رحمت الٰہی برق اعظمی کے شاعرانہ کمالات
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی
علم و ادب کے ہر شعبہ میں اعظم گڈھ کی خاک سے متعدد اصحاب علم و کمال اٹھے اورنیر اعظم بن کر چمکے، جنکی تابانیوں سے آسمان علم و ادب اب تک منور ہے، ان روشن ستاروںکے جلو میں بہت سے ایسے ارباب شعرو سخن بھی پیدا ہوئے جن کی روشنی کو گردش ایام نے فصیل شہرتک محدود رکھا حالانکہ وہ درجہ امتیاز پر فائز تھے۔ جناب رحمت الٰہی برق اعظمی مرحوم کا شمار ایسے ہی سخنوران اعظم گڈھ میں ہوتا ہے ۔
اقبال سہیل اور مرزا احسان احمد کے بعد اعظم گڈھ کی ادبی فضا جن کے نغموں سے پرشور تھی ان میں برق اعظمی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔انھوں نے مدت العمر داد سخن دی،وہ انتہائی قادرالکلام شاعر تھے،فی البدیہہ شعرگوئی میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا،وہ جب چاہتے اور جس موضوع کو چاہتے شعر کا لباس عطا کر دیتے۔
افسوس کہ ایسے استاد شاعر کی قدر نہ وہ سکی اور شعروادب میںان کا جو بلند مقام تھا اس کا اعتراف نہیں کیا گیا ۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ وہ اعظم گڈھ جیسے دورافتادہ اور پسماندہ ضلع میں(۱۹۱۱ء)میںپیداہوئے۔اسی ضلع کی مختلف تحصیلوں میں رجسٹرارقانونگو کی حیثیت سے ملازم رہے اور پھر (۱۹۸۳ء)میں اسی کی خاک کے پیوند ہوئے۔صلہ و ستائش اور شہرت و ناموری کی انھوں نے تمنا کی اور نہ وہ ان کے قریب آئی،اس لئے ان کے شعری کمالات سے ادبی دنیا واقف نہ ہوسکی۔
برق اعظمی نے شروع میں شمشاد لکھنوی کے شاگرد سالک رام سالک سے اور پھرنواب مرزا داغ دہلوی کے مشور شاگرد نوح ناروی سے مشورہ سخن لیا۔گویا وہ شاعری کے دونوں دبستانوں سے فیضیاب ہوئے،یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں دونوں دھاروں کی آمیزش صاف دکھائی دیتی ہے۔ان کے کلام میں جہاں حسن و عشق کا پختہ رچا ہواشعور ملتا ہے وہیں داغ اسکول کی سادگی،صفائی، شستگی، برجستگی، شگفتگی،طرز اداکی طرفگی اور سلامت طبع کے جوہر بھی نمایاں ہیں۔
برق اعظمی نے تقریبا تمام اصناف میں داد سخن دی۔ حمد،نعت،نظم، مثنوی،مرثیہ،قصیدہ،غزل،رباعی،قطعہ، مخمس،منقبت اور سلام ،کون سی صنف ہے جو ان کے دسترس میں نہیں اور جس میں انھوں نے بلندآہنگی کے ساتھ جولانی طبع نہ دکھلائی ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں اعظم گڈھ اور اس کے قرب و جوار میں شاید ہی اتنا قادرالکلام شاعر اور کوئی رہا ہو۔
ان کے ابتدائی دور کا کلام سرقہ ہوگیا،باوجود اس کے ان کے کئی شعری مجموعے ہیں ،حال ہی میں ان کے لائق صاحبزادوں ڈاکٹراحمد علی برقی اعظمی اور برکت علی صدیقی کی کوششوں سے ایک مجموعہ ’’تنویرسخن‘‘ بڑے اہتمام سے شائع ہوا ہے۔ یقینا یہ بہت بڑی ادبی خدمت ہے،اس سے نہ صرف برق اعظمی کے شاعرانہ کمالات کا اہل ذوق کو اندازہ ہوگا بلکہ یہ بھی معلوم ہوگا کہ اعظم گڈھ کے بادلوں میں کیسی کیسی بجلیاں پوشیدہ ہیں۔
تنویرسخن کا آغاز حمدو مناجات سے ہوا ہے،خالق کائنات کے سامنے ،ذرہ ذرہ سجدہ ریزاور اس کی تعریف و توصیف اپنے اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں،شعراء کا یہ محبوب موضوع اور طرز سخن رہا ہے،بعض شعراء نے حمدیہ شاعری میں بڑا کمال پیدا کیاہے۔ برق اعظمی نے بھی اپنی تمام تر کائنات الفاظ و ادا کے ساتھ اپنے مالک حقیقی کی حمدو ثنا کی ہے ، چونکہ انھیں زبان پر بے انتہا قدرت ہے اس لئے اپنے جذبات کو سو سو طرح سے باندھ کر اپنا فریضہ انجام دیا ہے،اور اس ادب و شائستگی کے ساتھ کہ ان کا دل و دماغ سراپا سپاس نظر آتے ہیں۔تنویر سخن میں متعدد حمد ہیں،ایک حمد کے دو بند ملاحظہ ہوں۔
مالک دوجہاں خالق رنگ و بو
تیرے جلوے ہیں بکھرے ہوئے چارسو
جس طرف دیکھئے ہے ادھرتوہی تو
جس طرف دیکھئے ہے ادھرتوہی تو
نغمہ زن کیوں نہ ہو بلبل خوش گلو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
ہیں تری صنعتیں اس قدر دلنشیں
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
ہیں تری صنعتیں اس قدر دلنشیں
محو حیرت ہیں سب آسمان و زمیں
علم بخشا ہے تونے جنھیں وہ حسیں
علم بخشا ہے تونے جنھیں وہ حسیں
آئینہ دیکھ کر کہتے ہیں رو بہ رو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
ایک حمد کے چنداور اشعار ملاحظہ ہوں۔
حق تری حمد کا مجھ سے کیا ہو ادا
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
ایک حمد کے چنداور اشعار ملاحظہ ہوں۔
حق تری حمد کا مجھ سے کیا ہو ادا
اے خدا اے خدا اے خدا اے خدا
گن مصور کے گنوائے تصویر کیا
گن مصور کے گنوائے تصویر کیا
اے خدا اے خدا اے خدا اے خدا
بھید تیرا بھلا کوئی پائے تو کیوں
بھید تیرا بھلا کوئی پائے تو کیوں
ذات تیری تصور میں آئے تو کیوں
ہے تری ابتدا اور نہ ہے انتہا
ہے تری ابتدا اور نہ ہے انتہا
اے خدا اے خدا اے خدا اے خدا
حمد کے علاوہ متعدد مناتیں بھی ہیں ، لیکن اس کے باالمقابل برق اعظمی کے جوہر نعت میں زیادہ کھلتے ہیں، شہنشاہ کونین سے انھیں بڑی عقیدت ہے ، اس کا اندازہ ان کی ہر نعت سے ہوتا ہے،چند شعار ملاحظہ ہوں۔
فخر کلیم و نازش آدم تمھیں تو ہو
حمد کے علاوہ متعدد مناتیں بھی ہیں ، لیکن اس کے باالمقابل برق اعظمی کے جوہر نعت میں زیادہ کھلتے ہیں، شہنشاہ کونین سے انھیں بڑی عقیدت ہے ، اس کا اندازہ ان کی ہر نعت سے ہوتا ہے،چند شعار ملاحظہ ہوں۔
فخر کلیم و نازش آدم تمھیں تو ہو
چرخ ھدٰی کے نیر اعظم تمھیں تو ہو
پیش حرم جو کی تھی خدا کے خلیل نے
پیش حرم جو کی تھی خدا کے خلیل نے
واللہ وہ دعائے مجسم تمھیں تو ہو
گھر گھر ہے جس کے فیض کا چرچا جہان میں
گھر گھر ہے جس کے فیض کا چرچا جہان میں
اے شاہ دیں وہ رحمت عالم تمھیں تو ہو
دل ہے وہ دل کہ جس میں جلوہ ہے مصطفٰی کا
دل ہے وہ دل کہ جس میں جلوہ ہے مصطفٰی کا
سر ہے وہ سر کہ جس میں سودا ہے مصطفٰی کا
کیا اس سے بڑھ کے ہوگا محبوبیت کا درجہ
کیا اس سے بڑھ کے ہوگا محبوبیت کا درجہ
خلاق دو جہاں خود شیدا ہے مصطفٰی کا
جن و بشر ملائک ہر لخظہ بھیجتے ہیں
جن و بشر ملائک ہر لخظہ بھیجتے ہیں
لاکھوں درود تجھ پر اے آن بان والے
طیبہ میں سج رہی ہے بزم ملاء اعلی
طیبہ میں سج رہی ہے بزم ملاء اعلی
صدقے ہیں اس زمیں پر سب آسمان والے
اقبال سہیل مرحوم نے اپنی مشہور نعت لکھ کر یہاں اعظم گڈھ میں نعتیہ شاعری میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا ، ان کے بعد متعدد شعراء نے اس انداز کی نعتین کہنی چاہیں مگر وہ کوہکن کی بات کہاں ؟ تقریباََ اسی انداز کی ایک نعت برق اعظمی نے بھی کہی ہے۔
اقبال سہیل مرحوم نے اپنی مشہور نعت لکھ کر یہاں اعظم گڈھ میں نعتیہ شاعری میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا ، ان کے بعد متعدد شعراء نے اس انداز کی نعتین کہنی چاہیں مگر وہ کوہکن کی بات کہاں ؟ تقریباََ اسی انداز کی ایک نعت برق اعظمی نے بھی کہی ہے۔
اللہ اللہ شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم خلق پہ ہے احسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم
برق صاحب کے مجموعہ کلام میں متعدد سلام بحضور خیرالانام بھی ہیں ۔ انہوں نے خلفائے راشدین اور بعض اولیاء اور صوفیائے کرام مثلاََ خواجہ معین الدیں چشتی، سید اشرف جہانگیر سمنانی ، شاہ فتح قلندر وغیرہ پر متعدد نظمیں لکھی ہیں جن سے نہ صرف ان کے شاعرانہ جذبات و احساسات کی پاکیزگی کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ اسلام اور تاریخ اسلام اور تصوف سے ان کی گہری دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔
ان کے مطبوعہ دیوان میں سب سے بڑا سرمایہ غزلیات کا ہے، انھوں نے اگرچہ تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنی انفرادیت باقی رکھی ہے تاہم اصلاََ وہ غزل کے شاعر تھے،غزل کہنے میں انھیں بڑی مہارت تھی ۔ اس میں شاید ان کے ذوق کا سامان بھی زیادہ تھا،انھوں نے چھوٹی بڑی متعدد بحروں میں غزلیں کہیں چونکہ زبان و بیان پر بے انتہا قدرت تھی اس لئے ایک ایک مضمون کو سو سو طرح سے باندھا ہے، صحیح معنوں میں ان کی شاعری کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے ، اس میں انھوں نے جدت بھی پیدا کی ہے اور انفرادیت بھی،طرز ادا میں طرفگی بھی ہے اور تنوع بھی، ان کا کلام صحیح معنوں مین سہل ممتنع کا بہترین نمونہ ہے اور جو سب سے اہم اور قابل ذکر بات ہے وہ یہ کہ ان کے کلام میں ہر طرف فکر و فن کی جلوہ گری ہے۔
سکتے کا سا عالم دم گفتار ہوا ہے
برق صاحب کے مجموعہ کلام میں متعدد سلام بحضور خیرالانام بھی ہیں ۔ انہوں نے خلفائے راشدین اور بعض اولیاء اور صوفیائے کرام مثلاََ خواجہ معین الدیں چشتی، سید اشرف جہانگیر سمنانی ، شاہ فتح قلندر وغیرہ پر متعدد نظمیں لکھی ہیں جن سے نہ صرف ان کے شاعرانہ جذبات و احساسات کی پاکیزگی کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ اسلام اور تاریخ اسلام اور تصوف سے ان کی گہری دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔
ان کے مطبوعہ دیوان میں سب سے بڑا سرمایہ غزلیات کا ہے، انھوں نے اگرچہ تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنی انفرادیت باقی رکھی ہے تاہم اصلاََ وہ غزل کے شاعر تھے،غزل کہنے میں انھیں بڑی مہارت تھی ۔ اس میں شاید ان کے ذوق کا سامان بھی زیادہ تھا،انھوں نے چھوٹی بڑی متعدد بحروں میں غزلیں کہیں چونکہ زبان و بیان پر بے انتہا قدرت تھی اس لئے ایک ایک مضمون کو سو سو طرح سے باندھا ہے، صحیح معنوں میں ان کی شاعری کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے ، اس میں انھوں نے جدت بھی پیدا کی ہے اور انفرادیت بھی،طرز ادا میں طرفگی بھی ہے اور تنوع بھی، ان کا کلام صحیح معنوں مین سہل ممتنع کا بہترین نمونہ ہے اور جو سب سے اہم اور قابل ذکر بات ہے وہ یہ کہ ان کے کلام میں ہر طرف فکر و فن کی جلوہ گری ہے۔
سکتے کا سا عالم دم گفتار ہوا ہے
ایسا بھی محبت میں کئی بار ہوا ہے
چمن خود باغباں پامال کرتا ہے تو حیرت کیا
چمن خود باغباں پامال کرتا ہے تو حیرت کیا
چمن تو اس نے دیکھا ہے بیاباں کون دیکھے گا
ملا جو آنے کی خاطر پیام یار آئے
ملا جو آنے کی خاطر پیام یار آئے
ملا جو چلنے کی خاطر پیام یار چلے
جل گئے لاکھوں امیدوں کے دئے
جل گئے لاکھوں امیدوں کے دئے
کیا جوانی زندگی کی شام ہے
دل میں ہے اپنے عشق کا داغ
یا روشن ہے کوئی چراغ
ان کی یاد میں ہے واللہ
ان کی یاد میں ہے واللہ
دنیا بھر کے غم سے فراغ
گم ہوئے ان کی کھوج میں یوں
گم ہوئے ان کی کھوج میں یوں
پھر نہ ملا کچھ اپنا سراغ
نظر لڑی دوستی ہوئی عشق ہو گیا برق اب جنوں ہے
وہ گویا اجمالی کیفیت تھی اب اس کی تفصیل کر رہا ہوں
ہو گیا اس کا بیڑا پار
ہو گیا اس کا بیڑا پار
جس کو محبت آ گئی راس
جسے دیکھو وہ ہے محکوم اس کا
جسے دیکھو وہ ہے محکوم اس کا
محبت حکمراں ہے کل جہاں پر
پردے پردے میں کیا ذکر محبت میں نے
پردے پردے میں کیا ذکر محبت میں نے
شمع کی بات نکالی کبھی پروانے کی
تجھ کو سینے میں جگہ دی پھر بھی ان کا ہو گیا
تجھ کو سینے میں جگہ دی پھر بھی ان کا ہو گیا
اے مرے دل تجھ سے بڑھ کر بے وفا کوئی نہیں
آج تو وضع بدلنے کے لئے کہتے ہو
آج تو وضع بدلنے کے لئے کہتے ہو
کل کہو گے کے تمھیں نام بدلنا ہوگا
مرکے ہم اے برق پائیں گے حیات جاوداں
مرکے ہم اے برق پائیں گے حیات جاوداں
ہے بقا کا پیش خیمہ اختتام زندگی
یہ برق اعظمی کی سیکڑوں غزلوں کے چند اشعارہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی غزلیں عام طور سے وجدان کو متاثر کرتی ہیں، لیکن یہ بہرحال حقیقت ہے کہ برق صاحب قدیم شعرو شاعری کے دلدادہ تھے اور اسی انداز میں اشعار کہتے تھے، البتہ بدلے ہوئے حالات کو ان کی دوربیں نگاہیں دیکھ رہی تھیں،وہ کہتے ہیں:
اب وہ دن دور نہیں فیض سے سائنس کے جب
نقشہ نامہ و پیغام بدلناہوگا
جدت فن کا تقاضا ہے کہ اس دور میں اب
جدت فن کا تقاضا ہے کہ اس دور میں اب
جو طریقہ ہے بہت عام بدلنا ہوگا
برق اعظمی صاحب نے فکری اور فنی لحاظ سے غزل کا بہت بڑا سرمایہ یادگار چھوڑا ہے ، جو کسی طرح بھی کم اہمیت نہیں رکھتا، کماز کم معاصر شعراء میں ایک جداگانہ نوعیت کا حامل ہے۔
غزلوں کے علاوہ ان کے شعری جوہر قطعات و رباعیات میں بھی خوب ظاہر ہوئے۔ مثلاََ:
غزلوں کے علاوہ ان کے شعری جوہر قطعات و رباعیات میں بھی خوب ظاہر ہوئے۔ مثلاََ:
رباعی
دنیا میں ہے تو چند دنوں کا مہمان
دنیا میں ہے تو چند دنوں کا مہمان
کرتا ہے مگر لاکھ برس کا سامان
لاتا ہے کوئی کچھ نہ تو لے جاتا ہے
لاتا ہے کوئی کچھ نہ تو لے جاتا ہے
کیوں جان کے اے دوست بنا ہے انجان
قطعہ
قطعہ
برق یہ کہہ کر بالآخر سو گیا
اس کو پاتا ہے وہی جو کھو گیا
پھیل کر سایہ ہوا مانند نور
پھیل کر سایہ ہوا مانند نور
نور جب سمٹا تو سایہ ہو گیا
قطعات میں ان کی مہارت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کی انھوں نے متعدد قطعات تاریخ لکھے ایک قطعہ ملاحظہ ہو جس میں انھوں نے اعظم گڈھ کے مشہور ڈاکٹر محمد معظم جیراجپوری کی کار خریدنے کی تاریخ موزوں کی ہے
کتنی اچھی ہے یہ کار
کتنی اچھی ہے یہ کار
دیدہ زیب صبا رفتار
خدمت بیماراں کے لئے
خدمت بیماراں کے لئے
خرچ کیا تیئیس ہزار
برق نے لکھی یہ تاریخ
برق نے لکھی یہ تاریخ
آج معظم لائے ہیں کار
۱۳۹۱ھ برق اعظمی کی فنکارانہ مہارت کا اندازہ ان کی اس فنکاری سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک قطعہ انھوں نے بلا نقطے والے حروف سے کہا ہے۔ اس قطعہ میں محض نیچے اور ایک میں محض اوپر نقطے ہیں۔
اہل دل محو سلام اہل ولا محو درود
۱۳۹۱ھ برق اعظمی کی فنکارانہ مہارت کا اندازہ ان کی اس فنکاری سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک قطعہ انھوں نے بلا نقطے والے حروف سے کہا ہے۔ اس قطعہ میں محض نیچے اور ایک میں محض اوپر نقطے ہیں۔
اہل دل محو سلام اہل ولا محو درود
مائل و مداح دو عالم رسول اللہ کا
طاہر و معصوم و اطہر مصدرمہرو کرم
طاہر و معصوم و اطہر مصدرمہرو کرم
محرم اسرار مولا دم رسول اللہ کا
سچ جو پوچھو ہے وہ بیحد کامیاب و با مراد
حب سرکار دوعالم سے جو دل معمور ہے
با ادب کو ہوگا حاصل آپ کا دیدار پاک
با ادب کو ہوگا حاصل آپ کا دیدار پاک
بے ادب سے کہہ دے کوئی یہ کہ دلی دور ہے
تم مسلماں ہو تو سن لو قول احمد صاف صاف
غافل از ذکر خدا دل ہو تو وہ کس کام کا
لمحہ لمحہ لحظہ لحظہ رات دن شام و سحر
لمحہ لمحہ لحظہ لحظہ رات دن شام و سحر
ذکر حق ہردم کرو مانو اصول اسلام کا
اسی طرح ایک غیر منقوط قطعہ بھی ان کے کلام میں ہے جس کے ہر مصرع میں گنتی کے ۲۸ ۔۲۸حروف ہیں، اس کے حروف کی نششت اس طرح ہے کہ اگر مصرع میں پندرہواں حرف ملا کر نیچے سے اوپر پڑھا جائے توحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی ’’محمد‘‘ نکلتا ہے ۔ ملاحظہ ہو
دل مسلم ہوا گھر درد اور آلام کا اس دم
دل مسلم ہوا گھر درد اور آلام کا اس دم
مدد سرکار دوعالم مدد سرکار دوعالم
دعا دو اس طرح آرام حاصل ہم کو ہو مولا
دعا دو اس طرح آرام حاصل ہم کو ہو مولا
عدو اسلام کا معدوم ہو اسلام ہو محکم
زبان و بیان پر بے انتہا قدرت اور فنی چابکدستی کی مثال ایک اور قطعہ سے ظاہر ہوتی ہے جس میں انھوں نے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جن کے پڑھنے میں لب سے لب نہیں ملتے۔
اللہ اللہ روئے انور اے خوشا
زبان و بیان پر بے انتہا قدرت اور فنی چابکدستی کی مثال ایک اور قطعہ سے ظاہر ہوتی ہے جس میں انھوں نے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جن کے پڑھنے میں لب سے لب نہیں ملتے۔
اللہ اللہ روئے انور اے خوشا
جس نے دیکھا ہوگیا شیدا رسول اللہ کا
آسکا ہرگز نہ انسانوں کی آنکھوں کو نظر
آسکا ہرگز نہ انسانوں کی آنکھوں کو نظر
کثرت انوار سے سایہ اسول اللہ کا
اسی طرح انھوں نے ایک بڑی شاندار نعت کہی ہے جس کی خوبی یہ ہے کہ اس کا ہر مصرع میم سے شروع اور میم ہی پر ختم ہوتا ہے ، ہر مصرع کے حروف ۳۳ہیں، ۱۷ویںسطر میں جو ’’صــ‘‘ ہے اس سے نیچے اوپر جدھر پڑھئے صلوعلیہ و آلہ نکلتا ہے۔(تنویر سخن ص : ۳۳۵۔۳۳۶)۔ ان چند مثالون سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقلیم سخن پر کشورکشائی کا انھیں کس درجہ ملکہ حاصل تھا۔
ان اصناف کے ساتھ قصیدہ نگاری میں بھی انھیں مہارت حاصل تھی، ان کے قصیدوں میں روایتی اور فنی عناصر موجود ہیں۔ جس سے ان کی فنی چابکدستی کا اظہار ہوتا ہے۔ تمہید، تشبیب، گریز وغیرہ جو قصیدے کے خاص عناصر ترکیبی خیال کئے جاتے ہیں ان کے یہاں خوبی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ تنویر سخن میں کل ۲۳ قصیدے ہیںجن میں ۳ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ۳ ، حضرت علی،۳ حضرت فاطمہ۱۲حضرت امام حسین علیہ السلام اور ایک امام مہدی کی شان و مدح میں ہیں۔ جو قصیدے ھضرت امام حسین کی ندح میں ہیں وہ محرم کے موقع پر کہے گئے ہیں اس لئے اس میں مرثیے کا رنگ بھی پیدا ہو گیا ہے، تاہم وہ شعری محاسن سے خالی نہیں۔ طوالت کے خوف سے اس کے نمونے قلم انداز کئے جاتے ہیں۔
برق اعظمی کا مطالعہ وسیع تھا انھوں نے شعر و ادب کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ قدیم کلاسیکل شعراء اور ان کی شاعری کے مطالعہ نے خود برق برق اعظمی کی شاعری میں بلندی پیدا کی، وہ فارسی ادب پر بھی بڑی نظر رکھتے تھے ۔ بعض اشعار بھی فارسی میں کہے اور کئی فارسی قطعات اور بعض اشعار کا منظوم ترجمہ کیا اور خیالات سے بھی استفادہ کیا۔
ان کی شاعری بادہ تصوف و عرفان سے بھی لبریز ہے، انھوں نے متعدد صوفیاء کے کلام پر تضمینیں لکھے، ایسی متعدد غزلیں کہی ہیں جو اصلاََ ہندوستان کے مشاہیر صوفیاکی غزلوں پر تضمین ہیں۔کہیں کہیں مکالماتی انداز بھی اختیار کیا گیا، لیکن غالب و اقبال اور دیگر شعراء سے انھوں نے جو منظوم مکالمے لئے ہیں وہ اردو شاعری میں خاصے کی چیزیں ہیں۔ رنگ و آہنگ میں یکسانیت اور ہم آہنگی پیدا کرنا بجائے خود بہت اہم ہے مزید یہ کہ افکار میں وحدت پیدا کرکے لب و لہجہ اور طرز و ادا میں وحدت پیدا کرنا ان کا کمال شاعری ہے۔
ایسا پختہ ور قادرالکلام شاعر برق اعظمی کے بعد کم از کم اعظم گڈھ کی سرزمین پر تو کوئی نہیں پیدا ہوا ۔ افسوس کہ ایسے یگانہ شخص و شاعر کی شایان شان قدرو منزلت ان کی زندگی میں ہوئی اور نہ بعد مرنے کے۔ امید کہ ایسے نام نیک کو ضایو ہونے سے بچایا جائے گا۔
اسی طرح انھوں نے ایک بڑی شاندار نعت کہی ہے جس کی خوبی یہ ہے کہ اس کا ہر مصرع میم سے شروع اور میم ہی پر ختم ہوتا ہے ، ہر مصرع کے حروف ۳۳ہیں، ۱۷ویںسطر میں جو ’’صــ‘‘ ہے اس سے نیچے اوپر جدھر پڑھئے صلوعلیہ و آلہ نکلتا ہے۔(تنویر سخن ص : ۳۳۵۔۳۳۶)۔ ان چند مثالون سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقلیم سخن پر کشورکشائی کا انھیں کس درجہ ملکہ حاصل تھا۔
ان اصناف کے ساتھ قصیدہ نگاری میں بھی انھیں مہارت حاصل تھی، ان کے قصیدوں میں روایتی اور فنی عناصر موجود ہیں۔ جس سے ان کی فنی چابکدستی کا اظہار ہوتا ہے۔ تمہید، تشبیب، گریز وغیرہ جو قصیدے کے خاص عناصر ترکیبی خیال کئے جاتے ہیں ان کے یہاں خوبی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ تنویر سخن میں کل ۲۳ قصیدے ہیںجن میں ۳ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ۳ ، حضرت علی،۳ حضرت فاطمہ۱۲حضرت امام حسین علیہ السلام اور ایک امام مہدی کی شان و مدح میں ہیں۔ جو قصیدے ھضرت امام حسین کی ندح میں ہیں وہ محرم کے موقع پر کہے گئے ہیں اس لئے اس میں مرثیے کا رنگ بھی پیدا ہو گیا ہے، تاہم وہ شعری محاسن سے خالی نہیں۔ طوالت کے خوف سے اس کے نمونے قلم انداز کئے جاتے ہیں۔
برق اعظمی کا مطالعہ وسیع تھا انھوں نے شعر و ادب کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ قدیم کلاسیکل شعراء اور ان کی شاعری کے مطالعہ نے خود برق برق اعظمی کی شاعری میں بلندی پیدا کی، وہ فارسی ادب پر بھی بڑی نظر رکھتے تھے ۔ بعض اشعار بھی فارسی میں کہے اور کئی فارسی قطعات اور بعض اشعار کا منظوم ترجمہ کیا اور خیالات سے بھی استفادہ کیا۔
ان کی شاعری بادہ تصوف و عرفان سے بھی لبریز ہے، انھوں نے متعدد صوفیاء کے کلام پر تضمینیں لکھے، ایسی متعدد غزلیں کہی ہیں جو اصلاََ ہندوستان کے مشاہیر صوفیاکی غزلوں پر تضمین ہیں۔کہیں کہیں مکالماتی انداز بھی اختیار کیا گیا، لیکن غالب و اقبال اور دیگر شعراء سے انھوں نے جو منظوم مکالمے لئے ہیں وہ اردو شاعری میں خاصے کی چیزیں ہیں۔ رنگ و آہنگ میں یکسانیت اور ہم آہنگی پیدا کرنا بجائے خود بہت اہم ہے مزید یہ کہ افکار میں وحدت پیدا کرکے لب و لہجہ اور طرز و ادا میں وحدت پیدا کرنا ان کا کمال شاعری ہے۔
ایسا پختہ ور قادرالکلام شاعر برق اعظمی کے بعد کم از کم اعظم گڈھ کی سرزمین پر تو کوئی نہیں پیدا ہوا ۔ افسوس کہ ایسے یگانہ شخص و شاعر کی شایان شان قدرو منزلت ان کی زندگی میں ہوئی اور نہ بعد مرنے کے۔ امید کہ ایسے نام نیک کو ضایو ہونے سے بچایا جائے گا۔
0 تبصرے