محمد علی اثرؔ کی حمدیہ و نعتیہ شاعری

محمد علی اثرؔ کی حمدیہ و نعتیہ شاعری

ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس۔ بھارت


محمد علی اثرؔ کی حمدیہ و نعتیہ شاعری


پروفیسر محمد علی اثرؔ کا شمار اردو کے ممتاز محققوں میں ہوتاہے۔ دکنی زبان و ادب، دکنی کے قدیم ادیبوں اور دکنی فن پاروں کے دیدہ ور پاریکھ کی حیثیت سے وہ برصغیر ہند و پاک کے سرکردہ ماہرین دکنیات میں گنے جاتے ہیں۔ دکنی اور دکنیات کے حوالے سے ان کی شناخت اس قدر راسخ ہوگئی ہے کہ اس کے پیچھے ان کی شخصیت کا تخلیقی رُخ چھپ سا گیا ہے۔ حالاںکہ وہ جتنے بڑے محقق ہیں اتنے ہی اچھے شاعر بھی ہیں۔ انھیں زمانۂ طالب علمی ہی سے شعر و سخن کا چسکا لگ گیا تھا۔ اس اعتبار سے اگر دیکھیں تو وہ تخلیق کار پہلے ہیں اور محقق بعد میں کیوںکہ انھوںنے اپنے قلمی سفر کا آغاز شاعری سے کیا تھا۔ دکنی و دکنیات کے میدان میں بعد میں قدم رکھا۔ شاعری میں انھیں ہند و پاک کے تراشیدہ لب و لہجے کے منفرد ’’نیم خواب‘‘ اور ’’بیاضِ شام‘‘ کے خالق شاذؔ تمکنت سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ ایم اے اور پی ایچ ڈی کے دوران اور اس کے بعد کے دور میں اثر نے دکنی ادب پر اس شدت، تسلسل اور توغل کے ساتھ تحقیقی کام سرانجام دیا کہ دکنیات ان کے نام کا حوالہ بن گیا اور شاعری پس پردہ چلی گئی۔
پروفیسر محمدعلی اثر ایک خوش فکر، خوش گو اور خوش اسلوب سخن ور ہیں۔ انھیں غزل اور نظم کے علاوہ دیر اصناف پر بھی دسترس حاصل ہے۔ تاحال ان کی شاعری کے پانچ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ جن کے نام اس طرح ہیں ’’ملاقات‘‘ (۱۹۸۰ء)، ’’حرفِ نم دیدہ‘‘ (۱۹۹۰ء)، ’’نعت رسولِ خدا‘‘ (۲۰۰۰ء)، ’’انوارِ خطِ روشن‘‘ (۲۰۰۲ء)، ’’خرابے میں روشنی‘‘ (۲۰۰۵ء)۔

وقفے وقفے سے ان شعری مجموعوں کی اشاعت اس بات کا ثبوت ہے کہ بے پناہ تحقیقی سرگرمیوں کے باوجود اثر نے اپنے اندر کے شاعر کو خوابیدہ و منجمد ہونے نہیں دیا بلکہ اسے بھی اپنے وجود کا احساس دلانے کا موقع دیتے رہے۔ تخلیقی دبائو زیرزمین آبی رو کی طرح ہوتا ہے جو چٹانوں کا بھی سینہ چیر کر پھوٹ نکلتی ہے۔ یہی تخلیقی دبائو تحقیقی مصروفیت کے دوران بھی اثر سے شعر کہلواتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تحقیقی کاموں کی تکان اور اُکتاہٹ کو دُور کرنے کا حربہ یا محض تبدیلی ذائقہ کا وسیلہ ہو۔
غزلوں، نظموں اور دیگر اصناف میں اثر کا لہجہ نہایت تازہ اور شگفتہ ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ تحقیق اور وہ بھی دکنی تحقیق جیسے خشک، سنجیدہ اور قدامتی رنگ میں رنگے ہوئے میدان میں، ذوقِ دشت نوردی اور شوق آبلہ پائی رکھنے کے باوجود اثر کا جدید ادب خصوصاً جدید شاعری کا مطالعہ حیرت انگیز ہے۔ اردو شاعری کی کلاسیکی روایات سے جڑے رہنے کے باوصف ان کی طبیعت کا میلان جدیدیت کی طرف ہے۔ ان کے ہاں فرد کی بے بسی، وجودیت، تنہائی، داخلیت اور خوابوں کی شکست و ریخت کا احساس بھی ہے اور اس کا تازہ کارانہ اظہار بھی ان کے ہاں تخلیقی اپچ بھی ہے اور جدتِ طبع بھی جس کا اظہار ان کے اسلوب کی شگفتگی اور لہجے کی ندرت سے ہوتا ہے۔ پہلے شعری مجموعے ’’ملاقات‘‘ سے لے کر گزشتہ مجموعے ’’خرابے میں روشنی‘‘ تک ان کا شعری سفر مائل بہ ارتقا نظر آتا ہے۔ ملاقات میں ہماری ملاقات ایک نوواردِ بساط سخن سے ہوتی ہے جس کے لہجے کی اُٹھان مستقبل کے طاقت ور اوا توانائی سے بھرپور سخن ور کی بشارت دیتی ہے۔ ’’حرفِ نم دیدہ‘‘ میں شاعرنے اپنے لہجے کو پا لیا بعد کے مجموعوں میں اسی لہجے کی توسیع نظر آتی ہے۔ 

لہجے کی تشکیل و استحکام کے ساتھ اثر کی شاعری کے موضوعات میں وسعت اور اصناف میں تنوع پیدا ہوتا گیا۔ ابتدا میں انھوںنے صرف غزل اور نظم میں داد سخن دی پھر جزوی طورپر حمد و نعت کی طرف متوجہ ہوئے۔ غزل، نظم، حمد و نعت جیسی روایتی اصناف کے ساتھ انھوںنے ماہیے ثلاثی اور نثری نظم جیسی نئی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ ’’نعت رسولِ خدا‘‘ اور ’’انوارِ خطِ روشن‘‘کی تصنیف کے زمانے میں ان کی طبیعت کا میلان نعت کی طرف رہا اور انھوںنے پیہم نعتیں لکھیں۔ مذکورالصدر دونوں مجموعے اثر کے تخلیقی سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں سے ان کی شاعری ایک اہم موڑ لیتی نظر آتی ہے، جو حمدیہ شاعری کا موڑ ہے۔ اس طرف رُخ کرنے کے بعد انھوںنے ایک خاص کیفیت کے تحت مسلسل حمدیں لکھیں، وفور تخلیق کا یہ عالم تھا کہ رات رات بھر جاگتے اور فکر حمد کرتے۔ خیالات کی آمد تھی، وجدان کو مہمیز مل رہی تھی نئے نئے مضامین سوجھ رہے تھے اسی عالم میں وہ ایک کے بعد ایک حمد لکھتے چلے گئے۔ پہلے پیش نظر مجموعے کی طویل ترین حمد ’’ذکر روح افروز‘‘ لکھی پھر دوسری حمدیں ہوتی گئیں۔ اس طرح پیش نظر مجموعہ تیار ہوگیا۔
حمد اردو شاعری کی ایک موضوع صنف ہے اس لیے اس کی کوئی خاص ہئیت متعین نہیں۔ قصیدہ، نظم رُباعی وغیرہ یہ کسی بھی ہیئت میں کہی جاسکتی ہے۔ اردو کے قدیم ادبی سرمائے کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اردو میں حمد کی روایت نہایت قدیم ہے۔ گجری اور دکنی ادب کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا کہ اردو میں تخلیق ادب کا آغاز ہی حمد سے ہوا۔ اس اعتبار سے حمد کو اگر اردو کی سب سے قدیم صنف سخن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اردو میں حمد کی روایت ہر چند کہ نہایت قدیم ہے لیکن صوفی شعرا سے ہٹ کر دیگر شعرا نے بہت کم حمد لکھنے کا اہتمام یا التزام کیا ہے۔ وہ الف کی ردیف میں ایک آدھ غزل حمدیہ رنگ میں کہتے جسے تبرکاً دیوان کے سر آغاز میں شامل کردیا جاتا بیش تر ترقی پسند شعرا نے تو حمد و نعت جیسی اصناف کو کبھی منھ لگانا پسند نہیں کیا۔ آج بھی وہ شعرا جو بزعم خود یا نقادوں کے حسب ارشاد بڑے شعرا ہیں حمد و نعت میں فکر سخن کرنے کو غیرادبی حرکت تصور کرتے ہیں۔ اس قبیل کے شعرا کی بے اعتنائی کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں نعتیہ شاعری کے مجموعے بھی شائع ہوتے رہے اور حمدوں کے مجموعے بھی نکلتے رہے لیکن نعتوں کے مقابلے میں بہت کم شعرا نے حمدوں کے مجموعے مرتب کیے۔ تاہم اس سے قبل بھی ہند و پاک میں حمدیہ شاعری کے بعض اچھے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ پروفیسر محمدعلی اثرؔ کا پیش نظر مجموعہ ’’اللہ جل جلالہ‘‘ اردو کی حمدیہ شاعری کے سرمائے میں ایک نیا، وقیع اور معتبر اضافہ ہے۔

پیش نظر مجموعے کا عنوان ’’اللہ جل جلالہ‘‘ چونکانے والا ہے۔ اللہ خداوند قدوس کا اسم ذات ہے اس لیے بعض اہلِ علم کے نزدیک یہ اسم اعظم بھی ہے۔ اس مجموعے کو باری تعالیٰ کے پاک اور بابرکت نام سے معنون کیا گیا ہے تو اس میں کئی ظاہری اور معنوی مناسبتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اللہ چوںکہ حق تعالیٰ کا اسم مبارک ہے اس لیے یہ کلمۂ ذکر بھی ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا ورد ذکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ ذکر اُٹھتے بیٹھتے اللہ کہتے ہیں۔ اہلِ طریقت کے ہاں اللہ کا ذکر ایک خاص انداز میں بڑے اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حمد چوںکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و توصیف پر مبنی ہوتی ہے اس لیے اس کا لکھنا اور پڑھنا بھی ذکر کے دائرے میں آتا ہے اور عین کار ثواب ہے۔ چوںکہ یہ کتاب تمام تر حمدوں پر مشتمل ہے اس لیے اس کا عنوان اللہ جل جلالہ نہایت موزوں اور مناسب حال ہے۔ یہ کتاب کے مافیہ کا پتا دیتا ہے۔
حمدوں کے اس مجموعہ کا عنوان ایک اور جہت سے بھی معنی خیز ہے۔ فن جمل کے اعتبار سے اللہ کے اعداد چھیاسٹھ ہیں۔ چونکہ اس مجموعے میں چھیاسٹھ ہی حمدیں ہیں اس اعتبار سے اس عنوان کو کتاب کے مشمولات کے ساتھ ابجدی مناسبت بھی ہے۔ چھیاسٹھ حمدوں پر محطوی ہونے کے علاوہ اس کتاب کی پہلی حمد بھی کل چھیاسٹھ اشعار پر محیط ہے۔ اس حمد کا عنوان ’’ذکر روح افروز‘‘ تاریخی ہے۔

پروفیسر محمد علی اثرکی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوںنے اپنے شعری سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا اسی زمانے میں انھوںنے نظمیں بھی لکھیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کا رجحان نعت گوئی کی طرف ہوگیا اور انھوںنے پے بہ پے نعتیں لکھیں۔ نعتیہ شاعری کے وفور کے دور میں انھوںنے ایک طویل نعت لکھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کے ’’محمدﷺ‘‘ کے اعداد کی مناسبت سے بیانوے اشعار پر مشتمل ہے اور ’’ نعتِ رسول خدا‘‘ کے نام سے ۲۰۰۰ء میں شائع ہوچکی ہے۔ اس نعت کے بشمول اثر کی دیگرنعتوں اور حمدوں کا مجموعہ ’’انوارِ خط روشن‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۳ء میں منظر عام پر آیا۔ نعت کے بعد انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت یکتائی و جلالت، تدبیر و خلقت اور ربوبیت و رحمت کو سرچشمہ و جدان و فکر بنایا۔ اس موضوع پر ان کے شعری ملہمات اور فنی اکتسابات کا حاصل پیش نظر کتاب ہے۔
اثر کی حمدیہ شاعری میں ایک خاص قسم کے جوش و سرمستی اور کیف و اثر کا احساس ہوتا ہے۔ انھوںنے اپنی حمدوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور توصیف و ستائش کے متنوع حوالے تلاش کیے ہیں۔ ان کی حمد حق سبحانہ و تعالیٰ کی ذات و صفات کے عرفان کا آئینہ ہے۔ کہیں کہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر صفات سے گزر کر ذات میں گم ہے اور اسے کائنات کی ہر شئے میں نورِ مطلق کی تجلیات نظر آرہی ہیں:
شمس میں بھی ہے تو قمر میں تو
ہے مرے قلب میں جگر میں تو
تیرا جلوہ کہاں نہیں مولیٰ
ہے موثر میں اور اثر میں تو
ہے حجر میں بھی تو شجر میں تو
سبزہ و گل میں تو ثمر میں تو
ہے پہاڑوں میں آبشاروں میں
بحروبر میں ہے خشک و تر میں تو
آندھیوں میں جلال تیرا ہے
اور گلوں میں جمال تیرا ہے
بادلوں میں ترا ہی جلوہ ہے
اور دھنک میں کمال تیرا ہے
٭
ہے آفتاب میں تو، ماہ تاب میں تو ہے
ہے آب و خاک میں تو اور شہاب میں تو ہے
دھنک کے رنگوں میں تو اور گلاب میں تو ہے
ندی میںجھیل میں تو ہے حباب میں تو ہے

اللہ ربّ العزت کی ذات سب سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ وہ واحد و یکتا، بے مثل و بے ہمتا اور بے چوں و بے چگوں ہے۔ اس کے نام بھی نہایت عظیم الشان، رفیع المرتبت، مقدس و بابرکت، پاک و مطہر اور بڑی خوبیوں اور اثر رکھنے والے ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ اللہ کے جو مختلف نام ہیں وہ اسماء الحسنیٰ ہیں۔ اسم ذات اللہ کے علاوہ حق تعالیٰ کے تمام اسما صفاتی ہیں۔ ہر صفاتی اسم ذات حق کی کسی خاص صفت کی ترجمانی کرتا ہے۔ پروفیسر محمد علی اثر نے اپنی بعض حمدوں کا تانا بانا اللہ کے صفاتی ناموں سے بنا ہے۔ انھوںنے نہایت ہنر مندی اور ذہانت کے ساتھ حمدیہ اشعار کی ردا میں اسماء الحسنیٰ کے پھول ٹانکے ہیں۔
وحید ہے وہ کریم ہے وہ
رشید ہے وہ حلیم ہے وہ
وہی ہے ہادی وہی ہے باری
وہی ہے رحماں، رحیم ہے وہ
وہی ہے قادر وہی ہے رازق
ہے میرا ایماں عظیم ہے وہ
وہی ہے رافع وہی ہے واسع
ملک بھی ہے وہ سلیم ہے وہ
ساری مخلوق کا مصور تو
دشت و دریا کا کو ہساروں کا
تو سمیع و بصیر ہے ربی
بے نوائوں کا بے سہاروں کا
تو حکیم و قوی و شافی بھی
سب مریضوں کا لاعلاجوں کا
تو وکیل و ودود و باری ہے
تو مددگار کارسازوں کا
تو ہی تواب اور رحیم بھی ہے
عاصیوں اور گناہ گاروں کا

اللہ تبارک وتعالیٰ کے کمالات اور انعامات کے ذکر کے ساتھ مناجات بھی حمد کا ایک اہم موضوع ہے جس میں بندہ اپنے آقا و مالک کے حضور نہایت عجز و انکسار کے ساتھ اپنی حاجات و ضروریات، آرزوئیں و تمنائیں اور اپنے دکھ درد بیان کرتا ہے اور اپنے مولا و داتا سے دعائوں کو قبول کرنے، مرادات کو بر لانے اور مشکلات کو دُور کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ اثر کی حمدوں میں مناجاتی اشعار بھی بہت ہیں۔ ان اشعار میں اپنی بے بضاعتی کا احساس بھی ہے اور دینے والے کی بے پایاں رحمت، بے کراں قدرت اور بے نہایت اختیار کا شعور بھی:
سب کی دعائوں میں تو اثر دے اے مولا
سائل کے کشکول کو بھر دے اے مولا
٭
دل کی بستی اُجڑ گئی یارب
اس خرابے میں روشنی کردے
٭
رحم فرما زمین والوں پر
شش جہت ہفت آسماں تجھ سے
٭
مری خطائوں کو یارب تو درگزر فرما
معاف کرنا تو مالک تری صفات میں ہے
٭
کردے ہم پر بھی اے مولا بارشِ لطف و عطا
تیری رحمت کے خزینے ہیں خدایا بے شمار

جیساکہ قبل ازیں ذکر ہوچکا ہے پروفیسر محمدعلی اثر کو نعت گوئی سے بھی شغف ہے۔ نعت گوئی عشقِ رسولﷺ کا مظہر ہے اور عشقِ رسولﷺ ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔ اثر پر نعت گوئی کا رنگ اس قدر گہرا ہے کہ انھوںنے حمد میں بھی نعت کا جواز پیدا کیا ہے۔ ظاہر ہے جس ذاتِ واحد و سبحانہ کی تمجید و توصیف بیان کی جارہی ہے اس کی پہچان اور اس کی معرفت ہمیں حضور اکرمﷺ ہی کے وسیلے سے تو ملی اس لیے ذات حق کے ذکر کے ساتھ محبوب حق کا ذکر اور اللہ کی یاد کے ساتھ حبیب اللہ کی یاد کا آنا فطری ہے۔ پھر حمد کا ایک اہم موضوع اللہ کے انعامات کا بیان اور ان انعامات پر اظہار شکر و سپاس بھی ہے اور اہل ایمان کے لیے بلکہ ساری انسانیت کے لیے سب سے بڑا انعام رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ اللہ کے رسول کا ذکر اور آپ کے فضائل و محامد کا بیان بھی حمد ہی ہے۔ اس حوالے سے دیکھیے اثر نے اپنی حمدوں میں نعت کے کیسے قرینے نکالے ہیں:
عزیز ہے وہ مجھے جو عزیز ہے تجھ کو
ترے نبی پہ مری جاں نثار ہے اللہ
٭
ترے فرشتے بھی ان پر درود پڑھتے ہیں
مرے نبی کو پہنچتا سلام تیرا ہے
٭
کتابِ ہدایت جو اُتری ہے ان پر
نبی سے ترا ہم پتا جانتے ہیں
جنھوںنے ہمیں حق کا رستہ دکھایا
ترے بعد ان کو بڑا جانتے ہیں
٭
ہیں محمد مصطفی بے شک ترے ختم الرسل
عام فرمایا جنھوںنے تیرے ہر فرمان کو
٭
نبی کے نقش پا کو چوم لیتا ہوں میں آنکھوں سے
میں ان کی راہ سے مولا کبھی غافل نہیں ہوتا

اثر نے اپنے حمدیہ اشعار میں کہیں کہیں قرآنی آیات سے بھی اخذ و استفادہ کیا ہے۔ ان کے بعض اشعار قرآنی آیات کے مفاہیم کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ ذیل میں اس طرح کی بعض آیات یا ان آیات کے اجزا کی نشان دہی کرتے ہوئے اثر کے وہ حمدیہ یہ اشعار پیش کیے گئے ہیں جو ان سے مستفاد ہیں:
٭۔ان اللّٰہ و ملئکتہ یصلون علی النبی یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔
بھیجتا ہوں جو درود آقا پر
حکم یہ بھی ہے خدایا تیرا
٭
ترے فرشتے بھی ان پر دردو پڑھتے ہیں
مرے نبی کو پہنچتا سلام تیرا ہے
٭۔بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔
اسی کے نام سے ہر کام کا کروں آغاز
مرے خدا نے یہ عادت کمال کی دی ہے
خدا کے نام سے جو کام تم کروگے اثرؔ
تو اس میں رہتی ہیں بھرپور رحمتیں رب کی
٭۔ان اللّٰہ مع الصابرین۔
صبر جو کرتا ہوں میں ہدایت اس کی ہے
ورد جو کرتا ہوں میں وہ آیت اس کی ہے
٭۔و ھو علی کل شی قدیر۔
ہر ایک شے پہ ترا اختیار ہے اللہ
جہاں میں صرف ترا اقتدار ہے اللہ
٭۔و ان تعدوا نعمت اللّٰہ لاتحصوھا۔
نوازشیں بھی ہیں رب کی رعایتیں رب کی
نہ گن سکیں جنھیں اتنی عنایتیں رب کی
زمیں سے تا بہ فلک ہیں عنایتیں کیا کیا
محیط کون و مکاں پر ہیں نعمتیں کیا کیا
٭۔و بشر الصابرین۔
لیں گی نعمتیں رب کی نوازشیں رب کی
ہیں نیک لوگوں کو کیا کیا بشارتیں رب کی
٭۔الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب۔
سکون ملتا ہے بس تیرے نام سے دل کو
جو ذکر کرتا ہوں میں صبح اور شام تیرا
٭۔فانما تولوا فثم وجہ اللّٰہ لن ترانی۔
فاینما ہے کہیں اور حدیثِ طور کہیں
یہ فاصلے بھی ہیں کیا کیا یہ قربتیں کیا کیا
٭۔نحن اقرب الیہ من حبل الورید اللّٰہ نورالسموات والارض۔
کہا ہے اس نے رگِ جاں سے بھی قریب ہوں میں
مگر ہمیں نے بڑھائیں مسافتیں کیا کیا
٭
نظر سے دُور رگ جاں سے ہے قریب بہت
ہر اک بشر میں ہے تو ساری کائنات میں ہے
٭
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں مولا بعید ہے
وہ تو قریب حلقۂ حبل الورید ہے
٭۔اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم۔
نعمتوں سے جنھیں نوازا ہے
مجھ کو بھی ان کے راستے پہ چلا

اہلِ تصوف کے ہاں بعنوان حدیث یہ قول نہایت مقبول ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ اسی کی روشنی میں اثر کہتے ہیں:
خود اپنی بھی پہچان کا جوہر نہیں رکھتے
وہ لوگ جو ایقان خدا پر نہیں رکھتے
دنیا کے مختلف حصوں میں اُمت محمدیہ اپنی تاریخ کے نازک اور کٹھن دور سے گزر رہی ہے۔ بیش تر اقطاعِ عالم میں مسلمان غیراقوام کے ظلم و ستم اور جبر و استحصان کا شکار ہیں۔ مشرق سے لے کر مغرب تک ہر جگہ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا یا جارہا ہے۔ خونِ مسلم کی اس ارزانی پر ہر مسلمان کا دل تڑپ اُٹھتا ہے۔ شاعر تو انسانوں کی بدولت کچھ زیادہ ہی حساس ہوتا ہے۔ ملت کے ہر نقصان، اس پر آنے والے مصائب و آلام اور اس کی تباہی و زوال پر اس کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اثر کی حمدیہ شاعری بھی ملّی شعور اور ملّی مسائل کے ادراک سے عاری نہیں ہے۔ انھوںنے حمد میں بھی عصری حسیت اور اُمت مسلمہ خصوصاً اسلامیانِ ہند کو درپیش مسائل کی ترجمانی کی ہے:
اگر تو چاہے تو ہم کو سکون مل جائے
جہاں میں آج بہت انتشار ہے اللہ
تو ہم کو اپنے تحفظ کی ڈھال دے مولیٰ
عدو کا آج مسلماں پہ وار ہے اللہ
٭
رائیگاں ہوتا نہیں ہے کسی مقتول کا خون
وہی قاتل کو بھی ایک روز سزا دیتا ہے
سر کچل دیتا ہے اللہ ہر اک ظالم کا
اور مظلوم کو جنت میں جگہ دیتا ہے
٭
تو ظالموں کے تکبر کا سر جھکا مولا
کہ جن سے قوم ہماری تنازعات میں ہے
ہمیں پہ ظلم بھی جاری ہمیں پہ تہمت بھی
ہمارا نام ہی ذہنی تحفظات میں ہے
ہراس و خوف و تشدد ہے جس طرف دیکھو
ترے حبیب کی اُمت تفکرات میں ہے
٭
فوجِ اصحابِ فیل پھر آئی
چونچ میں طائروں کے کنکر دے

اثر کی حمدیہ شاعری میں ملّی مسائل کی ترجمانی کے ساتھ نجی مسائل و مصائب اور ذاتی پریشانیوں کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ جسمانی کم زوری اور صحت سے محرومی کا احساس کبھی عرض و معروضے کی شکل میں اور کبھی صدائے فریاد بن کر حمدیہ اشعار میں اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ شاعر نے ذاتی درد و کرب کا اظہار تو کیا ہے لیکن نہایت سلیقے اور صبر و تحمل کے ساتھ ان کی فریاد کی لَے عجز و نیاز کے آداب میں رہتی ہے تلخی کی حدوں کو نہیں چھوتی۔ ان اشعار میں مایوسی نہیں بلکہ خدا پر یقین اور تسلیم و رضا کی کیفیت نظر آتی ہے:
ذکر کرتا ہوں دم بدم ربی
مجھ پہ کردے ذرا کرم ربی
درد سہنا بھی اثرؔ اس نے سکھایا مجھ کو
لکھ کے خود درد بھرا میرا مقدر اس نے
٭
جب طبیبوں کے بھی بس کا نہیں ہوتا ہے علاج
ان مریضوں کو بھی اللہ شفا دیتا ہے
٭
غم دیے ہیں جب اتنے اے مالک
مجھ کو طاقت بھی صبر کی دے دے
٭
چلتا رہوں اوروں کا سہارا لے کر کب تک
اپنے پیروں پر چلنے کے قابل کردے
٭
ہر مرض تیری عطا تیرا اثر مشکل میں ہے
تو ہی اب دے دے شفا تیرا اثرؔمشکل میں ہے
٭
تو جو چاہے تو شفا پا جائے وہ
ایک عرصے سے اثرؔ بیمار ہے
٭
میرے مولا مرا بھلا کردے
مجھ کو پیروں پہ تو کھڑا کردے

غالبؔ نے کہا تھا، ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘‘ مصرع ثانی میں کی گئی تعلّی سے قطع نظر غالبؔ نے یہ بات تو سولہ آنے درست کہی ہے۔ فن کار کے ذہن میں افکار و خیالات کی نمود غیب سے ہوتی ہے اس میں اس کی اپنی کاوش کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اسی بات کو شاعری کی اصطلاح میں آمد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ شاعری الہامی ہوتی ہے۔ پروفیسر محمد علی اثرؔ بھی اسی کے قائل ہیں۔ وہ بھی اپنے فن کا رشتہ الہام سے جوڑتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شاعر کی وارداتِ دل، فن کے موتی، لہجے کی پہچان، لفظیات، حسن ادا، اشعار کی تاثیر، فکر و فن کی تازگی کی دل کشی اور تخلیقی مسرت یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی دَین ہے۔ اگر اس کی مہربانی اور لطف و کرم شامل نہ ہو تو شاعر کو کوئی خوبی حاصل نہ ہو:
فکر و فن کو ابتدائً تازگی دیتا ہے تو
اور پھر اپنے کرم سے دل کشی دیتا ہے تو
کاسۂ ہنر میں فن کے موتی ڈال کر
جو تصور سے پرے ہو وہ خوشی دیتا ہے تو
٭
مرے شعروں میں جان آئے مری پہچان بن جائے
مرے لہجے میں کچھ ایسی سمائی دے مرے اللہ
٭
جو دل پہ گزری ہے وہ واردات اس کی ہے
ورق یہ اس کا ہے اور لفظیات اس کی ہے
٭
اللہ کا ہر فضل اسی کی یہ دَین ہے
ہیں شعر مرے حسن ادا سے جڑے ہوئے
٭
یہ جود و فیض و عطایہ ترا ہی لطف و کرم
جو حسن میرے سخن میں ہے لفظیات میں ہے

اثر کا رجحان طبیع اور وجدان شعر حمدنگاری میں مشغول اور اسی کی طرف متوجہ ہے تو وہ اسے بھی من جانب اللہ سمجھتے ہیں۔ اگر توفیق اللٰہی نہ ہوتی تو وہ گلستانِ سخن کے بعض مخصوص خیابانوں کی سیر تو کرتے لیکن فردوسِ حمد کی سیر سے مشامِ جاں کو معطر نہ کر پاتے، واقعہ یہ ہے کہ حمدنگاری ہو یا نعت گوئی بندۂ مومن کے لیے سعادت کی بات ہے اور یہ سعادت اکتسابی نہیں بلکہ وہبی ہے اور اللہ کی خاص عطاہے:
ایں سعادت بزور باز و نیست
تا نہ بخشند خدائے بخشندہ
٭
ترے ہی حکم کے تابع مرا قلم ہے رواں
میں تیری حمد لکھوں کب یہ میرے ہات میں ہے
میں تیری حمد کا حق تو ادا نہ کر پایا
یہ تیرا فضل ہے تو ہی محرکات میں ہے
٭
مری بساط ہی کیا ہے جو تیری حمد لکھوں
جڑا ہے فکر سے میری جو تار تیرا ہے
ترا کرم ہے اثر پر جو اس نے حمد لکھی
کہ اس کی فکر پہ بھی اختیار تیرا ہے

اثر نہ صرف شاعری نہ صرف حمدنگاری بلکہ اپنی تحقیق اور ذوق دکنیات کو بھی اللہ کی عطا سمجھتے ہیں اور اس فن میں حصولِ کمال کے لیے حمدیہ اشعار کے پیرائے میں حق تعالیٰ سے استمداد کرتے ہیں:
حق ہو تحقیق میں مری یارب
عزم ایسا مجھے قوی دے دے
٭
میری تحقیق دَین ہے تیری
شعر میں بھی کمال تیرا ہے
٭
عطا ہو ژرف نگاہی کا بھی ہنر مجھ کو
ترے کرم سے مرا ذوق دکنیات میں ہے
پروفیسر محمدعلی اثر کے حمدیہ اشعار میں ایک خاص کیف و اثر کے ساتھ ساتھ بڑی روانی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے۔ خصوصاً چھوٹی بحر کی حمدوں میں مصرعوں کا بہائو، الفاظ کا صوتی آہنگ اور قوافی و ردیف کی نغمگی حمد میں ایک گونہ سرمستی و سرشاری اور جذب و بے خودی کی فضا تخلیق کرتی ہے:
یہاں وہاں ہرسُو موجود
کہاں نہیں ہے تو موجود
دل میں ہو اللہ اللہ
اور زبان پر ہو، موجود
جب ہوگا موجود نہ کچھ
ہوگا تو ہی تو موجود

اثرؔ کے ہاں بعض مقامات پر لب و لہجے میں ایسی بے ساختگی اور فطری انداز آگیا ہے کہ نظم و نثر کا امتیاز ختم ہوگیا ہے۔ اساتذۂ فن نے اس طرح کے اشعار کو سہلِ ممتنع کا نام دیا ہے۔ اشعار میں سہلِ ممتنع کی کیفیت پیدا کرنا بہت بڑا کمال سمجھا جاتا ہے۔ اثرؔ کی حمدوں میں اکثر اس طرح کے اشعار ملتے ہیں:
یاں کسی شے کو بھی ثبات نہیں
اور فانی بس اس کی ذات نہیں
وہ علیم و خبیر ہے بے شک
اس سے پوشیدہ کوئی بات نہیں
وہ ہے رحمان اور رحیم اثرؔ
فکر کرنے کی کوئی بات نہیں
٭
دن بھی تیرا ہے رات تیری ہے
اے خدا کائنات تیری ہے
تو ہی دل میں اثرؔ کے رہتا ہے
وہ جو لکھتا ہے بات تیری ہے
پروفیسر محمدعلی اثرؔ تازہ فکر اور شگفتہ لب و لہجے کے سخن ور ہیں۔ جس طرح غزل میں ان کا فن اظہار کی نئی راہیں تلاش کرتا ہے اسی طرح حمدنگاری میں بھی انھوںنے جدتِ ادا ندرتِ بیان اور اسلوب کی تازہ کاری پر خاص توجہ دی ہے۔ اثرؔ کے بیش تر حمدیہ اشعار میں موضوعات بھی نئے ہیں اور ان کے اظہاری پیکر اور ترسیلی سانچے بھی اچھوتے ہیں جن سے ان کی حمدوں کی فضا میں ایک خوش گوار تبدیلی اور فرحت کا احساس ہوتا ہے:
اتنا کردے تو کم سے کم ربی
دُور ہوجائیں سب الم ربی
روح مسرور ہو اُٹھے جس سے
میری نظروں کو تو وہ منظر دے
٭

ٹوٹتی ساعتوں کے صحرا میں
زندگانی کا ہر نشاں تجھ سے
٭
گھر بنایا ہے مری ذات کے اندر اس نے
کردیا سانس کی لہروں کو معطر اس نے
جیسے کہنا ہو کوئی بات ضروری مجھ سے
یوں جگایا ہے مجھے نیند سے اکثر اس نے
٭
ہاتھ میں تیرے ہیں، میری وسعتیں
میں ہوں نقطہ اور تو پکار ہے
٭
شام سے لکھ رہا ہوں حمد تری
صبح تک تیرے ہی دھیان میں ہوں
جس کا کوئی نہیں ہے دروازہ
میرے مولا میں اس مکان میں ہوں
مختصر یہ کہ پروفیسر محمدعلی اثرؔ کی حمد جذبات عقیدت، وارداتِ قلب، مسائل حیات کے شعور اُمت مسلمہ کی صورتِ حال کے ادراک، نجی درد و داغ، باری تعالیٰ کے انعامات کی معرفت، عرض مدعا و مناجات، ذکر ذات و صفات، ماورائی تجربات اور معارف و نکات کا مرقع ہے۔ موضوعات کے تنوع کے علاوہ ان کی حمد اظہار کی صلابت، لہجے کی تازگی، اشعار کی روانی، ترنم اور بے ساختگی سے بھی مالامال ہے۔ بلاشبہ ان کی حمدوں کا یہ مجموعہ اردو کی حمدیہ شاعری میں ایک سدابہار اور باوقار سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے۔
{٭}

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے