غواصیؔؔ
رحیما سچا توں غنی ہو رہے
غنی تج بغیر نیں کوئی رے
تو مقبول ہے مقبلاں کا سچیں
نہیں نور روشن دلاں کا سچیں
جو کئی زندہ دل ہے توں ان کا حیات
جو کئی ہورہے تج سات توں ان کے سات
جو ہوں میں الٰہی ترا داس میں
کیا ہوں بہت ایک تری آس میں
توں مجھ داس پر کھول در فیض کا
میرے من میں بھر دے، اثر فیض کا
طراوت دے مج آس کے باغ کوں
دوابخش منج درد کے داغ کوں
وفا میں بڑا کر جواں مرد منج
ترے باٹ کا کرکے رکھ گردمنج
عطا کر منجے کچ ترے نانوں سوں
دے پرواز مجکوں بلند دہانوں سوں
ترے نور کی راہ دکھانا منجے
دلا عافیت کا بچھانا منجے
جلا دے مرے جیو کی تو آگ کوں
دے رنگ باس منج دمکی پھل پھانگ کوں
سدا کسب میرا سو اخلاص کر
ترے خاص بندوں میں منج خاص کر
جگا جوت تج دھیان کیرا رتن
مرے من کے صندوق میں اک جتن
ہماں کرمنجے باٹ کے اوج کا
شہنشاہ کر گیان کی فوج کا
0 تبصرے