مشرف حسین محضر
آنکھوں میں توہے دل میں تو ہے دل کے احساسات میں تو
تیری ذات کا میں شیدائی پنہاں میری ذات میں تو
صبح طرب کی سطح افق سے سورج بن کر ابھرا ہے
چاند کا روپ لئے آیا ہے غم کی کالی رات میں تو
عیش و مسرت تیرا کرم ہے فکر و فاقہ تیری رضا!
آسودہ لمحات میں تو تھا آشفتہ لمحات میں تو!
قہر ترا نافرمانوں پر رحم ترا ہر تابع پر
غیظ و غضب کی آندھی میں تو رحمت کی برسات میں تو
کعبے کی دیوار پہ لکھے مصرعوں سے یہ ثابت ہے
لاثانی ہر لفظ ہے تیرا، یکتا اپنی ذات میں تو
ماضی تیرا حال بھی تیرا مستقبل کا تو مالک!
ماضی کے حالات میں تو تھا موجودہ حالات میں تو
تو چاہے محضرؔ کے حق میں ناممکن، ممکن کردے
ہر اک شیٔ پر تو قادر ہے سارے امکانات میں تو
0 تبصرے