فلسفۂ سلام و قیام
رحمت الٰہی برقؔ اعظمی مرحوم
(پدرعزیزِ برقیؔ اعظمی)
فضول تجھ کو اپنے زُہدِ ظاہری پہ ناز ہے
جو عشقِ مصطفیٰﷺ نہیں تو بے اثر نماز ہے
جسے نہ تو سمجھ سکا یہی تو ایک راز ہے
تجھے خدا پہ اور خدا کو مُصطفیٰ ﷺ پہ ناز ہے
خدا درود بھیجتا ہے مصطفیٰﷺ پہ خود مگر
تجھے سلامِ با قیام سے بھی احتراز ہے
محبتِ نبیﷺ ہے اولیں اساس دین کی
جو یہ نہیں تو دین ہی کب اے زمانہ ساز ہے
جو دین ہی نہیں تو فیضِ روزہ و نماز کیا
حقیقت اصل شے ہے فرع پردۂ مجاز ہے
قیام سے نفور تو سلام سے نفور تو
پھر اُس پہ ناز یہ کہ نیک نفس و پاکباز ہے
جو تیرے دل میں کھوٹ کچھ نہیں تو یہ بتا مجھے
کہ آخر اِس سے کس لئے تجھے پھر احتراز ہے
بضد ہے تو قعود پر مُصر ہوں میں قیام پر
وہ اک ادائے ناز ہے یہ صورتِ نیاز ہے
مقامِ عاشقی میں بوالہوس خبر بھی ہے تجھے
مقامِ عاشقی میں بوالہوس خبر بھی ہے تجھے
نیاز لاکھ درجہ بہتر از غرورِ ناز ہے
بڑا ہی فرق ہے تصورِ نیاز و ناز میں
بڑا ہی فرق ہے تصورِ نیاز و ناز میں
تمیز کر اگر تجھے شعورِ امتیاز ہے
اسی لئے سلامِ با قیام بر شہہَ رُسُلﷺ
اسی لئے سلامِ با قیام بر شہہَ رُسُلﷺ
طریقِ جُملہ اولیائے محرمانِ راز ہے
قبول ہو اگر تجھے تو برقؔ کا ہے مشورہ
قبول ہو اگر تجھے تو برقؔ کا ہے مشورہ
کہ اب بھی ضِد سے باز آ درِ قبول باز ہے
0 تبصرے