تجھ پر ہی عرش و فرش کا دار و مدار ہے بیشک تو کائنات کا پروردگار ہے

تجھ پر ہی عرش و فرش کا دار و مدار ہے بیشک تو کائنات کا پروردگار ہے

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی


تجھ پر ہی عرش و فرش کا دار و مدار ہے
بیشک تو کائنات کا پروردگار ہے
باہر نہیں ہے قبضۂ قدرت سے تیرے کچھ
ناسازگار تیرے لئے سازگار ہے
تو ہے رگِ گُلو سے ہماری قریب تر
تجھ پر ہمارا حالِ زبوں آشکار ہے
آلامِ روزگار سے ہے ہم کو سابقہ
صبر آزما یہ گردشِ لیل و نہار ہے
شیرازہ مُنتشر ہے ہمارا جہاں بھی ہیں
اپنی صفوں میں ہر جگہ اک انتشار ہے
فصلِ بہار کا نہیں نام و نشاں یہاں
یہ گلشنِ حیات خزاں کا شکار ہے
پُرسانِ حال کوئی نہیں ہے ہمارا آج
خوں سے ہمارے صحنِ چمن لالہ زار ہے
خوش فہمی کا شکار ہیں ہم اِس اُمید پر
آتی خزاں کے بعد ہی فصلِ بہار ہے
یہ عرضِ حال اپنی کرے بھی تو کس طرح
دامن عروسِ فکر کا بھی تار تار ہے
یہ ہے ہماری شامتِ اعمال اے خُدا
رحمت کا تیری آج ہمیں انتظار ہے
صدیقؔ تھا عمرؔ کوئی عُثماںؔ کوئی علیؔ
طرزِ عمل پہ جن کے ہمیں افتخار ہے
ناگُفتہ بہ ہے آج ہمارا یہ حالِ زار
جو سربکف تھا آج ذلیل اور خوار ہے
ہم ہیں خطا شعار ہمیں اعتراف ہے
تجھ سے یہ عرضِ حال بصد اِنکسار ہے
تیرے سوا یہ کس سے کرے اپنی شرحِ حال
برقیؔ کے سر پہ اشہبِ دوراں سوار ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے