سراجؔ اورنگ آبادی
دعا کو یہی بات اٹھا حق کے پاس
کہ جاوے ترے پاس سے غم کی باس
کسی سے نہ اب غیر حق بات کر
نپٹ التجا سے مناجات کر
الٰہی بتوں سے مرا دل پھرا
کہ ہرگز نہیں ان میں نام وفا
مجھے ان کی زلفوں کے خم سے نکال
کہ آئے گا ایماں پہ آخر وبال
چھڑا دام گیسوئے خوباں سے دل
بچا خنجر نوک مژگاں سے دل
مجھے دور رکھ ان کے ابر وستی
بچا رکھ مجھے چشم جادوستی
مت ان جامہ زیبوں سے اٹکا مجھے
نہ دے ان کے دامن کا جھٹکا مجھے
تبسم انہوں کا مجھے مت دکھا
تکلم انہوں کا مجھے مت سنا
پھر احسن حادث سے دل یک بیک
کہ نورِ قدیمی کی دیکھوں جھلک
0 تبصرے