ہے مالک الملک دنیا و دیں
ہے قبضہ میں اس کے زمان وزمیں


سدا بے نمودوں کی اس سے نمود
دل بستگاں کی ہے اس سے کشود


اسی کی نظر سے ہے ہم سب کی دید
اسی کے سخن پر ہے سب کی شنید


وہی نور ہے سب طرف جلوہ سحر
اسی کے یہ ذرے ہیں شمس و قمر


نہیں اس سے خالی غرض کوئی شے
وہ کچھ شے نہیں پر ہراک شے میں ہے


نہ گوہر میں ہے وہ نہ ہے سنگ میں
وہ لیکن چمکتا ہے ہر رنگ میں


وہ ظاہر ہے ہر چند ظاہر نہیں
پہ ظاہر کوئی اس سے باہر نہیں


تامل سے کیجئے اگر غور کچھ
تو سب کچھ وہی ہے نہیں اور کچھ


اسی گل کی بو سے ہے خوشبو گلاب
پھرے ہے لئے ساتھ دریا حباب


پر اس جوش میں آکے بہنا نہیں
سمجھنے کی ہے بات کہنا نہیں


قلم گو زباں لادے اپنی ہزار
لکھے کس طرح حمد پروردگار


کہ عاجز ہے یاں انبیاء کی زباں
زبان و قلم کو یہ قدرت کہاں


اس عہدے سے کوئی بھی نکلا نہیں
سوا عجز درپیش یاں کچھ نہیں


وہ معبود یکتا خدائے جہاں
کہ جس نے کیا ’’کن‘‘ میں کون ومکاں


دیے عقل و ادراک اس نے ہمیں
کیا خاک سے پاک اس نے ہمیں


پیمبر کو بھیجا ہمارے لئے
ولی اور امام اس نے پیدا کئے


جہاں کو انہوں نے دیا انتظام
برائی بھلائی سجھائی تمام


دکھائی انہوں نے ہمیں راہ راست
کہ تا ہو نہ اس راہ کی باز خواست


سو وہ کون سی راہ؟ شرع نبی
کہ رستے کو جنت کے سیدھی گئی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے