آرزو ہے یہی دل میں تری چاہت نہ ہو کم دُور کتنا ہی رہوں لطفِ رفاقت نہ ہو کم

آرزو ہے یہی دل میں تری چاہت نہ ہو کم دُور کتنا ہی رہوں لطفِ رفاقت نہ ہو کم

آرزو ہے یہی دل میں تری چاہت نہ ہو کم
دُور کتنا ہی رہوں لطفِ رفاقت نہ ہو کم

زخم پر زخم لگیں اور یونہی گل رنگ ہو جسم
سنگ پر سنگ چلیں اور کبھی وحشت نہ ہو کم

میرے آقا مجھے دل جوئی کی لفظوں سے نواز
ساری دنیا میں لٹائوں مری دولت نہ ہو کم

تیری بیعت میں رہیں تیری ہدایت پہ چلیں
کج کلاہا نہ جئیں شوقِ شہادت نہ ہو کم

یوں ہی کھلتے رہیں ہر شاخِ تمنا پہ گلاب
سرِ شوریدہ رہے، نشۂ اُلفت نہ ہو کم
احمد صغیر صدیقی (کراچی)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے