اُسوۂ حسنہ ۔۔۔ اردو نعت کے آئینے میں

اُسوۂ حسنہ ۔۔۔ اردو نعت کے آئینے میں

پروفیسر محمد اقبال جاوید۔گوجرانوالہ


اُسوۂ حسنہ ۔۔۔ اردو نعت کے آئینے میں


حرفِ آغاز


نعت، سیرتِ رسولِ پاکﷺ کا ایک ایسا شعری بیان ہے جس میں فصائل کا حسن بھی ہے اور مسائل کا تذکرہ بھی۔ یہ صبحِ ازل کی ضو اور شامِ ابد کی لَو ہے۔ اس میں شاعر لفظ، لفظ مبالغے سے بچتا ہے۔ عقیدت، عقیدے کی اُنگلی تھام کر چلتی ہے۔ دل کی دھڑکنیں، تاریخی صداقتوں سے ہم آہنگ رہتی ہیں اور شاعر اپنی ذات کے ساتھ کائنات لے کر چلتا ہے کیوںکہ تذکرہ اُس ذات والا صفات کا ہوتا ہے جو حسنِ کائنات بھی ہے اور کائناتِ حسن بھی، یوں یہ حسن، حسنِ بیان کی دل آویزیوں کے ساتھ، صداقتوں کو نکھارتا چلا جاتا ہے۔ نعت، ممدوحِ عظیم و جلیل کے جمال و کمال کا مؤرّخانہ نہیں، شاعرانہ اظہار ہے۔ نعت گوئی اُن کی پیغمبرانہ بصیرتوں سے خود کو اُجالتی، قلبی طہارتوں سے نکھارتی، اخلاقی نظافتوں سے سنوارتی اور فکری رفعتوں سے اُبھارتی چلی جاتی ہے۔ نعت گوئی بڑے نصیب کی بات ہے اس کی توفیق سراسر عطا کا نتیجہ ہے ورنہ بڑے بڑے قادرالکلام بے توفیق رہتے ہیں:
اُس لب پہ فدا صبحِ بلاغت کے اُجالے


جس لب پہ تری مدح و ستائش ہے، ثنا ہے


Urdu Naat Lyrics

اگر بغور دیکھا جائے تو نعت کے آئینے میں نبیٔ کریمﷺ کی سیرتِ پاک کے نگینے، قلم قلم، لَو دیتے چلے جارہے ہیں۔ ’’نعت میں تخلیقی سچائیاں‘‘ تلاش کرنے والے جناب عزیزاحسن نے ’’نعت‘‘ کے حروف سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ ’ن‘ نقش، ’ع‘ عکس اور ’ت‘ تام (مکمل) کا نمائندہ ہے۔ اس طرح حضورﷺ کی ذات والا صفات نقشِ اوّل ہے جسے نقاشِ حقیقی نے بنایا ہے اور انسانی زندگی میں اس نقش کے عملی نمونے نے پیش کرتے رہنے کا حکم دیا ہے۔ شعرا اس نقش اوّل کا عکس لفظوں میں اُتارنے اور اُسے کامل (تام) کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ آخری ’ت‘ تام کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو شعرا کے لیے ایک حسرت کے سوا کچھ نہیں۔۔۔
زیرنظر اوراق میں حضورﷺ کے ’’اُسوۂ حسنہ‘‘ کو نعت کے آئینے میں دیکھنے اور دکھانے کی ایک امکانی سعی کی گئی ہے۔ نعتیہ دواوین اس قدر کثیر تعداد میں ہیں کہ:
ع سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیے
اس لیے میں نے اپنی ذاتی ڈائری میں مرقوم نعتیہ اشعار ہی کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ بنابریں میری مجبوریاں گل ہائے حسیں کی ان فراوانیوں سے معذرت طلب ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب (آیت ۲۱) میں نبی پاکﷺ کی رفتار، گفتار اور کردار کو ایک بہترین نمونہ (اسوۂ حسنہ) قرار دیا۔۔۔ اُن کے لیے جن کے دل محبوبِ حقیقی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے چین اور زبانیں اُسی کی یاد میں رطب اللساں ہیں، پس منظر تو اس آیت کا جہاد (جنگ احزاب) سے تعلق رکھتا ہے کہ کفر کے مقابلے میں رسول اللہﷺ ہی کی طرح ثابت قدم رہو تاکہ فتح و نصرت تمھارے قدم چومے۔ مگر یہ حکم میدانِ جہاد ہی کے لیے نہیں بلکہ حیاتِ مستعار کے ہر رُخ کے لیے واجب العمل ہے کہ عبادت میں رعنائی، معیشت میں سچائی اور سچائی میں دانائی، اسی اسوۂ حسنہ کی اقتدا سے نکھرتی، سنورتی اور اُبھرتی ہے کہ حضورﷺ کے روز و شب انوارِ الٰہی سے مستنیر اور ہدایاتِ الٰہی سے مستفید تھے۔ حق یہ ہے کہ ہر بشر کے لیے خیرالبشرﷺ کی سیرت ہی واجب الاتباع ہے۔۔۔ ’’کوئی مسلم ہو یا غیرمسلم، اگر ایک انتہائی کامیاب زندگی اور مکمل ترین انسان کا نمونہ دیکھنا چاہے تو اُسے قرآن مجید اور سیرتِ طیبہ کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اُسے وہ سب کچھ مل جائے گا جس کی ایک سلیم الطبع آدمی کو مطمئن اور خوش گوار زندگی بسر کرنے کے سلسلے میں ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ سیرتِ طیبہ میں ایک نبیٔ برحق کو دیکھے گا، ایک وفادار دوست کو دیکھے گا۔ وہ ایک بہترین سردار


کو پائے گا، وہ ایک کامیاب سپہ سالار سے ملے گا، وہ ایک انصاف پرور حاکم کو دیکھے گا۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے منتظم اور سربراہِ مملکت سے ملے گا، ہاں اور اسی کے ساتھ صبر، قناعت، تقویٰ، طہارت، ذکاوت، شجاعت اور توکل کے بھی اعلیٰ ترین نمونے دیکھ سکے گا۔ وہ عبادت، محبت، مشقت، مؤدّت مروّت اور عفو کے صحیح معانی صرف سیرتِ طیبہ ہی کے ذریعے سمجھ سکے گا، یہاں اس کو ہر خوبی اپنے کمال پر نظر آئے گی۔۔۔‘‘
سیرت ہے تری جوہر آئینہ تہذیب روشن
ترے جلوئوں سے جہان دل و دیدہ
لوگ چمکاتے چلے جائیںگے اپنے روز و شب
اُسوۂ سرکار سے کسبِ ضیا کرتے ہوئے
رمزِ ہستی، راز فطرت، سرِّ ذات و کائنات
ہر خبر پائی تلاشِ مصطفی کرتے ہوئے
ہے پیشِ نظر اُسوۂ پیغمبر آخر
ساماں یہ بہم فکر کی رفعت کے لیے ہے
(حفیظ تائب)
ظلمتیں کافور ہوجائیں فضائے دہر سے
اس طرح پھیلے رُخِ شاہِ ہدیٰ کی روشنی
اُسوۂ خیرالبشر کے نور سے ہو مستنیر
دہر میں چمکے اسی اک نقشِ پا کی روشنی
(عزیزاحسن)
مادرِ گیتی کے فرزندِ جلیل
بے نظیر و بے مثیل و بے عدیل
اے پناہ بے کساں تجھ پر درود السلام
اے بے نوائوں کے کفیل
تیری سیرت معنیٔ حق کا سراغ
تیری صورت جلوۂ حق کی دلیل

(اثرصہبائی)


Urdu Naat Lyrics


جھلملاتے ہیں تصور میں حدیثوں کے چراغ
کہکشاں اُسوۂ حسنہ کی سجی ہوتی ہے
(رازکاشمیری)
خُلق و محبت، رحمت و رافت، مہر و مروّت لطف و عنایت
حسنِ شعارِ سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم
(اخترالحامدی)
اتنا خلیق، خُلق کا بھرپور آبشار اتنا
بلند جیسے شرافت کا کوہسار
اتنا کشادہ ذہن، مروّت کا اک دیار
اتنا بڑا رسول، رسولوں میں شاہ کار
حسن عمل کا جس نے نمونہ دکھا دیا بھٹکے ہوئے بشر کو خدا سے ملا دیا
(سیف زلفی)
گو شک تھا کافروں کو رسالت پہ آپ کی
اُنگلی نہ رکھ سکا کوئی سیرت پہ آپ کی
ایماں اگرچہ لائے نہ دعوت پہ آپ کی تھا
اعتماد سب کو دیانت پہ آپ کی
پھٹکے نہ گرچہ منزل حق آگہی کے پاس رکھتے تھے
پھر بھی اپنی امانت نبی کے پاس
(محشر رسول نگری)
یتیموں کے لیے وہ ابرِ رحمت
وہ تسکین قلوبِ بے کساں ہے
کرم اس کا ہے زخم جاں کا مرہم
غموں کی دھوپ میں وہ سائباں ہے
ادائے لطف ہے اس کی جہاں پر


کرم اس کا محیط ہر زماں ہے
وہ روحِ عدل، وہ جانِ مساوات صداقت کا، امانت کا نشاں ہے
اُسی کا ہے مرے لب پر قصیدہ وہی
جو باعثِ آرام جاں ہے
٭
تو نے ہر گام پہ چھوڑے ہیں نقوش تاباں
رہنما ایک زمانے کی ہے سیرت تیری
ہر عمل تیرا ہر اک دور کا رہبر ٹھہرا
ہر زمانے میں مسلّم ہے امامت تری
(حافظ لدھیانوی)
نمونہ سب کے لیے ہے نبی کی سیرت میں
کہ جو نظیر بھی ڈھونڈی گئی یہیں سے ملی
(اسدملتانی)
میں ترے نقشِ قدم صورتِ انجم دیکھوں
کہکشاں سیرتِ اطہر کی سجانے والے
درسِ اخلاص دیا تو نے زمانے بھر کو
نورِ ایقان کو سینوں میں بسانے والے
(اقبال نجمی)
کچھ اُسوۂ حسنہ پہ عمل بھی تو کر اے دل!
یہ فرضِ محبت ہے، اسے بھی تو ادا کر
(زکی کیفی)
ہے ان کا اُسوہ ابد تک متاعِ دیدہ وراں
یہی چمن ہے کہ جس کو نہیں ہے خوفِ خزاں
(اسراراحمدسہاوی)
اُسوۂ مصطفی ملا ہم کو

نورِ ارض و سما ملا ہم کو
آپ کا نقشِ پا ملا ہم کو کیا عجب رہنما ملا ہم کو
ہم نے منزل کو پا لیا گویا آپ کا راستا ملا ہم کو
سیرت پاک پر گئی جو نظر اک عجب حوصلا ملا ہم کو
آگیا بے قرار دل کو قرار در جو سرکار کا ملا ہم کو
(حفیظ تائب)
ترے کردار کا پرتو ہے عصمت ہو کہ تقویٰ ہو
ترے اخلاق کا صدقہ ہے، نیکی ہو کہ سچائی
(ماہرالقادری)
ادراک کا چراغ، فراست کی روشنی
فہم و خرد کا مہر، تدبر کا آفتاب
تیر و سنان و خنجر و شمشیر کا دھنی
تدبیر کا سکوت، عزائم کا اضطراب
(لطیف جلیلی)
انسانیت کا اُسوۂ کامل حضور ہیں اس
کاروانِ زیست کی منزل حضور ہیں
(محشر رسول نگری)
فقط حضور کے اُسوے پہ ہے مدارِ حیات
عمل نہیں تو شفاعت، حدیث بے خبراں
(اسمٰعیل دائودی)
سرکار کی سیرت سے فروزاں ہیں در و بام
آداب محبت کے سکھاتا ہے مدینہ
ہر لمحہ حضوری میں گزرتا ہے یہاں پر کیا
قرب کا احساس دلاتا ہے مدینہ
(حافظ لدھیانوی)


رسولِ پاک کی سیرت کا یہ کتنا حسیں رُخ ہے
خدائے پاک سے دشمن کے حق میں بھی دعا کرنا
حسیں اخلاق سے کردار سے، شیریں کلامی سے
رسولِ پاک سے سیکھو دلوں کو ہم نوا کرنا
نبی کے اُسوۂ حسنہ سے یہ پیغام ملتا ہے
یتیموں کی خبر رکھنا، غریبوں کا بھلا کرنا
(طفیل ہوشیارپوری)
دانش میں خوفِ مرگ سے مطلق ہوں بے نیاز
میں جانتا ہوں موت ہے سنت حضور کی
(احسان دانش)
ہے سیرتِ رسول بہر گام رہنما
راہِ طلب میں اور کوئی نقش پا نہ مانگ
یہ اُسوۂ جنابِ رسالت مآب ہے
اپنے عدوئے جاں کے لیے بھی بُرا نہ مانگ
٭
نہ نکتہ ور، نہ مفکر، نہ فلسفی کے چراغ
مرے لیے ہیں بہت اُسوۂ نبی کے چراغ
رُخِ حیات کا غازہ ہے خاکِ پا تیری ہیں
مہر و ماہ سے بڑھ کر تری گلی کے چراغ
مٹانے آئے دلوں سے کدورتوں کے نقوش
جلانے آئے اُخوت کے، آشتی کے چراغ
فدا حضور کی خواہش پہ رازؔ ہر خواہش
نثار آپ کی حرمت پہ زندگی کے چراغ
(رازکاشمیری)
وجد میں آدم ہے اوجِ آدمیّت دیکھ کر

مصطفی کا شیوۂ تکمیل سیرت دیکھ کر
آپ کو مانا گیا سب سے بڑا تاریخ ساز
زیست کے ہر موڑ پر شانِ قیادت دیکھ کر
سازِ دل سے نغمہ کی صورت اُٹھی موجِ درود
عظمتِ کردار پر حق کی شہادت دیکھ کر
(حفیظ تائب)
روشن ترے اُسوہ سے ہوا روئے تمدن
قائم ترے کردار سے معیار وفا ہے
(احمداریب)
خورشید فلک آپ ہیں مہتاب زمیں آپ
تابند نظر آپ ہیں فرخندہ جبیں آپ
ہر نقش قدم آپ کا ہے شمع ہدایت
تاریکی و ظلمات میں ہیں نورِ مبیں آپ
معیار ہے دنیا کے لیے اُسوۂ حسنہ
سرنامۂ توحید کے ہیں نقش حسیں آپ
(عبدالکریم ثمر)
شب کو سحر کے نور میں ڈھالا حضور نے
انساں کو پستیوں سے نکالا حضور نے
ذہنوں سے تیرگی کو مٹانے کے واسطے اک
آفتاب نور اُچھالا حضور نے
ملنے کو تھی جو خاک میں توقیر زندگی
فضل خدا سے اس کو سنبھالا حضور نے
اعدا سے کھائے سنگ تو ان کو دعائیں دیں
اُسوہ دیا ہے ہم کو نرالا حضور نے
(غلام زبیر نازش)
خوش رنگ روشنی کا سفر اُسوۂ رسول
ظلمت میں آفتاب سحر، اُسوۂ رسول
اوّل کلامِ ربّ علیٰ بہرِ کائنات
پھر اس کے بعد حسنِ بار دِگر، اُسوۂ رسول
دیتا رہے گا شامِ ابد تک جو روشنی
ہے وہ چراغِ راہ گزر، اُسوۂ رسول
قول و عمل ہے مشعلِ عرفان و آگہی
دونوں جہاں کا علم و ہنر، اُسوۂ رسول
تپتی ہوئی حیات کو لطف حیات نو
صحرا میں سایہ دار شجر، اُسوۂ رسول
(رشیدکامل)
آئو، کریں اے دوستو! پھر زندگی کی بات
پھر سیرت نبی کی، پھر عہد نبی کی بات
سائل نے جس کے منھ سے کبھی لا نہیں سنا
اس لاجواب،
ہاشمی، عربی، سخی کی بات
جس نے بنایا اُمیوں کو ہادئ جہاں
اُس اُمیوں کے پیشوا، اُمی نبی کی بات
(الف د نسیم)
ہر ورق سیرت مطہر کا
حسن انسانیت کا مظہر ہے
آپ کا خلق، آپ کی گفتار
عظمت آدمی کا جوہر ہے
(حافظ لدھیانوی)
اُسوہ ’’کیفیتِ اتباع کا نام ہے گویا وہ حالت جس پر کوئی شخص اتباع کرتے وقت ہوتا


ہے چوںکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی حیاتِ طیبہ کو جمال و کمال کی جملہ کیفیتیں دے کر ہمارے لیے قابلِ تقلید قرار دیا ہے۔ بنابریں یہی حسن، اجمل اور اکمل نمونہ ہمارے لیے رہ نما بھی ہے اور منزل نشاں بھی۔ سچ یہ ہے کہ نبی پاکﷺ بے مثل بشر ہیں اور اُن کی ہر مثال، بے مثال ہے، سورۂ قلم میں آپ کے خلق کو عظیم کہا گیا۔ خلق کی عظمت سے مراد دانشِ ایمانی اور دانش برہانی کی جامعیت ہے، خصائل و شمائل کی پختگی ہے۔ گویا آپ اُن اوصافِ حمیدہ سے متصف تھے جن کی جڑیں دل کی گہرائیوں میں تھیں اور اس فطری حسن کو اپنے اظہار میں نہ کسی نوع کا کوئی تکلف تھا اور نہ اس میں کوئی تصنع تھا نہ بناوٹ، بلکہ حسنِ خلق کا اظہار یوں ہوتا تھا جیسے پھول سے خوش بو نکلتی، ہوا کے دوش پر سوار ہوتی اور کائنات کو مہکا جاتی ہے۔
اخلاق کی یہ عظمت، خالق کی عطاکردہ تھی۔ حضورﷺ کی ایک دعا کا ترجمہ ہے ’’اے اللہ! جس طرح تو نے میری شکل و صورت کو حسین و جمیل بنایا ہے، اسی طرح میرے خُلق کو بھی حسین و جمیل بنا دے۔‘‘ گویا خَلق اور خُلق دونوں کا حسن۔ یاد رہے کہ حسن خلق کا ادراک بصر سے ہوتا ہے اور حسن خُلق کا بصیرت سے۔
کوئی مثل مصطفی کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
انھیں خلق کرکے نازاں ہوا خود ہی دست قدرت
کوئی شاہ کار ایسا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
(صبیح رحمانی)
سیرت کا ذکر لذتِ احساسِ زندگی
یادِ رسول باعث تسکین اضطرار
بیمارئ خرد کے لیے نسخۂ شفا
دل دارئ جنوں کے لیے حرفِ خوش گوار
بنجر زمین فکر پہ الطاف کی گھٹا
ویرانئ خیال میں سرسبز برگ و بار
سیرت کا ہو بیاں تو مہکتے ہیں بام و در
عنبر فشاں ہوائوں سے ماحول مشک بار
٭
رحمۃ للعالمیں ترحم میں
اے تلطّف میں ابر نیسانی
اے تدبر ترا جہاں گیری
اے تقدم ترا جہاں بانی
بے کراں ہوگئی ترے دم سے آدمیّت
کی تنگ دامانی
علم و حکمت میں، عزم و جرأت میں
تیری عظمت ہمیشہ لاثانی
٭
دل کے ویرانے میں جب ہوتا ہے سیرت کا اثر
گوشے گوشے میں بہار جاودانی گل فشاں
زندگی کے ساز پر تارِ رگِ جاں کے لیے
صاحب مضراب ہے وہ دھڑکنوں کا رازداں
٭
فطرت کا اعتبار، مشیت کی آبرو
سیرت کے آئینے میں جو صورت ہے روبرو
اے تیرے دم قدم سے ہے انسان کا وقار
ہے ورنہ بے ثبات، یہ دنیائے رنگ و بو
(محمدعاشق)
منارِ رُشد و ہدایت، سحابِ رحمت وجود
مرے رسول کا اُسوہ، مرے نبی کا وجود
(حفیظ تائب)
وہ ہستی جس سے قائم ہے مروّت بھی اُخوت بھی جو سرگرم عمل رہتی تھی اور محوِ عبادت بھی
(راجارشیدمحمود)


یہ شانِ پیمبر ہے، یہ معراجِ بشر ہے
دشمن بھی پکارے تو امیں کہہ کے پکارے
آئینۂ انوار رُسل، حسن مجسم
سیرت بھی دل افروز، سراپا بھی درخشاں
منزل ہے ترے نقشِ کفِ پا سے عبارت
اے قافلۂ راہِ مشیت کے حدی خواں
(ساحرصدیقی)
روشن ہے نقش سیّد ابرار آج بھی محفوظ
ہے حضور کا کردار آج بھی
سنتے ہیں کان آپ کی گفتار آج بھی
نظروں میں ہے وہ عالمِ انوار آج بھی
اک اک ادا حضور کی مشہود ہے یہاں
میرا رسول آج بھی موجود ہے یہاں
(محشر رسول نگری)
آنکھوں میں ہے اس خلق مجسم کا تصور اِک
خلدِ مسرت مری نظروں کے قریں ہے
(صوفی تبسم)
صبح صادق کی طرح صدیق تھا جو وہ حسیں
دولت لوح و قلم کا جو امیں تھا وہ امیں
جب قلم کی روشنی بنتے ہیں یہ القابِ نور
تب مجھے محسوس ہوتا ہے کیا ہوں گے حضور
(صہبااختر)
صورت وسیرت کی رفعت پرملے ہیںجب سے آپ
اک عجب وارفتگی سی میری دانائی میں ہے
رات دن کھنگالتے ہیں بحر، ملتا ہی نہیں
آپ کی عظمت کا گوہر کتنی گہرائی میں ہے
آپ کی اُجلی شریعت کی ہمہ گیری کا راز
جسم کی رعنائی میں ہے، جاں کی زیبائی میں ہے
(عارف عبدالمتین)
کیا شانِ تکلم ہے کہ ہر جنبش لب سے
تخلیق ہوئی مستیٔ کردار کی دنیا
اس طرح کیا شیر و شکر علم و عمل کو
گفتار کی دنیا ہوئی کردار کی دنیا
(ذکی کیفی)
معیار حسنِ خلق وہی شخص بن گیا
جس کو ملی ہے ان کی اطاعت کی روشنی
(عزیزاحسن)
تلخ گفتار کا ماحول بدلنے کے لیے
تذکرہ آپ کے اخلاق کا کھل کر لکھیں
(صبیح رحمانی)
ہے یہ بھی سچ کہ آپ کی گفتار ہے جمیل
یہ بھی ہے حق کہ صاحب کردار آپ ہیں
(احمد ندیم قاسمی)
وہ جس کے دم قدم سے عظمت انسانیت اُبھری
چمک اُٹھا ستارہ نوعِ انساں کے مقدر کا
وہ جس کے فقر کے آگے نگوں سر تھی شہنشاہی
وہ جس کے بوریا پر سر جھکا فغفور و قیصر کا
یہ حسنِ خلق، یہ لطفِ نظر، یہ عفویہ بخشش خراماں
جس طرح کیف رواں تسنیم و کوثر کا
(صوفی تبسم)


دونوں ہیں درسِ رُشد و ہدایت مرے لیے
صورت حضور کی ہو کہ سیرت حضور کی
جب سیرتِ حضور کو دیکھا ہے غور سے آئینہ
ہوگئی ہے صداقت حضور کی
(شفقت کاظمی)
پیدا نہ کرسکے ترے کردار کی مثال
دکھلائے علم و فہم نے اعجاز بے شمار
(نظیرلدھیانوی)
مولائے کل ہیں، سیّد ابرار آپ ہیں
انسانیت کی دولتِ بیدار آپ ہیں
اُسوہ ہے آپ کا مہِ کامل کی چاندنی
فکر و عمل کا گلشنِ بے خار آپ ہیں
ذات آپ کی ہے حکمت و دانش کا گل کدہ
عرفان و آگہی کا چمن زار آپ ہیں
دنیا میں ہیں نمونۂ خلق عظیم آپ
نازاں ہے جس پہ عظمت کردار آپ ہیں
(طاہرشادانی)
سرمایۂ حیات ہے سیرت رسول کی
اسرار کائنات ہے سیرت رسول کی
بنجر دلوں کو آپنے سیراب کردیا
اک چشمۂ صفات ہے سیرت رسول کی
تصویر زندگی کو تکلّم عطا کیا
حسنِ تصورات ہے سیرت رسول کی
ساغرؔ سرور و کیف کے ساغر چھلک اُٹھے
صبحِ تجلّیات ہے سیرت رسول کی
(ساغرصدیقی)
ہر جاں کے لیے وجہ سکینت تری سیرت
آقا، دل مفلس کی ہے دولت، تری سیرت
مجبور کو ہر گام یہ دیتی ہے سہارا
بے کس کو عطا کرتی ہے قوت، تری سیرت
اذہان میں کرتی ہے، اُجالا تری تعلیم
ظلمات میں ہے نورِ ہدایت تری سیرت
کھولی ہیں ترے نطق نے فردوس کی راہیں
دراصل ہے جنت کی بشارت تری سیرت
روشن ہے ترے نور سے کاشانۂ ادراک
ہے سلسلۂ فہم و بصیرت تری سیرت
(حافظ لدھیانوی)
وہ اک نرمی کہ سنگ وخشت کے سینے میںجااُتری
وہ اک شیشہ کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوا آیا
وہ اک عظمت کہ مظلوموںکے چہروںپردمک اُٹھی
وہ اک بندہ کہ سلطانوں کو ٹھکراتا ہوا آیا
(ضمیرجعفری)
خَلق میں کوئی نہیں، خُلق میں کوئی نہیں
آپ کی کوئی مثال، آپ کی کوئی مثیل
آپ کا رُتبہ عظیم، آپ کا احساں عمیم
آپ کی سیرت بلند، آپ کی صورت جمیل
نے کوئی فغفورو کے، نے کوئی خاقانِ وجم
آپ ہیں میرے وکیل، آپ ہیں میرے کفیل
(عابدنظامی)
یہ سلسلۂ صدق و صفا کس سے ملا ہے


افکار کو اندازِ حیا کس سے ملا ہے
ہر نقش میں اک شانِ کریمی ہے خدا کی
یہ پردۂ انوار و ضیا کس سے ملا ہے
یہ دولتِ اندازِ نظر کس کا کرم ہے یہ
سلسلۂ فکرِ رسا کس سے ملا ہے
سرکارِ دوعالم کے سوا کون امیں ہے
اللہ کا پیغامِ ہدیٰ کس سے ملا ہے
اس ذاتِ محمد کے سوا، کوئی بتائے
انسان کو مفہومِ رضا کس سے ملا ہے
کشفیؔ کو عطا کس سے ہوئے اشکِ محبت
آواز کو یہ رنگ صفا کس سے ملا ہے
(محمدابوالخیرکشفی)
جناب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ فرمان ہے کہ نبی پاکﷺ کا اخلاق قرآن ہے، یعنی قرآن کے اوامر و نواہی کے عین مطابق ہے اور قرآن کی رعنائیوں کی طرح بے مثال و بے نہایت ہے۔ خود نبی پاکﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ذریعے اخلاقِ حسنہ کو درجۂ کمال تک پہنچانا چاہتے ہیں۔۔۔ اخلاقِ حسنہ کے درجۂ کمال ہی کا دوسرا نام اخلاقِ عظیمہ ہے۔ آپ کا کردار و عمل، اس فرمانِ الٰہی کے عین مطابق تھا:
قبول کیجیے معدزت خطاکاروں کی، حکم دیجیے نیک کاموں کا اور رُخِ انور پھر لیجیے نادانوں کی طرف سے۔(اعراف:۱۹۹)
اور نبی پاکﷺ کی اپنے بارے میں یہ حدیث، اِسی ارشادِ الٰہی کی وضاحت کر رہی ہے۔
مجھے میرے پروردگار نے نو باتوں کا حکم دیا ہے:
٭ ظاہر و باطن میں اخلاص کو اپنا شعار بنائوں
٭ خوشنودی اور ناراضی دونوں حالتوں میں عدل کروں
٭ خوش حالی اور تنگ دستی میں میانہ روی اختیار کروں
٭ جو مجھ پر ظلم کرے اس کو معاف کردوں
٭ جو مجھ سے قطع تعلقی کرے اس سے صلۂ رحمی کروں
٭ اس کو دوں جو مجھے محروم رکھے
٭ میری زبان گویا ہو تو ذکرِ الٰہی سے
٭ حالتِ سکوت میں آیاتِ الٰہی پر غور و فکر کروں
٭ میرے دیکھنے میں عبرت پزیری ہو
نبی پاکﷺ کی سیرت سے زیادہ سچی سیرت نہ کسی کی ہے، نہ ہوگی۔ کیوںکہ سیرت کے ماخذ دو ہیں، قرآن اور حدیث۔ قرآن کہ جس کی لفظی محبت اور معنوی صداقت بہر نوع مستند ہے اور حدیث کہ اُس کی چھان پھٹک، جانچ پڑتال اور جمع و ترتیب میں نہ ماضی شبہ کرسکتا ہے، نہ حال اور مستقبل کرسکے گا۔
اعزاز یہ سرکار کی سیرت کے لیے ہے
ہردور میں انساں کی ہدایت کے لیے ہے
دیںاس کاہے دستور،کتاب اس کی ہے منشور
وہ نور فلاحِ بشریت کے لیے ہے
(حفیظ تائب)
اے سراپائے لطفِ ربانی
اے مجسم عطائے یزدانی
اے تری زندگی کا ہر پہلو
رہنمائے شعورِ انسانی
اے کہ ہر باب تیری سیرت کا
آئینہ دارِ درسِ قرآنی
٭
تیری سیرت رموز فتح و نصرت کا صحیفہ ہے
ترا خلقِ عظیم آئینۂ الطاف یزدانی
شجاعت،استقامت،سخت کوشی،نیک اندیشی
یقین و اتحاد و عزم و سعی و خندہ پیشانی


(محمدعاشق)
پیکرِ رحمت ترا خلقِ عظیم
نکہتِ جنت تری خوئے جمیل
تیری اک اک بات صہبائے حیات
تیری اک اک سانس موجِ سلسبیل
تیرا پیغامِ مساوات بشر قیصر و فغفور کو بانگِ رحیل
(اثرصہبائی)
یاد ہے بات مجھے حضرت صدیقہ کی
آپ کا خلق بھی قرآن ہے، سبحان اللہ
خلق عظیم و اُسوۂ کامل حضور کا
آدابِ زیست سارے جہاں کو سکھا گیا
(حفیظ تائب)
قرآں کو حرز جاں نہ بنائیں تو کس طرح
سیرت کا ہے بیاں تو فقط اس کتاب میں
(انجم رومانی)
جہانِ عدل و احساں کا وہی بانی مبانی ہے
کلام اللہ کی تفسیر جس کی زندگانی ہے
(راجارشیدمحمود)
بزمِ جہاں کو زیورِ خلق عظیم سے
یا صاحبِ جمال، سجایا ہے آپ نے
(منظورحسین منظور)
بے حدود و بے بہا آپ کا لطف و کرم
بے نظیر و بے مثال آپ کا خلقِ عظیم
مخزنِ جود و سخا، منبعِ صدق و یقیں آپ رئوف و رحیم، آپ ہی دُرِّیتیم
(عبدالکریم)
بیاں جن میں ہوئے اوصاف محبوبِ دوعالم کے
مری نعتوں کی زینت ہیں وہی آیاتِ قرانی
جلال بادشاہی نے لباسِ عجز پہنا ہے
درِ اقدس پہ ہے قربان عز و جاہِ سلطانی
وہ اپنی خوبیوں میں ہے جہاں میں یکہ و تنہا
صفات و ذات میں کوئی نہیں کونین میں ثانی
عطا کی سرفرازی اُن کو جو پامال انساں تھے
غلاموں کو سکھائے اس نے اندازِ جہانبانی
٭
مری زندگی کا حاصل، مرے درد و غم کا درماں
ترا ذکر وجہِ
تسکیں، تری یاد راحت جاں
جو ہے رہنمائے عالم، ہے وہ سیرتِ مطہر
ترا نطق معجزہ ہے، ترا ہر عمل ہے قرآں
(حافظ لدھیانوی)
اس کا وجودِ پاک ہے برہانِ ذاتِ حق
اس کی حیات معنیٔ اُم الکتاب ہے
(حافظ محمد افضل فقیر)
سیرت رموزِ امر و نواہی لیے ہوئے
صورت جمالِ نورِ الٰہی لیے ہوئے
عادت پیمبری کی گواہی لیے ہوئے
غربت جلال و شوکت شاہی لیے ہوئے
لب بحرِ روشنی کا سفینہ کہیں جسے
دل علم و آگہی کا مدینہ کہیں جسے
(انورجمال)


اک صدق کہ جس صدق کا شاہد ہے زمانہ
اک عہد کہ جو عہد ہے پابند وفا کا
اک فقر کے جس فقر پہ خود فخر ہے اس کو
اک شاہ کہ جو شاہِ سمندر ہے سخا کا
اک فکر کہ افکار کی تہذیب ہے جس سے
اک علم کہ جس میں نہیں امکان خطا کا
اک خلق کہ اخلاق میں قرآن سراپا
اک فرد کہ گنجینۂ گوہر ہے ادا کا
اک ذات کہ ہے صورت و سیرت کا تفاخر
اک شخص کہ مژدہ ہے نئی آب و ہوا کا
(منصوراحمدخالد)
کتابِ تمدن کا عنواں ہے ’’الفقرفخری‘‘
جو تہذیب ہے جسم تو جاں ہے ’’الفقرفخری‘‘
ہوا و ہوس کی ضلالت اثر ظلمتوں میں
مہ و مہر بن کر فروزاں ہے ’’الفقرفخری‘‘
بیاضِ ہدایت ہے، تفسیر پیغامِ حق ہے
ہم آہنگ و ہم رنگِ قرآں ہے ’’الفقرفخری‘‘
یہ اک جملہ گنجِ خطیرِ سلام و اماں ہے
فلاح و سعادت کا دیواں ہے ’’الفقرفخری‘‘
(جعفربلوچ)
تیرے کردار کو قرآں نے کہا خلقِ عظیم
تیرے اعدا نے بھی تسلیم کیا تجھ کو امیں
تو نے بخشی ہے نگاہوں کو وسیع النظری
تو نے سینوں کو دیا ذوقِ وفا، سوزِ یقیں
(عابدنظامی)
خلق قرآن ہے جس کا، وہ نبیِ ملہم
جس کے اُسوہ میں نہاں رازِ نجات آدم
قاب قوسین کی تنزیل سے ہوتا ہے بہم
ذاتِ اقدس ہے فقط ذاتِ خدا کی محرم
وہی محسن، وہی منقاد و مطاع و منعم
جس کا منشور ہے منشورِ فراز آدم
(غلام رسول ازہر)
وہ ہر بشر کے واسطے نظیر ہیں مثال ہیں
اطاعتِ خدا کا اک نمونۂ کمال ہیں
ہیں ان کی عادتوں میں حق کی آیتیں سجی ہوئی
وہ بارگاہِ عرش کا صحیفۂ جمال ہیں
(سرورسہارن پوری)
نطق جس کا صداقتوں کا امیں
اس کی ہر بات ہے کلامِ خدا
٭
محبوب کائنات کی سیرت کا ہر ورق
تفسیرِ دل پزیر ہے اُم الکتاب کی
٭
ہے پیکرِ رحمت ترا انعامِ الٰہی
ہر ایک ورق سیرت اطہر کا ہے قرآں
ہر ایک ادا خلق و محبت کی ہے معراج
ہر نقش تری زیست کا ہے رہبرِ انساں
(حافظ لدھیانوی)
انبیا کا مشن دیگر مصلحین سے ہمیشہ مختلف رہا ہے کہ مفکرین صرف فکر دیتے ہیں مگر عمل کا نمونہ نہیں دیتے، شاعر صرف سمع و بصر کو جنت عطا کرتے ہیں مگر من کی دنیا کو نور عطا نہیں کرتے، مقنن


قانون کا ضابطہ دیتے ہیں مگر خود کو اس قانون کے مطابق نہیں ڈھالتے، جب کہ انبیا نظریے کے ساتھ ساتھ عمل کا خوب صورت نقش بھی پیش کرتے ہیں اور عمل کی یہی صالحیت، دلوں میں ترازو ہو جایا کرتی ہے۔ نبی پاکﷺ آیۂ کائنات کا وہ معنی دیریاب تھے جس کی تلاش میں رنگ و بو کے قافلے ازل سے رواں دواں تھے۔ اس لیے آپ نے انسانیت کو آخری دستورِ حیات عطا کیا جو بہر اعتبار مکمل اور بہرنوع قابلِ عمل ہے۔ اسی مکمل ضابطۂ حیات کی ایک ایک شق کی عملی تفسیر اُسوۂ رسولﷺ ہے۔ قرآن ایک الوہی ضابطۂ حیات ہے اور نبی پاکﷺ کی حیاتِ مطہرہ اس کی دل آویز وضاحت۔ اس الوہی قانون زنگی کو اگر ’’قرآنِ صامت‘‘ کہتے ہیں تو حضورﷺ ’’قرآنِ ناطق‘‘ ہیں۔ قرآن متن ہے اور سیرتِ خیرالانامﷺ اس کی جامع تشریح متن بھی اکمل ہے اور تشریح بھی اجمل اور اس اکمل و اجمل امتزاج میں نہ کسی اضافے کی ضرورت ہے نہ ترمیم کی کہ تکمیل کے بعد اضافہ اور ترمیم بے کار ہوجایا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نظامِ حیات پریشاں، آلودہ درماں اور بے سروساماں انسانیت کی رگوں میں یوں اُتر گیا ہے جیسے بادِ سحر گاہی کا نم، شاخِ گل کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے۔
اُن کی سیرت ہمیں دیتی ہے محبت کا پیام
اُن کی تعلیم ہمیں درسِ وفا دیتی ہے

(اثرصہبائی)
جس کے فقرِ غیور کے آگے
منفعل فرِّ قیصر و فغفور
٭
نبی کے ہر سخن میں ہے جھلک وحیِ الٰہی کی
حدیثِ مصطفی پر مرحبا کہیے، بجا کہیے


(حفیظ تائب)
لیا ہے آپ سے درسِ محبت اہلِ دنیا نے
جہاں میں آپ کی پھیلی ہے خوش بو، یارسول اللہ
٭
نشیبِ فرش کو بخشے غرور و رعنائی
فراز عرش کو روندے حضور کی سیرت

(راجارشیدمحمود)
بتاتی ہے دنیا کو سیرت تمھاری
کہ ناموسِ فطرت کے تم پاسباں ہو
مسخر تمھاری ادا سے ہے عالم
کہ دشمن کے حق میں بھی تم مہرباں ہو

(منظورحسین منظور)
اُن کے اخلاق وفضائل کرتے ہیںواعظ بیاں
متن قرآں دیکھ کر، تفسیر قرآں دیکھ کر

(صابربراری)
عنوانِ انقلاب ہے طاعت رسول کی
ہے ایک زندہ معجزہ سیرت رسول کی

(محشررسول نگری)
دشمنوں پر ہے مروّت اُن کی
درگزر کرنا ہے عادت اُن کی
رہبروں کے لیے وجہِ تقلید
ہر زمانے میں قیادت اُن کی
ہر قدم راہ دکھاتی ہے مجھے
کیسی ضوریز ہے سیرت اُن کی
رسول ہاشمی ہے راحتِ جاں

ہے تجھ سے آبروئے دین و ایماں
ترے انوار ہیں منظر بہ منظر
تری خوش بو بہاراں در بہاراں
نشاطِ زندگی ہے یاد تیری
ہے تجھ سے رونقِ بازارِ امکاں
تری سیرت متاعِ بے بہا ہے
ترے اخلاق پر شاہد ہے قرآں

(حافظ لدھیانوی)
تسلیم و رضا، جود و سخا، صبر و تحمل
جو رسمِ حسن ہے وہ اسی گھر سے چلی ہے
صورت ہے کہ شہ کار ہے نقاشِ ازل کا
سیرت ہے کہ قرآن کی تفسیر جلی ہے

(تابش صمدانی)
تری سیرت کے صدقے سے ملی ہیں منزلیں ہم کو
چراغِ حق نما کیسا جلا رکھا ہے صدیوں سے
تجھے ہر دور نے مانگا، تجھے ہر دور نے چاہا
تری چاہت کو سینوں میں بسا رکھا ہے صدیوں سے
(اقبال نجمی)
رنگِ حیات کس نے نکھارا ترے سوا
انسانیت کو کس نے اُبھارا ترے سوا
کس نے دیا ہے دشمنوں کو دوستی کا درس
موڑا ہے کس نے وقت کا دھارا ترے سوا
کس نے مٹا کے بغض و حسد کی کدورتیں
نقشِ وفا دلوں میں اُتارا اُترے سوا
اس قلزمِ حیات میں اے شافعِ اُمم
ہرگز نہ مل سکے گا کنارا ترے سوا



(قمریزدانی)
اس کی سیرت ہے منارِ انوار
حسنِ اطوار ہے فطرت اس کی

(عارف رضا)
ہوں بزمِ دوستاں میں تو حرفِ سبک ہیں آپ
اور رزمِ دشمناں ہو تو کوہ گراں ہیں آپ
٭
مری نگاہ کا مرکز ہے بانکپن تیرا
کبھی عمل ترا دیکھوں، کبھی سخن تیرا
گزر رہے ہیں شب و روز کی تمنا میں
مرے چلن میں جھلکنے لگے چلن تیرا
٭
جو عہد بھی آئے تری سیرت پہ ہو نازاں
جو دور بھی آئے ترے کردار پہ اِترائے

(عارف عبدالمتین
اندازِ حیات ان کا ہے قرآن سراپا
ہر آن ہے وہ جلوۂ زیبا تر و تازہ
انوار بداماں ہے بہر لحظہ وہ اُسوہ
وہ گلشنِ رحمت ہے ہمیشہ تر و تازہ

(حفیظ تائب)
آپ کا قول و عمل تفسیر ہے قرآن کی
اِتباعِ مصطفی، معراج ہے انسان کی

(ماہرالقادری)
صاحبِ خلقِ عظیم آپ کی ذاتِ اقدس
وجہِ صد عظمت انساں ہیں رسولِ عربی
سیرتِ پاک ہے قراں کے مطالب کی امیں
گویا خود آپ ہی قرآں ہیں رسولِ عربی

(حفیظ الرحمن احسن)
تیرا ہر ایک عمل وحیٔ الٰہی کی نمود
تیری سیرت ہے کہ قرآن کھلا دیکھتے ہیں
تو نے وہ ثبت کیے راہِ محبت میں نقوش
سب زمانے ترا نقشِ کفِ پا دیکھتے ہیں
جان سے بڑھ کے تری ذات کو رکھتے ہیں عزیز
ہم ترے چاہنے والوں کی ادا دیکھتے ہیں

(حافظ لدھیانوی)
کلامِ پاک کے دیکھو تو کھول کر اوراق
ہیں جا بجا شہِ دیں کے مکارمِ اخلاق

(عابدنظامی)
قرآں کی آیتوں میں سراپا ڈھلا ہوا
تمثیل بے مثال ہے کردارِ مصطفی

(شورش کاشمیری)
لازم ہے کہ انسان زندگی کے تمام شعبوں میں نبی اکرمﷺ کی حیاتِ پاک کو اپنے سامنے رکھے، کیوںکہ۔۔۔ ’’آپ ہر لحاظ سے حسن و جمال کا پیکر ہیں تقویٰ و پاکیزگی کا مظہر ہیں، وہ تمام پیغمبرانہ اوصاف جو چہرۂ نبوت کا غازہ ہیں۔ آپ کی ذات میں موجود ہیں، آپ کے رُخِ زیبا میں ہر نوع کے عشاق کے لیے تسکینِ نظر کا وافر سامان مہیا ہے۔ آپ خلاصۂ انسانیت ہیں، آپ کی کوئی ادا غیرجمیل نہیں، آپ سیرت و عمل کا بہترین نمونہ ہیں اور جسم و قالب سے لے کر روح کی گہرائیوں تک آپ میں حسن ہی حسن ہے۔‘‘
گویا معاشرے میں سیرت و کردار کا حسن اُبھارنا ہی نبی اکرمﷺ کی بعثت کا مقصد تھا۔ آپ کے پیش نظر معاشرتی اعتبار، تہذیبی وقار اور تمدنی نکھار تھا۔ ایک ایسے معاشرے کا قیام جس سے دنیا زندگی کے ہر میدان میں پارسائی کا سبق لے۔ آپ معلم تھے اور معلّم کی صنعت، روحِ انسانی ہوا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تعلیم و تربیت نے تاریخ کو ایسے انسان عطا کیے جو زندگی کے حقیقی مقصد سے آشنا تھے، جن میں خود آگاہی بھی تھی اور خدا آگاہی بھی، جن پر علم و نظر کی عظمتیں اور فکر و عمل کی رفعتیں ناز کرتی تھیں۔
لب کھلے جب نبی کی مدحت میں
پھول کھلنے لگے طبیعت میں
دین و دنیا کا امتزاج حسیں
نظر آیا انھی کی سیرت میں
مستنیر آپ کی حیات سے ہے
شان جو بھی ہے آدمیّت میں
حسن اور سادگی کے سب جوہر
ہوئے یک جا رسولِ رحمت میں


(حفیظ تائب)

جو بات ظلم سے نہ ہوئی پیار سے ہوئی
تہذیب زندگی ترے کردار سے ہوئی
تخلیق کائنات بھی صدقہ حضور کا
تزئین کائنات بھی سرکار سے ہوئی

(مظفروارثی)
آپ ہیں خیر و برکت کی بادِ خنک
جود و رحمت کا ابرِ مطیر آپ ہیں
نبی کی سیرتِ عالم فروز کا پرتو
فروغِ حسنِ تمدن، تجلیٔ تہذیب

(حفیظ تائب)
جہاں سے ہر بُرائی میرے آقا نے مٹا ڈالی
وہ جس نے اک نئی تہذیب کی آکر بنا ڈالی
آپ نے درسِ صداقت اہلِ عالم کو دیا
صادق الوعدو امیں ہیں سرورِ دنیا و دیں
جو تری جان کے دشمن تھے وہ بھی کہتے تھے
امین تو ہے، صداقت کی آبرو تو ہے

(راجارشیدمحمود)
فقرِ غیور مسلک و مشرب ہے آپ کا
لیکن جلو میں سطوتِ کبریٰ دکھائی دے
ہے ان کی ذات خاتم پیغمبراں ثمر
ممکن نہیں کہ کوئی اب ان سا دکھائی دے

(عبدالکریم ثمر)
مشتاق تھے جو خالقِ ارض و سما کے آپ
رہتے تھے ہر گناہ سے دامن بچا کے آپ
اک پیکر جمیل تھے شرم و حیا کے آپ
فرطِ ادب سے چلتے تھے نظریں جھکا کے آپ
اُلجھا کسی حسیں سے نہ دامن نگاہ کا
بے داغ تھا شباب رسالت پناہ کا

(محشر رسول نگری)
طبیعت میں وہ قدرتی شرم جیسے
کہ پردہ نشیں کوئی ناکتخدا ہے
سرِ شاخِ گل، غنچۂ ناشگفتہ
جو بادِ چمن سے بھی شرما رہا ہے

(عبدالعزیزخالد)
عمل سے اپنے سکھلایا زمانے کو عمل کرنا
انھی کے فیض سے دنیا نے دورِ بے خزاں دیکھا
ہے درس علم و تہذیب و ادب سیرت محمد کی
رواداری کی ہر منزل میں اُن کو ضوفشاں دیکھا

(سہیل بنارسی)
مظہر انورِ رحمت، واقف اسرارِ دیں
خاتم پیغمبراں، محبوبِ رب العالمیں
بزمِ ہستی میں ترے دم سے چراغاں ہوگیا
نور سے تیرے چمک اُٹھی زمانے کی جبیں
مٹ گئی تاریک شب، پیدا ہوا، نورِ سحر

مسکرا اُٹھیں فضائیں، جگمگا اُٹھی زمیں

(حافظ لدھیانوی)
بانٹ دو ہر عہد کو خیرالبشر کی روشنی
حشر کی دیوار تک ہے ان کے در کی روشنی
آپ کا ہر سانس تہذیب و تمدن کا اصول
آپ کی خیرات ہے علم و ہنر کی روشنی

(مظفروارثی)
زمانے کی نگاہوں نے بشر ایسا کہاں دیکھا
ملک کو جس کے ایوانِ شرف کا پاسباں دیکھا
عمل سے اپنے سکھلایا زمانے کو عمل کرنا
انھی کے فیض سے دنیانے دورِبے خزاں دیکھا
ہے درس علم و تہذیب و ادب سیرت محمد کی
رواداری کی ہر منزل میں ان کو ضوفشاں دیکھا
درخشاں عالمِ امکاں میں ہے خلقِ عظیم ان کا
کرم کی روشنی سے پُرضیا کون و مکاں دیکھا
بہت آئے نظر لیکن سہیلؔ اس شان کا بندہ
نہ بالائے فلک دیکھا، نہ زیرِ آسماں دیکھا

(سہیل بنارسی)
جس کی سیرت کاورق طائف بھی ہے خیبربھی ہے
جو ظہورِ حق بھی ہے ُمظہِر بھی ہے، َمظہرَ بھی ہے
جس نے تہذیب و تمدن کو مؤدّب کردیا
وحشیوں، صحرا نشینوں کو مہذب کردیا
ذوق کو پاکیزگی، وجدان کو تقدیس دی
ذہن کو تابندگی، فکر و نظر کو روشنی

(ماہرالقادری)
انساں کو ان کے ُخلق نے انساں بنا دیا
ذرّے کو آفتابِ درخشاں بنا دیا
٭
دیباچۂ نجات ہے سنت رسول کی
سرمایۂ حیات ہے حکمت رسول کی
فرقانِ خیر و شر ہے نبوت رسول کی
ہر چیز کو محیط ہے سیرت رسول کی
اس سے حیات کا کوئی گوشہ بچا نہیں
دنیا میں اور کوئی رہِ ارتقا نہیں

(محشر رسول نگری)
میرا مقصودِ نظر ہے وہ نگارِ زندگی
جس کا خود مشتاق ہے پروردگارِ زندگی
حلم و عفو و درگزر کا ایک نقشِ دل نواز
وہ کہ جس کی ہر ادا ہے اعتبارِ زندگی
پیکرِ لطفِ عمیم و مظہرِ خلیقِ عظیم
ان کی ہستی باعثِ نقش و نگارِ زندگی

(رازکاشمیری)
کاٹی ہر ایک ظلم کی زنجیر آپ نے
ہر تیرگی کو بخش دی تنویر آپ نے

انسان کے ضمیر کی، کردار و فکر کی
تہذیب کی ہے آپ نے، تعمیر آپ نے
حسن عمل کا درس زمانے کو دے دیا
یوں کی حدیث عشق کی تفسیر آپ نے
کی شاہ کار پر تو حُسنِ وجود سے
بے رنگ کائنات کی تصویر آپ نے
چھو کر فراز عرش بڑھا دی کچھ اور بھی
انسان کے مقام کی توقیر آپ نے

(محسن احسان)
تاریخ محمد کا نشانِ کفِ پا ہے
یہ بات غلط ہے کہ قدم کچھ نہیں لکھتے


(وقاراجمیری)
زندگی کا کوئی نظام، فکر کا کوئی منشور اور سوچ کا کوئی رُخ اس وقت تک بہترین نتائج پیدا نہیں کرسکتا جب تک اس کے ساتھ صاحبِ فکر کا اپنا کردار شامل نہ ہو کہ انگیٹھی اُس وقت تک کمرے کو گرم نہیں کرتی جب تک وہ خود انگارا نہیں بنتی۔ سوز و تپش سے خالی دل، یخ بستہ سینوں کو سیماب کا اضطراب کیسے دے سکتا ہے، لفظی خوش نمائی، دلوں کی ویران پگنڈنڈیوں کو بہار کی رعنائی عطا نہیں کرسکتی، گویا عمل کا حسن ہی فکر کو تاثر عطا کرتا ہے، نبی پاک، انبیائے کرام کی طویل فہرست کا مطلع بھی تھے اور مقطع بھی۔ انھوںنے قرآن پاک کو ایک ضابطے کے طورپر پیش کیا اور اس ضابطے کی عملی تکمیل اپنی سیرت سے کردی، نتیجہ معلوم کہ اُن کے رُخِ کردار نے اُن کے پیش کردہ دستور کو ازلی، ابدی اور عملی بنا دیا۔ اُسوہ و اُصول کی یہی وہ جامعیت ہے، جس کی بنا پر دینِ اسلام قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ مولانا سلیمان ندوی کے الفاظ میں ’’محمد رسول اللہﷺ کا وجود مبارک ایک آفتابِ عالم تاب تھا جس سے اونچے پہاڑ، رتیلے میدان، بہتی نہریں، سرسبز کھیت، اپنی اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق تابش اور نور حاصل کرتے تھے یا ابرِباراں تھا جو پہاڑ اور جنگل، میدان اور کھیت، ریگستان اور باغ ہر جگہ برستا تھا اور ہر ٹکڑا اپنی اپنی استعداد کے مطابق سیراب ہورہا تھا۔‘‘
کون ثانی مرے حضور کا ہے
خلق میں، صدق میں، امانت میں
کون ہم سر شہِ انام کا ہے
عدل و احساں میں، خیر و برکت میں
آسماں کی نظر نے کب دیکھا
عابد ان سا زمیں کی وسعت میں
٭
وجد میں آدم ہے اوج آدمیّت دیکھ کر
مصطفی کا شیوۂ تکمیل سیرت دیکھ کر
آپ کو مانا گیا سب سے بڑا تاریخ ساز
زیست کے ہر موڑ پہ شان قیادت دیکھ کر
شمع ایماں ہر دل تاریک میں روشن ہوئی
چہرۂ اقدس پہ انوار صداقت دیکھ کر
اہلِ دانش نے اُسے مانا ہے منشورِحیات
شرعِ محبوبِ خدا کی جامعیت دیکھ کر


(حفیظ تائب)
راہِ طلب میں نورِ ہدایت کہیں جسے
وہ مسلکِ حیات میں سالار کارواں
احسان و لطف و مہر و مروّت کا پاسدار
اقدارِ امن و صلح و محبت کا پاسباں
وحشت کے غم کدے میں وہ انصاف کی کرن
ظلمت کے تیرہ زار میں تنویرِ بے کراں

عنوانِ ہست و بود میں سیرت حضور کی
دنیا و دیں میں فہم و فراست کی داستاں

(محمدعاشق)
سرچشمۂ اقدارِ منور تری سیرت
سرنامۂ پیشائی خاور تری سیرت
زیبائی افکار کا مصدر ترے انوار
رعنائی کردار کا جوہر تری سیرت
تخلیق کے چہرے کی ضیا ہے تری ہستی
تہذیب کے ماتھے کا ہے جھومر تری سیرت

(حفیظ تائب)
اخلاق کے شانے سے، اے جانِ کرم تو نے
ایک ایک خم گیسو، ہستی کا سنوارا ہے

(اخترالحامدی)
اس کو اللہ ولی کہہ کے مراتب بخشے
ان کی سیرت جو کسی شخص کے اندر چمکے

(راجارشیدمحمود)
کسریٰ کا تاج روندنے کو پائوں کے تلے
اور بوریا کھجور کا گھر میں بچھا ہوا
دستِ دُعا انھی کے لیے عرش تک بلند
ہے جن کی آستین میں خنجر چھپا ہوا

(ظفرعلی خاں)
مخدومِ کائنات، شہنشاہِ بحر و بر
لیکن جلو میں جاہ و حشم ہے نہ کروفر
اُمت کے واسطے ہیں دو عالم کی نعمتیں
نانِ جویں پہ ہے مگر اپنی گزر بسر
شہرہ ہے ان کے جود و کرم کا گلی گلی
چرچے ہیں التفاتِ نظر کے نگر نگر

(عبدالکریم ثمر)
بصیرتوں کے ہیں مخزن نقوش پا اس کے
متاعِ دیدہ وراں ہے ہر اک ادا اس کی
اسی کا قول ہی قندیل راہِ ہستی ہے
ہر ایک دور میں سیرت ہے رہنما اس کی

(حافظ لدھانوی)
اخلاق، علم، عدل کا معیار آپ ہیں
انسانیت کے قافلہ سالار آپ ہیں
ایک ایک لمحہ جس کا زمانے کو حفظ ہے
تاریخِ زندگی کا وہ کردار آپ ہیں

(مظفروارثی)
وہ جن کا حرف حرف ہے منشورِ زندگی
وہ جن کی ہر ادا ہوئی رائج، نگر نگر
اخلاق وہ کہ سنگ سے دل بھی پگھل گئے
تعلیم وہ کہ بن گئے رہزن بھی راہبر

ایسا قیام جس سے قیامت پہ ہو یقیں
ایسا سجود، جس سے ہو مسجود کی خبر
ایسا رکوع جس سے کمانِ اُفق خجل
ایسا سلام، جس کو تکے کعبہ گھوم کر
ایسی نماز جس پہ خدائی نثار ہو
ایسی دعا کہ جس سے ہم آغوش ہو اثر

(جمشیدچشتی)
بخشا سکوں حضور کے فیضاں عام نے
دیکھا سحر کا نور زمانے کی شام نے
پیرایۂ حیات ہے سرمایۂ نجات
پیغام جو دیا ہے رسولِ انام نے
محبوبِ کبریا کی حیات جمیل سے
پایا ہے افتخار بقائے دوام نے

(محمدافضل فقیر)
غبارِ راہ کو شائستۂ بہار کیا
غریب شہر تھا مولا نے شہر یار کیا
محبتوں کے عجب حرف لوحِ دل پہ لکھے
شفاعتوں کو معانی سے ہم کنار کیا
عدو کے واسطے بھی خیر کی دعا مانگی
رفاقتوں کی روایت کو استوار کیا
غرورِ خود نگری پائوں سے کچل ڈالا
حصولِ دولت و حشمت کو بے وقار کیا
لباس فقر کو خلعت سے معتبر جانا
منافقت کے لبادے کو تار تار کیا
وہ آفتابِ حقیقت وہ ماہتابِ صفا
وہ جس نے علم کو منشورِ اعتبار کیا

(محسن احسان)
جمالِ کون و مکاں گرد کاروانِ نبی
جلال فقر و غنا ہم رِکاب شاہِ اُمم
ستم کشوں کے لیے شفقتِ امامِ رُسل
ستم گروں کے لیے احتسابِ شاہِ اُمم
نشانِ امن و اماں کارازار ہستی میں
پناہِ عالمیاں ہے جناب شاہِ اُمم
سب آبروئیں، لہو، مال، بیش قیمت ہیں
یہی تھا آخری حج میں خطاب شاہِ اُمم


(حفیظ تائب)
آپ کے اقوال بھی دل پزیر ہیں، اعمال بھی دل آویز اور احوال بھی دل نواز۔ اُن کے لیے جو آخرت پر یقین رکھتے ہوئے، ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ آج ہماری اکثریت آخرت کی جواب دہی سے بے نیاز اور ذکرِالٰہی کی حلاوت سے محروم ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثریت اُسوۂ رسولﷺ پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔ نتیجہ معلوم کہ اُس کا ایمان زنّاری اور دانش افرنگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آلِ عمران (آیت:۳۱) میں نبی پاکﷺ کی زبان سے کہلوایا کہ ’’اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اِتباع کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ مٹا دے گا۔‘‘ اور پھر سورۂ حشر (آیت:۷) میں تاکید فرمائی کہ ’’تمھیں جو کچھ رسول دے، لے لو، جس سے روکے، رُک جائو۔‘‘
افسوس کہ ہمارا دل یقین اور محبت دونوں سے خالی ہے، نہ ہمیں اپنی کسی بات کی جواب دہی کا احساس ہے نہ اعمال میں اُسوہ و سنت کا کوئی رنگ، صرف اقوال کی خوش نمائی ہے اور اعمال کی

سیہ دلی ہمارے کردار و عمل پر نوحہ کناں ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک بچہ اگر ہمیں کہہ دے کہ تمھارے کُرتے میں بچھو ہے تو ہم بغیر کسی تساہل کے، کُرتا اُتار پھینکتے ہیں، اللہ اور اس کا رسولﷺ بار بار قبر کے بچھوئوں، سانپوں اور جہنم کے شعلوں سے ہمیں ڈراتے ہیں، مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے، افسوس کہ ہم دینی اعتبار سے شکوک و شبہات میں گھرے ہوئے ہیں اور مغلوبِ گماں لوگ ایمان و ایقان کی عظمت سے تہی ہوا کرتے ہیں۔
مہر و وفا و صدق و صفا، بخشش و عطا
لوح جہاں پہ نقش ہے احسانِ مصطفی
کج بینیِ شعور ہو، کج بحثیِ خیال
سیرت میں ہے خرابیٔ احساس کی دوا
وجدان میں تلاشِ حقیقت کی ابتدا
احساس میں فروغِ صداقت کی انتہا
٭
ترے فیضِ نظر سے آبروئے گوہر معنی
ترے جوش کرم سے اعتبارِ ابر نیسانی
ترا نقشِ قدم سجدہ گہِ مہر و مہ و انجم
تری گرد کفِ پا سے جبینِ شوق نورانی


(محمدعاشق)
اُن کی سیرت پر پرکھنا اپنا ہر فکر و عمل
زیست کے ہر موڑ پر اُن کا اشارہ دیکھنا

(اثرصہبائی)
رہ نما گر نہ ہو وہ سیرتِ پاک
ہر مسافر بھٹک بھٹک جائے
ہر جادہ کشِ جور کی قوت تری رحمت
ہر رہروِ شب گشتہ کو رہبر تری سیرت
وہ سیّد انام کی نوریں حیات ہے
جس نے ہر ایک دل کو دیے تازہ ولولے

(حفیظ تائب)
ہم زمانے میں رہیں گے خستہ حال و خوار و زار
پیروی سیرت کی ہم میں جب تلک مفقود ہے
٭
سبق جس نے زمانے کو دیا مہر و اُخوت کا
وہ جس کی ذات بن کر رحمۃ للعالمیں آئی

(راجارشیدمحمود)
تیری سیرت کی نہیں ملتی زمانے میں مثال
اے امام المرسلیں، اے رحمۃ للعالمیں
تیرے ارشادات سے انسانیت کو مل گیا
نغمۂ توحید، ذوقِ آگہی، نورِ یقیں
٭
سبق دیتا ہے ہم کو نقش اطہر اس کی سیرت کا
عدالت کا، صداقت کا، امانت کا، سخاوت کا
مٹی ظلمت، زمانہ حلقۂ انوار میں آیا
نظر آیا رُخِ رنگیں ہمیں صبح سعادت کا
نقوشِ سیرتِ اطہر خیالوں میں چمکتے ہیں
کیا ہے اس طرح پاکیزہ اس نے رنگ خلوت کا
٭
ہر اک ادا ہے شمعِ ہدایت لیے ہوئے

جو رہ نمائے زیست ہے سیرت اسی کی ہے
اس کی نوازشوں سے ہے ہر ذرّہ فیض یاب
عالم کو جو محیط ہے رحمت اسی کی ہے
اس کا ہر اک قول ہے ایمان کی دلیل
جو سب سے معتبر ہے شہادت اسی کی ہے

(حافظ لدھیانوی)
اور کیا تاریک ذہنوں کو گواہی چاہیے
پتھروں سے پھوٹتی ہے شیشہ گر کی روشنی
ان کا صدقہ، اُن کا فدیہ، اُن کی دین ان کی عطا
فکر کی، احساس کی، دل کی، نظر کی روشنی

(مظفروارثی)
تری ہر بات کا قصہ چلے گا
قیامت تک یہی سکّہ چلے گا
تری سیرت، تری سنت چلے گی
ترا مسلک، ترا شیوہ چلے گا
سبھی معیار ثابت ہوں گے وقتی
ہمشیہ بس ترا اُسوہ چلے گا

(روحی کنجاہی)
کافری ہر ہر قدم پر مجھ کو بہکاتی رہی
سیرتِ سرکار لیکن راہ دکھلاتی رہی

(قیصروارثی)
جس نے دنیا میں ترے نقشِ قدم کو چھوڑا
چشمِ عالم نے اُسے اشک فشاں دیکھا ہے
جس گلستاں کو نظر نے تری سیراب کیا
اس میں ہر آن بہاروں کا سماں دیکھا ہے

(اسراراحمدسہاروی)
نکل آئیں گے حل سب مسئلوں کے چند لمحوں میں
حیاتِ مصطفی کو سوچنا اوّل سے آخر تک

(صبیح رحمانی)
قانونِ مصطفی ہے ہر اک مسئلے کا حل
اس راہ پہ چلیں تو سہی، ابتدا تو ہو
ہر کربلائے زیست میں ثابت قدم رہیں
حبِ نبی سے پائے ارادت بندھا تو ہو
حرفِ غلط کی طرح سب امراض دُور ہوں
حاصل درِ حضور کی خاکِ شفا تو ہو

(راجارشیدمحمود)
آفتابِ سیرت خیرالوریٰ درکار ہے
اس اندھیرے میں نظامِ مصطفی درکار ہے
پھر وہی ماہِ حرا، مہر صفا درکار ہے
پھر اُسی دور سعادت کی ضیا درکار ہے
جس سے آجائیں نظر فکر و عمل کے خدوخال
نسلِ انسانی کو ایسا آئینا درکار ہے
دونوں عالم میں فلاح و منفعت کے واسطے

اُسوۂ خیرالبشر، خیرالوریٰ درکار ہے
دشمنِ جاں کو بھی جس نے جان و دل سے دی اماں
زندگی کی راہ میں وہ رہنما درکار ہے
راز اُن کی یاد ہے بیمار روحوں کا علاج
جسم کے ہر روگ کو ان کی ردا درکار ہے

(رازکاشمیری)
کیا مجھ سے بیاں ہوں ترے اوصاف کہ آقا
تو حیطۂ امکان و تخیل سے ورا ہے
میں بندۂ کج فکر و فرومایۂ عالم
تو زینت کونین ہے، ممدوحِ خدا ہے
وہ صورتِ احوال ہے درپیش کہ جس سے
احساس فسردہ ہے سخن آبلہ پا ہے
افسوس ترے دین سے بیگانہ ہوئے ہیں
وہ لوگ ترے نام سے یاں جن کی بقا ہے
جو قوم کبھی باعثِ توقیر اُمم تھی
وہ آج زبوں حال ہے، بے برگ و نوا ہے
جس قوم کے دم سے تھا بھرم لالہ و گل کا
اس قوم کی تقدیر میں شبنم نہ صبا ہے
ہر شخص ہے لیلائے زر و سیم پہ شیدا
ہر شخص کی فطرت میں کدورت ہے ریا ہے
ہرسُو ہیں غم و کرب کی سنگین چٹانیں
ہر سمت یہاں نالہ و شیون ہی بپا ہے
مٹ جائے گا انسان تری راہ سے ہٹ کر
یہ وقت کی تحریر ہے گردوں کی صدا ہے

(احمداریب)
یہ ایک بات مقدم ہے آگہی کے لیے
حضور آئے ہیں تکمیلِ بندگی کے لیے
وہاں حضور نے روشن کیے چراغِ عمل
جہاں نگاہ ترستی تھی روشنی کے لیے
یہ جاگتا ہوا احساس آپ ہی نے دیا
جئیں امیر، غریبوں کی زندگی کے لیے
وہاں حیات کو گم راہیوں کا خوف نہیں
جہاں حضور کی سیرت ہے رہبری کے لیے

(وجاہت حسین وجاہت)
چلو نقشِ قدم پر مصطفی کے
اسی میں کامیابی ہے، بقا ہے
فلاحِ دین و دنیا ہے اسی میں
یہی منشورِ آیاتِ خدا ہے
٭
جس میں ہو اُسوۂ محبوبِ دوعالم کی جھلک
ایسی صورت کوئی آئینۂ کردار میں ہو
وہ تو خاموش نگاہوں کی بھی سنتے ہیں صدا
گر ندامت کا اثر قلب گہنہ گار میں ہو



(حافظ لدھیانوی)
نظر کے ریگ زاروں کو
متاعِ نقشِ پا دے دو

میںہوںتاریک
راہوںمیںاُجالوںکاپتادے دو
جہالت کے اندھیروںکی فصیلیںجس سے گر جائیں
مرے ہاتھوں کو ایسا علم کا روشن دیا دے دو

(صبیح رحمانی)
سطح زمیں پہ زر کا بھنور آج بھی تو ہے
شہر منافقاں میں بشر آج بھی تو ہے
سلطان بحر و بر، ترے قدموں کی منتظر
اشک رواں کی راہ گزر آج بھی تو ہے
میں نے ہی اپنے گھر کے دریچے کیے ہیں بند
ورنہ کھلا ہوا ترا در آج بھی تو ہے

(ریاض حسین چودھری)
رہِ وفا میں، میں اُن کی مثال بن جائوں
پسند جن کے نبی کو سبھی اُمور آئے
اطاعتوں کا وہ موسم ہمیں میسر ہو
نظر حضور کی سیرت ہی نزد و دُور آئے

(عزیزاحسن)
یوں سمجھیے
نبی کریمﷺ شاہدِ خلق ہیں، حکم ماننے والوں کو خوش خبری سناتے اور نافرمانوں کو ڈراتے ہیں۔ اَن جانوں کی پناہ، اللہ کے بندے اور رسول۔ سب کام کو اللہ پر چھوڑ دینے والے، نہ عادت کے سخت نہ بول چال میں کرخت، اُن کا کام ایک اللہ کی وحدانیت کو قائم کردینا ہے۔ اُن کی تعلیم اندھوں کو آنکھیں، بہروں کو کان دیتی اور غافل دلوں سے پردہ اُٹھا دیتی ہے۔ ہر ایک خوبی سے آراستہ، ہر ایک خلقِ کریم سے عطایافتہ، سکینہ اُن کا لباس ہے، نکوئی اُن کا شعار ہے۔ اُن کا ضمیر تقویٰ ہے، اُن کا کلام حکمت ہے، صدق و وفا اُن کی طبیعت ہے، عفو و احسان اُن کی عادت ہے، عدل اُن کی سیرت ہے، سچائی اُن کی شریعت ہے اور ہدایت اُن کی راہ نما ہے۔ ملت اُن کی اسلام ہے اور احمدﷺ اُن کا نام ہے۔
حرفِ آخر
وہ حسنِ خُلق کراں تا کراں نہیں ملتا
بیانِ حسن کو حسنِ بیاں نہیں ملتا
{٭}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے