حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کی نعت گوئی

حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کی نعت گوئی


حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کی نعت گوئی 


پروفیسر محمد علی اثر حیدارآباد
ہماری ادبی اور تہذیبی تاریخ کی جڑیں عہدِ ماضی میں دُور دُور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ دکنی ادب سے مراد ہمارا وہ ادبی اور تہذیبی ورثہ ہے جو آج سے تقریباً چھہ سوسال پہلے، تدریجی طور پر، دکن کے مختلف ادبی مراکز، جیسے گلبرگہ، بیدر، گولکنڈہ، بیجاپور اور اورنگ آباد کے علاقوں میں نشونما پاتا رہا۔ دنیا کی دیگر بڑی زبانوں کی طرح دکنی اردو میں بھی نثر کے علی الرغم، نظم کی تخلیق پہلے ہوئی۔ شاعری کے میدان میں سب سے پہلے مذہبی مبلغین اور صوفیائے عظام نے قدم رکھا۔ ان بزرگوں نے، مختلف گیتوں، نظموں اور چکی ناموں کی صورت میں صوفیانہ شاعری کا بیج بویا جو دیکھتے ہی دیکھتے اردو شاعری کے ایک شجر سایہ دار کی شکل اختیار کرگیا۔
نعت‘ اردو شاعری کی سب سے قدیم صنف ہے۔ جو نظم، غزل، قصیدہ، مثنوی، رُباعی، مثلث، مخمس، مسدس جیسی قدیم ہئیتوں کے علاوہ دوہا، ہائیکو، سانیٹ نثری نظم جیسی جدید ہئیتوں میں بھی لکھی جاسکتی ہے۔ اس صنفِ سخن کی موضوعی شناخت پہلے ہے اور ہئیتی شناخت، ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں تک اردو ادب کے دکنی دور میں نعتیہ شاعری کے فروغ و ارتقاء کا تعلق ہے۔ بہمنی، قطب شاہی، عادل شاہی اور مغلیہ ادوار میں صنفِ نعت پر جس قدر طبع آزمائی کی گئی اور حضور اکرمﷺ کے فضائل و محامد اور سیرت طیبہ کے بیان میں جس قدر رنگارنگ گل ہائے عقیدت پیش کیے گئے۔ تاریخ ادب اردو کے کسی بھی دور میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
قدیم دکنی میں مذہبی اور صوفیانہ شاعری کے اولین نقوش کب ابھرنے شروع ہوئے اس کا قطعی طور پر تعین مشکل ہے۔ بہمنی عہد کا وہ دور جس میں دکنی زبان میں تصنیف و تالیف کی روایت پڑنی شروع ہوئی یا شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ تاریخ ادب کا ایک تاریک دور ہے۔ اس دور کی عام تاریخ کے بارے میں کافی مواد قدیم تذکروں اور تاریخوں میں مل جاتا ہے۔ لیکن قدیم تاریخیں بالعموم زبان اور شعر و ادب کے تذکرے سے عاری ہوتی ہیں۔ اور پھر جہاں تک اس دور کی دکنی شاعری کا تعلق ہے۔ وہ ایک ایسی زبان کی شاعری ہے جو پہلی مرتبہ بولی کے مرحلے سے آگے بڑھ کر زبان کی منزل میں داخل ہورہی تھی۔اس لیے فطری دور پر اس دور کے مصنّفین اور مورخین نے اس جانب کوئی توجہ نہیں کی۔ قدیم دکنی کی اولین تحریریں، دنیا کی اکثر زبانوں کے اولین تحریری نمونوں کی طرح صوفیوں اور مذہبی رہنمائوں کی تحریریں ہیں۔ موجودہ معلومات کی روشنی میں حضرت سیّد محمد حسینی خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ (۷۲۱ھ/۱۳۱۲ء۔ ۸۲۵ھ/۱۴۲۱ء) دکنی کے پہلے شاعر اور نعت گو بھی تھے۔ خواجہ صاحب عربی اور فارسی کے بہت بڑے عالم تھے۔
ان زبانوں میں متعدد تصانیف ان سے یادگار ہیں۔پروفیسرنثاراحمدفاروقی کا بیان ہے:
خواجہ صاحب کی اکثر تصانیف فارسی میں اور بعض عربی میں ہیں۔ ان کے علاوہ آپ کا ہندوی (دکنی) کلام بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستانی زبان اور محاورے سے آپ پوری طرح واقف تھے اور جو امع الکلم سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے کسی قدر سنسکرت بھی پڑھی تھی۔ اور اس کی بعض کتابوں کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ اپنی خانقاہ میں آنے والے عام لوگوں سے آپ ہندوی ہی میں گفتگو کرتے تھے۔  ٭۱
ایک عرصے تک ان سے منسوب رسالے ’’معراج العاشقین‘‘ کی وجہ سے انھیں دکنی اردو کے پہلے نثرنگار کی حیثیت سے شہرت حاصل تھی۔ اس کتاب کو بابائے اردو مولوی عبد الحق کے علاوہ ڈاکٹر خلیق انجم اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بھی مرتب کرکے شائع کیا تھا۔ جامعہ عثمانیہ کے مشہور محقق ڈاکٹر حفیظ قیتل نے معراج العاشقین کی اندرونی شہادتوں کی مدد سے اس کتاب کے خواجہ صاحب سے انتساب کو غلط ٹھہرایا۔ ڈاکٹر قیتل کی تحقیق کے مطابق مذکورہ بالا کتاب دراصل بیجا پور کے ایک اور صوفی حضرت مخدوم شاہ حسینی بلکا نوری کی تصنیف ’’تلاوت الوجود‘‘ کی تلخیص ہے۔ اور پھر اس کے بعد ڈاکٹر جمیل جالبی نے خواجہ صاحب سے منسوب تمام منظوم اور منثور دکنی رسائل کی بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے تغلیط کر دی۔ اور اپنی مرتبہ مثنویٔ نظامیؔ ’’کدم راو پدم راو‘‘ کو اردو کی پہلی مثنوی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو نعت پر تحقیقی و تنقیدی کام کرنے والے بعض محققین نے دکنی کے نعت گو شعرا میں اولیت کا سہرا ’’کدم راو پدم راو‘‘ کے مصنف نظامیؔ کے سر باندھا ہے چناںچہ ڈاکٹر ریاض مجید نے اردو کے پہلے نعت گو کا اعزاز فخر الدین نظامی کو عطا کرتے ہوئے لکھا ہے:
اس دور کی سب سے پہلی تصنیف جواب تک دریافت ہوئی ہے فخرالدیننظامیؔ کی ’’کدم راو پدم روا‘‘ لہٰذا اردو نعت کے اولین ، باقاعدہ اور مستند نمونے کی تلاش میں ہمیں سب سے پہلے اسی مثنوی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔٭۲
پروفیسر محمد اکرم رضا نے نظامیؔ بیدری کی زبان کو خواجہ صاحب کی زبان سے قدیم تصور کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’کدم راو پدم راو‘‘ میں موجود نعت قدیم اردو کا نمونہ ہے اس میں ہندی اور سنسکرت کے الفاظ عام ہیں جب کہ خواجہ گیسو دراز کی نعت ان کی نسبت زیادہ عام فہم اور روزمرہ سے زیادہ قریب ہے۔٭۳
اسی طرح حفیظ تائب نے ڈاکٹر جمیل جالبی کی مرتبہ مثنوی کے حوالے سے لکھا ہے:
ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’کدم راو پدم راو‘‘ کے مقدمے میں تفصیلی بحث کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ خواجہ گیسو دراز سید اکبر حسین (کذا) کی کوئی اردو تصنیف نہیں لہٰذا فخر الدین کی مثنوی ’’کدم راو پدم راو‘‘ میں حمد کے بعد آنے والے نعتیہ اشعار کو اردو کا پہلا مستند نمونہ سمجھا جاتا ہے۔٭۴
اگرخواجہ صاحب سے منسوب نثری رسائل ’’معراج العاشقین‘‘، ’’ہدایت نامہ‘‘، ’’شکارنامہ‘‘ وغیرہ کو ان کی تصانیف نہ بھی مانا جائے تو شاعر کی حیثیت سے اُن کی مختلف النوع منظومات اور صوفیانہ گیتوں کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مولوی عبد الحق، ڈاکٹر زور، مولوی نصیر الدین ہاشمی، مولوی سخاوت مرزا اور ڈاکٹر جمال شریف نے خواجہ بندہ نواز کی شاعری کے نمونے پیش کرتے ہوئے اُن کو اردو کا پہلا شاعر تسلیم کیا ہے۔ ان نمونوں میں حضرت کے نعتیہ اشعار بھی شامل ہیں۔ ذیل میں حضرت بندہ نواز کی مختلف النوع منظومات سے صرف نعتیہ اشعار کے نمونے پیش جاتے ہیں:
اے محمد ہجلو جم جم جلوہ تیرا
ذات تجلی ہوے گی سیس سپور نہ تیرا
واحد اپی آپ تھا اپسیں آپ نجھایا
پرگٹ جلوے کار نے الف میم ہو آیا       ٭۵
مثلث:
او معشوق بے مثال ہے نور نبی نپایا
نورِ نبی رسول کا میرے جیو میں بھایا
اپس کوں اپیں دکھانے کیسی آرسی لایا٭۶
٭
نام لے اللہ محمد کا اوّل
کب کا سب کوں کہوں برمحل٭۷
٭
پانی میں نمک ڈال نمک دیک ناد سے
جب گھل گیا نمک تو نمک بولنا کسے
یوں کھوئی خودی اپنی خدا سات محمد
جب گھل گئی خودی تو خدا بن نہ کوئی دسے٭۸
٭
الف اللہ اس کا دستا
میانے محمد ہوکر بستا
سچے طلب یوں کو دستا
گے ما بسم اللہ ہو، ہو اللہ٭۹
(چکی نامہ)
لولاک خلقت الافلاک خالق پالاے
فاضل افضل جیتے مرسل ساجد سجود ہو آے
اُمت، رحمت، بخشش ہدایت تشریف لاے٭۱۰
نعت گوئی کے ان قدیم نمونوں سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ قدیم دکنی کا پہلا نعت گو فخرالدین نظامیؔ مصنف مثنوی ’’کدم راو پدم راو‘‘ نہیں بلکہ حضرت بندہ نواز گیسو دراز ہیں۔ دکنی اردو کے صوفی شعرا اور مبلغین اسلام عربی اور فارسی زبانوں پر غیرمعمولی عبور رکھتے تھے لیکن اپنا پیغام عوام تک پہنچانے کے لیے مقامی بول چال کی زبان دکنی کو انھوں نے اپنی تقریر اور تحریر کا ذریعہ بنایا۔ دوسرے الفاظ میں مذہب کے زیر اثر قرآن حکیم اور احادیث نبوی کے ترجمے، تفاسیر اور فقہی مسائل کی تفہیم و تلقین سے لے کر سرور کائنات، فخر موجودات حضرت محمدﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا بیان ابتدا ہی سے ملتا ہے۔ سیرت نگاری کے موضوعات میں حضور اکرمﷺ کے فضائل و شمائل، میلاد و معراج اور معجزات و مغازی سبھی شامل ہیں۔
حوالے و حواشی
٭۱۔       پروفیسرنثار احمد فاروقی، خواجۂ دکن حضرت سیّد محمدحسنی بندہ نواز گیسو دراز، ایوانِ اردو، دہلی، مارچ ۲۰۰۴ء، ص۷
٭۲۔      ڈاکٹر ریاض مجید، اردو میں نعت، ص۱۷۶
٭۳۔’’شام و سحر‘‘، نعت نمبر شمارہ۶، ص۶۸
٭۴۔’’نقوش‘‘ نعت نمبر، جلد دہم، ص۱۶۹
٭۵۔ ڈاکٹر اسماعیل آزاد فتح پوری، اردو میں نعتیہ شاعری، جلد اوّل،ص۱۲۶، ڈاکٹرریاض مجید، اردو میں نعت، ص۱۲۶، ڈاکٹر نسیم الدین فریس، دکنی ادب کے مطالعے کی جہتیں، ص۹۵، مولوی عبدالحق، اردو ابتدائی نشوونما صوفیائے کرام کا کام، ص۲۳ جمال شریف، دکن میں اردو شاعری ولیؔ سے پہلے، نظرثانی، محمد علی اثر، ص۶۸، راجا رشید محمود، اولیات نعت، مشمولہ ’’سفیر نعت‘‘ ۶، ص۱۱۵
٭۶۔      جمال شریف۔ دکن میں اردو شاعری ولی سے پہلے۔ نظر ثانی محمد علی اثر، ص۶۴، راجا رشید محمود۔ اوّلیاتِ نعت، ’’سفیرنعت‘‘ ۲، ص ۱۱۵، نسیم الدین فریس، دکنی ادب کے مطالعے کی جہتیں، ص۹۳
٭۷۔دکن میں اردو شاعری ولی سے پہلے، ص۶۷ سیّد شاہ ندیم اللہ حسنی ’’شہباز‘‘ (بندہ نواز نمبر) مئی ۱۹۶۰ء۔
٭۸۔دکن میں اردو شاعری ولی سے پہلے، ص۶۷ نصیر الدین ہاشمی، تاج کمپنی لاہور، ۱۳۵۶ھ، ص۱۶۔۱۷
٭۹۔      ڈاکٹر زور، تذکرۂ اردو مخطوطات (جلد اوّل) ترمیم و اضافہ محمد علی اثر، ص۱۲۱، ڈاکٹر زینت ساجدہ، دکنی گیت، مشمولہ عثمانیہ ’’دکنی ادب نمبر (۱۹۶۴ء) ص۲۱۸، محمدنسیم الدین فریس تحقیقات، ص۲۱، دکن میں اردو شاعری ولی سے پہلے، ص۶۲، سفیرنعت، ص۱۱۵، اردو میں نعتیہ شاعری، ص۱۲۷۔۱۰،دکن میں اردو شاعری ولی سے پہلے، ص۶۵
OOOO

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے