غلام ربانی فداؔ سے ایک مکالمہ

غلام ربانی فداؔ سے ایک مکالمہ

 غلام ربانی فداؔ سے ایک مکالمہ

مصاحبہ گومنیراحمدجامی

(روزنامہ سیاست بنگلور کے ادبی صفحہ میں ۱۷ڈسمبر ۲۰۱۲؁ء  شائع شدہ)





سوال : اپنامکمل ادبی ،سوانحی، مذہبی پس منظربیان کیجئے۔
جواب: ناچیز غلام ربانی فداؔ ، ہیرورتعلق ہانگل (ہاویری ضلع کرناٹک) کے ایک متوسط گھرانے اوراپنے علاقے مشہور سیاسی لیڈر جناب نوراحمد اکی کے گھر یکم جون ۱۹۸۸؁ء کو پیدا ہوا۔ناچیز نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے گاوں کے دینی مکتب سے حاصل کی،بعد ازاں دارالعلوم قادریہ ڈانڈیلی میں کچھ سال رہ کر اَعلادینی تعلیم کا حصول کیا ،اسی طرح ابتدائی عصری تعلیم  گورنمنٹ پرائمری  اسکول سے حاصل کرتے ہوئے اعثمانیہ یونیورسٹی سے ڈی ایڈ  ان عربک اور اردو ادب میں بی اے اور ایم اے کے اندر امتیازی درجہ سے کامیابی نصیب ہوئی،۔  
آپ نے ادبی پس منظر کے بارے میں بھی دریافت کیا ہے اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہمارے گھرانے میں ماضی میں کوئی شاعر یا ادیب تو نہیں گزرا حیدرآبا کی ادبی فضا ومدارس کی مقدس ہوا،  شہرلکشمشیور سے قلبی لگاوٗ کا ثمرہ ہے کہ شاعری، نثر نگاری اور تحقیق و تنقید وغیرہ کا شعور پیدا ہوا۔والدین کی تربیت کا بھی اس میں دخل ہے کہ انھوں نے اچھی کتب کے مطالعہ کی بچپن ہی سے عادت پیدا کی ۔ تقریباً ہر فن اور ہر موضوع پر کتابیں گھر میں موجود ہونے کے سبب مطالعہ کے شوق نے بھی ادبی ذوق کو مہمیز دی۔ ہاں!طالب علمی کے زمانے میں کچھ ایسے دوستوں کی صحبت بھی ملی جس کی وجہ سے شعری و ادبی ذوق پروان چڑھا۔ابتداً کئی لوگوں نے میری شعرگوئی کی مخالفت کی میں نے ان کو جواب دینے کے بجائے کام کرنے پہ توجہ مرکوزرکھی۔ْ
سوال: آپ کی شخصیت کے چاررنگ ہیں، ادیب شاعر،صحافی،محقق۔آپ کیاکہیں گے اس بارے میں؟
جواب : جی اللہ کاکرم ہے۔میں تواس حوالے سے کچھ نہیں کہوں گاقارئین ہی فیصلہ کریں تومناسب ہوگا ۔
سوال:آپ نے غزل گوئی کاآغاز کب کیااوردوشعر سنایئے؟
جواب:ویسے میں ۲۰۰۸ میں غزل گوئی کاآغازکیا اس سے پہلے مذہبی ادب وصحافت سے جڑاہواتھا۔لیجئے چندشعر حاضر ہیں۔
،دلوں کو جلاتے شرارے ہیں آنسو
غمِ عشق کے ماہ پارے ہیں آنسو
سدا ان بچاروں کو پیارے ہیں آنسو
غریبوں کی آنکھوں کے تارے ہیں آنسو
جو لب پر نہ آیا کہا آنسوئوں نے
محبت کے روشن اشارے ہیں آنسو
ہیں پلکیں ہماری منور منور
منڈیروں پہ جن کی ستارے ہیں آنسو
فداؔ لوگ سمجھے ہیں ان کو ستارے
نمایاں فلک پر ہمارے ہیں آنسو
سوال:آپ تنقیدِ نعت کے منظرنامے بہت اعتبارکے ساتھ پیش کیے جارہے ہیں۔نعت  کے کچھ اشعارسنایئے؟
جواب ۔ہاں!یہ سب نعت پرکام کرنے فیض ہے۔یہ بات اورہے کہ اس میں میری ذاتی کاوشیں بھی ہیں۔
مقدر جب بلندی پر بفیضِ کبریاہوگا
جبینِ شوق ہوگی اور درِ خیرالوریٰ ہوگا
یہی پہچان ہے بس عاشقِ سرکارکی ،اس کے
لبوں پر ہر گھڑی صلِ علیٰ صلِ علیٰ  ہوگا
جنوں لے جائے گا جس دم اسے شہرِمدینہ میں
سنہری جالیوں کوتھامے دیوانہ کھڑا ہوگا
نظر کے سامنے جب گنبدِخضریٰ رہے گاتو
زباں خاموش ہوگی اور یہ دل بولتا ہوگا
سوال:آپ ایک صحافی بھی ہیں۔آ ج جس حالات سے اردوواردوصحافت گزرہی ہے وہ تو تو آپ کوپتہ ہے۔پھرآپ نے مجلہ جہان نعت کاجوآغازکرنے کی جرات کیسے کی۔اس کے کیاوجوہات رہے؟
جواب:جی بہترطورپہ واقف ہوں۔میں نے دیکھاکہ پڑوسی ملک کے شعراکے مقابلے ہندوستان کے نعت گوشعرا موضوعات وطرزاظہارکے معاملے میں پچاس سال پیچھے ہیں اورافراط وتفریط بھی زیادہ ہے تومیں نے ان کی رہبری کے لئے جہان نعت کاآغازکیا۔کافی لوگوں کواس جانب توجہ دلائی مگرکوئی کسی نے بھی پیش قدمی نہیں کی تومجبوراًمجھے ہی آگے بڑھناپڑا ۔
سوال:۔آپ نے کیا مشکلیں اٹھائی؟کیاآپ کو اس میں کامیابی مل رہی ہے؟
جواب : جی ہاں جہان نعت کی صرف ملک ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پہ کافی پذیرائی مل رہی ہے یہی کامیابی کی دال ہے ۔ویسے تومجھے شروعات میںلکھنے والوں کی کافی دقت رہی ہے۔الحمدلللہ آج جہان نعت کے لئے لکھنے والوں کی ایک ٹیم بن گئی ہے۔اورکچھ نئے قلمکاربھی ناچیزکے اصرار پر لکھ رہے ہیں۔میدان نعت میں ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
سوال:اچھی نعت کہنے کے لیے صرف زبان وبیان پرقدرت ضروری ہے یا دیگر لوازمات اورتقاضے مثلاً اچھاعقیدہ بھی ضروری ہیں؟
جواب : احسان دانشؔ کہا کرتے تھے کہ اچھا شعر کہنے کے لیے نثری کتب کا مطالعہ ضروری ہے۔ نعت تو ادب کی سب سے نازک اور مقدس صنف ہے اس لیے اس میں طبع آزمائی کرنے کے لیے توصرف زبان و بیان پر قدرت ضروری نہیں بل کہ کتب احادیث کے ابوابِ فضائل اور سیرت ِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی ہوئی مستند کتابوں کا مطالعہ بھی شاعر کے لیے ضروری ہے۔ تاکہ وہ اس بات سے باخبر رہ کہ اس کی نعت نگاری میں کہیں کوئی غیر مستند ، غیر معتبر ، موضوع یا من گھڑت واقعہ یا روایت تو جگہ نہیں پارہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اچھے اچھے شاعروں کے یہاں ایسی بے احتیاطی پائی جاتی ہے ۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم مذہبی ادب کا بھی گہرامطالعہ کریں، سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی گئی معتبر کتب کو پڑھیں تاکہ ہمارا کلام ہر قسم کی بے اعتدالی اور غیر محتاط رویوں سے محفوظ رہے۔نعت صرف فن بلکہ عبادت ہے ۔عبادت کے لئے خوش عقیدگی ضروری ہے ورنہ وہ شاعری توہوسکتی ہے عبادت نہیں۔
سوال:آپ کے انشاء پردازبھی ہیں ۔آج جب نثرنگاروں کی کمی کوکس زاویے سے دیکھتے ہیں؟ کیاآپ نے اس کے لئے بھی کوئی تحریک چلائی۔؟
جواب: جامی صاحب !آپ بھی ایک صحافی ہیں ۔نثرنگارحضرات ہی رسالے اوراخبار کی ریڑھی کی ہڈی ہوتے ہیں۔میں نے تحریک چلائی مگرجہان نعت کی حدتک۔ضرورت ہے اس جانب بھی تحریک چلانے کی۔نثرنگاروں کی کمی باعث افسوس ہے۔نئی نسل میں اردوکاذوق باقی نہیں رہا۔
سوال:آپ کی اب تک کتنی کتابیں شائع ہوچکی ہیں؟اور کس نوعیت کی ہیں؟
 جواب: الحمداللہ میں چودہ کتابوں کا مرتب ومصنف ہوں۔نعتیہ مجموعہائے کلام میں ’’گلزارنعت‘‘ اور ’’جلوہ گاہ طیبہ‘‘غزلیات میں ’’شہرآرزومیں‘‘ اور غزلیہ دیوان’’صحرائے سخن‘‘، سوانح نگاری میں ’’سیدمقبول۔۔۔۔۔کہ گم اس میں ہیں آفاق‘‘ اورداستان کربلا’’صحرالہولہو‘‘مضامین کامجموعے ’’قلم آشنا‘‘ اور ’’آداب نعت گوئی‘‘اور’’علامہ اخترکچھوچھوی‘‘ قرآن اورعصری تحقیقات پرمشتمل ’’قرآن اورکائنات‘‘شامل ہیں اس کے علاوہ انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’’روبرو جلداول‘‘ مرتب کردہ ’’جیلانی شاہد کے تین مجموعہائے کلام ’’جہاں محمدوہاں خداہے‘‘(نعتیہ)خوشبوئے صبا(غزلیا)گلہائے رنگ رنگ (مختلف اصناف سخن)
سوال:آج کے دورمیں نعت لکھنے والوں کے لیے خصوصاً نوجوانوں کے لیے کیاپیغام دیناچاہیں گے؟
جواب: نعت نگار حضرات کے لیے چاہیے کہ وہ اپنے اشعار کو صداقت اور سچائی کا آئینہ دار بنائیں ۔ یہ نہیں کہ ہم اپنے شعروں میں کچھ بیان کررہے ہیں اور ہمار ا طرز عمل کچھ اور ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اگر ہم نعت لکھ رہے ہیں تو سنتِ مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل بھی کریں ۔ ورنہ ہماری شاعری محض شاعری کا حسن رہ جائے گی ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو ہمارے اشعار ہیں وہی ہمارے اعمال بھی بولنے لگیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کررہے ہیں صرف شاعری کے حُسن کے لیے اور نعتیہ مشاعروں اور مجلسوں میں داد وتحسین وصول کرنے کے لیے نعتیہ کلام لکھ رہے ہیں تو یہ صرف دنیاوی اعتبار سے تو نفع بخش ہوسکتا ہے ۔ دنیوی لحاظ سے یہ کسی بھی صورت قابل تحسین نہیں ۔ خلوص وللہیت کا شعروں میں ہونا ضروری ہے ۔ کیوں کہ ہم ایک ایسی عالی وقاراور عظمت نشان بارگاہ میں محوِ نغمہ سرا ہیں جن پر اللہ کی عطا سے ہمارے حالات خوب خوب روشن ہیں ۔اور مطالعہ کی عادت ڈالیں اچھی نعتیہ شاعری بھی پڑھتے رہیں اور سیرت و تاریخ اور احادیث کی کتب سے بابِ فضا ئل بھی اپنے مطالعہ میں رکھیں۔  
نعت
ان کے پسینے کی خوشبو تو گلشن گلشن چھائی ہے
نام ہے پیارا جن کامحمدان کا جہاںشیدائی ہے

