سعیدؔرحمانی
تو لازوال ہے تیرا نہیں ہے کوئی جواب
یہ ہست و بود کا عالم ہے ایک موج حباب
مشامِ جاں ہے معطر لطیف خوشبو ہے
تو باغ ہستی عالم کا ہے مہکتا گلاب
بصیرتوں کا وسیلہ ہے ذہن و دل کے لئے
ترے وجود سے روشن ہے زندگی کی کتاب
نہ جانے کب سے بکھر جاتا خیمۂ ہستی
سنبھالے رکھتی ہے اس کو ترے یقیں کی عناب
اذیتوں کی کڑی دھوپ کی تمازت میں
ہمارے سر پر رہا ہے ترے کرم کا سحاب
مرے گناہ کا دفتر دراز ہے لیکن
ترے کرم کے سمندر کی کوئی حد نہ حساب
وہی نوازے گا رحمت کی بارشوں سے سعیدؔ
رہا ہے مجھ پہ عطش کی تمازتوں کا عتاب
0 تبصرے