اثرؔزبیری لکھنوی
دل و جاں کو پھر محرمِ راز کردے
الٰہی محبت کا دمساز کردے
جمال نظر سے سر افراز کردے
نئے دورِ مستی کا آغاز کردے
مجھے آپ اپنا ہی غماز کردے
تسلی سے آگاہ کر حیرتوں کو
تواضع کی توفیق دے نخوتوں کو
سکھا دے سبق نور کا ظلمتوں کو
مذاقِ وفا بخش دے فطرتوں کو
جنوں کو خرد کا ہم آواز کردے
وفا کو ادب آشنا کرنے والے
علاجِ دل مبتلا کرنے والے
جگر کو حرارت عطا کرنے والے
مداوائے دردِ وفا کرنے والے
نظر کو سراپائے اعجاز کردے
متاعِ شکستہ دلی چاہتا ہوں
سکوں بخش دیوانگی چاہتا ہوں
نئی لذتِ خامشی چاہتاہوں
علاجِ غمِ آگہی چاہتا ہوں
خودی کو نظر کردۂ ناز کردے
غم آگیں ہے یہ زندگی کا فسانہ
جنوں شاطرانہ خرد کافرانہ
جہاں بن گیا کلفتوں کا خزانہ
اٹھالے زمانے سے وہ آب و دانہ
جو شاہیں کو محرومِ پرواز کردے
الٰہی مزاجِ ادب آشنا دے
جبینوں کو رازِ عقیدت بتا دے
نیازِ مناجات و زاری سکھادے
ہر اک اشک کو رشکِ گوہر بنادے
ہر اک آہ کو شعلۂ ساز کردے
0 تبصرے