میرے عقیدت کے اشکوں کو لوگ جواہر کہتے ہیں
پھول کھلے ہیں نعتِ نبی جب لبوں پر آئی ہے

فرشِ زمیں پربکھرے دیکھے ہم نے موتی چمکیلے
یادِسرورکی بدلی اشکوںکی بارش لائی ہے

اللہ اللہ جوبن پر ہیں خوب بہاریں طیبہ کی
گل توگل ہیں خاروں میں بھی جنت کی رعنائی ہے

ان کے غلاموں میں ہے فداؔبھی جن کی نوازش کی خاطر
شاہوں نے شاہی کو چھوڑاان کی غلامی پائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے ہے رواں میراقلم نعتِ نبی میں
خوشبو ہے بسی جیسے کہ ہر گل میں کلی میں

انگلی کے اشارے سے قمر ہوتا ہے ٹکڑے
سورج بھی تو ذرّہ ہے مدینے کی گلی میں

اے شاعرو !جو اس کو سنے کیف ہو طاری
اتناتو اثر پیداکرونعتِ نبی میں

نکہت ہے پسینے میںمحمد کے جو یارو
لاریب نہیںایسی کسی گل میں کلی میں

گر خوبیٔ قسمت سے  فداؔ طیبہ کوجائیں
کھل جائیں کئی پھول تمنائے دلی میں



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے