تو چاہے تو سمندر کو بھی صحرا کردے عرش کو فرش کرے فرش کو دریا کردے

تو چاہے تو سمندر کو بھی صحرا کردے عرش کو فرش کرے فرش کو دریا کردے

ناشاد اورنگ آبادی


تو چاہے تو سمندر کو بھی صحرا کردے
عرش کو فرش کرے فرش کو دریا کردے


خواہ عزت دے کہ ذلت ہے یہ تری مرضی
قابلِ فخر کو جب چاہے تو رسوا کردے


دیکھ امواجِ حوادث میں ہے کشتی میری
کسی صورت سر ساحل اسے داتا کردے


ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دی تونے
مشکلیں میری بھی آساں مرے آقا کردے


اے خدا شاعرِ ناشاد کی سن لے یہ دعا
جذبۂ حبِّ نبیؐ اور بھی گہرا کردے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے