نثری نظم ۔۔۔اور ۔۔۔نعت

نثری نظم ۔۔۔اور ۔۔۔نعت

پروفیسر ڈاکٹر اِفضال احمد انور۔ فیصل آباد


نثری نظم ۔۔۔اور ۔۔۔نعت


’’نثری نظم‘‘کی اصطلاح کی معنویت پر غور کرتے ہوئے بعض ادیب اسے شاعری کی کوئی سنجیدہ نوع قرار دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک تو یہ اصطلاح سراسر مبہم اور لایعنی ہے۔ وہ اس کا تمسخر بھی اڑاتے ہیں کیوںکہ ان کے نزدیک یہاں دو متضاد انواع کو ملا دیا گیا ہے ، جب کہ بعض ادیب نثری نظم کو توقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے شاندار مستقبل کی خواہش رکھتے ہیں۔ جو لوگ اسے باقاعدہ نوعِ سخن نہیں مانتے ان کے نزدیک چوںکہ نثری نظم کے نثری جملے نظم کے مروّجہ آہنگ کے حامل نہیں ہوتے لہٰذا انھیں وہ نظم نہیں مانتے۔ بعض کے نزدیک یہ مقفّٰی و مسجّع نثر کی ہی کوئی شاخ ہے۔ بعض کے نزدیک نظم، قافیے اور وزن سے آزاد ہوکر نثری نظم بن رہی ہے۔ حفیظ صدیقی کے نزدیک :
آج کل غیر موزوں نظم آزاد کے لیے نثری نظم کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے، لیکن نثری نظم لکھنے والے ذمہ دار ادیب شعر کے آہنگ سے بالقصد دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ان کی تخلیق نظم یا نظم آزاد کے دائرے میں نہ رکھی جاسکے۔ ٭۱
حفیظ صدیقی نظم کی جدید شکلوں کو شعرا کی سہل انگاری کا شاخسانہ قرار نہیں دیتے بلکہ سمجھتے ہیں کہ نظم کی ان جدید صورتوں کی آبیاری کرنے والے شعرا نے نئی علامتوں کی ترویج، وحدت تعمیر کے تدریجی ارتقا کے بہتر مظاہرے، شعر کے ذخیرہ الفاظ میں توسیع اور انفردی تجربات کی پیش کش پر زور دیا ہے۔


Urdu Naat Lyrics

وزن اور قافیہ (نیز ردیف)شعر کے لیے ضروری ہیں یا نہیں ،یہ بحث اتنی جدید بھی نہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی نے مقدمہ شعروشاعری میں نفسِ شعر کو وزن قافیے یا ردیف کا محتاج نہ مانتے ہوئے صاف لکھا تھا :
یونانیوں کے ہاں قافیہ بھی مثل وزن کے ضروری نہ تھا۔٭۲
اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل نفسِ شعرہے ،وزن ،قافیہ( یا ردیف) اس کے وجود کے زیور تو ہوسکتے ہیں اس کی روح نہیں ،لہٰذا شعر سے وزن اور قافیے کو دور ، رکھ کر بھی اگر اس میں حقیقی شعری روح سموجائے ،تو نثر میںبھی شعر کا ظہور ممکن ہے۔
ایم خالد فیاض شاعر ی میں وزن، مصرعوں کی ترتیب اور قافیے وغیرہ کے علاوہ بعض دیگر اوصاف کی موجودگی ضروری قرار دیتے ہیں۔
شاعری اور بھی بہت کچھ ہے، مثلاً یہی کہ شاعری، حیرت کو جنم دینے کا بھی نام ہے اور جذبات و احساسات کے ایسے اظہار کا نام بھی ہے جسے دیگر کسی ذریعے سے اس قدر بہتراور خوب صورت انداز میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ شاعری رمز و ایمائیت اور اختصار کے ایسے حسن کی حامل ہوتی ہے ، جو زبان کے تخلیقی استعمال سے اُجاگر ہوتا ہے۔ ہمیں شاعری کے ان اوصاف کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور نثری نظم کے محض شعری آہنگ سے انحراف کو ان تمام اوصاف سے انحراف پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔٭۳
بلا شک وشبہ قرآنِ مجید کتابِ شعر نہیںلیکن اس کی نثری آیات کا روحانی اعجاز تھا کہ مکہ کے ادبا وشعرا اسے شاعری قراردیتے اوربعض دشمنانِ دین، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی (نعوذ باللہ) ایک شاعر ہی سمجھتے۔ ان کے اس عمل کے دیگر پہلوؤں سے قطعِ نظر کر لیں، تو بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اہلِ عرب نثر میں بھی شعر ی جوہر پہچاننے کا دعویٰ رکھتے تھے۔



وزن، شعر میں ایسا آہنگ پیدا کرتا ہے جس سے اس کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ وزن کے آہنگ کی اس کمی کو داخلی ،فطری یا غیر مروج آہنگ سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ یہی عمل نثری نظم کی اساس بنتا ہے۔ بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس سے کہیں نثر اور نظم کی حدود گڈمڈ نہ ہوجائیں،اس خدشے یا سوال کے جواب میںایم خالد فیاض لکھتے ہیں :
نثری نظم میں ادبی نثر اور نظم بہت سے فرق اور امتیازات مٹاکر اور بہت سے فرق وامتیازات قائم رکھ کر آپس میں ایک ہوئی ہیں۔۔۔نثری نظم کی لفظی ترکیب بذاتِ خود اس بات کا اعلامیہ ہے کہ نثر اور نظم نے اپنی اپنی انفرادیتوں کو قائم رکھتے ہوئے انضمام کی کیفیت کو پالیا ہے۔٭۴
ایم خالد فیاض نثری نظم میں شعری تجربے کا اظہار ،زبان کے فطری آہنگ کے ساتھ خالص اور مکمل دیکھنا چاہتے ہیں۔اگر ایسا نہ ہوسکے تو یہ مسخ شدہ اظہار ہوجائے گا، جو نثری نظم کو مصنوعی تجربہ بنا دے گا۔ان کے نزدیک:
یہ تجربہ نہ صرف یہ کہ شعریت کا بھی حامل ہو ، بلکہ شدت احساس اور وحدت تاثر سے بھی متصف ہو اور خیال ، شعری ارتقا کی منزلیں طے کرتا ہوا بھی دکھائی دے اور،زبان کا تخلیقی استعمال بھی نہایت ضروری ہے۔۔۔ (شعری) تجربہ کا غیرمسخ شدہ صورت میں اظہار اور تخلیقی زبان کا استعمال کرنا، سہل پسندوں کا کام ہر گز نہیں ہے۔ اس کے لیے انتہائی فنی ریا ضت ، ذمہ داری اور تخلیقی اپج کی ضرورت ہے۔۔۔ ان سب باتوں کا حاصل کلام یہ ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی حالات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نئی سے نئی پیچیدہ تر نفسی کیفیات و احساسات کو بیان کرنے کے لیے جب کوئی شاعر دیگر شعری لوازم کے ساتھ غیر مروّ جہ آہنگ کو اپناتا ہے تاکہ وہ اپنے شعری تجربہ کو مسخ شدہ اظہار سے بچاسکے تو نثری نظم تخلیق ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں کسی بھی نثر ی نظم پر تنقیدی نگاہ ڈالتے وقت اس بات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ شا عر نے آہنگ کی اس رعایت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کسی پیچیدہ تر تجربہ کا ممکنہ حد تک بھر پور اظہار کیا ہے یا نہیں؟٭۵



ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری نے اپنے تحقیقی مقالے کے دوسرے باب میں نثری نظم اور اس کی تکنیک پر کھل کر بحث کی ہے۔ اس ضمن میں اُن کے وسیع اور وقیع تجزیے کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
(۱) نثری نظم مروّجہ شعری ہیئتوں ( کہ جن کی بنیاد اوزان وبحور اور ترتیبِ قوافی پر ہے،) سے انحراف کرتی ہے اور اپنی ہیئت کی خودتشکیل کرتی ہے۔
( ۲) لیکن کسی پابند نظم سے وزن خارج کر دینے سے نثری نظم جنم نہیں لیتی، کیوںکہ شاعری ایک

مکمل شکل میں ظہور پزیر ہوتی ہے۔
(۳) اس میںسطروں کی تقسیم پابندیا آزاد نظم کے مصرعوں کی طرح ہونا ضروری نہیں کیوںکہ یہ کوئی بھی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ (ایک پیرے کی صورت میں، کئی پیروں کی صورت میں یا مسلسل بھی ہوسکتی ہے)
(۴) نثری نظم کی شاعری اگرچہ نثر میں ہوتی ہے لیکن اسے شاعرانہ نثر سے ممیّز کیا جا تا ہے۔ کیوںکہ شاعرانہ نثر سیاق و سباق کے حوالے سے ہی قابلِ فہم بنتی ہے جب کہ نثری نظم مکمل اور جامع ہوتی ہے۔
(۵) نثری نظم کو عام نثر سے اس طرح ممیّز کیا جاتا ہے کہ اس کا اسلوب منطقی، بیانیہ اور تجزیاتی نہیں ہوتا، اور نہ ہی یہ غیراستعاراتی پیرایہ اختیار کرتی ہے۔ عام نثر کی بنیاد منطق و تعقّل پر ہوتی ہے جب کہ اس کی بنیاد جذبہ و تخیّل پر ہے۔
(۶) نثری نظم کا انحصار محض لفظ پر ہے کیوںکہ یہ صنفِ شاعری معین صوتی دائروں کی پابند نہیں۔ اس میں ہر طرح کے الفاظ جذب ہو سکتے ہیں۔ مگر معنویت کا دارومدار شاعر کی صلاحیتوںپر ہے۔
(۷) ہر صنفِ شاعری میں علامتیں اور استعارے ہوتے ہیں، نثری نظم میں بھی ان سے شعری تجربہ اظہار پاتا ہے۔ یہ آرا نثری نظم کے تصور کو بہتر انداز میں واضح کرنے میں مفیدِ مطلب ہوسکتی ہیں۔ ہر صنفِ شاعری میں علامتیں اور استعارے ہوتے ہیں، نثری نظم میں بھی ان سے شعری تجربہ اظہار پاتا ہے۔ انھیں علاقائی ، آفاقی، اور شخصی International, Personal اور Regional تین زمروں میں رکھا جاسکتاہے۔



(۸) نثری نظم میں رسمی علامتوں کے علاوہ آزادانہ طور پر استعمال کی گئی علامتیں بھی ملتی ہیں، ان سے نادر امیجز پیدا ہوتے ہیں۔ خواہ معنوی اعتبار سے یہ امیجز کیسے ہی ہوں۔
(۹) نثری نظم اپنی آزادی کے باعث نئی نئی علامتوں اور تصویروں کو بآسانی قبول کر لیتی ہے۔
(۱۰) نثری نظم کی موضوعاتی تخصیص ممکن نہیں۔ ہمارے ہاں اعلیٰ اور پست اور عصری شعور کی حامل اور عمرانی بصیرت سے تہی ہر طرح کے موضوعات پر نثری نظمیں لکھی گئی ہیں۔
(۱۱) تاہم نثری نظم میں ایسا شعری تجربہ آنا چاہیے جو اس کے نثر میں ہونے کا جواز مہیا کرے اور گفتگو ، خطابت اور خود کلامی کا سا لہجہ پیدا کرے۔
(۱۲) شاعری کے طور پر وہی نثری نظم قابلِ قبول ہوگی، جو شعری جوہر سے مملو ہوگی، اور اس میں جمالیاتی خصائص مجتمع ہوںگے۔٭۶
ان شواہد کی روشنی میںمیں کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی موضوع کی حامل ایسی عبارت نثری نظم ہے ،جو عروضی پابندیوں سے آزاد ہوکر بھی شعری جوہر سے مملو ہو،واضح ، جامع اورمربوط خیال پر

مشتمل ہو اور اس میں شعری تجربے کا حسن موجود ہو۔

Urdu Naat Lyrics

نثری نظم نسبتاً ایک جدید اور نووارد صنفِ سخن ہے۔ اردو میں متعدد شعراء نے اس میں طبع آزمائی کی ہے۔ نثری نظم نے ابھی بڑے مراحل طے کرنا اور کلی طور پر اپنے آپ کو منوانا ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ اردو میں جہاں دیگر مختلف موضوعات پر نثری نظمیں لکھی گئی ہیں ،وہاں حضور نبی اکرمﷺکی توصیفِ محمود پر مشتمل نعتیں بھی اس صنف میںموجود ہیں۔
اگر ہم ماضی کے نثری سرمائے پر بغور نظر ڈالیں تو ہمیں ایسے نثری نمونے مل جاتے ہیں جنھیں بآسانی نعت پر مشتمل نثری نظمیں قراردیا جاسکتا ہے۔ بے شک ماضی کے یہ نمونے نثری نظم کے زیر عنوان یا زیرِ خیال نہیں لکھے گئے تھے۔ البتہ ان میں موجود جامع ،مربوط اور مکمل خیال چوںکہ شعری جوہر، شعری تجربے اور شعری خطابت پر مشتمل ہے، لہٰذا انھیں نعتیہ نثری نظمیں قرار دینا نامناسب نہیںہو گا۔ ماضی کے وہ جلیل القدر شعرا ء جو باکمال نثر نگار بھی تھے جب نثر میں اپنے ادبی جوہر دکھاتے تو اُن کی تحریر میں شعری جوہر بھی در آتا ، جس کے باعث اُن کی نثر پر شعر کا گمان ہونے لگتا۔ اس کی بہت عمدہ مثالیں ملاّ اسداللہ وجہی (م ۱۰۷۰ھ/۱۶۵۹ء) کی ’’سب رس‘‘ (تصنیف۱۰۴۵ھ) میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ خود وجہی کو بھی احساس تھا کہ وہ نثر اور نظم کو ملا کراپنا خیال ، زیبِ قرطاس کرتے ہیں ، بلکہ اسمیں اپنی انفرادیت و اوّلیت کے دعویٰ دار بھی ہیں :
آج لگن اس جہان میں ہندوستان میں،ہندی زبان سوں، اس لطافت اس چھنداں سوں ، نظم ہو ر نثر ملا کر ، گلاکر نئیں بولیا۔٭۷
قدیم ادوار میں نثر اور شاعری کے باہم شیروشکر ہونے کی متعدد گراں قدر مثالیں ملتی ہیں، جن کی ادبی مؤرخوں نے گواہی بھی دی ہے۔مثلاً ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
قدیم دور میں نثر اور شاعری کی حدیں اس درجے ملی ہو ئی تھیں کہ ان کو الگ الگ کرنا، ممکن نہیں تھا۔ وجہی کی ’’سب رس‘‘ میں نہ صرف خیال، انداز، استعارات و تشبیہات میں بلکہ نحوی ترکیب میں بھی شاعری کا عنصر غالب ہے۔٭۸


Urdu Naat Lyrics

اُردو کے قدیم نثر ی سرمائے پر ایک نظر ڈالیں تو بعض نثر پارے آج کی نعتیہ نثری نظم کے قریب دکھائی دیتے ہیں ، مثلاً حضرت محمد حسینی خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کا ایک اقتباس دیکھیے:ہور ایک وقت ایسا ہوتا ہے سمجھو اور دیکھو بے پردا اندھیارے کے، اوجیالے کے، عارفان پر ہے، واصلان پر پردے نورانی۔ وے واصلان کا صفا پردا ہوتا ہے۔ محمدﷺ کا نور، اے عزیزاں ! اوّل ، ربوبیت کا پردہ ، سوائے تن جمالی جسم کے پردے کو ں انپڑے باج اس جمالی الوہیت کے پردے ممکن الوجود کون انپڑ سکے؟ ٭۹
اس نثری عبارت میں نورِ مصطفیﷺ کو جس طرح پردوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے ، اُس میں موجود شعریت کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یقینا یہ نثر پارہ ،نثری نظم کے زیرِ عنوان نہیں لکھا گیاہے۔ اِس کی مسلسل عبارت کو اس لیے توڑ توڑ کر لکھا گیا ہے کہ اس میں موجود نثر ی نظم کے ابتدائی ہیولیٰ کا تصور واضح ہو جائے۔ ’’سب رس‘‘ میںملاّ وجہی کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے ، جسے آ سانی سے اوّلین نعتیہ نثری نظم قرار دیا جا سکتا ہے :
عشق خدا کو ں بھیدیا تو اُس کی خاطر آسمان زمین ہویدا کیا۔
عشق خدا کو ں بھیدیا تو اپنا حبیب کر محمدﷺ کوں پیدا کیا۔
اگر محمدﷺ نہ ہوتاتو آسمان زمین نا ہوتا
اگر محمدﷺ نہ ہوتاتو ماہ پروین نا ہوتا
اگر محمدﷺ نہ ہوتاتو دنیا ہور دین نا ہوتا
صاحبِ طہٰ ٰ و یسین ، صاحبِ رحمتہ للعالمین
اس کے نور تے عالَم نے پایا روشنی۔ ۔۔۔۔۔ لولاک لماخلقت الا فلاک کا دھنی ٭۱۰
سلطان، قطب شاہی دور کا معروف شاعرہے اس کی تصنیف ’’دارالاسرار‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
کنت کنزاً مخفی فا حببت ان اعرف فخلق الخلق
یعنی او سلطان اپنی ذات کے دریا میں چھپا راز ،گنج رکھیا تھا۔ بقا کے موتیاں سوں بھر کر ہو کراوس حال میں پاک ،یک اوس گنج طرف نظر کیا ، ہور اوس موتیاں کا اوجالا ،دیک کر عاشق ہوا، ہور مصلحت تجویز میں آیا جو راز کے موتی چھپا کر رکھنا خوب نہیں ، بلکہ بازار میں ظاہر کرنا بھلا ہے۔ ٭۱۱


شیخ حسرت کرنولی(م ۱۲۷۸ھ) اپنی تصنیف ’’چار باغ احمدی، ‘ (۱۲۷۰ھ) کا یہ اقتباس بھی نعتیہ نثری نظم کی یاد دلاتا ہے
دل آپ کا اس نور سے روشنائی پاتا تھا اور سینہ صفائی پاتا تھا۔ نظر روشنائی پاتی تھی۔ طراوت بدن میں آتی تھی، الغرض جب جلوس سند نبوت کا دور نزدیک پہنچا اور کفر کے زوال کا وقت آیا تو آپ نے کوہ حرا کے غار کو اپنی خلوت گاہ بنایا ، یعنی یاد الہٰی کے لیے اختیار کی تنہائی۔ ہمیشہ خدا کا ذکر کرتے تھے۔ دم وحدت کا بھرتے تھے۔ ٭۱۲
میراں یعقو ب نے روح الارواح (ترجمہ )میں تخلیقی شان ظاہرکی ہے۔ اس کا یہ پیرا گراف نعتیہ نثری نظم کا نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ظاہر کا کعبہ پتھراں کا ہے
ہور باطن کا کعبہ اسراراں کا ہے
وہاں خلق (طواف ) کرتے ہیں جہاں خالقِ کرم ہور مدد چو پھیرا پھرتے ہیں۔
وہاں مقام ہے ابراہیم خلیلؑ کا
یہاں مکان ہے ربّ جلیل کا
وہاں ایک چشمہ ہے زم زم
یہاں پیالے ہیں محبت کے دم بدم
وہاں حجرِ اسود ہے
یہاں نورِ احمدؐ ہے٭۱۳
صوفی احمد خاںاکبر آبادی (م ۱۸۹۷ء) کی تصنیف’’ میلاد شریف جدید‘‘ کا یہ نثر پارہ بھی نعتیہ نثر ی نظم کی چھب دکھاتا ہے،
خدا نے اپنے نور سے نور ِ محمد پیدا کیا ہے اور اسی نور سے تمام موجودات کو ہویدا کیا اور ایک آئینہِ خدا نما بنا کر چاہا کہ اس میں اپنا جمالِ با کمال دیکھے۔٭۱۴
مولانا نقی علی خاں(والدمولانا احمد رضا خاں بریلوی) نے سیرت کے موضوع پر کتاب

’انوارِ جمالِ مصطفیﷺ‘‘ تحریر کی ہے۔
اس کی نثر میں کمال درجے کی شعریت موجود ہے اور بعض اقتباسات پر نعتیہ نثری نظم کا گمان ہوتا ہے۔ مثلاً یہ اقتباس ملا حظہ کیجیے:


ابروئے دل نشیں ،لوح جبیںِ کے قریں، مطلعِ نجم ِسعادت، موجِ بحرِ لطافت، ہلالِ ماہِ عید، طاقِ خانۂ خورشید، بیت حمدِ کبریا ، جوہرِ آئینۂ مصفا، سفینۂ نجاتِ نوحؑ، کلیدِ ابوابِ فتوح، فلکِ پیر خم اُس محرابِ کعبہ کے گرد طواف کہاں، اور ہلال عید اس طاق حرم پر جان و دل سے قرباں۔ دلِ زاہد، اُس گوشۂ عافیت میں چلّہ نشیں اور کمان دارِ فلک اس کے حضور سر برزمیں۔ تیرِ قضا اس کے اشارہ پر چلتا ہے اور سینہ ماہِ دو ہفتہ اس کے تیرِ محبت سے خستہ ہے۔ تودہ خاک سے قابَ قوسین تک اس کی شہرت ہے اور گاوِ زمیں سے اسدِ فلک تک نشانۂ تیرِ محبت ہے۔ کشتیِ ہلال گردابِ شوق میں سرگرداں اور قوسِ فلک، خونِ شفق میں غلطاں۔٭۱۵
حکیم امیرالدین عطّار اکبر آبادی (م۱۸۹۹ء) کے میلاد نامہ ’’ مولودِ عطار‘‘ کی یہ عبارت بھی نعتیہ شعری نظم کی لَو دیتی ہے۔
دھنک کی جو سبز و سرخ لکیر ہے یہ محراب روضہ کا نقشہ ٔ تحریر ہے،
روئے گردوں نہیں اُفق ہے، خوشی سے چہرہ ہوتی شفق ہے۔
دل بادل جو گرجتا ہے ، دل سے آپ کی محبت کا دم بھرتا ہے،
ابر کو صبر نہیں آتا، یوں برس برس جھڑی لگاتا ہے کہ گرد و غبار، روضہ کے باہر دھوتا ہے۔
بجلی جو چمک کر چھپ جاتی ہے۔ روضہ کے کلس کی جھلک سے شرماتی ہے،
برق بے قراری دکھاتی ہے ، بار بار کڑکا بجاتی ہے،
بدلی بائولی گاتی ہے ، یہ عاشقوں کو سناتی ہے۔
ایسا کون دلدار ہے کہ جس کا خدا خود طالب دیدار ہے۔٭۱۶
ہمارے قومی شاعر ، مولاناخواجہ الطاف حسین حالی (۱۸۳۷تاء ۱۹۱۴ء) اُردو شعر کے گویا مجدد ہیں ،انھوں نے اپنی تصنیف ’’مولودشریف‘‘ میں لکھا ہے :
ہاں اے اُمتِ محمدیہﷺ فخر کرنے کا مقام ہے۔ جو شرف آج تم کو حاصل ہے ، تم سے پہلے کسی کو ملا ہے تو بتا دو ! اللہ جلّ شانہ ، نے تم کو خیر امم بنایا۔ تمھارے دین کو کامل کیا ، تم پر اپنی نعمت تمام کی اور امتوں پر وہ فضلیت دی جو اس کی ذات کو تمام مخلوقات پر ہے۔ موسیٰ علیہ السّلام کو تمہارے دیدار کا مشتاق کیا، اور جب تمھارے دیکھنے کی آس نہ رہی تو تمہارے خواجہ تاشی کی آرزو دل میں ڈالی۔٭۱۷



Urdu Naat Lyrics

اس نثر پارے میں شاعرانہ خطاب قابلِ توجہ ہے۔ شعری اسلوب اور مضمون کا ربط بھی اسے نثری نظم کے قریب کر دیتا ہے۔
قاضی محمد سلیما ن، سلمان منصورپوری کی تصنیف رحمتہ للعامین سیرت کی مشہور کتاب ہے ،اس کا ایک اقتباس دیکھیے کیسے نثری نظم کا جلوہ دکھا رہا ہے۔
اس بحرِ ناپید ا کنار کی شناوری محال ہے اور خلاصتہ المقال یہ ہے کہ کیا ایسے اخلاقِ فاضلہ کا ہادی،ایسے محاسنِ جمیلہ کا مالک، ایسے اشرف اقوال کا صاحب، ایسے جمیل السجایا کا متحمل ایسا ہے کہ اس سے محبت کی جائے ؟ یا ایسا کہ اس سے محبت نہ کی جائے؟ میں تو زور سے کہوں گا کہ جو کوئی بھی ایسے محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم، ایسے استودہ، ایسے محمودہ، ایسے وجود باوجود ، ایسے مصطفیٰ ، ایسے برگزیدہ سے محبت نہیں کرتا ، وہ فی الحقیقت ان جملہ اخلاق و صفات سے محبت نہیں رکھتا۔ اس لیے وہ خود بھی ان اخلاق و صفات سے متصف ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔٭۱۸
علامہ راشد الخیری (م۱۹۳۶ء)کی تصنیف ’’آمنہ ؓ کا لالﷺ، ‘ کی ان سطور کو بھی نعتیہ نثری نظم قرار دیا جا سکتاہے۔
دنیا کو روشن کر دینے والے چاند ! شیرو بکری کو گھاٹ پر پانی پلا دینے وا لے بادشاہ، بڑھیا بھکاری کی صدا پر لبیک کہہ دینے والے آقا! یتیم کے زخموں پر مرہم رکھنے والے طیب، بیوہ کے داغوں کو پھول بنا دینے والے باغباں تو نے دکھایا اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایک انسان بغیر کسی فوج اور لشکر کے لاتعداد دلوں پر حکومت کر سکتا ہے۔ عرب کی جہالت کو مٹا دینے والے نور !عالم کے اندھیرے کو روشن کر دینے والے چراغ ! بتوں کو ڈھانے اور


شرکت کو مٹانے والے رسول! تو نے سنایا اور ہم نے سُنا! تو نے زبان سے فرمایا اور ہم نے آنکھ سے دیکھا کہ ایک تنِ واحد کی صداقت گروہ اور جماعت ملک اور عالم کے مقابلہ میں کیوں کر کامیاب ہو سکتی ہے۔٭۱۹
پیرزادہ اقبال احمد فاروقی نے ابو سعید عبدالملک بن عثمان نیشا پوری کی تصنیف ،’’ شرف النبی‘‘ کا ترجمہ کیا ہے۔ اُن کے ترجمے میں شعریت جوبن پر ہے۔ انھوںنے حضورنبی اکرمﷺ کے بیان کردہ سراپا مبارک کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ یہ ترجمہ ہو کر بھی تخلیق لگتا ہے اور نثری نظم کی شان رکھتا ہے۔ اس اقتباس کو ملاحظہ کیجیے:
آ پ عام طور پر اندوہ گیں رہتے ، اسی سوچ میں خوش رہتے۔ بات بوقت ضرورت فرماتے۔ لمبی خاموشی اختیار فرماتے۔ بات کرتے تو جامع ہوتی۔ گفتگو پُر مغز ہوتی۔ دورانِ گفتگو کبھی فضول اور بے ہودہ بات نہ کرتے۔ خالص اور با معنی گفتگو فرماتے، درشت کلامی یا غصہ سے اظہارِ بیان نہ فرماتے تھے۔٭۲۰


مولانا حسن رضا خاں حسن (م ۳۲۶اھ /۱۹۰۸ء) کی نثری تصنیف ’’میلادِ حسن‘‘بھی شعری خوبیوں سے مالامال ہے وہ نثر میںرنگِ تغزل پیدا کرنے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ میلادحسن کا یہ اقتباس دیکھیے:
سبحان اللہ کیا رات ہے، اس رات کی کیا بات ہے۔ طالب و مطلوب ملتے ہیں ، غنچہ ہائے وصل کھلتے ہیں۔ رنگ برنگی نیرنگیاں چمن چمن بہاریں دکھا رہی ہیں۔ یکتائی و و حدت کی کلیاں کیا کیا گل کھلا رہی ہیں۔ مطلوب اپنے طالب کا طالب، طالب اپنے مطلوب کا مطلوب، یہ اس کا پیارا وہ اس کا محبوب۔٭۲۱
یہ نثر پارہ یقینا، نعتیہ نثری نظم کا عمدہ نمونہ ہے اس میں بیان جامع اور مربوط ہے۔ قوافی نیز ردائف کے التزام نے اسے شعر کے قریب کر دیا ہے اور اس اقتباس میں مو جود دیگر شعری محاسن شعری تجربے کی تکمیل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
شبلی نعمانی نے ’’ظہورِ قدسی‘‘ کے عنوان سے جو تحریر چھوڑی ہے اُس میں بھی نثری نظموں کے ابتدائی ہیولے صاف نظر آتے ہیں۔ اسی طرح خواجہ حسن نظامی کی تحریروں میں بھی نثری نظموں کے نمونے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
نعتیہ نثری نظموں کے معتبر نمونوں کی تلاش میں نکلیں تو ہمیں علامہ اقبالؒؒ کا ایک مکتوب (محررہ ۱۹۰۵ء )بھی دکھائی دیتا ہے۔علامہ اقبال نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر ۱۹۰۵ء میں یورپ کا سفر کیا تو جاتے ہوئے بحری جہاز سے اپنے ایک بے تکلف دوست ، معروف صحافی ، مولوی انشاء اللہ خاں انشاء (۱۸۷۰ء تا ۱۹۲۸ء) مدیر اخبار ’’ وکیل امرتسر‘‘ نیز مجلہ ’’وطن‘‘ لاہور ، کو ایک طویل خط ۱۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء کو لکھا۔ آئیے اس خط کا ایک اقتبا س ملاحظہ کریں:
شارعِ اسلامﷺ کی ہر با ت قربان ہو جانے کے قابل ہے۔ ساحلِ عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے ، اس کی داستان کیا عرض کروں!٭۲۲



راجا رشید محمود، غیرمسلموں کی نعت گوئی کے حوالے سے متعلقہ شمارے کے اداریے میں رقم طراز ہیں :
سرکارﷺ رحمۃ للعٰلمین ہیں جتنے عالم خدا نے بنائے ہوئے ہیں ان سب کے لیے رحمت عالَم جو انسان کو معلوم ہیں اورعالَم جو انسان کو معلوم نہیں۔ انسان کو معلوم اربوں کھر بوں عالموں سے اﷲ کے نظام رحمت کا گہرا رشتہ ہے۔۔۔لیکن ہم نہ صر ف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ہمارے عالم سے متعلق ہے۔ عالمِ انسانیت بھی اﷲ کے نظام رحمت کے تابع ہے۔ انسانوں کی دنیا کا ہر گوشہ بھی رحمۃ للعٰلمین کے فیض سے متمتع ہوتا ہے۔ اور فیض یاب ہوتا ہے ، مزرعِ مدحت میں عقیدت کے گلاب کھلاتا ہے جن لوگوں نے بوجوہ اسلام کی حقانیت کوتسلیم نہ کیا ، ان کا احساس بھی فیض یابی رحمت کا مرہونِ منّت نظر آتا ہے۔ ضمیر بولتے ہیں کہ جس کے دم سے قائم ہوا ، اس کی مدح کرو۔ دل کہتے ہیں کہ جس رحمت سے تمھاری زندگیوں کا لمحہ لمحہ مستفید ہے اس کی نعت کہو۔ ضمیر کی آواز اور دل کی زبان زندہ باد! ٭۲۳
نعیم صدیقی معروف نعت گو اور سیرت نگار ہیں۔ وہ نثر میں شعری حربوں سے کام لینے کے ماہر ہیں۔ اُن کی تصنیف ’’محسنِ انسانیتﷺ، ‘ میں ایسے اقتباسات کی کمی نہیں، جنھیں بآسانی نعتیہ نثر ی نظم قرار دیا جاسکتا ہے۔ بطور نمونہ اُن کا یہ اقتباس دیکھیے:
انبیا و رسل کی صفِ مقدس میں نگاہِ بے اختیار جس ہستی پر سب سے پہلے

جاکر ٹکی ہے وہ سیّد نا محمد مصطفیٰﷺ کی ذات مبارک ہے ! یہ ہے تاریخ کا سب سے بڑا محسنِ انسانیت ، اس ہستی کو جس پہلو سے دیکھیے اس کی گوناگوں عظمتیں درخشاں نظر آتی ہیں اور ان عظمتوں کی قصیدہ خوانی کرتے کرتے گزشتہ پونے چودہ صدیوں میں نہ جانے نسلاً بعد نسلٍ کتنے عقیدت مندانِ رسالت دنیا سے رخصت ہو گئے مگر حق یہ ہے کہ حق ادا نہ ہو سکا اور آئندہ بھی یہ حق کس سے ادا ہو گا ؟ محض ایک جذبۂ شوق کا تقاضا ہے کہ جس سے پہلے بھی سر شار رہے اور پچھلے بھی سرشار رہیںگے۔ ٭۲۴


علامہ محمد ابراہیم صائم چشتی نے قاضی احمد بن زین دحلان مکی ؒکی ’’السیرت النبویہ والآثارالمحمدیہ‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا تو اس کے ’’آغاز، ‘ میں تحریر کیا :
تاجدارِ انبیا و مر سلین ، حبیب ربّ العالَمین، خاتم المرسلین، مالک و مختار مملکت الٰہیہ ، صاحب ِ فیوضات لاَمتناہیہ ، مرکز اَنوارِ صمدانیہ، مہبطِ آیاتِ روحانیہ ، زینتِ حُسنِ ارض و سماوات، شہنشاہِ سلطنت کائنات ، مظہرِ حسن رَبِّ جمادات و نباتات، ہادیٗ رَاہِ ہدیٰ‘ قِبلۂ اہلِ صِدق و صَفا‘ کعبۂ اَصفیا واتقیاء، سیّدو سلطانِ عرب‘ شہشاہِ مملکتِ عجم‘ وَاقفِ اسرار قِدم، پرچم کُشائے ظہور اوّلین، افتخارِ متوسطین و آخرین، جلوہ صبح ازَل، شمعِ شامِ اَ بد، منشائے ذاتِ کبریا، غایتِ ظہورِ دوسرا‘ جلوہ نورِ قدیم‘ صاحب لطف عمیم‘ رحمتِ کُل، راحتِ کُل، عقلِ کُل، علمِ کُل‘ عشقِ کُل، حُسنِ کُل، رو حِ کُل، جانِ کُل‘ شانِ کُل‘ رافتِ کُل‘ فَرحتِ کُل‘ عِصمتِ کُل‘ عَظمتِ کُل، عزتِ کُل، غیرتِ کُل‘ نورِ کُل، ظہورِ کُل‘ مختارِ کُل‘ مالکِ کُل‘ شہسوارِ عَرصۂ قُدس و تقدیس‘ زینتِ تخت سلیمان و بلقیس‘ عالمِ اِمکان کی خشتِ تاَسیس‘ رونقِ بزم اَ نبیا‘ رازدَارِ اسرارِکبریا‘ صاحبِ القاب قوسین، یٰسین و طَہٰ، موردِ وَالشمّس وَالضَحیٰ وَاللّیلِ اِذَا سجیٰ‘دُعائے آدم و اِبراہیم‘ پیشوائے یَعقوب و کلیم، بشارتِ عیسیٰ و سُلیمان‘ صاحبِ قِران و قُر آن، جوہرِ کائنات‘ حسنِ کائنات‘ شانِ کائنات، جانِ کائنات‘ معّلم و مقصودِ کائنات، شاہدِ و مَشہودِ کائنات، شانِ کائنات، غاَ یتِ وجودِ کائنات‘ مقصدِ نمُودِ کائنات دَاعِیاََ اَلیٰ اﷲ ِباِ ذنہ وَ سِراجاََ مُنِیرا‘ شَاھِدو مُبشّر اََ‘ بَشیِراََ نذیرا‘ صادق و مَصدوق‘ وارثِ مَخلوق‘ مَعنی کُنتُ کنزاََ مخفیا‘ مرجع ِکائناتِ ارض وسما‘مخزنِ جُودوعطا‘ سرورِ دنیاو دین، مدینتہ العلم‘ مرکزِ علوم‘ صاحبِ جُود و عطا‘ جوہرِ حیات سیّدنا و مرُ شدِ ناوہادینا‘ و رَسُولنا‘ واِمَامنا‘ کریمناو رحیمنا و شفیعنا احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفٰے صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ و اصحابہ وبارک وسلم کی ذات اقدس، آپ کے اسمائے قدسیہ اور اوصاف حمیدہ کے بیان کرنے کی کماحقہ طاقت صرف اور صرف ذات حق تعالیٰ جلّ مجدالکریم کو ہے۔ اس ذات بابرکات کے علاوہ اس دشت محبت کی لامتناہیوں میں سبھی سر گرداں ہیں اور تو اور اﷲ تبارک وتعالی کی برگزیدہ اور پسندیدہ مخلوق انبیائے کرام بھی آپ کے مقام کو جان لینے سے بے بس ہیں۔٭۲۵
پیر زادہ اقبال احمد فاروقی نے ملامعین الواعظ الکا شفی الہر وی کی تفنیف ’’معارج النبوّت، ‘ کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اس کا یہ اقتباس قابل دید ہے:
آپ عہد نامہ و فا کا عنوان ہیں۔ آپ مہمان خانہ صفا کے میزبان ہیں۔ آپ اصفیا کی محفل کے چراغ ہیں۔ آپ انبیاء کی مجلس کا نور ہیں۔ آپ گلشن طریقت کے نقش بند ہیں۔ گلشنِ حقیقت کی نسیم جانفزا ہیں۔ محبت کے شجر کا ثمرہ ہیں۔ نور کی دولت کی نو بہار ہیں۔ آپ ملت بیضا کی صبح ہیں۔ روشنی کی حرمت کا باغ ہیں۔ آپ آسمان کا چراغ ہیں۔٭۲۶


پروفیسر محمد رفیق، حضور اقدسﷺ کے سراپا مبارک کا جس والہانہ انداز میں ذکر کرتے ہیں ، اس میں شعریت کا احساس نمایاں ہے۔
آپ کا قد مبارک میانہ ، لیکن مجمع میں آپ سب سے زیادہ بلند دکھائی دیتے، چہرہ مبارک گندم گوں ،جس میں ملائمت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، چاند کی طرح چمکتا رخسار مبارک میں سرخی دمکتی رہتی ، پیشانی کشادہ تھی ، سر مبارک بڑا ، بال سیاہ ، شانوں تک ہوتے ، گیسو مبارک بل دار تھے۔ مانگ بیچ میں نکلی رہتی تھی، گوش مبارک نہ چھوٹے نہ بڑے، دیکھنے میں بہت خوشنما معلوم ہوتے، آپ کی بھنویں جُڑی ہوئی مگر ایک باریک رگ بیچ میں حد

فاصل، آنکھیں بڑی اور خوش رنگ ، سیپیدی میں سرخ ڈورے پلکیں دراز، پتلی سیاہ، دندان مبارک سفید اور چمکدار باریک آبدار سامنے کے دانتوں میں تھوڑا سا فاصلہ ، تکلم فرماتے تو تجلی سی کوندتی معلوم ہوتی۔ ٭۲۷
لیاقت علی قریشی نے ۲۰۰۶ء میں حج کی سعادت حاصل کی وہ اپنے سفر نامہ ’’ حج اکبر ۲۰۰۶ء، ‘ میں نبی اکرمﷺ کی بارگاہ سے رخصت ہونے کی کیفیت یوں بیان کرتے ہیں:
آہستہ آہستہ قدم سرکار کی جالی کے قریب بڑھ رہے تھے ..................کچھ عجیب سی کیفیت تھی .................. جو کہ سپر د قلم کرنے سے قاصر ہوں ..................سر کارﷺ سے بچھڑ جاؤں گا.................. اس قدر محبت مدینہ شریف میں ..................کہ کہیں..................نہ ملے گی ..................اپنو ں سے زیادہ ..................بہن بھائیوں سے زیادہ ..................عزیز رشتہ داروں سے بھی زیادہ .................. محبت سرکار سے نصیب ہوئی۔ اب .................. دور .................. چلا جاؤںگا .................. فجر سے عشاء تک کی نماز آپ کے قدموں میں پڑھنے کا موقع ملتا رہا ..................اب یہ سعادت نہیں ملے گی۔٭۲۸
ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم اپنے سفر نامہ ارض مقدس ’’ یااﷲ میں حاضر ہوں، ‘میں مدینہ منورہ میں مواجہ شریف پر حاضری کی کیفیت بیان کرتے ہیں تو جذبات کے ساتھ ساتھ شعری جوہر بھی سامنے آتا ہے :
قدرے ہلکا پھلکا جب محسوس ہونے لگا تودیکھا کہ روضہ اقدس کے سامنے سار ا کا سارا مجمع ’’ آنسو آنسو کے کھیل، ‘ میں مگن ہے۔ یہاں کھڑے ہو کر بڑی سے بڑی ہستیاں حقیر و بے مایہ ہو کر محض لاشے بن جاتی ہیں۔ انتہائی خشوع و خضوع کی کیفیت مجھے اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی یا ایسا ہونے پر مجبو ر کر رہی تھی۔ ۔۔اس دوران میں لوگوں کے سکڑتے اور پھیلتے چہرے اور رخساروں پر جڑے آنسوؤں کو ہٹانے کے بہانے ہاتھوں کو اٹھتے اور عجز و انکسار کے اعتراف میں ہو نٹوں کو ہلتے نہ دیکھا ہوتا اور اگر اس بے پایاں عظمت والے شہشاہ فرش و عرشﷺ اور وجہ سکون و قلبﷺ کے روضہ اطہر کے سامنے دلوں کی دھڑکنیں میری سماعت سے نہ ٹکراتیں۔۔۔ تو میں یہ سمجھتا کہ ہم کسی دوسرے عالم میں پہنچ گئے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس ساعت۔ ۔۔۔ ہم کسی اور ہی عالم میں تھے۔


..................اے کائنات کے والی ہم پر اپنا کرم ہمیشہ کیجیے گا ..................اپنی نظر کرم ..................ہم گناہ گاروں پر فرماتے رہیںگے تو میرے ..................صبح و شام پر سکون اور عزت و وقارسے گزریںگے ..................یارسول اﷲﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان .................. میرے سارے خاندان پر .................. اپنی رحمت فر ما دیجیے۔
مندرجہ بالانثری نعتوںکا زیادہ تر حصہ نثری نظم کے زیرِخیال یا زیرِ عنوان نہیں لکھا گیا، البتہ ان میں موجود مکمل ، واضح اور مربوط خیال چوںکہ شعری جوہر ، شعری تجربے اور شعری خطابت پر مشتمل ہے، لہٰذا اس ادبی سرمائے کو نعتیہ نثری نظمیں قراردینا نامناسب نہیں۔ واضح رہے کہ اردو ادب کی دیگر انواع و اصناف میں جس طرح نعت حضور اقدسﷺ ضو فشاں ہے ، اسی طرح نثری نظم بھی اس نور سے خالی نہیں۔ نثری نظم کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ ایک معتبر، توانااور ہمہ گیر صنف سخن کہلاسکے گی بھی یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والے ادوار میں محققین کریںگے۔ یہ امر واضح ہے کہ بالفعل یہ صنف ابھی اپنے وجود کو منوانے کی تگ و دو میں ہے، اگر اسے بڑے شعرا یا کم از کم کوئی ایک بہت بڑا شاعر نصیب ہو گیا تو یقینا اس کا اعتبار اور مقام و مرتبہ سب پر عیاں ہو کر رہے گا۔ہمیں اس وقت اس نسبتاً نومولود صنف سخن ( یا صنف نثر ) کو پورا موقع اور وقت دینا چاہیے۔ دنیا میں شعر و سخن کی جتنی اقسام نے بھی خود کو منوایا ہے وہ ابتدائی دور ہی میں شہرت کے بام عروج پر نہیں پہنچ گئی تھیں۔ اس وقت ہمیں اس امر پر مسرت و تشکر کا اظہار کرنا ہے کہ اردو نثری نظم خدمت نعت کے کام آرہی ہے اور یہ کوئی کم اعزاز نہیں۔
حوالہ جات
٭۱۔ حفیظ صدیقی ابو الاعجاز، کشا ف تنقیدی اصطلاحات‘ اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان۱۹۸۵ء ص ۲۰۰کالمii
٭۲۔ حالی‘ الطاف حسین‘ مولانا،مقدمہ شعرو شاعری ،لاہور:سرتاج بکڈپو، س ن ،ص۳۷
٭۳۔ ایم خالد فیاض، نثری نظم کے بارے میں چند باتیں،(مضمون)مشمولہ ،زبان وادب(تحقیقی مجلہ جی سی یو نی ورسٹی فیصل آباد)، شمارہ نمبر۵،جولائی تا دسمبر ۲۰۰۹ء، ص۱۲۵


٭۴۔ ایم خالد فیاض، نثری نظم کے بارے میں چند باتیں،(مضمون)مشمولہ ،زبان وادب(تحقیقی مجلہ جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد)، شمارہ نمبر۵،جولائی تا دسمبر ۲۰۰۹ء،ص(چیدہ اقتباسات)۱۲۷ تا ۱۲۹
٭۵۔ نوری ،محمد فخرالحق، ڈاکٹر ، نثری نظم، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۸۹ء، ص: ۳۳ تا ۴۳
٭۶۔ ملا ّ وجہی ’’سب رس‘‘ منقولہ تاریخ ادب اُردو (از جمیل جالبی،) جلد اوّل ، لاہور :مجلسِ ترقی ادب طبع پنجم، ص۴۵۹
٭۷۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر، تاریخ ادب اُردو ،جلد اوّل ، لاہور :مجلسِ ترقی ادب طبع پنجم، ص ۵۰۳
٭۸۔ محمد حسینی خواجہ بندہ نواز ، معراج العاشقین ، منقولہ دکن میں اُردو (نصیر الدین ہاشمی )،لاہور: اُردو مرکز ، ۱۹۶۰ء ،ص۲۶
٭۹۔ وجہی ملاّ ، ’’سب رس‘‘ منقولہ دکن میں اُردو (از نصیرالدین ہاشمی ، لاہور : اُردو مرکز ،۱۹۶۰ء ص۱۲۱
٭۱۰۔ سلطان، دارالاسرار ، منقولہ دکن میں اُردو (نصیر الدین ہاشمی )،لاہور: اُردو مرکز ، ۱۹۶۰ء ،ص۲۶ ۱
٭۱۱۔ بحوالہ محمد مظفر عالم جاوید صدیقی، اُردو میں میلاد النبیﷺ ، تحقیق ، تنقید، تاریخ ، لاہور : فکشن ہائوس ۱۹۹۸ء،ص۶۹۲
٭۱۲۔ شمائل الا تقیاء]ترجمہ روح الارواح از میراں یعقوب[ ، منقولہ تاریخ ادبِ اُردو (از جمیل جالبی ،ڈاکٹر)جلد اوّل ص ۵۰۴
٭۱۳۔ احمد خان صوفی اکبر آبادی، میلاد شریف جدید، منقولہ محمدمظفرجاوید ،’’اُردو میں میلادالنبی‘‘ لاہور:فکشن ہائوس، ۱۹۹۸ء، ص۵۰۸
٭۱۴۔ نقی علی خاں بریلوی مولانا ، انوارِ جمالِ مصطفیﷺ ،لاہور: شبیر برادرز، س۔ن ص ۱۲۷
٭۱۵۔ امیر الدین عطار اکبر آبادی حکیم (۱۸۹۹ء) مولودِ عطار منقولہ محمد مظفر عالم جاوید صدیقی ، مقالہ پی ایچ ڈی’’ اُردو میں میلادالنبی، ‘ ، لاہور :فکشن ہائوس ۱۹۹۸ء، ص ۵۵۶
٭۱۶۔ الطاف حسین حالی ،مولود شریف منقولہ محمد مظفر عالم جاوید صدیقی ، ’’ اُردو میں میلاد النبیؓ‘‘ ،لاہور :فکشن ہائوس ، ۱۹۹۸ء، ص۴۹۷



٭۱۷۔ محمد سلیما ن، سلمان منصورپوری قاضی رحمتہ للعامین جلد نمبر ۲ ص ۳۳۴لاہور: اسلامی کتب خانہ۔ س۔ن۔ص۳۳۴
٭۱۸۔ راشدالخیری علامہ (۱۸۷۰ء تا ۱۹۳۶ء) ’’آمنہ کا لال‘‘ ، ص ۱ ، منقولہ محمد مظفر عالم جاوید صدیقی’’ اُردو میں میلادالنبیﷺ‘‘، لاہور:فکشن ہائو، ۱۹۹۸، ص ۴۵۰
٭ ۱۹۔ ابو سعید عبدالملک بن عثمان نیشا پوری، شرف النبیؓ (مترجم :اقبال احمد فاروقی پیرزادہ)لاہور: ملک اینڈ کمپنی،۱۹۸۴ء، ص ۴۴
٭۲۰۔ حسن رضا خاں حسن مولانا ، منقولہ محمد مظفر عالم جاوید صدیقی ، ’’ اُردو میں میلاد النبی، ‘ لاہور : فکشن ہائوس ۱۹۹۸ ء ص ۵۹۹
٭۲۱۔ مظفر حسین برنی سید (مرتب) کلیاتِ مکاتیبِ اِقبال ، جلد اوّل، دہلی : اردو اکادامی، ۱۹۹۲ء ، ص ۱۰۶
٭۲۲۔ رشید محمود راجا ، ماہنامہ نعت(غیر مسلموںکی نعت، حصہ اول ) لاہور :اگست ۱۹۸۸ء ص۲
٭۲۳۔ نعیم صدیقی ، محسنِ انسانیت ؑ ، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ ، ۱۹۸۶ء چودھویں ،ص ۷۴
٭۲۴۔ صائم چشتی (مترجم ) لسیرت النبویہ والآ ثار المحمدیہ ، فیصل آباد : چشتی کتب خانہ، بار دوم ۲۰۰۵ء ص ۱۳
٭۲۵۔ معین الواعظ الکاشفی ، ملاّ ، معارج النبوت، جلد اول،(مترجم اقبال احمد فاروقی پیرزادہ۔) لاہور، مکتبہ نبویہ ۱۹۷۸ء،ص ۱۶۱
٭۲۶۔ محمدرفیق پروفیسر، سفر محبت ، لاہور : المدینہ پبلی کیشنز ، ۲۰۰۰ء ص۲۱۵
٭۲۷۔ لیاقت علی قریشی ، (ایڈوو کیٹ) ، حج اکبر ۲۰۰۶ء ، لاہور : علم و عرفان پبلشرز ، ۲۰۰۸ء ص ۹۵
٭۲۸۔ ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم اپنے سفر نامہ ارض مقدس ’’یااﷲ میں حاضر ہوں‘‘ فیصل آباد : تکلم پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء ص ۲۶۱
{٭}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے