Naatiya Shayeri Me Matni Rishtoun Ki Talash Dr Aziz Ahsan Khan

Naatiya Shayeri Me Matni Rishtoun Ki Talash Dr Aziz Ahsan Khan

ڈاکٹر عزیزؔ احسن

abdulazizkhan49@gmail.com

نعتیہ شاعری میں متنی رشتوں کی تلاش


ساختیاتی مفکرین نے کسی بھی متن کو آزاد اور بالکل نیا (Original یا انوکھا) متن ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں معنی کا بہائو متن کی تجدید کا باعث بنتا رہتا ہے اور کسی بھی متن کو کسی زبان کے پہلے سے لکھے ہوئے موجود متن کی روشنی میں پڑھ کر متنی رشتوں (Textual Relationship) کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔
دوسری بڑی اہم بات یہ ہے کہ کسی متن کی معنویت کے تعین میں مصنف کے منشا کو قطعی دخل نہیں۔ کسی بھی متن کی قرأت کے عمل سے اس کی معنویت پرت پرت کھلتی اور قاری کے ذہنی آفاق کو روشن کرتی جاتی ہے۔ معروف فرانسیسی ساخیتاتی مفکر رولاں بارتھ (Roland Barthes) کی فکر میں بنیادی نکتہ ہی ’’متن کی کثیر المعنویت‘‘ ہے۔ وہ ادب کی تعریف بھی اس طرح کرتا ہے ’’ادب اشیاء و عوامل کی معنی خیزی کا پیغام ہے، محض معنی کا نہیں۔‘‘ معنی خیزی یعنی طرح طرح کے معنی پیدا کرنے کا عمل جسے بارتھ نے Signification کا نام دیاہے۔
رولاں بارتھ کے اس نظریئے کی روشنی میں اگر ہم اپنے ادبی سرمائے کا بالعموم اور نعتیہ شعری سرمائے کا بالخصوص مطالعہ کریں تو ہم پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ بارتھ نے بیسویں صدی میں (پیدائش ۱۹۱۵ء وفات ۱۹۸۰ء) جس نکتے کی طرف توجہ مبذول کروائی تھی اس کے مظاہر اردو ادب میں پہلے سے موجود تھے۔
خیال کے چراغ سے چراغ جلنے کا عمل دنیائے ادب میں کوئی نیا نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس عمل کو کسی ادبی نظریئے کی شکل دینے میں رولاں بارتھ نے پہل کی۔
بین المتنیت یا Intertextuality کا عمل ہمارے شعری منظر نامے پر دھنک کی طرح بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہماری روایت نے اس عمل کو، توارد، نقالی، سخن دزدی کا نام دے کر اسے بد نام تو کیا لیکن اس عمل سے گریز کی راہ ممکن نہ ہوسکی۔ ایک بات البتہ محسوس کی گئی کہ جب کسی شاعر نے کسی موجود متن کو اس طرح اپنایا کہ اس کے معنی کے آفاق وسیع تر ہوگئے تو اس کوشش کو ہر سطح پر سراہا گیا۔

نئی لسانیات اور ساختیاتی تنقید میں تجدید متن نے ایک الگ مفہوم پیدا کیا ہے۔ یہاں موجود متن کو نئے انداز سے شعری  بنت میں لانا حسن و خوبی کے ذیل میں آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسی موجود متن کے منشا (جو کسی مصنف نے اپنے بنے ہوئے متن سے جوڑ رکھا تھا) سے انحراف اب قاری کا حق ہوگیا ہے۔ اب قاری کسی بھی متن کی قرأت سے اپنی مرضی کے معانی تراش سکتا ہے۔ پرانے اور موجود متن سے نئے اور من مانے معانی کا اخذ کرنا بھی اردو ادب میں کوئی نئی چیز تو نہیں تھی تاہم اس کو بغیر نام دیے عمل میں لایا جا رہا تھا۔
اردو شعرا نے بیشتر فارسی اشعار کا یا تو ترجمہ کرنے کی کوششیں کیں یا کسی فارسی شعری متن کو نئے اسلوب میں لکھا۔ ترجمے کی کوششوں کو تو بعض نے سراہا بعض نے معیوب جانا تاہم تجدید متن کی ان کوششوں کو جن میں معانی کے آفاق پھیلتے ہوئے محسوس کئے گئے، حریفوں نے بھی استحسان کی نظر سے دیکھا۔ مثلاً یاس یگانہ چنگیزی نے غالب پر سرقے کا الزام لگایا لیکن تجدید متن کی اس خوبی کی اس نے بھی داد دی جس میں موجود متن کے معانی میں وسعت پیدا ہوگئی تھی یاشعری متن کے مفہوم میں بلندی کے آثار داخل ہوگئے تھے۔ غالب نے کہا تھا:
اسد بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر
یگانہ نے لکھا ’’بڑا بانکا شعر ہے۔ مگر یہ خیال شیخ علی حزیں کے ایک شعر سے پیدا ہوا جسے ترقی دے کر غالب نے نقل کو اصل سے بڑھادیا ہے۔‘‘ علی حزیں کا شعر تھا:
چہ لذت بو داز قاتل حزین نیم بسمل را
کہ درخوں می تپیدو آفریں می گفت بردستش
حزین نیم بسمل کو قاتل کے حملے سے کیا لذت حاصل ہوئی کہ اپنے ہی خون میں تڑپنے کے باوجود وہ قاتل کے زور بازو کو داد دے رہا ہے۔
ہماری شعری دنیا میں غزل ایک ایسی صنف ہے جس میں ایک ہی مضمون کے مختلف شعری متون، مختلف انداز میں بُنے گئے ہیں۔ نعت کی طرف آیئے تو اس میں چوںکہ محبوب (محمد رسول اللہﷺ) ایک ہے اور نعت آپ کے جمال صوری اور حسن معنوی یعنی صورت اور سیرت دونوں کی عکس بندی کی کوشش ہے، لہٰذا ہر شاعر ایک ہی مضمون کو اپنے زاویۂ نظر، اپنے جوہر تخلیق اور اپنے اسلوب کی حدود میں رہ کر لکھتا ہے اس لیے ایک ہی متن کے بہت سے اشعار جمع کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن متن کی اس یکسانیت کو نہ تو توارد کا نام دیا جاسکتا ہے نہ سرقے کا اور نہ ہی مکھی پہ مکھی مارنے کا۔ تاہم جس شاعر نے اپنے متن کو شعری لوازمات برتتے ہوئے اچھے اسلوب اور فصیح زبان میں لکھا ہوگا وہ اچھا شعر قرار دیا جائے گا۔ ایسی کوشش کو تجدید متن کی کوشش سے تعبیر کیا جائے گا۔

ایسے اشعار کی مثالیں دینے سے قبل ایک بات کی وضاحت اور ہوجائے!۔۔۔ رولاں بارتھ کا مشہور قول ہے۔ The Text is read without the father`s signature ’’متن اپنے باپ (خالق یا مصنف) کے دستخط کے بغیر پڑھا جاتا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہوا کہ متن کی قرأت کے لیے مصنف کا منشا جاننا ضروری نہیں اور نہ ہی کسی متن کو مصنف کے یک رخے معنی پہنائے جاسکتے ہیں۔
والٹر جے سلاٹوف Walter j. Slatoff کے بقول:
متن کے ہیئتی خصائص ہمیشہ کے لیے مقررہ رد عمل یا متعینہ افہام و تفہیم کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
(ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات ص ۲۷۲۔ بحوالہ (۱۹۷۰) With Respect to Readers
والٹر جے سلاٹوف کے اس قول کے معنی اس مثال سے سمجھے جاسکتے ہیں کہ غالب نے نواب تجمل حسین خاں کے قصیدے میں یہ شعر لکھا:
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بو سے مری زباں کے لیے
 اس شعر کو نواب تجمل حسین خاں نے اور ان کے عہد کے لوگوں نے تو نوابی قصیدے کا جزو جانا اور اسی طرح اس کی معنوی حیثیت متعین کی لیکن بعد کے ادوار میں کسی نے اس شعر میں نعت کا رنگ دیکھ لیا اور اب اکثر اس شعر کو نعت کا شعر تصور کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس شعر کو نعتیہ شعر قرار دینے سے شاعر کا منشا مجروح ہوتا ہے، لیکن قاری نے اس شعر کے معنیاتی طیف کو اپنے تاثر کے مطابق محسوس کیا اور اسی تاثر نے اسے اس نتیجے پر پہنچایا۔
ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی مرحوم کے لاشعور میں بھی غالباً ادب کی یہی تھیوری تھی جس کی روشنی میں انھوںنے ’’غزل میں نعت کی جلوہ گری‘‘ کے موضوع پر قلم اُٹھایا۔ لیکن چوںکہ انھوںنے اس مضمون کو معنیاتی بوقلمونی کے روایتی تصورات کے تحت لکھا تھا اس لیے اس نظریے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر وہ رولاں بارتھ کے جدید نظریے کے حوالے سے اپنی بات واضح کرتے توشاید کسی کو اس کی مخالفت کی جرأت نہیں ہوتی۔ ویسے پورے نظریے کی مخالفت کے لیے اہل دانش کو اس تھیوری کی طرف رجوع کرنا پڑتا اور بات بہت دُور نکل جاتی۔

کشفی صاحب نے جتنے اشعار مثال کے طور پر پیش کیے وہ سب کے سب مصنّفین کے منشا کے برعکس نعتیہ شعری ادب کے کھاتے میں ڈال دیے تھے۔ ان کے مضمون کا پہلا شعر خود کشفی صاحب کے بیان کے مطابق شاعر (احسان دانش) نے غزل کا شعر قرار دیا تھا اور کشفی صاحب کی نشاندہی پر غور کرنے کے بعد نعتیہ شعر کے طور پر قبول کیا تھا۔ اب وہ شعر اور کشفی صاحب کا بیان ملاحظہ ہو:
ہوائیں ماری ماری پھر رہی ہیں
ترانقش کف پاڈھونڈنے کو
کشفی صاحب لکھتے ہیں:
شعر سن کر میں نے بے ساختہ کہا کہ نعت کا کیسا اچھا شعر ہے۔ مرحوم (احسان دانش) نے فرمایا میں نے تویہ شعر نعت میں نہیں کہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ تخلیق ایک بے حد پیچیدہ اور طلسماتی عمل ہے۔ ضروری نہیں کہ فن کار کو تخلیق کے ہنگام اپنے عمل کے تمام محرکات و عوامل کا علم او ر شعور ہو۔ تخلیق میں تو ہمارا پورا وجود شامل ہوتا ہے۔ شعور بھی اور لا شعور بھی۔ یہی نہیں بلکہ ہمارا معاشرتی اور اجتماعی شعور بھی اس عمل میں شامل ہوتا ہے۔۔ پھر بات کا رخ کسی اور طرف مڑ گیا۔ خاصی دیر کے بعد احسان دانش مرحوم چونکے، میری طرف مڑے اور کہنے لگے۔۔ تم نے ٹھیک ہی کہا تھا۔
     (’’نعت رنگ‘‘ شمارہ ۹،ص۱۳)
آج میں کشفی صاحب کے محولہ اشعار کو ان کے منشا کے مطابق (مصنّفین        کے منشاء کے خلاف) نعتیہ اشعار ماننے کو تیار ہوں۔ کیوںکہ آج میرے پیش نظر Reader-Oriented Criticism or Reader Response Criticism ’’قاری اساس تنقید‘‘ کی کسوٹی ہے۔جو مجھے یہ باور کرنے پر مجبور کر رہی ہے:
کسی متن کے بارے میں یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یا آنے والے زمانوں میں قارئین اس کو کس طرح پڑھیںگے۔
(ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات۔ گوپی چند نارنگ ۔ ص۲۷۲)
ہم اکثر روایتی شاعر کے کسی شعر کو اس شعر کی لفظیات کی معنوی چکاچوند کے پیش نظر کسی بھی پیش آمدہ صورت حالات پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ اچھے نثر نگار اپنی بات میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے یہ عمل اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں۔ مولانا ابولکلام آزاد کی مثال ہی میری بات سمجھنے کے لیے شاید کافی ہو۔

ایک مرتبہ ’’سٹی گورنمنٹ کالج‘‘ ناظم آباد، کراچی میں چھوٹی سی شعری نشست ہوئی تھی۔میں اس کالج کے پہلے بیج میں شامل ہونے کے باعث اس کالج کا ’’اولڈبوائے‘‘ ہوں۔ پروفیسر وسیم فاضلی صاحب کے حکم پر میں بھی اس شعری نشست میں شریک ہوا۔ اتفاق سے نظامت کے فرائض بھی مجھے ہی انجام دینے پڑے۔ بھارت سے عرفان صدیقی مرحوم آئے ہوئے تھے۔ کراچی کے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ اس دن پاکستانی شاعروں نے بھی کچھ ایسی شعری تخلیقات پیش کیں جن میں بین السطور ہجرت کے تجربے کو تلخ تجربہ قرار دیا گیا تھا۔ عرفان صدیقی نے بھی جو شاعری سنائی اس میں غزل کے روپ میں شکایت زمانہ تھی۔ اختتام پر میں نے عرض کیا ’’دونوں جانب کے شعراء کو سن کر جو تاثر میں نے قبول کیا ہے اس کے اظہار کے لیے مجھے مومن خاں مون کا شعر مستعار لینا پڑ رہا ہے۔ مومن نے کہا تھا:
ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
عرفان صدیقی مرحوم نے اس تاثر کے اظہار پر کچھ احتجاج کیا لیکن پاکستانی شعرا نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
اس واقعے کا ذکر میں نے اس لیے کیا کہ مومن یا اس کے عہد کے کسی قاری کے حیطۂ خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ شعر سیاسی عدم اطمینان کی کیفیات اور ماحول کی ناسازگاری کے حوالے کے طورپر بھی کبھی پڑھا جاسکتا ہے۔
اب ذرا وہ مصاریع ملاحظہ ہوں جو کسی شاعر نے کسی قدیم شاعر کے مصرعے پر گرہ لگانے کی غرض سے موزوں کیے ہیں اور اصل شاعر کے منشا کے برعکس نعتیہ شعر کے قالب میں ڈھال کر ہم سے داد وصول کی ہے۔
ایاز صدیقی نے غالب کی منتخب غزلوں پر نعتیں کہی ہیں اور اکثر مواقع پر غالب کے مصرعوں پر ایسی ایسی گرہیں لگائی ہیں کہ غالب کے مصرعوں کی معنیاتی تقلیب دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔

آقاؐ نے مجھ کو دامنِ رحمت میں لے لیا
’’میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا‘‘
(ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی)۔ غالب نے موت میں اخلاقی محاسن کے فقدان کے باعث ہونے والی شرمندگی سے نجات ڈھونڈی تھی لیکن ایاز صدیقی نے پہلا مصرع اس انداز سے کہدیا کہ غالب کے مصرعے کا تناظر ہی بدل گیا۔ یہاں حضور اکرمﷺ کی رحمت کا وہ پہلو بھی سامنے آگیا جو ’’اَلطَّا لِحُ لیِ‘‘ (برے میرے ہیں) کی حدیث میں پوشیدہ ہے:
ارض طیبہ پر قدم تو کیا، نظر جمتی نہ تھی
’’ذرّہ ذرّہ روکش خورشید عالم تاب تھا‘‘
(کچھ نہ کی اپنے جنون نار سانے ورنہ یاں)۔ غالب نے اپنے جنون نارسا کی کوتاہیوں کا ذکر کرکے صحرائے عشق کے ذرے ذرے کو سورج کا حریف قرار دیا تھا اور یوں خود کو ملامت کی تھی۔ ایاز صدیقی نے ارض طیبہ کے ذرّے ذرّے سے پھوٹنے والی تجلیات کا احوال رقم کرکے غالب کا مصرع اپنا لیا ہے۔
شدت تشنگی دید بیاں ہو نہ سکی
’’گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا‘‘
(نہ بندھے تشنگی ذوق کے مضموں غالب)۔ اس شعر میں ایاز صدیقی کوئی نعتیہ قرینہ پیدا نہ کرسکے کیونکہ ان کا مصرع غالب کے مصرعے ہی کا دوسرا ملفوظی پیکر لگتا ہے۔ غالب کے مصرعے سے بھی تشنگی ذوق کا خاطر خواہ انداز میں بیان نہ کرسکنے پر افسوس مترشح ہے اور ایاز صاحب نے بھی بیان دید کی تشنگی کاجی کھول کر تذکرہ نہ کرسکنے پر اپنا احساس عدم آسودگی لکھا ہے۔ ایاز صدیقی کا یہ شعر نعت کے تسلسل سے الگ ہو جائے تو غزل کا شعر ہی معلوم ہوگا۔ اس کے باوجود متن کی تقلیب کا تاثر پیدا ہو رہا ہے۔
آیا ہوں آج آپ کا دربار دیکھ کر 
’’حیراں ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر‘‘
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر
(غالبؔ)
اس شعر میں ایاز صدیقی نے پہلا مصرع اس خوبی سے لگایا ہے کہ دوسرے مصرعے میں کیا جانے والا لفظی تغیر (جلتا ہوں کی جگہ حیراں ہوں) بھی بھلا معلوم ہوتا ہے۔ یہاں ایاز نے نعتیہ تاثر اس قرینے سے پیدا کیا ہے کہ غالب بھی انہیں داد دیتے۔ یہ شعر تجدید متن کی بہت اچھی مثال ہے۔
سوئے طیبہ لیے جاتی ہے حضوری کی لگن
’’جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو‘‘
(لیے جاتی ہے کہیں ایک تمنا غالب)۔ غالب کے ’’کہیں‘‘ کو ’’سوئے طیبہ‘‘ سے بدل کر ایاز صدیقی نے غالب کا مصرع نئی معنویت کے ساتھ اپنا لیا ہے۔

سبز گنبد کی زیارت کو ترستا ہوں ایاز
’’واں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے‘‘
(کیا تعجب ہے کہ اس کو دیکھ کر آجائے رحم)۔ غالب نے خالص غزل کا شعر کہا تھا۔ ایاز صدیقی نے ’’سبز گنبد‘‘ کا حوالہ دے کر شعر کو نعتیہ تناظر دیدیا اور متن کی تجدید و تقلیب کی اچھی مثال پیش کی۔
غالب نے اور ایاز صدیقی کے تضمینی عمل سے قبل تک غالب کے کسی قاری نے بھی غالب کے ان مصرعوں کو نعتیہ شعری تناظر میں نہیں دیکھا ہوگا، لیکن اب ان اشعار کی تجدید متن اس طرح ہوئی ہے کہ معنیاتی تناظر بھی بدل گیا ہے اور مصرعوں کی قرأت کا اسلوب بھی یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ میں نے متن کے تغیر کو ظاہر کرنے کی غرض سے غالب کے وہ مصرعے بھی لکھ دیے ہیں جن کی جگہ ایاز صدیقی نے نعتیہ شعری تناظر میں مصرعے لگائے ہیں۔ ظاہر ہے ایاز صدیقی نے غالب کے شعروں کو غالب کے منشا کے مطابق قطعی نہیں پڑھا ہے۔ پھر انھوںنے غزل کا مزاج قائم رکھتے ہوئے ایسے محبوب کے ذکر کا بیڑا اُٹھایا ہے جس کے لیے پوری نعتیہ شاعری میں ایک مصرعہ ہی ضرب المثل کے طورپر دُہرایا جاسکتا ہے:
بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
راغب مراد آبادی نے غالب کے ایک مصرعے پر گرہ لگا کر اس مصرعے کو اس طور اپنایا کہ ادب کے باذوق قاری اور بلند پایا نقاد ابوالخیر کشفی بھی کہہ اٹھے:
غالب کا یہ شعر بہت خوب صورت ہے لیکن راغب صاحب کی تضمین پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے غالب کا دوسرا مصرع سو سال سے زیادہ عرصے سے اس مصرعے کا منتظر تھا۔ غالب نے وحدۃ الوجود کی بات کی تھی۔ ذات رب میں فنا ہو کر ہی مقام بقا پر پہنچنا مقصود حیات ہوسکتا ہے، لیکن جہاں تک ہماری پہچان اور تشخص کا سوال ہے۔ اس کا رشتہ حضورﷺ سے ہے۔
اب راغب کا وہ شعر ملاحظہ ہو جس کی تعریف اتنے خوب صورت پیرائے میں کی گئی ہیَ
جو سب سے محترم بعد خدا ہے
’’ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا‘‘
تجدید متن کی یہ مثالیں قدیم متون کو نئے تناظر میں پڑھنے، سمجھنے اور تخلیقی عمل سے( جدا گانہ اسلوب میں) گزارنے کے نتیجے میں سامنے آئی ہیں۔
اب ذرا وہ کاوشیں ملاحظہ ہوں جو کسی ایک ہی مصرعے کی تضمین میں اور تقریباً ایک جیسے متن کی بنت میں مختلف شعراء نے کی ہیں۔ سید علی حیدر نظم طبا طبائی کی غزل کا ایک مصرع تھا:
ہنسے غنچے، کھلے گل، ابر تر اٹھا، نسیم آئی
اس مصرعے کو طرحی مصرع ٹھہرا کر نعتیہ مشاعرہ کیا گیا۔ شعراء کرام نے اس ایک مصرعے کی قرأت اس طور کی کہ کچھ نعتیں تو غیر مردف ہوئیں۔

یعنی ان نعتوں کا قافیہ ہی ’’آئی‘‘، ’’پائی‘‘ ٹھہرا۔ کچھ شعراء نے نسیم، سلیم، کوقافیہ بنا کر آئی کو ردیف کے ذیل میں رکھا۔ کچھ شعراء نے ’’اٹھا،پیدا‘‘ وغیرہ قافیئے کے طور پر استعمال کیے اور ردیف کو دو حرفی بنا دیا یعنی ’’نسیم آئی‘‘ دیگر شعراء نے ’’ابرتر، معتبر‘‘ کو قافیہ فرض کیا اور ’’اٹھا، نسیم آئی‘‘ کو ردیف میں شامل کیا۔
اب مصرع طرح کی قسمت کس کس طرح چمکی اس کا انداز بھی دیکھتے چلیے۔
۱۔
چمن میں رحمۃ للعالمیں کی آمد آمد ہے
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(محمد بشیر رزمی ،لاہور)
۲۔
جہاں میں رحمت عالم نے جب کی بزم آرائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابر تراٹھا، نسیم آئی‘‘
(جمیل عظیم آباد، کراچی)
۳۔
ولادت میرے آقا کی بہار جاوداں لائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابر تراٹھا، نسیم آئی‘‘
(رفیع الدین ذکی قریشی، لاہور)
۴۔
جب آئے آپ عالم میں تولی موسم نے انگڑائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(صدیق فتح پوری، کراچی)
۵۔
ابد تک ان چراغوں نے ترے در سے ضیاء پائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(قاری غلام زبیر نازش، گوجرانوالہ)
۶۔
بہ فیض عید میلا دالنبیؐ ہر شے دمک اٹھی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(خلش بجنوری، لاہور)
۷۔
محمد مصطفیؐ کی دیکھئے گایوں پزیرائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(ڈاکٹر عطاء الحق، انجم فاروقی، لاہور)
۸۔
شعاع نور ختم المرسلینؐ ہی کے توسل سے
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(عابد اجمیری، لاہور)
۹۔
سلگتے منظروں کو آپ نے بخشی وہ زیبائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(صادق جمیل،لاہور)
۱۰۔
رسول پاک جب تشریف لائے بزم امکاں میں
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(حافظ محمد صادق، لاہور)
۱۱۔
ولادت باسعادت جب ہوئی میرے پیمبر کی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(حافظ محمد صادق، لاہور)
۱۲۔
یہ کون آیا کہ خود فطرت نے بڑھ کر کی پزیرائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(ضیا نیر، لاہور)
۱۳۔
ملی سرکارؐ کی آمد سے ہر اک شئے کو رعنائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(رفاقت علی رفاقت سعیدی، کامونکے)
۱۴۔
حلیمہ اپنے گھر میں جب وہ رحمت کی گھٹا لائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(ڈاکٹر محمد ارشاد بھٹی، کامونکے)
۱۵۔
بہار بے خزاں آئی عرب کے خشک صحرا میں
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(منصور فائز، لاہور)
۱۶۔
انھی لفظوں کی برکت نے ہی مجھ سے نعت لکھوائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(اعجاز فیروز اعجاز،لاہور)
۱۷۔
جناب رحمت للعالمین تشریف جب لائے
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(محمد سلطان کلیم، لاہور)
۱۸۔
پڑھا ہوگا درود پاک بلبل نے کہ گلشن میں
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(ثاقب علوی، کامونکے)
۱۹۔
مرے سرکارؐ کے اس گلشن عالم میں آتے ہیں
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(راجا رشید محمود، لاہور)
۲۰۔
لیادست عقیدت میں جو میں نے خامۂ مدحت
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(راجا رشید محمود، لاہور)
۲۱۔
حرا سے جب سوئے مکہ نبوت کی شمیم آئی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(محمد حنیف نازش قادری، کامونکے)
۲۲۔
نبیؐ پاک کی مکہ میں جب ذات رحیم آئی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(رفیع الدین ذکی قریشی، لاہور)
۲۳۔
بہاروں کے پیمبر کی جو گلشن میں ہوئی آمد
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(سحر فارانی، کامونکے)
۲۴۔
جو گھر میں آمنہ کے رحمت رب کریم آئی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(یونس حسرت امر تسری، لاہور)
۲۵۔
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
نبی تشریف لائے دہر میں بادشمیم آئی
(حافظ غلام رسول ساقی، گوجرانوالہ)
۲۶۔
درود مصطفیؐ محمود ہونٹوں پر جونہی آیا
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(راجا رشید محمود، لاہور)
۲۷۔
نوید جانفزا مولود پیغمبرؐ کی سنتے ہی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(راجا رشید محمود،لاہور)
۲۸۔
جو بعثت مصطفی صل علیٰ کی حق نے فرمائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
۲۹۔
جو ہاتف نے خبر سرکارؐ کی آمد کی پھیلائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
۳۰۔
بہار گلشن امکاں سر فاراں جو مسکائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
۳۱۔
جہان آب و گل میں تھی نبیؐ کی جلوہ آرائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
۳۲۔
یہ تھی مولود محبوب خدا کی کار فرمائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
۳۳۔
ربیع الاوّل آیا تو خزاں محمود شرمائی
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، نسیم آئی‘‘
(گرہ بند نعت، راجا رشید محمود، لاہور)
۳۴۔
تجھے دیکھا تو سب کو اپنے ہونے کا یقیں آیا
’’ہنسے غنچے، کھلے گل، ابرتر اٹھا، بہار آئی‘‘
(غضنفر جاود چشتی، گجرات)

ایک مصرعے پر گرہ لگانے کی ۳۳ مثالیں ہیں۔ صرف ایک شاعر نے نسیم آئی کے بجائے بہار آئی لکھ کر مشق سخن کی ہے۔ ان تمام مثالوں میں صرف نو مصرعے (نمبر شمار ۵،۸،۹،۱۵،۱۶،۱۸،۲۰،۲۶اور ۳۰) ایسے ہیں جن کا متن ولادت، آمد، مولود، یا حلیمہ سعدیہ کے گھر حضور اکرمﷺ کی تشریف آوری سے مختلف ہے۔ باقی تمام تضمینی مصرعے ایک ہی متن یعنی آمد، بعثت یا حضرت حلیمہ کے گھر میں حضورﷺ کی تشریف آوری کے حوالے سے شعری بنت میں آئے ہیں۔ اس طرح کی مشق سخن سے نعت گو شعرا کا اجتماعی رویہ جھلکتا ہے کہ غنچوں کے ہنسنے، پھولوں کے کھلنے، ابر تر کے اٹھنے اور نسیم کے چلنے کی سرشاری کے مضمون کو صرف اور صرف حضورﷺ کی آمد، آپ کی ولادت با سعادت اور آپ کی بعثت کے تناظر ہی میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے تمام مصرعوں کی بنت میں تھوڑا بہت فرق ضرور ہے لیکن سارے  مصرعے ایک ہی متن کے مختلف اسالیب کے آئینہ دار ہیں یعنی آج کی تنقیدی زبان میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب مصرعے ایک ہی متن کے رشتے میں منسلک ہیں ان میں Inter-Textual Relationship قائم ہے۔ ظاہر ہے شعرا نے نظم طباطبائی کے دوسرے مصرعے کو نہ تو جاننے کی سعی کی ہوگی اور نہ ہی اس شعر کے مکمل متن کی پیروی کا خیال رکھا ہوگا۔ اس طرح تمام شعرا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ متن کی قرأت کے ضمن میں وہ اصل شاعر کے منشا کے نہ تو پابند ہیں اور نہ ہی اس کے بُنے ہوئے متن کا صدفی صدتتبع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ راجا رشید محمود صاحب نے تو پورا ’’گرہ بند نعت‘‘ ہی سرکار علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی آمد کے متن کی روشنی میں قلم بند فرما دیا۔

ایسی شاعری میں مسابقت کے ہزار ہا پہلو ہوتے ہیں اس لیے ان تمام شعری کاوشوں میں بہتر Poetic discourse یا شعری مکالمہ اسی شاعر کا ہوسکتا ہے جس نے زبان و بیاں اور اسلوب کی طرفگی کے ساتھ ساتھ طرحی مصرعے کے معنوی تیوروں کا خیال رکھا ہے جن شعرا نے سرکارﷺ کی آمد کے مضمون سے ذرا مختلف بات کی ہے ان کا متن کہیں بہتر ہوگیا ہے اور کہیں سیاق سے ہٹ بھی گیا ہے۔ بہر کیف مجھے فی الحال شعرا کی تضمینی کوششوں کو درجہ بندی کے خیال سے نہیں پرکھنا ہے، صرف متنی رشتوں کے حوالے سے بات کرنی ہے۔ ایک ہی متن کے مختلف شعری لونی عکس Shades کو درج بالا مثالوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔
بین المتنی تناظر میں تجدید متن کی ایک مثال تابش دہلوی کا یہ شعر ہے:
میں عاصی آپ سرتاپا شفاعت
یہ رشتہ آپ سے محکم بہت ہے
اس شعر کا متنی رشتہ ساجد اسدی کے اس شعر سے قائم ہوتا ہے:
ہے درخشاں ایک پہلو یہ مری تقدیر کا
واسطہ ہے ان کی رحمت سے مری تقصیر کا
اور ساجد اسدی کا یہ شعر غالب کی زمین میں ہے۔
حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کی ایک غزل ہے جس کا مطلع نعتیہ ہے:
حسن یوسف، دم عیسیٰ ؑ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
اور مقطع ہے:
دل و دیں بردی و ہوش و خرد و صبر و قرار
دگراز خسرو بے دل چہ تمنا داری؟
خسرو کی اس غزل کا مطلع پچھلی سات صدیوں سے زیادہ مدت سے ہمارے نعتیہ شعری منظر نامے پر اپنے معنوی رنگ بکھیر رہا تھا لیکن اس کے متن کی تجدید نہیں ہوسکی تھی، یا اس خوبی سے اس متن کی تجدید نہیں ہوسکی تھی جس خوبی سے جمیل نقوی مرحوم و مغفور کے شعری عمل میں ممکن ہوئی ہے۔ جمیل نقوی نے اس مطلع کے متن کو اس طور اپنایا ہے اور اس کو اس قدر وسعت دیدی ہے کہ یہ متن ہی ان کا ہو گیا ہے، فرماتے ہیں:

آپ کے اور محاسن بھی ہیں بے حدو شمار
حسن یوسف، دم عیسیٰ ؑ، یدبیضا کے سوا
اس ضمن میں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی لکھتے ہیں:
’’آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری‘‘ کہنے والے نے بھی حسن یوسفؑ، دم عیسیٰؑ اور ید بیضا کو مثال کے طور پر پیش کیا تھا اور ان اجزاء سے دوسرے ان کے محاسن کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ’’خوباں‘‘ کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے، مگر جمیل نقوی نے ’’کے سوا‘‘ کے ٹکڑے سے مضمون چمکا دیا ہے۔
تجدید متن کی اس بہترین مثال کے بعد میں مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا۔ نعتیہ شاعری کے گلشن میں ایک متن کے ہزار ہا پھول کھلے ہوئے ہیں جو اس بات کی دلیل فراہم کرتے ہیں کہ ’’ماترک الاوّل للاخر شیاء‘‘ (پہلوں نے دوسروں ]بعد میں آنے والوں[کے لیے کچھ نہیں چھوڑا‘‘۔ ہاں جودت طبع سے رائج متون میں اسلوبیاتی  اور فکری سطح پر اضافے ممکن ہیں اور یہی رشتے تلاش کرنے کے لیے میں نے نعتیہ ادب کا کچھ مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہوسکتا ہے مستقبل میں نئی تھیوری کی روشنی میں مجھ سے بہتر نقاد کچھ زیادہ گہرے نتائج فکر پیش کرنے کے قابل ہوجائیں اور یوں نعتیہ ادب میں بھی سنجیدہ مسائل پر غور و فکر کی طرح ڈالی جاسکے!
کتابیات
۱۔ ایاز صدیقی، ثنائے محمدﷺ، (ایاز صدیقی، ۳۰۲۔بی گلگشت، ملتان) ۱۹۹۳ء۔
۲۔ تابش دہلوی، تقدیش (ادب گاہ ناظم آباد، کراچی۱۹۸۵ء)

۳۔ جمیل نقوی، ارمغان جمیل (الیٹ پبلیشرز لمیٹڈ، ڈی۔ ۱۱۸ ایس آئی ٹی ای کراچی )ربیع الاول ۱۴۰۵ء
۴۔ راجا رشید محمود، ماہ نامہ ’’نعت‘‘، جلد ۱۶، شمارہ ۹ (اظہر منزل، چوک گلی نمبر۱۰؍۵، نیو شالا مار کالونی، 
          ملتان روڈ، لاہور) اکتوبر ۲۰۰۳ء
۵۔ ساجد اسدی، پیامبر مغفرت (۱۔جی۴۔۱۰، ناظم آباد، کراچی)۱۹۷۵ء
۶۔ صبیح رحمانی، نعت رنگ، شمارہ ۹ (۲۵۔ ای ٹی اینڈ ٹی فلیٹس، فیز ۵، شاد مان ٹائون، نمبر۲ شمالی کراچی، 
        مارچ ۲۰۰۰ء
۷۔ ضمیر علی بدایونی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت (ایک ادبی و فلسفیانہ مخاطبہ)، (اختر مطبوعات، 
          اے۔۷۰ بلاک ۱۷، فیڈرل بی ایریا، کراچی )۱۹۹۹ء
۸۔ غلام رسول مہر، نوائے سروش ] مکمل دیوان غالب مع شرح[ (شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور) س۔ ن
۹۔ گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات (ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 
          بھارت) دسمبر ۱۹۹۳ء
خ


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے