سید قیصر وارثی
یہ رنگ و نور یہ حسنِ تمام کس کا ہے
کوئی نہیں تو یہ انتظام کس کا ہے
سجایا رات کو تاروں سے دن کو سورج سے
یہ کارِ حسن بصد التزام کس کا ہے
مٹا رہا ہے جو دونوں جہاں کی تشنہ لبی
میں جانتا ہوں وہ لبریز جام کس کا ہے
ہمارے جیسے گنہگاروں کو بھی رزق ملے
سوائے رب کے یہ فیضان عام کس کا ہے
ابھرتے ڈوبتے سورج سے پوچھ کر دیکھو
کہ تو ازل سے اسیرِ نظام کس کا ہے
جلانا مارنا اور مار کر جلانا پھر
سوائے قادر مطلق یہ کام کس کا ہے
دماغِ منکرِ رزاقیت بھی ہے حیراں
کہ خوان دہر پہ یہ اہتمام کس کا ہے
کوئی بھی شئے ہو وہ تخلیق کار ہے سب کا
اجالے اس کے تو یہ رنگِ شام کس کا ہے
یہ شاعری بھی اسی کی عطا ہے اے قیصرؔ
تو کچھ بنا ہے جہاں میں تو نام کس کا ہے
0 تبصرے