نعیم صدیقیؔ
درونِ دل سے کوئی گد گدا رہا ہے مجھے
جنوں کے حوصلے پھر سے دلا رہا ہے مجھے
نگاہِ رمز کی پھر زد پہ لا رہا ہے مجھے
جلا رہا ہے ، لحد سے اٹھا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے
وہ کوئی ہے جو صبا بن کے سر سراتا ہے
وہ کوئی ہے جو کلی بن کے مسکراتا ہے
وہ کوئی ہے جو کرن بن کے جھلملاتا ہے
وہ بے نیاز دو عالم بنا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے
عجیب چشمکیںجادو بھری ستاروں کی
یہ کوہساروں میں آواز آبشاروں کی
کسی پیام سے بوجھل ہوا چناروں کی
کوئی تصور رنگیں ستا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے
وہ اک لطیف تپش، دل کی ٹھنڈی ٹھنڈی جلن
کنارِ جوئے رواں، درمیانِ سرو سمن
سلا گئی تھی مجھے جس کی میٹھی میٹھی چبھن
وہی مہین سا کانٹا جگا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے
یہ اک ہجومِ بتاں، دوستوں کی بزمِ فراغ
ستارے بن کے چمکنے لگے ہیں سارے ایاغ
یہ ایک لمحہ، کہ دل پہ نہیں گرفت دماغ
یہاں پہ کون کچوکے لگا رہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے
یہ زعم تھا کہ لگی کو بجھا بھی سکتا ہوں
ہو بے خودی تو خودی کو بچا بھی سکتا ہوں
میں یاد کرکے کسی کو بھلا بھی سکتا ہوں
وہ ٹوٹتا ہے جو اک ادعا، رہا ہے مجھے
کوئی تصور رنگیں ستا رہا ہے مجھے
ستم کشیدۂ … آسماں ہوں میں
الم چشیدۂ یک عمرِ رائیگاں ہوں میں
ہے غم گواہ کہ ہر غم کا راز داں ہوں میں
یہ اور غم ہے جو اب کے گھلا رہا ہے مجھے
کوئی تصور رنگیں ستا رہا ہے مجھے
یہ بے صدا سا پیام، اس پہ والہانہ اٹھوں
تقاضا ہے بہ اسلوبِ عاشقانہ اٹھوں
رضا میں ڈوب کے بے عذر و بے بہانہ اٹھوں
کہ جیسے وعدہ کوئی یاد آرہا ہے مجھے
نجانے کون کہیں سے بلا رہا ہے مجھے
0 تبصرے