نورؔمنیری
کسی کی آنکھ میں آنسو اتار دیتا ہے
کسی کے دل کو وہ صبر و قرار دیتا ہے
کبھی امیر کو ٹھوکر پہ مار دیتا ہے
کبھی غریب کی قسمت سنوار دیتا ہے
حسین پھول کھلاتا ہے ریگزاروں میں
خزاں نصیب چمن کو بہار دیتا ہے
فلک شگاف پہاڑوں کا چیر کر سینہ
زمیں کی پیاس کو وہ آبشار دیتا ہے
بہائو بحر کا خشکی پہ کم نہ ہو تو وہ
سمندروں میں جزیرے ابھار دیتا ہے
وہ نغمہ بار پرندوں کے چہچہوں میں کبھی
زمین والوں پہ رحمت اتار دیتا ہے
مرے گناہ پہ چادر بھی ڈالتا ہے وہ
سماج میں بھی وہ مجھ کو وقار دیتا ہے
بھٹک بھی جائوں کسی دشت بیکراں میں اگر
تو مجھ کو پیار سے آکر سہار دیتا ہے
خیال رکھتا ہے سب کی ضرورتوں کا وہ
کسی کو نقد کسی کو ادھار دیتا ہے
کسی کے پیار کی کشتی بھنور میں پھنس جائے
اسے بھی نورؔ کنارے اتار دیتا ہے
0 تبصرے