ڈاکٹر رفاقت علی شاہد۔ لاہور
اُردو کے چند نعتیہ گل دستے
وظائفِ خُلد (میسور)
لشکر محلہ، ضلع بنگلور، میسور سے یہ نعتیہ گل دستہ یکم جنوری ۱۸۸۵ء کو شروع ہوا۔ اس کے مالک سیٹھ عبد اللہ خوشحال بن احمد سیٹھ اور مہتمم علی محمد خاں بیدارؔ تھے۔ ۲۶؍ صفحات کی ضخامت کے اس گل دستے کی سالانہ قیمت پیشگی آٹھ آنے تھی۔ اس کی طباعت مطبع نبوی میں ہوتی تھی۔ اس کے سرورق پر یہ شعر ہوتا تھا: ؎
مفت، اے مشتریو! جلوئہ تازہ دیکھو!
تازہ دنیا میں ہے جنت کا تماشا، دیکھو!٭۱
وظائفِ خُلد کے مالک خوشحالؔ شاعر تھے۔ ان کی طرحی غزل کا ایک شعر گل دستۂ ناز کے ساتویں شمارے بابت ۱۵؍جولائی ۱۸۸۵ء میں شائع ہوا ہے، جس کی تعارفی نثر میں انھیں ’’سیٹھ عبداللہ صاحب خوشحالؔ صدر نشین انجمن کمالیہ مالکِ گل دستہ وظائفِ خلد‘‘ لکھا گیا ہے۔٭۲ اسی طرح اسی گل دستے کے فروری مارچ اور اپریل ۱۸۸۶ء کے شمارے میں مہتممِ گل دستہ کا کلام بھی شائع ہوا ہے۔ اس کے ساتھ تعارفی سطور میں انھیں ’’ولی محمد خاں صاحب بیدارؔ مہتمِ گل دستۂ وظائفِ خُلد میسور‘‘ اور ’’۔۔۔منشی پولس ڈیپارٹمنٹ بنگلور ۔۔۔‘‘٭۳ لکھا گیا ہے۔ گل دستۂ ناز کے ان اندراجات سے مالک و مہتممِ گل دستہ وظائفِ خُلد کے بارے میں درست اور زائد معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ امداد صابری نے مالک کا نام محض عبد اللہ لکھا ہے جب کہ مہتمم کا نام علی محمد درج کیا ہے، جب کہ گل دستۂ ناز کے اندراجات میں ان دونوں کے مکمل اور صحیح نام سیٹھ عبد اللہ اور ولی محمد درج ہوے ہیں اور انھی کو ترجیح دینی چاہیے۔
لشکر محلہ، ضلع بنگلور، میسور سے یہ نعتیہ گل دستہ یکم جنوری ۱۸۸۵ء کو شروع ہوا۔ اس کے مالک سیٹھ عبد اللہ خوشحال بن احمد سیٹھ اور مہتمم علی محمد خاں بیدارؔ تھے۔ ۲۶؍ صفحات کی ضخامت کے اس گل دستے کی سالانہ قیمت پیشگی آٹھ آنے تھی۔ اس کی طباعت مطبع نبوی میں ہوتی تھی۔ اس کے سرورق پر یہ شعر ہوتا تھا: ؎
مفت، اے مشتریو! جلوئہ تازہ دیکھو!
تازہ دنیا میں ہے جنت کا تماشا، دیکھو!٭۱
وظائفِ خُلد کے مالک خوشحالؔ شاعر تھے۔ ان کی طرحی غزل کا ایک شعر گل دستۂ ناز کے ساتویں شمارے بابت ۱۵؍جولائی ۱۸۸۵ء میں شائع ہوا ہے، جس کی تعارفی نثر میں انھیں ’’سیٹھ عبداللہ صاحب خوشحالؔ صدر نشین انجمن کمالیہ مالکِ گل دستہ وظائفِ خلد‘‘ لکھا گیا ہے۔٭۲ اسی طرح اسی گل دستے کے فروری مارچ اور اپریل ۱۸۸۶ء کے شمارے میں مہتممِ گل دستہ کا کلام بھی شائع ہوا ہے۔ اس کے ساتھ تعارفی سطور میں انھیں ’’ولی محمد خاں صاحب بیدارؔ مہتمِ گل دستۂ وظائفِ خُلد میسور‘‘ اور ’’۔۔۔منشی پولس ڈیپارٹمنٹ بنگلور ۔۔۔‘‘٭۳ لکھا گیا ہے۔ گل دستۂ ناز کے ان اندراجات سے مالک و مہتممِ گل دستہ وظائفِ خُلد کے بارے میں درست اور زائد معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ امداد صابری نے مالک کا نام محض عبد اللہ لکھا ہے جب کہ مہتمم کا نام علی محمد درج کیا ہے، جب کہ گل دستۂ ناز کے اندراجات میں ان دونوں کے مکمل اور صحیح نام سیٹھ عبد اللہ اور ولی محمد درج ہوے ہیں اور انھی کو ترجیح دینی چاہیے۔
گل دستۂ ناز کے مذکورہ بالا اندراجات سے علم ہوتا ہے کہ کم سے کم اپریل ۱۸۸۶ء تک وظائفِ خُلد شائع ہو رہا تھا، کیوں کہ گل دستۂ ناز کے اپریل۱۸۸۶ء کے شمارے میں مہتمم وظائفِ خُلد، بیدارؔ کی طرحی غزل کے دو شعر درج ہیں اور تعارفی سطر میں انھیں ’’مہتمم گل دستہ وظائفِ خُلد‘‘ لکھا گیا ہے۔ کلب علی خاں فائق کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ اس گل دستے کا پہلا شمارہ صولت پبلک لائبریری، رامپور میں موجود تھا٭۴معلوم نہیں اب بھی ہے یا نہیں۔ افسوس ! جو گل دستہ کم سے کم سوا سال تک شائع ہوتا رہا، آج اس کے ایک شمارے کی موجودگی کی بھی کہیں اطلاع نہیں۔
وظائفِ خُلد اُردو کا پہلا نعتیہ گل دستہ ہے۔ اس کی یہ خصوصیت لا شریک ہے۔ کلبِ علی خاں فائق کی مذکورہ بالا فہرست میں اس گل دستے کے پہلے شمارے میں امیرؔمینائی کی نعتیہ طرحی غزل کا مطلع درج کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُردو کے پہلے نعتیہ گل دستے کی پذیرائی ادبی حلقوں میں ہوئی ہو گی۔
گلزارِ خُلد (قنوج)
قنوج ، ضلع فرخ آباد سے یہ ماہانہ نعتیہ گل دستہ منشی بھگو خاں رحیم نے مارچ ۱۸۸۵ء میں شروع کیا۔ رحیم اس سے قبل پیامِ عاشق نامی کامیاب گل دستہ نکال رہے تھے۔ اس کے علاوہ وہ قنّوج پنچ کے نام سے ایک اخبار بھی شائع کر رہے تھے۔ گلزارِخُلد اُردو کا دوسرا نعتیہ گل دستہ ہے۔ پیامِ عاشق کی طرح اس پر بھی جلد و شمارہ نمبر کا اندراج نہیں ہوتا تھا بلکہ محض ماہ و سال اشاعت درج کرنے پر اکتفا کی جاتی تھی۔ تقریبا پانچ سال تک ہجری اور مطابق عیسوی ماہ و سال کا اندراج صفحہ ۳پر متن کے آغاز سے قبل کیا جاتا اور بقیہ صفحات پر محض ہجری ماہ و سال لکھا جاتا۔ ۱۸۹۰ء کے اواخر میں یہ التزام ختم کر دیا گیا اور ہر صفحے پر عیسوی ماہ و سال کا اندراج ہونے لگا۔ گل دستہ ہمیشہ عیسوی مہینے کی تاریخ کے التزام سے شائع کیا جاتا تھا۔
شروع میں سر ورق کی تفصیل یہ ہوتی تھی کہ آرایشی چوکھٹے میں روضہ رسولﷺ کی شبیہ اور درمیان میں جلی حروف میں گل دستے کا نام درج ہوتا۔ اس سے نیچے یہ شعر ہوتا :
محمد سے صفت پوچھو خدا کی
خدا سے پوچھ لو شان محمد
اس کے بعد مختصر طور پر قواعد گل دستہ اور آخر میں جلی حروف میں مطبع کا نام درج ہوتا۔ ۱۸۹۰ء میں گل دستے کے سرورق میں تبدیلی ہوئی اور اب شبیہ روضۂ رسولؐ ختم کر دی گئی، بقیہ عبارتیں موجود رہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں سرورق میں ایک بار پھر تبدیلی ہوئی اور اب گنبد روضۂ رسولﷺ کی شبیہ کے درمیان میں گل دستے کا نام لکھا جانے لگا اور سرورق کا شعر بھی تبدیل ہو کر یہ درج ہونے لگا:
اچھا نہو یا رب! کبھی بیمارِ محمد
کم ہو نہ کبھی خواہشِ دیدارِ محمد
اندرون پشت ورق پر عموماً مہتمم گل دستہ کی جانب سے دوائیوں، عطر، پیامِ عاشق، قنوج پنچ اور گل دستے سے متعلق کبھی کوئی اعلانات شائع ہوتے تھے۔ پشت ورق کے دونوں صفحات پر بھی عموما مہتمم گلزارِ خُلد کے کارخانہ عطر، ادویات اور کتب وغیرہ کے علاوہ کچھ دیگر اشتہار بھی شائع ہوتے تھے۔
گلزارِ خُلد کے دو حصے ہوتے تھے۔ پہلے حصے کا عنوان ’’اشاعۃ السلام‘‘ ہوتا اور اس کے تحت مذہبی اسلامی و اخلاقی مضامین اور فتاوے درج کیے جاتے۔ اس حصے میں عموماً مولانا اشرف علی کے مضامین اور فتاوے شائع ہوتے۔ موجود شماروں میں جن مزید علما اور مضمون نگاروں کے مضامین اور فتاوے شامل ہیں، ان میں مولانا احمد رضا بریلوی، مولوی محمد عبد السبحان بلہوری، از مدرسہ حفظ الایمان بلہور، مولوی محمد عبد الجلیل بھگوان پوری متصل مظفر پور، غلام محی الدین امرتسری، حافظ محمد ظہور اللہ ٹونکی، محمد حسین خاں رامپوری، معز الدین احمد تفسیر از پورینہ، حاجی رحمت اللہ از بمبئی، شیخ محمد محبوب جبل پوری مرید مولانا احمد میاں گنج پوری اورحافظ سید محمد عبد اللہ مہتمم مدرسہ جامع العلوم کان پور شامل ہیں۔ اوائل بیسویں صدی میں نشری حصے سے ’’اشاعۃ الالسلام‘‘ کا عنوان نکال دیا گیا اور نثری مضامین بھی گلزارِ خُلد ہی کا حصہ بن گئے۔
سرورق کے بعد صفحہ ۳ سے رسالہ ’’اشاعۃ السلام‘‘ کا آغاز ہوتا اور عموماً صفحہ نو یا دس پر نثری مضامین کا اختتام ہوتا۔ اس کے بعد صفحہ دس یا گیارہ سے کلام منظوم شروع ہوتا۔ صفحے پر سب سے اوپر آئندہ کے لیے دو طرحی مصرعے (ایک پر فورا اور دوسرے پر بعد میں کلام بھیجنے کی ہدایت کے ساتھ) درج کیے جاتے۔ نیچے بسم اللہ۔۔۔ کے بعد ’’مصرع طرح گلزارِ خُلد ‘‘ درج کرکے طرحی کلام کا آغاز کیا جاتا۔ طرحی کلام کے اختتام کے بعد غیر طرحی کلام ہوتا۔ صفحہ ۲۲پر کلام کا خاتمہ ہوتا اور پھر پشت ورق کے صفحات ہوتے تھے۔ گل دستے میں طرحی کلام زیادہ اور غیر طرحی کلام بہت کم شامل ہوتا تھا۔ غالباً غیر طرحی کلام، طرحی کلام کے بعد بقیہ بچ جانے والے صفحات کی گنجایش کے حساب سے درج کیا جاتا تھا۔ گزشتہ شمارے کا طرحی بقیہ کلام اگر ہوتا تو سب سے پہلے وہ درج کیا جاتا، پھر ماہِ رواں کا طرحی کلام درج ہوتا۔دسمبر ۱۹۰۳ء کے شمارے میں ایسا ہی کیا گیا ہے، کہ نومبر ۱۹۰۳ء کا بقیہ طرحی کلام درج کیا گیا ہے، دسمبر ۱۹۰۳ء کا طرحی کلام اس کے بعد درج کیا گیا ہے۔
گلزارِ خُلد کے سرورق پر گل دستے کے جو قواعد طبع ہوتے تھے، ان کی مدد سے گل دستے کے درج ذیل ضوابط معلوم ہوئے ہیں:
(۱) پہلے گل دستہ ہر انگریزی مہینے کی آٹھویں کو شائع ہوتا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں تاریخ اشاعت عیسوی مہینے کی اٹھائیس یا انتیس مقرر کی گئی۔
(۲) گل دستے میں نعتیہ کلام منظوم شائع ہوتا تھا، اس کے ساتھ ’’پندو نصایح، مسئلہ و مسائل‘‘ بھی درج کیے جاتے ہیں۔
(۳) پہلے بعد انتخاب طرحی نعتیہ غزل کے سترہ شعر تک درج کرنے کا قاعدہ تھا، بعد میں یہ حد اکیس شعر کر دی گئی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں تعدادِشعر کی یہ قید ختم کر دی گئی۔
(۴) طرحی نعتیہ غزلیں موصول ہونے کی تاریخ، اشاعت گل دستہ سے کم و بیش دو ہفتے پہلے کی مقرر کی گئی تھی۔
(۵) جواب طلب خطوط کے لیے جوابی کارڈ یا ٹکٹ بھجوانا لازم تھا۔
(۶) گل دستے کی سالانہ قیمت پیشگی روسا اور اعلاعہدیداروں سے دو روپے اور کم استطاعت والوں سے ایک روپیا تھی، جب کہ نمونے کا پرچہ۲ آنے میں مل سکتا تھا۔ جنوری ۱۹۰۴ء سے عام قیمت سوا روپیا کر دی گئی، کیوںکہ مہتمم کے مطابق ایک روپے سے اخراجات گل دستہ پورے نہیں ہوتے تھے۔
جولائی ۱۹۰۳ء کے شمارے میں مہتمم نے ’’جمیع مسلمانان‘‘ کی خدمت میں اپیل کی ہے کہ گلزارِ خُلدکے اجرا سے مالی منفعت مقصود نہیں تھی، اس لیے اس کے سالانہ خریدار بن کر مسلمان اپنی عاقبت سنوار لیں۔ اگر سالانہ چندہ معقول مقدار میں جمع ہوتا رہے گا تو گل دستے کے حجم میں بھی وقتاًفوقتاً اضافہ ہوتا رہے گا۔ اسی طرح جنوری ۱۹۰۴ء سے۱۹۰۵ء کے اواخر تک گل دستے میں یہ اعلان شائع ہوتا رہا کہ گل دستے کا سالانہ چندہ ایک روپیا گل دستے کے اخراجات کو کفیل نہیں، اس کے علاوہ بعض خریداروں نے سال سال، دو دو سال کا چندہ بھی ہضم کر لیا ہے، اس لیے جنوری ۱۹۰۴ء سے گل دستے کا سالانہ چندہ بڑھا کر سوا روپیا کر دیا گیا ہے۔
مہتمم، قارئین کی سہولت اور ترغیب کے لیے اس رعایت کا مستقل اعلان کرتے رہے ہیں کہ ان کے اہتمام سے شائع ہونے والے تینوں جریدوں، گل دستہ گلزارِ خُلد ، گل دستہ پیامِ عاشق اور اخبار قنوج پنچ، کے خریداروں کو کم و بیش ایک سے ڈیڑھ روپے تک کا فائدہ ہو گا۔ اسی طرح کسی دو جریدوں کے خریدار کو نسبتاً کم رعایت دی جاتی تھی۔
نومبر ۱۹۰۵ء سے گلزارِ خُلد کو اخبار قنّوج پنچ میں ضم کر دیا گیا۔ ایک ماہ پہلے کے گل دستۂ پیامِ عاشق میں یہ اشتہار شائع ہوا کہ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ’’خریداران اخبار بھی مسائل دینی اور مضامین پندو نصائح و غزلیات نعتیہ دیکھنے سے محروم نہ رہیں‘‘٭۵ لیکن معلوم ہوتا ہے اصل وجہ یہ نہ رہی ہو گی۔ عین ممکن ہے کہ معقول تعداد میں سالانہ خریدار مہیا نہ ہونے کے باعث گلزارِ خُلد کی علاحدہ اشاعت موقوف کرکے اسے قنّوج پنچ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو۔ ۱۹۰۳ء میں سالانہ خریداری میں اضافے کی اپیل اور جنوری ۱۹۰۴ء سے اخراجات گل دستہ پورے کرنے کی خاطر سالانہ چندے میں چار آنے کا اضافہ اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ متعینہ مقاصد حاصل نہ ہوسکنے کے باعث گلزارِ خُلد کو اخبار میں ضم کر دیا گیا ہے۔صورت یہ مقرر کی گئی کہ قنّوج پنچ کے، مہینے کے آخری پرچے میں گلزارِ خُلد شائع کیا جاے گا اور گلزارِ خُلد کے خریداروں کے پاس مہینے کا یہ آخری پرچہ پہنچا کرے گا، یوں خریداروں کو گلزارِ خُلد کے ساتھ ’’اخیر کا اخبار بھی مفت دیکھنے میں آے گا۔ ‘‘٭۶
گلزارِ خُلد کا اجرا ۱۳۰۲ھ مطابق مارچ۱۸۸۵ء کو ہوا۔ اشرفؔ لکھنوی اور امداد صابری نے اس کے اجرا کی تاریخ مارچ ۱۸۸۵ء لکھی ہے۔٭۷ گل دستہ فیروز نگار (امراؤتی) میں گلزارِ خُلد کے آغازسے قبل اس کا اشتہار شائع ہوا ہے، جس میں جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ کو اس کا اجرا ہونا لکھا ہے۔٭۸ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ مطابق ہے وسطِ فروری سے وسط ِمارچ تک۔ قواعد کے مطابق گل دستہ انگریزی مہینے کی آٹھ تاریخ کو شائع ہوتا تھا، گویا پہلا شمارہ ۸؍مارچ ۱۸۸۵ء مطابق ۲۱؍جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ کے آخری عشرے میں شائع ہوا۔ یوں اشتہار کے مطابق بھی گل دستے کا آغاز مارچ ۱۸۸۵ء میں ہی ثابت ہوتا ہے۔
گلزارِ خُلد ہمیشہ مطبع رحیمی، قنّوج میں طبع ہوتا رہا، یہ مطبع مالک گل دستہ کا تھا اور ان کے دیگر جرائد بھی یہیں سے طبع ہوتے تھے۔ گل دستے میں بگھو خاں رحیمؔ کو مہتمم اور اڈیٹر لکھا گیا ہے۔ گل دستے کے مالک بھی وہی تھے۔ رحیم نے اوائل ۱۸۸۳ء میں گل دستہ پیامِ عاشق جاری کیا، مارچ۱۸۸۵ء میں گلزارِ خُلد، اس سال اخبار قنّوج پنچ اور یکم اگست ۱۸۸۵ء کو مزاحیہ پندرہ روزہ اخبار پرکالۂ آتش جاری کیے۔ رحیم ان سب جرائد کے مالک، مہتمم اور مدیر بھی تھے۔ اس کے علاوہ انھوںنے اپنا مطبع بھی اپنے تخلص کی نسبت سے مطبع رحیمی کے نام سے قنّوج میں قائم کیا۔ ان کے مذکورہ بالا سبھی اخبارات و جرائد مطبع رحیمی ہی سے طبع ہوتے تھے۔ رحیمؔ خود بھی شاعر تھے۔ ان کا طرحی کلام پیامِ عاشق کے علاوہ دیگر گل دستوں میں بھی ملتا ہے۔ گلزارِ خُلد میں بھی ان کا نعتیہ کلام شامل ہوتا رہا ہے، لیکن کم۔
رحیمؔ کے پہلے گل دستے پیامِ عاشق کی طرح گلزارِ خُلدبھی طویل عرصے تک مستقلاً شائع ہوتا رہا۔ اس کا آغاز مارچ ۱۸۸۵ء میں ہوا۔ اس کا ستمبر ۱۹۰۴ء کا شمارہ ذاکر حسین لائبریری ، نئی دہلی میں موجود ہے۔ یوں کم سے کم تقریبا بیس سال تک اس نعتیہ گل دستے کی اشاعت کے شواہد موجود ہیں۔
گلزارِ خُلدکے شمارے اگرچہ مشکل الحصول ہیں لیکن کمیاب یا نایاب نہیں۔ میرے پیشِ نظر اس گل دستے کے گیارہ شماروں کے عکس ہیں۔ جن کا عرصہ اشاعت دسمبر ۱۸۸۸ء سے ستمبر ۱۹۰۴ء تک ہے۔ ان میں سے دس شمارے ذاکر حسین لائبریری، نئی دہلی اور ایک شمارہ کتب خانہ جامعہ پنجاب، لاہور میں محفوظ ہے۔
گل دستے میں غیر معروف شعرا کی کثرت ہے۔ پیش نظر گیارہ شماروں میں امیرؔمینائی کی تین نعتیہ غزلوں کے علاوہ طاہرؔ فرخ آبادی، رضوانؔ مراد آبادی ہی معروف شعرا میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ ان شماروں میں دو شاعرات سیدانی ظہور بیگم رحمتؔ پردہ نشین بلہوری اور بی ملا گیر بخش نیرؔ از چوپڑہ ضلع خاندیس کی نعتیہ غزلیں بھی شامل ہیں۔
طرحی غزلیات نعتیہ کے علاوہ گل دستے کے مذکورہ شماروں میں ذیل کی دو منظومات بھی ملتی ہیں:
(۱) ’’مرثیہ قوم‘‘ از سید شاہ حاجی محمد اکبر
(۲) قصیدہ مدحیہ شیخ عبد القادر جیلانی از شیخ عبد الغنی نابلسی
گلزارِ خُلد اُردو کا واحد نعتیہ گل دستہ ہے جو کم و بیش بیس سال کے طویل عرصے تک شائع ہوتا رہا۔ اس کی یہ خصوصیت اسے اُردو کا اہم گل دستہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
کلیدِ جنت (لاہور)
لاہور۱۰۶؎ ، محلہ چہل بیبیاں، متصل حویلی سید حیدر علی شاہ سے یہ نعتیہ گل دستہ ۵؍اکتوبر ۱۸۸۵ء کو جاری ہوا۔ یہ ۱۸۸۵ء میں جاری ہونے والا تیسرا نعتیہ گل دستہ تھا۔ اس سے پہلے یکم جنوری ۱۸۸۵ء کو میسور سے وظائفِ خُلد اور مارچ ۱۸۸۵ء میں قنّوج ضلع فرخ آباد سے گلزارِ خُلد جاری ہوچکے تھے اور کلیدِ جنت کے اجرا تک کم سے کم گلزارِ خُلد یقینا طبع ہو رہا تھا۔ تینوں گل دستوں میں ’’خلد‘‘ اور ’’جنت‘‘ ہم معنی ہیں۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ گلزارِ خُلد اور کلیدِ جنت اپنے پیش رو نعتیہ گل دستے وظائفِ خُلد سے متاثر تھے۔
کلیدِ جنت کا پہلا شمارہ پنجاب پبلک لائبریری، لاہور میں موجود ہے اور میرے پیش نظر اسی کا عکس ہے۔ اس پہلے شمارے کے سرورق پر آرائشی چوکٹھے میں گل دستے کے نام کے علاوہ مرتب و مطبع کا نام، جلد و شمارہ نمبر اور ہجری و عیسوی تاریخ اشاعت اکتوبر ۱۸۸۵ء مطابق ذوالحجہ ۱۳۰۴ھ اور معروف نعتیہ رباعی : بلغ العلیٰ بکمالہٖ ۔۔۔ درج ہیں۔ اندرون سرورق کے صفحے پر گل دستے کے ’’ضوابط و شرائط‘‘ ہیں، جن کے مطابق یہ گل دستہ ہر انگریزی مہینے کی پانچ تاریخ کو شائع ہوتا تھا۔ ۱۱ شعروں تک طرحی و غیر طرحی کلام کمیٹی کے انتخاب کے بعد درج ہو گا۔ سالانہ قیمت سالانہ اور شش ماہی مقرر تھی، خیاں چہ والیان ملک سے بالترتیب پانچ روپے اور تین روپے، روساء عظام سے تین روپے اور دو روپے اور عام خریداروں سے ڈیڑھ روپے اور ایک روپیہ لیا جاتا تھا۔ سالانہ قیمت رسالہ موصول ہونے کے ایک ماہ کے اندر اور شش ماہی پانچ دن کے اندر آنی چاہیے، ورنہ ’’مابعد المضاعف‘‘ ایک پرچے کی قیمت روسا سے پانچ آنے اور عوام سے تین آنے مقرر تھی۔ جو خریدار دو ماہ کے بعد رسالہ بند کرانا چاہے، اسے شش ماہی کی اور جو شش ماہی کے بعد بند کرانا چاہے، اسے سال تمام کی قیمت ادا کرنی ضروری تھی۔ قیمت بذریعہ منی آرڈر آنی چاہیے۔ جن کی خدمت میں گل دستہ بلا قیمت ارسال کیا جاتا ہے، وہ تحریری طور پر نا منظوری سے مطلع کریں ورنہ خریدار تصور ہوںگے ۔ تمام خط و کتاب ’’لاہور محلہ چہل بیبیاں، محمد سردار علی اختر مہتمم رسالہ کلیدِ جنت ‘‘ کے پتے پر ہونی چاہیے۔ سرورق پر ’’مطبع گلزار محمدی لاہور میں با اہتمام منشی گلزار بخش کے چھپا‘‘درج ہے۔
صفحہ ایک سے طرحی کلام کاآغاز ہوتا ہے۔ سب سے اوپر ’’مشاعرہ اول‘‘ کی سرخی ہے، نیچے کلمہ توحید، پھر ’’۶؍ ستمبر ۱۸۸۵ء‘‘ کی تاریخ درج کرکے مصرع طرح دیا گیا ہے۔ پھر بسم اللہ۔۔۔ کے بعد باقاعدہ طرحی کلام کا آغاز ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی مشاعرے کا طرحی کلام ہے، جو ۶ ستمبر ۱۸۸۵ء کو غالباً گل دستے کے طرحی کلام کے حصول کے لیے منعقد کر ایا گیا۔ اس قیاس کو تقویت یوں بھی پہنچتی ہے کہ صفحہ گیارہ سے ’’مشاعرئہ دوم‘‘ منعقدہ ۱۹؍ ستمبر ۱۸۸۵ء ‘‘ کا طرحی کلام علاحدہ طرح پر شروع ہوتا ہے اور آخر گل دستہ تک چلا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گل دستے کے پشت ورق پر ’’رسالہ کلیدِ جنت لاہور‘‘ کا اشتہار ہے، جو ’’محمد سردار علی اختر ؔمہتمم انجمن مشاعرہ نعتیہ لاہور‘‘ نے جاری کیا ہے۔ یہ بھی اسی قیاس کو یقین میں تبدیل کرنے میں مدد دیتا ہے کہ مالکِ گل دستہ اخترؔ، گل دستے میں حصول کے لیے طرحی مشاعرے منعقد کراتے تھے۔ اسی اشتہار میں یہ بات واضح طور پر بیان کردی گئی ہے کہ ’’حسب اتفاق راے اکثر شعرائے نامدار اور صاحب کبار، یہ قرار پایا ہے کہ ایک مشاعرہ نعتیہ مہینے میں دوبارہ منعقد کیا جاے اور اس میں جو غزلیات اور اشعار نعتیہ پڑھے جائیں، ان کو بعد ملاحظہ انجمنِ انتخاب ہر ماہ انگریزی کی ۵؍ تاریخ کو رسالہ کلیدِ جنت کے نام سے مشتہر کیا جائے‘‘ یوں صفحہ ایک سے دس تک مشاعرئہ اوّل اور صفحہ گیارہ سے اکیس تک مشاعرہ دوم کا طرحی نعتیہ کلام ہے۔ اسی صفحے پر آخر میں آیندہ شمارے کے لیے دو طرحی مصرعے مشتہر کیے گئے ہیں اور لکھا گیا ہے کہ ’’ذیل کی طرحات پر۱۹؍ اکتوبر تک غزلیں آنی چاہئیں‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ اشاعت گل دستہ کی تاریخ سے دو ہفتے قبل طرحی غزلیات پہنچنے کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ صفحہ ۲۲ یعنی پشت ورق پر ’’اشتہار رسالہ کلیدِ جنت لاہور ہے۔ اس میں گل دستے کی شان نزول اور قیمت وغیرہ بیان کی گئی ہے۔
پشت ورق کے مذکورہ اشتہار میں اخترؔ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’آج تک کوئی رسالہ ایسا شائع نہیں ہوا، جس میں خصوصاً اشعار و غزلیات نعتیہ حضرت سرور کائنات، خلاصۂ موجودات، رسول کریمﷺ درج کیے جائیں‘‘۔ اس طرح گویا بالواسطہ طور پر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کلیدِ جنت اُردو کا پہلا نعتیہ گل دستہ ہے۔ یہ دعویٰ ٹھیک نہیں۔ جیسا کہ شروع میں وضاحت کی گئی ہے کہ اُردو کا سب سے پہلا نعتیہ گل دستہ (دست یاب معلومات کے مطابق) ’’وظائفِ خُلد‘‘ (میسور) ہے، پھر قنّوج سے ’’گلزارِ خُلد ‘‘ جاری ہوا، تیسرا نعتیہ گل دستہ کلیدِ جنت ہے۔ اس کے علاوہ گل دستۂ ناز (بمبئی) کی مالکہ بلقیس جہاں ناز نے بھی اوائل ۱۸۸۵ء میں ’’چراغِ کعبہ‘‘ کے نام سے ایک نعتیہ گل دستہ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن معلوم ہوتا ہے یہ شائع نہیں ہو سکا۔ حیرت ہے کہ سردار علی اخترؔ کی نظر سے وظائفِ خُلد یا گلزارِ خُلد نہیں گزرا یا انھیں ان کے بارے میں معلومات نہیں۔ معلوم ہوتا ہے انھوں نے دانستہ پہلے نعتیہ گل دستے کے اجرا کا اعزاز حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
امداد صابری نے کلیدِ جنت کی تاریخ اجرا ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۸۵ء لکھی ہے۔٭۹ ۵ کی جگہ ۱۵؍کتابت کی غلطی ہو سکتی ہے۔ اشرفؔ لکھنوی کا بیان ہے کہ یہ گل دستہ انجمنِ ’’مشاعرئہ نعتیہ‘‘ نے جاری کیا۔٭۱۰ یہ بھی درست نہیں۔ خود سردار علی اخترؔ نے اجرا گل دستہ کی کیفیت بیان کر دی ہے، جس کی روشنی میں علم ہوتا ہے کہ اختر ہی نے گل دستہ جاری کیا اور وہ مشاعرئہ نعتیہ کے بھی مہتمم تھے۔
اس گل دستے کی کتابت اور پیش کش قابل تعریف ہے ۔ بیش تر غیرمعروف شعرا شامل گل دستہ ہیں۔ بعض شاعروں کا کلام دونوں مشاعروں کے تحت ملتا ہے۔ مہتمم گل دستہ کے علاوہ مفتی غلام سرور سرورؔ لاہوری معروف شخصیات میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اس گل دستے پر راقم الحروف نے تفصیلی مضمون قلم بند کیا تھا، جو شائع ہو چکا ہے۔٭۱۱ اس کا پہلا شمارہ صولت پبلک لائبریری رامپور میں بھی ہے جو کلبِ علی خاں فائق کی نظر سے گزر چکا ہے اور حسب روایت انھوں نے اس کی تاریخ اشاعت ’’۱۵ ؍اکتوبر ۱۸۸۵ء ‘‘ لکھ کر اپنی غیر ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا ہے۔٭۱۲
منشور شفاعت (بمبئی)
بمبئی سے یہ ماہانہ نعتیہ گل دستہ یکم محرم ۱۳۰۶ھ مطابق ستمبر ۱۸۸۸ء کو شروع ہوا۔ گل دستے کے مالک سید فقیر محمد فدا ؔبخاری حسینی چشتی تھے۔ گل دستے کے مہتمم اور مرتب شروع میں سیٹھ حاجی محمد صدیق اخلاصؔ رئیس شہر بمبئی مقام زکریا بازار تھے، لیکن دوسرے سال کے شروع میں خود مالک گل دستہ فداؔ کا نام گل دستے پر بطور مرتب درج ہونے لگا اور آخر تک وہی منشورِ شفاعت کے مرتب رہے۔ اس دوران محمد صدیق اخلاص کا کلام بھی گل دستے میں طبع ہوتا رہا۔ گویا انھوں نے کسی سبب گل دستے کی ادارت سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی، لیکن گل دستے کے ساتھ قلمی تعاون جاری رکھا۔ دوسری جلد اور بعد کی جلدوں کے شماروں پر بطور مہتمم فداؔ کا نام درج ہے، گویا خود فداؔ ہی گل دستے کے مہتمم بھی تھے۔
منشورِ شفاعت کا سرورق تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ بیش تر یہ سرورق آرایشی ہوتا تھا۔ گل دستے کے نام، جلد و شمارہ نمبر، ماہ و سال اشاعت، مرتب اور مطبع کے نام کے علاوہ ذیل کے دو فارسی اور ایک اُردو شعر بھی مستقلاً اس کے سرورق پر شائع ہوتے تھے :
پیش از ہمہ شاہانِ غیور آمدہ ای
ہر چند کہ آخر بظہور آمدہ ای
اے فخرِ رُسل ! قرب تو معلومم شد
دیر آمدہ ای از رہ دور آمدہ ای
وردِ زباں جنابِ محمد کا نام ہے
قابل درود پڑھنے کے اپنا کلام ہے
قواعد گل دستہ بیش تر اندرون سرورق صفحہ ۲ پر درج ہوتے یا آخری صفحہ ۱۶ پر۔ ان قواعد و ضوابط کے مطابق منشورِ شفاعت کی اشاعت ہر قمری مہینے کی پہلی تاریخ کو ہوتی تھی۔ طرحی کلام کا انتخاب کمیٹی کرتی تھی۔ بشرط گنجائش غیرطرحی کلام فی شعر ایک آنے کی اجرت پر طبع ہو سکتا تھا۔ گل دستے کی سالانہ پیشگی قیمت عوام سے ایک روپیا مع محصول ڈاک مقرر تھی اور خواص جو عنایت فرمائیں۔ نمونے کا پرچہ تین آنے میں ملتا تھا۔ بلا درخواست پرچہ موصول ہونے والے منظوری و غیرمنظوری کی اطلاع جلد دینے کے پابند تھے، بصورت دیگر ’’خاموشی دلیل خریداری تصور ہوگی‘‘۔جواب طلب تحریر کے لیے دو آنے کے ٹکٹ یا جوابی کارڈ بھجوانا ضروری تھا۔ کوئی آدمی جب بھی خریدار بنے، اسے گل دستے کے پہلے شمارے سے خریدار بننا ہو گا اور نمبر اول سے قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اُجرتی اشتہار فی سطر ۲ آنے کے حساب سے شائع ہوتے تھے۔ طرحی غزلیات ہر ماہ قمری کی ۱۵؍تاریخ تک موصول ہونے کی ہدایت تھی۔ غزلیات علاحدہ کاغذ پر خوش خط لکھ کر روانہ ہونی چاہییں تھیں۔ تمام خط و کتاب بنام حاجی محمد صدیق اخلاص ؔبمبئی زکریا بازار کے پتے پر کرنے کی ہدایت تھی۔ دوسری جلد سے جملہ تحریریں فدا ؔمالک و مہتمم و مرتب گل دستہ کے نام بھجوانے کا لکھا جانے لگا۔ اسی طرح بعد میں گل دستے کی تاریخ اشاعت یکم ماہ انگریزی کر دی گئی اور طرحی کلام کی اشاعت کی حد بھی ۱۱؍شعر مقرر کی گئی۔
گل دستہ ہمیشہ سولہ صفحات پر شائع ہوتا تھا، البتہ مشترکہ شماروں کی ضخامت ۲۴؍ صفحات ہوتی تھی ( ۱۲+۱۲) ۱۳۰۹ھ اور ۱۳۱۰ھ میں رجب اور شعبان جب کہ جمادی الآخر و رجب ۱۳۱۴ھ کے شمارے مشترکہ شائع ہوئے۔ تینوں بار مشترکہ شماروں کی یہی ضخامت تھی۔ گل دستے میں سر ورق کو گل دستے کے مسلسل صفحات میں شامل کیا گیا ہے، چناںچہ سرورق ہمیشہ صفحہ ۱ ،۲ پر مشتمل ہوتا تھا۔ گل دستہ مطبع دت پرساد میں طبع ہوتا تھا۔ صرف رجب ۱۳۰۶ھ کا شمارہ مطبع ہاشمی میں طبع ہوا ہے۔ پانچویں جلد بابت ۱۳۱۰ھ کے کچھ شماروں میں کاتب کا نام خورشید علی اور مقام اشاعت ’’بہشتی محلہ مکان نمبر ۶۰۷؍ تحریر ہے‘‘۔ اسی طرح جمادی الآخر ۱۳۰۹ھ کے شمارے میں اطلاع دی گئی ہے کہ ’’مہتمم گل دستہ عازم اجمیر شریف ہے لہٰذا ماہ رجب اور شعبان کا رسالہ ہمراہ برآمد ہو گا۔‘‘٭۱۳
’’منشورِ شفاعت‘‘ کے شوال ۱۳۰۶ھ کے شمارے میں ’’غزلیات مشاعرہ بمبئی بلا انتخاب‘‘ کے عنوان سے پانچ صفحات (ص۱۰ تا ۱۵) میں طرحی غزلیات درج ہیں۔ اس سے علم ہوتا ہے کہ ’’منشورِ شفاعت‘‘ میں مشاعروں کا انتخاب بھی درج ہوتا تھا۔ ۱۳۱۱ھ کے آغاز میں فداؔ بھنڈی بازار منتقل ہو گئے، چناںچہ گل دستے کی چھٹی جلد بابت ۱۳۱۱ھ کے شماروں میں مرتب کے نام و پتے کے بعد ’’بزم چشتیہ‘‘ بھی لکھا ملتا ہے۔ اس سلسلے میں بشیر مخضی القادری علمی کراچوی کا یہ بیان معلومات افزا ہے:
حضرت مولانا سید فقیر محمد صاحب فداؔ چشتی مرحوم نے ’’بھنڈی بازار‘‘ بمبئی میںایک محفل ادب ’’بزم چشتیہ‘‘ کے نام سے قائم کر رکھی تھی۔ مقامی شعرا کے ساتھ ساتھ بیرون بمبئی سے بھی شعرا حصہ لیا کرتے تھے۔ فداؔ صاحب چشتی نے ایک رسالہ ’’گل دستہ منشورِ شفاعت‘‘ جاری کیا تاکہ مقامی اور بیرونی شعرا کے متبرک ارشادات نعتیہ طبع ہو کر ہر ماہ ارباب ذوق تک پہنچ جایا کریں۔ ہر مہینے ایک نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوتا۔ بیرونی شعرا اپنے اپنے کلام بھیجا کرتے۔ ٭۱۴
معلوم نہیں بشیر مخفی کی معلومات کا ذریعہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے اسی مضمون میں ’’منشورِ شفاعت‘‘ کے ربیع الاوّل ۱۳۱۱ھ کے شمارے سے کلام کا انتخاب بھی درج کیا ہے ، لیکن اس شمارے میں نعتیہ مشاعرے کے انعقاد کے بارے میں کوئی بیان نہیں ہے۔ بہر حال، یہ قرین قیاس ہے کہ بشیر مخفی کا بیان درست ہو، کیوں کہ اواخر انیسویں صدی میں نکلنے والے بعض گل دستوں میں حصول کلام کے لیے مشاعروں کا انعقاد ہوتا تھا اور یہ قدیم روایت تھی۔ کریم الدین کے ’’ پرچہ مشاعرہ ‘‘ میں بھی مشاعرو ں کا طرحی کلام طبع ہوتا تھا اور بعد کے گل دستوں میں بھی یہ التزام موجود تھا، لہٰذا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ فداؔ، بمبئی میں نعتیہ مشاعرے منعقد کراتے ہوں اور گل دستہ ’’منشورِشفاعت‘‘کا اجرا انھی مشاعروں کے طرحی کلام کو وسیع حلقے تک پہنچانے کے لیے عمل میں آیا ہو۔ جو بیرونی شعرا مشاعروں میں شرکت نہیں کرسکتے تھے، ان کے لیے مشاعروں کے طرحی مصرے مشتہر کیے جاتے تھے اور ان کا کلام موصول ہونے پر گل دستے میں درج کر دیا جاتا۔
منشورِ شفاعت میں محض طرحی و غیر طرحی نعتیہ کلام ہی شائع ہوتا تھا۔ یہ صرف نظم کا گل دستہ تھا۔ اس میں نثری مضامین نہیں ملتے۔ اخبارات ، رسائل، گل دستوں اور کتابوں کے اشتہارات کے علاوہ شعرا کی تعارفی نثر کو ہی نثر میں شمار کیا جا سکتا ہے، جو تقریباً ہر گل دستے کا لازمی حصہ ہے۔ ’’منشورِ شفاعت‘‘ کے دست یاب شماروں میں درج ذیل اخبارات و رسائل اور گل دستوں کے اشتہار ملتے ہیں:
گل دستے : خوان قلیل (مراد آباد) گلشن داغ (رتلام) مرقعۂ نگار (لکھنؤ ) وسیلۂ نجات (بمبئی) گلزارِ سخن (بمبئی) گل دستہ دامنِ بہار (آگرہ) عروجِ بہار (بمبئی) گل چیں (لکھنؤ)
اخبارات : منشورِ محمدی (بنگلور ) چلتا پرزہ (شاہجہان آباد ) انڈیا گزٹ (بمبئی)
رسائل : نورِ قمر (کوٹانہ ) جریدہ روزگار (مدراس)
طرحی و غیر طرحی کلام کے تحت گل دستے میں غزلیات کے علاوہ تضمین قدسی، خمسہ ، مثنوی سال نو، غوث الاعظم جیلانیؒ اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے مدحیہ اور منقبتی قصائد بھی ملتے ہیں۔
’’منشورِ شفاعت‘‘ نعتیہ گل دستہ تھا، لہٰذا انیسویں صدی کے آخر ی پندرہ سالوں میں ہندوستان بھر کے نعت گو شعرا اس میں شامل نظر آتے ہیں۔ بعض معروف نعت گو ؤں میںامیرؔمینائی کا نام سر فہرست ہے۔ گل دستے کے پہلے سال کے شماروں میں ان کی کوئی نعت نہیں ملتی لیکن بعد میں تقریباً ہر شمارے میںان کی طرحی نعت ضرور شامل گل دستہ ہوتی رہی ہے۔ ان کے علاوہ حسان الہند نواب محمد رضوان علی خاں رضوانؔ مراد آبادی، مولوی عبد الاحد شمشادؔ لکھنوی، مولوی امام خاں امامیؔ چشتی، مولانا سید تجمل چشتی تجمل ، شاہ محمد عبد اللطیف لطیفؔ قادری چشتی نظامی، شوقؔ نیموی کا نعتیہ کلام بھی گل دستے کی زینت بنتا رہا ہے۔
گل دستے کے پہلے مرتب محمد صدیق اخلاصؔ قادر الکلام اور استاد شاعر تھے۔ا ن کے ایک شاگرد حاجی عبد الرحمن و دا دؔبن حاجی داؤد ساکن بمبئی کا نعتیہ کلام گل دستے کے رمضان ۱۳۰۶ھ کے شمارے میں شامل ہے۔ گل دستے کے مالک اور اخلاصؔ کے بعد مہتمم و مرتب فقیر محمد فدا بخاری بھی بزرگ اور استاد شاعر تھے۔ اخلاص نے اپنے دور ادارت میں فقیر کو ہر جگہ ’’استادی‘‘ لکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاصؔ، فقیرؔ کے شاگرد تھے۔ غالباً شاعری میں شاگردی اختیار کی ہو۔
’’منشورِ شفاعت‘‘ کے کافی شمارے کتب خانوں میں محفوظ ہیں، بہ تفصیل ذیل:
۱۳۰۶ھ جلد اول (۹۸ـ۔۱۸۸۸ء) جمادی الاول، رجب، رمضان، شوال، ذوالحجہ۔ پنجاب یونی ورسٹی لائبریری، لاہور
۱۳۰۷ھ جلد دوم(۹۰۔۱۸۸۹ء) محرم، خدا بخش اورنٹیل پبلک لائبریری، پٹنہ
۱۳۰۸ھ جلد سوم (۹۱۔۱۸۹۰ء ) محرم، ربیع الاول، ربیع الآخر
ایضاً
۱۳۰۹ھ جلد چہارم (۹۲۔۱۸۹۱ء ) ربیع الاول تا ذوالحجہ (مسلسل) ذاکر حسین لائبریری، جامعہ ملی اسلامیہ، نئی دہلی
۱۳۱۰ھ جلد پنجم (۹۳۔۱۸۹۲ء )محرم تا ذوالحجہ (مسلسل) کتب خانہ خاص، انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی
۱۳۱۱ھ جلد ششم(۹۴۔۱۸۹۳ء )ء) محرم، صفرخدا بخش اورنٹیل پبلک لائبریری، پٹنہ
۱۳۱۲ھ جلد ہفتم(۹۵۔۱۸۹۴ء ) جمادی اوّل ، جمادی الآخر
ایضاً
۱۳۱۳ھ جلد ہشتم (۹۶۔۱۸۹۵ء ) ربیع الاوّل
ایضاً
۱۳۴۱ھ جلد نہم (۹۷۔۱۸۹۶ء ) جمادی الآخر
ایضاً
اس فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ منشورِ شفاعت کی اشاعتی عمر ساڑھے آٹھ برس ضرور رہی۔ ایک نعتیہ گل دستے کا تسلسل کے ساتھ کامیابی سے اتنے عرصے تک شائع ہونا بڑی اہم بات تھی۔ اپنے دور کا یہ اہم گل دستہ یقینا اس کے بعد بھی رہا ہو گا۔
وسیلۂ نجات ( بمبئی)
بمبئی سے یہ نعتیہ گل دستہ جمادی الاول ۱۳۰۶ھ مطابق جنوری ۱۸۸۹ء میں شروع ہوا۔ اس کے مالک محمد ناصر حسین افقرؔو ناضر ؔتھے۔ گل دستے کے مرتب و مہتمم بھی وہی تھے۔ دوسرے شمارے سے محمد عبد العزیز ناطقؔ و ذایق بھی گل دستے کی ملکیت و اہتمام اور ترتیب میں ناصر کے شریک ہوئے۔ پانچویں شمارے کے اندراجات سے علم ہوتا ہے کہ محمد عبد العزیز ناطقؔ و ذایقؔ گل دستے کے مہتمم بن گئے اور محمد ناصر حسین افقرؔو ناضر گل دستے کے مالک و مرتب ٹھہرے۔ نویں شمارے بابت محرم ۱۳۰۷ھ (مطابق ستمبر ۱۸۸۹ء ) سے ناطق ؔو ذایق ؔکا تعلق گل دستے سے ختم ہو گیا اور افقرؔ و ناضرؔ دوبارہ گل دستے کے مالک و مہتمم و مرتب ہو گئے۔
وسیلۂ نجات کی طباعت دت پرساد پریس میں ہوتی تھی۔ وسیلۂ نجات سے چھ ماہ قبل شروع ہونے والا نعتیہ گل دستہ منشورِ شفاعت بھی اسی مطبع سے طبع ہوتا تھا۔ گل دستے کا مقام اشاعت محلہ کویٹ گلی، مکان طاہر محمد، بمبئی تھا۔ صرف پانچواں اور چھٹا شمارہ بابت رمضان اور شوال ۱۳۰۶ھ (مطابق مئی اور جون ۱۸۸۹ء ) کے ’’چونہ پھٹی، بھنڈی بازار، مکان نمبر ۱۳‘‘ سے شائع ہوئے۔
گل دستے میں شعرا کا کلام تخلص کی الفبائی ترتیب سے درج ہوتا تھا۔ پہلے طرحی اور پھر غیرطرحی کلام ہوتا ۔ آخر میں اور بیش تر قواعد و ضوابط کے بعد آئندہ تین یا چار ماہ کے لیے طرحی مصرعے مشتہر کیے جاتے تھے۔ آٹھویں شمارے بابت ذی الحجہ ۱۳۰۶ھ (مطابق اگست ۱۸۸۹ء) میں شمارہ ۳اور ۴ کی بقیہ طرحی غزلیات درج کی گئی ہیں۔ گل دستے کی ضخامت سولہ صفحات تھی، جس میں سراوراق بھی شامل ہوتے تھے۔
گل دستے کے قواعد عموماً اندرون سرورق صفحہ ۲ پر درج ہوتے تھے۔ ان قواعد کے مطابق یہ گل دستہ ہر قمری مہینے کی ۱۵ تاریخ کو شائع ہوتا تھا۔ خریداروں کا طرحی کلام گیارہ شعرتک درج ہوتا تھا ور غیرخریداروں کا بشرط گنجائش، انتخاب اشعار کمیٹی کرتی تھی۔ پوری غزل طرحی یا غیرطرحی فی شعر ایک آنے کی اجرت پر طبع ہوتی تھیں۔ گل دستے کی سالانہ قیمت پیشگی مع محصول ڈاک عوام سے ایک روپیا، والیان مالک و رؤسا کے لیے مقرر نہیں تھا۔ وہ اپنی استطاعات اور الوالعزمی سے جو مدد کرنا چاہیں۔ نمونے کا پرچہ دو آنے میں ملتا تھا۔ اشتہارات کی اشاعت کا نرخ ایک دو مرتبہ کے لیے دو آنے فی سطر تھا۔ زیادہ کے لیے بذریعہ تحریر فیصلہ ہو سکتا تھا۔ جنھیںبلا طلب گل دستہ روانہ کیا جاتا تھا، انھیں ہدایت تھی کہ منظوری کی صورت میں پیشگی قیمت ارسال کریں اور نامنظوری کی صورت میں بذریعہ کارڈ فورا اطلاع کریں، ورنہ خاموشی کو رضا مندی سمجھ کر نام نامی خریداروں میں درج ہو گا۔ ہر طرح کی تحریریں بنام مالک /مالکان گل دستہ کے نام بھجوانے کی ہدایت تھی۔
گل دستے میں نثر بھی شائع ہوتی تھی۔ پہلے شمارے میں مظہر اللہ شاہ حسین القادری کی ’’تفریظ گل دستۂ وسیلہ نجات‘‘ شامل ہے۔ موجودہ گیارہ شماروں میں یہ واحد نثری مضمون ہے۔ نثری اشتہارات منشورِ شفاعت کی طرح وسیلۂ نجات کا بھی مستقل حصہ تھے۔ گل دستوں، اخبار اور کتابوں کے تقریباً وہی اشتہار وسیلۂ نجات میں بھی شامل ہیں جو منشورِ شفاعت میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
گل دستے کے مالک و مہتمم و مرتب محمد ناضر حسین شاعر تھے۔ شروع میں ان کا تخلص افقر ؔتھا لیکن وسیلۂ نجات کے ساتویں شمارے بابت ذیقعد ۱۳۰۶ھ (مطابق جولائی ۱۸۸۹ء) میں ان کا تخلص ناضر لکھا ہے اور بعد میں بھی ان کا یہی تخلص درج ہوتا رہاہے۔ وہ استاد شاعر تھے۔ ان کے تین تلامذہ کا کلام وسیلۂ نجات میں ملتا ہے:
(۱) حاجی میر تجملؔ حسین تجمل جلال پوری، (۲) منشی شاکر محمد شاکرؔ بنارسی مقیم بمبئی (۳)حاجی واحد اللہ اظہر ؔشاہ جہان پوری۔
اس طرح وسیلہ نجات میں افقر ؔو ناضر کے شریک مالک و مہتم و مرتب عبد العزیز فرخ آبادی بھی شاعر تھے۔ ان کا تخلص پہلے ناطقؔ تھا، لیکن چوتھے شمارے بابت شعبان ۱۳۰۶ھ (مطابق اپریل ۱۸۸۹ء ) سے ان کا تخلص ذائقؔلکھا جانے لگا۔ معلوم ہو اکہ مارچ اور اپریل ۱۸۸۹ء کے درمیان انھوں نے اپنا تخلص ناطقؔ سے تبدیل کرکے ذائقؔ رکھ لیا تھا۔ ناطق ؔو ذائقؔ کو تائبؔ شا ہجہان پوری سے تلمذ حاصل تھا۔ ان کے دو بھائیوں (۱) محمد عبد الرزاق آمدؔ شاگرد ذائقؔ اور (۲) محمد عبد اللہ مشفقؔ شاگرد ذائقؔ کا طرحی نعتیہ کلام بھی گل دستے کے نویں شمارے بابت محرم ۱۳۰۷ھ (مطابق ستمبر ۱۸۸۹ء) میں ملتا ہے۔ گل دستے کے کاتب منشی برکت اللہ درویش آدم پوری کا طرحی نعتیہ کلام گل دستے کے دوسرے شمارے بابت جمادی الآخر ۱۳۰۶ھ (مطابق فروری ۱۸۸۹ء ) میں شامل ہے۔
وسیلۂ نجات ایک اہم لیکن کمیاب گل دستہ ہے۔ اس کے پہلے دس شمارے (جمادی الاوّل ۱۳۰۶ھ تا صفر ۱۳۰۷ھ مطابق جنوری تا اکتوبر ۱۸۸۹ء ) مسلسل شائع ہوئے لیکن اگلے تین شمارے، یعنی جلد اول کا گیارھواں و بارھواں اور جلد دوم کا پہلا شمارہ مشترکہ شمارے کے طور پر شائع ہوے۔ (بابت ربیع الاوّل تا جمادی الاوّل ۱۳۰۷ھ مطابق نومبر و دسمبر ۱۸۸۹ء جنوری۱۸۹۰ء)۔ یہ شمارے ایوان اُردو، کراچی کے کتب خانے میں موجود تھے۔ اب یہ کتب خانہ وسیلۂ نجات کے شماروں سمیت، سردار مسعود جھنڈ یر لائبریری ، سردار پور جھنڈیر میلسی ضلع وہاڑی میں منتقل ہوچکا ہے۔ ان شماروں کا تعارف راشداسدی جے پوری نے ایوان اُردو کے ماہنامے سب رس (کراچی) میں کرایا تھا۔٭۱۵اپنے اس تعارفی مضمون میںانھوںنے خیال ظاہر کیا ہے کہ آخر موجود مشترکہ شمارے ’’کا انداز بتلا رہا ہے کہ یہی اس کا اختتام ہے ۔٭۱۶
دیگر کچھ گل دستوں کی طرح وسیلۂ نجات کے ذکر سے بھی تواریخ ادب و صحافت خالی ہیں۔ کلب علی خان فائق نے لکھا ہے کہ اس کا پہلا شمارہ انھوں نے صولت پبلک لائبریری ، رامپور میں دیکھا ہے ۔٭۱۷
انوارِ محمدی (امرتسر)
تواریخ ادب اس گل دستے کے ذکر سے خالی ہیں۔٭۱۸ امرتسر میں ایک ’’مجلس انوارِ محمدیہ‘‘ قائم تھی۔ ’’انوارِ محمدی‘‘ اسی مجلس کے اہتمام سے شائع ہوتا تھا۔ ’’انوار محمدی‘‘ بنیادی طور پر ایک مذہبی پرچہ تھا۔ موجود شماروں میں سے ایک میں طرحی نعتیہ کلام درج ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شروع سے یا بعد میں کسی وجہ سے گل دستہ بن گیا تھا۔انوارِمحمدی کا گیارھواں شمارہ جمادی الاوّل ۱۳۰۹ھ کا ہے، ماہانہ وقفے اور قواعد کے مطابق آخری تاریخوں میں اشاعت کے حساب سے اس کا پہلا شمارہ اوراخررجب ۱۳۰۸ھ مطابق مارچ۱۸۹۱ء میں منظرِ عام پر آیا ہوگا۔ اس گل دستے کے دو شمارے پیش نظر ہیں:
(۱) جلد اول، شمارہ گیارہ، بابت اواخر جمادی الاول ۱۳۰۹ھ (مطابق جنوری ۱۸۹۲ء ) اس میں صرف نثری حصہ شامل ہے۔
(۲) جلد دوم ، شمارہ آٹھ، بابت اواخر صفر۱۳۱۰ھ (مطابق ستمبر۱۸۹۲ء)
گل دستے کا سرورق سادہ ہوتا تھا۔ اس پر گل دستے کے نام ، مہتمم و مطبع کا نام ، جلد و شمارہ نمبر اور ماہ و سال اشاعت کے علاوہ ذیل کا فارسی شعر بھی ایک ہلالی خانے میں درج ہوتا تھا : ؎
یک چراغ است دریں خانہ کہ از پر تو آں
ہر کجامی نگری انجمنے ساختہ
اندرون سر ورق پر گل دستے کے ضوابط درج ہوتے۔ ان کے مطابق ’’انوار محمدی‘‘ قمری مہینے کی آخری تاریخوں میں مجلس انوار محمدیہؐ ، امرتسر کی جانب سے شائع ہوتا تھا۔ ہر قسم کی خط و کتاب منشی غلام احمد اخگر نائب دبیر مجلس انوار محمدیہ بمقام قلعہ بھنگیاں،امرتسرکے نام جب کہ رسالے کا پیشگی زیر سالانہ ’’مفتی مولانا مولوی غلام رسول صاحب میر مجلس بمقام امرتسر مسجد میاںمحمد جان صاحب مرحوم ارسال‘‘ کرنے کی ہدایت تھی۔ گل دستے کی سالانہ قیمت پیشگی عوام سے بلا محصول آٹھ آنے اور مع محصول بارہ آنے ، روسا عظام سے بالترتیب ایک روپیا اور سوا روپیا، جب کہ گورنمنٹ و والیانِ ملک سے بالترتیب ڈیڑھ روپیا اور پونے دو روپے مقرر تھی۔ ’’انوار محمدی‘‘ میں مضامین عقلی و نقلی، دستور العمل شارع، معترضین اسلام کو مہذب جواب شائع ہوتے تھے جن کو گل دستہ اہلِ اسلام کے لیے عموماً اور نوجوانوں و طلبہ کے لیے خصوصاً فائدہ بخش بتایا گیا ہے۔ ’’رسالہ کی اشاعت میں کوئی ذاتی غرض نہ ہو گی‘‘۔ درخواست رسالہ موصول ہونے والے ایک ماہ کے اندر منظوری یا نا منظوری سے مطلع کرنے کے پابند تھے، خاموشی کی صورت میں انھیں سالانہ خریداروں کی فہرست میں شامل کر لیا جاتا تھا۔
موجود شمارئہ اوّل سولہ صفحات پر مشتمل ہے۔ سرورق کے دو صفحات کے سوا بقیہ چودہ صفحات میں ایک کتاب کے ۱۳۷ تا ۱۵۰ مسلسل صفحات ہیں۔ یہ اسلامی کتاب غلام مصطفیٰ کی تصنیف ہے جنھوں نے کتاب کے اختتام پر ص ۱۵۰ پر اپنا نام لکھا ہے۔ ممکن ہے اس کے بعد بھی شمارے میں مزید صفحات ہوں جو موجودہ صورت میں موجود نہیں۔ دوسرے موجودہ شمارے میں آٹھ صفحات ہیں ۔ دو صفحات سرورق کے اور بقیہ چھ صفحات میں طرحی نعتیہ کلام ہے۔ اس شمارے کے اندرون سرورق پر ’’معذرت‘‘ شائع ہوئی ہے کہ ’’امرتسر میں بیماری، بخار اور دیگر عوارضات کا سخت زور ہے ‘‘ ۔ چناںچہ میر مجلس مولوی غلام رسول بھی اس کا شکار ہوئے اور مضمون تیار نہ کر سکے، جس کی وجہ سے ’’مجبور ہو کر اس مہینے کا رسالہ چہار ورقی رکھا۔ آیندہ اس کی تلافی کی جاوے گی ‘‘ اس سے علم ہوا کہ اس شمارے کی ضخامت آٹھ صفحات ہی تھی اور یہ شمارہ مکمل ہے۔ اس شمارے میں پندرہ شعرا کا طرحی نعتیہ کلام شائع ہوا ہے۔ ان میں مفتی غلام سرور سرورؔ لاہوری بھی شامل ہیں، بقیہ غیر معروف شعرا ہیں۔ سب سے پہلے مولانا ابوالجمیل شیفتہؔ مظفرپوری کی طرحی نعت کے ۲۲ شعر درج ہیں۔ اس کے بعد بقیہ شعرا میں سے گیارہ کے ساتھ ’’ازمحبانِ شیفتہ ؔمظفر پوری‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیفتہؔ مظفر پوری کو مجلس انوار محمدیہ‘‘ ؐ یا گل دستہ انوار محمدیؐ سے خصوصی نسبت ہو گی۔
گل دستے میں مرتب کا نام درج نہیں۔ یہ گل دستہ ’’مجلس انوار محمدیہ‘‘ کی ملکیت تھا اور سرورق کے مطابق مجلس کے نائب میر رسول شاہ، گل دستے کے مہتمم تھے۔ زر سالانہ کے علاوہ گل دستے کے سلسلے میں ہر قسم کی خط و کتاب منشی غلام احمد اخگرؔامرتسری کے نام کرنے کی ہدایت تھی۔ زرسالانہ کے سوا دیگر قسم کی خط کتاب میں شعرا کا کلام اور نثری مضامین وغیرہ بھی شامل ہیں۔ کلام منظور اور مضامین وغیرہ کا اخگر کو ارسال کرنا قرینہ فراہم کرتا ہے کہ وہی گل دستے کے مرتب ہوں۔ اخگرؔ خود بھی شاعر تھے۔ ان کا طرحی کلام ’’پیام یار‘‘ (لکھنؤ) کے جنوری اور فروری ۱۸۹۲ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے، جس میں انھیں ’’منیجر رسالہ ’’انوار محمدی‘‘ امرتسر لکھا گیا ہے۴۶؎۔ زر سالانہ کے سوا ہر قسم کی خط و کتاب انھی سے کرنے کی ہدایت سے بھی اخگر کا ’’انوار محمدی‘‘ کامنیجر ہونا واضح ہوتا ہے۔ اخگر کے کسی قدر حالات درج ذیل ماخذ میں ملتے ہیں:
(۱) شعر اے امرت سر کی نعتیہ شاعری : از محمد سلیم چودھری، لاہور، مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، اشاعت اوّل، جون ۱۹۹۶ء ۔
(۲) تاریخ صحافت اُردو : جلد چہارم ، دہلی،۱۹۷۴ء۔
ان مآخذ میں انوارِ محمدی کا حوالہ موجود نہیں اور نہ ’’مجلس انوارِ محمدیہ‘‘ کا ذکر خیر ہے۔
گل دستے کے دونوں شماروں کے سرورق پر ’’مصنفہ جناب ابوالحسن مولوی غلام مصطفی صاحب کشمیری ثم الامرتسری‘‘ درج ہے۔ یہاں ’’مصنفہ‘‘ کا مطلب مرتب یا مدیر لینا مناسب نہیں۔ جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے کہ موجود شمارئہ اوّل میں انھی غلام مصطفی کی کسی کتاب کی قسط کے ۱۳۷ تا ۱۵۰؍صفحات شامل ہیں۔ یہ سلسلہ ظاہر ہے پہلے یا دوسرے شمارے سے چل رہا تھا۔ چوں کہ غلام مصطفی کی قسط وار کتاب، گل دستے یا رسالے کا مستقل حصہ تھی، اس لیے سرورق پر انھیں اسی کتاب کے حوالے سے مصنف لکھا گیا ہے۔
انوارِ محمدی کے دونوں موجود شمارے چشمۂ نور پریس،امر تسر میں طبع ہوئے ہیں ممکن ہے یہ گل دستہ مستقلاً اسی پریس میں طبع ہوتا ہو۔
’’انوار محمدی‘‘ کے موجودہ دو شماروں کے علاوہ اس کے کسی اورشمارے کی کہیں موجودگی کی اطلاع نہیں۔
لطفِ سخن، گلزارِ نعت (حسن پور ، مراد آباد)
حسن پور، ضلع مراد آباد سے دونوں گل دستے دوست محمد خاں عتیق نے شروع کیے۔ لطف سخن عاشقانہ جب کہ گلزارِ نعت ایک نعتیہ گل دستہ تھا۔ لطف سخن کا اشتہار گل دستہ ’’جلسۂ احباب شملہ‘‘ کے ۳۰؍ اپریل ۱۸۹۴ء کے شمارے میں شائع ہوا، جس کے مطابق حسن پور، ضلع مراد آباد سے ’’لطفِ سخن‘‘ ہر انگریزی مہینے میں شائع ہوتا تھا۔ اشتہار کے مطابق اس میں عشقیہ اور نعتیہ طرحی کلام ہوتا تھا۔ اشتہار میں دو ضمیموں کا ذکر ہے جن کے ساتھ لطف سخن کی سالانہ پیشگی قیمت سوا روپیا تھی۔٭۱۹ واضح نہیں کہ اشتہار میں جن دو ضمیموں کا ذکر ہے، ان سے کیا مراد ہے، نعتیہ کلام اور ضمیمے کے ذکر سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ نعتیہ گل دستہ گلزارِ نعت کہیں لطف سخن کے ضمیمے کے طور پر تو شائع نہیں ہوتا تھا؟ لیکن یہ خیال تب باطل ثابت ہوتا ہے جب گلزارِ نعت کے دستیاب دو شماروں میںایسا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
گلزارِ نعت کے دو شمارے راقم الحروف کو دستیاب ہوئے تھے۔ ان کے تعارف پر مبنی ایک مختصر مضمون بھی راقم الحروف نے تحریر کیا تھا، جو ’’نعت رنگ‘‘ (کراچی) کے آٹھویں شمارے میں شائع ہوچکا ہے۔ بعد میں بدقسمتی سے گلزارِ نعت کے دونوں شمارے ضائع ہو گئے، چناںچہ گلزارِ نعت سے متعلق معلومات کا ابھی تک واحد ذریعہ اب یہی مضمون ہے۔٭۲۰یہاں اس مضمون سے استفادہ کیا گیا ہے۔
گلزارِ نعت کے مذکورہ موجود شماروں کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) جلد دوم، شمارہ بارہ، بابت ۳۰ جون ۱۸۹۴ء
(۲) جلد دوم، شمارہ تیرہ، بابت ۱۵ جولائی ۱۸۹۴ء
’’گلزار نعت‘‘ کے مہتمم و ناشر (اور غالباً مالک و مرتب بھی ) دوست محمد خاں عتیق تھے۔ گل دستے کی سالانہ پیشگی قیمت محض بارہ آنے تھی۔ نمونے کا پرچہ منگانے کے لیے ایک آنے کے ٹکٹ بھجوانا لازم تھا۔ گل دستے کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ مصرع طرح کمیٹی کی منظور ی کے بعد مشتہر کیا جاتا تھا، جب کہ دیگر گل دستوں میں کسی کا بھی عطا کردہ یا خود مرتب، مالک، مہتممِ گل دستہ کی مرضی کا طرحی مصرع مشتہر ہوتا تھا۔
گلزارِ نعت کے مذکورہ بالا دونوں شمارے مسلسل ہیں اور ان کی اشاعت کے درمیان پندرہ روز کا وقفہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اشاعت پندرہ روزہ تھی۔ موجود مذکورہ شمارے جلد دوم کے ہیں، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گل دستے کا آغاز ۱۹۸۳ء میں کسی وقت ہوا۔ گل دستہ ’’گلچیں‘‘ (گورکھ پور) کے جنوری ۱۸۹۵ء کے شمارے میں عتیق کا کلام شامل ہے اور تعارف میں انھیں ’’مالک و مہتمم گلزارِ نعت و لطفِ سخن‘‘ لکھا گیا ہے۔٭۲۱ اس سے جہاں یہ علم ہوتا ہے کہ عتیقؔ مہتمم کے علاوہ لطفِ سخن اور گلزارِ نعت کے مالک بھی تھے، وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم دسمبر ۱۸۹۴ء تک یہ دونوں گل دستے شائع ہو رہے تھے۔
گلزارِ نعت کے مذکورہ دونوں شماروں میں نعتیہ کے علاوہ عشقیہ کلام بھی شامل ہے بلکہ عشقیہ کلام نسبتاً بہت زیادہ اور نعتیہ طرحی کلام نسبتاً کافی کم درج ہوا ہے۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ لطفِ سخن، عاشقانہ اور گلزارِ نعتیہ طرحی کلام کے گل دستے تھے، یہ باعث حیرت ہے کہ نعتیہ گل دستے ’’گلزارِ نعت ‘‘ میں عاشقانہ کلام بھی شائع ہوا ہے۔ اس موقع پر ’’لطف سخن ‘‘ کے اشتہار میں ’’مع ہر دو ضمیموں کے‘‘ کے الفاظ پیش نظر رکھے جائیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ’’لطف سخن‘‘ اور ’’گلزارِ نعت‘‘ کی اشاعت مشترکہ ہوتی ہو گی۔ مذکورہ دو شماروں میں ’’گلزار نعت‘‘ کا نام موجود ہونے اور ’’لطف سخن‘‘ کا درج نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس وقت ’’لطفِ سخن‘‘ کا نام ترک کرکے محض ’’گلزارِ نعت‘‘ ہی گل دستے کا نام مقرر کر دیا ہو۔ بہرحال، اس سلسلے میں حتمی طور پر اس وقت تک کچھ نہیںکہا جاسکتا، جب تک ’’لطف سخن‘‘ اور گلزارِ نعت‘‘ کے کافی شمارے پیش نظر نہ ہوں۔ کلبِ علی خاں فائق نے اپنے مضمون میں ’’لطفِ سخن‘‘ اور ’’گلزارِ نعت‘‘ کا الگ الگ ذکر کیا ہے، لیکن ان سے متعلق مزید معلومات نہیںدیں۔٭۲۲
مدّاح النبیﷺ (جھجر)
جھجر، ضلع رہتک سے یہ ماہانہ نعتیہ گل دستہ ۱۸۹۵ ء میں شروع ہوا۔ اس کے مہتمم غلام احمد خان بریاں تھے۔ کلب علی خان فائق نے بریاںؔ کا نام اپنے مضمون میں ’’مالک و مہتمم ‘‘کے خانے میں درج کیا ہے۔٭۲۳ معلوم نہیں انھوں نے بریاںؔ کو مالک و مہتمم لکھا ہے یا محض مہتمم۔ امداد صابری کے بقول پہلے مداح النبیﷺ ۱۶ صفحات پر نکلتا تھا، بعد میں بیس صفحات پر نکلنے لگا۔ اس کا سالانہ چندہ ایک روپیہ اور نمونے کے پرچے کی قیمت ڈیڑھ آنے تھی اور مسلم پریس جھجر میں اس کی طباعت ہوتی تھی۔ اپریل ۱۸۹۷ء میں مداح النبی ؐ میں قسط وار ناول کے صفحات کا اضافہ ہو گیا، جس وجہ سے اس کی ضخامت ۲۰؍صفحات ہو گئی۔ یہ ناول مہتمم گل دستہ کی تالیف سے تھا اور اس کا نام ’’الحسنات‘‘ تھا۔ انھوںنے اس گل دستے کے اپریل ۱۸۹۷ ء کے شمارے میں منتخب کلام بھی کتاب میں درج کیا ۔٭۲۴ اپریل ۱۸۹۷ء کا یہی شمارہ اب ذاکر حسین لائبریری، نئی دہلی کے ذخیرئہ امداد صابری کا حصہ ہے اور اسی کا عکس میرے پیش نظر ہے۔ یہ جلد سوم کا چوتھا شمارہ ہے۔
اس شمارے کا سرورق تقریباً ضائع ہو چکا، جس کے باعث سرورق اور اندرون سرورق کی عبارتیں بھی ضائع ہو گئیں، ان میں غالباً گل دستے کے قواعد و ضوابط بھی شامل ہیں۔ سرورق کے بعد صفحہ ایک پر سب سے اوپر شمارہ و جلد نمبر اور تاریخ اشاعت درج ہے، پھر طرح مصرع اور پھر شعرا کے تخلص کی تہجی ترتیب سے طرحی نعتیہ کلام درج کیا گیا ہے۔ صفحہ ۱۴ پر طرحی وغیر طرحی کلام کا سلسلہ ختم ہوتا ہے۔ ص۱۵ پر ’’خاص گزارش‘‘ کے تحت مہتمم نے وضاحت کی ہے کہ پوسٹ ماسٹر جنرل پنجاب کے حکم کے مطابق تمام رسالے اور اخبار اپنے مقررہ وقت پر شائع ہونے کے پابند ہو گئے ہیں۔ مداح النبیﷺ چوںکہ ۱۵ یا ۲۰؍ تاریخ کو شائع ہوتا تھا، اس لیے اس کی تاریخ اشاعت یکم کے بجاے ۲۰؍ مقرر کر دی گئی ہے اور اب یہ اسی تاریخ تک شائع ہو جایا کرے گا، اس لیے شعرا اپنا کلام طرح ہر صورت میں تاریخ تک پہنچا دیا کریں۔ اس کے علاوہ ماہ محرم مطابق جون ۱۸۹۷ء کا شمارہ عشرہ محرم سے پہلے شائع کرنے کا پروگرام ہے تاکہ اس شمارے کی طرح :
محشر کا معرکہ ہے شہادت حسینؓ کی
کا کلام مجالس میں پڑھنے کے کام آ سکے، اس لیے تجویز ہے کہ ’’گل دستہ ماہ جون ٹھیک یکم ماہ جون مطابق ۲۸؍ذی الحجہ کو شائع کر دیا جائے۔ یہ بھی ارادہ کیا گیا ہے کہ گل دستہ ماہ محرم الحرام سبز کاغذ پر بلالحاظ ضخامت و حجم شائع کیا جائے، اس لیے ہر ایک صاحب علاوہ کلام مطروحہ کے اپنا اور کلام متعلق بہ حالات شہادت، سلام، مجرا، رباعی وغیرہ بھی روانہ فرما سکتے ہیں۔ بشرط پسند کمیٹی، گل دستہ میں بلااُجرت جگہ دی جائے گی۔ ‘‘
اس گزارش سے گل دستے سے متعلق چند مزید باتوں کا علم ہوتا ہے۔ اوّل: یہ کہ پہلے گل دستے کی تاریخ اشاعت مہینے کی یکم تاریخ تھی، لیکن اپریل ۱۸۹۷ء سے ڈاک خانے کی پابندیوں کے باعث تاریخ اشاعت ۲۰ ؍مقرر کی گئی۔ چناںچہ اپریل ۱۸۹۷ء کے شمارے پر تاریخ اشاعت ۲۰؍اپریل درج ہے۔ دوسرے : اپنے پیش رو نعتیہ گل دستوں کے خلاف مداح النبیﷺ ہجری کے بجاے عیسوی ماہ و سنہ و تاریخ کے مطابق شائع ہوتا تھا۔ تیسرے : ہر سال ماہ محرم الحرام کے موقع پر عموماً سلام، مجرے وغیرہ کے مطابق طرح مصرع دیا جاتا تھا اور یقینا محرم الحرام کے مہینے کے شمارے میں انھی اصناف کے کلام کی کثرت ہوتی ہو گی۔ چوتھے : مداح النبیﷺ کی تاریخ اشاعت تو یکم مقرر تھی، لیکن یہ ہر مہینے کی تاریخ ۱۵ سے ۲۰ تاریخ کے درمیان شائع ہوتا تھا۔
صفحہ ۱۶ پر مہتمم نے اعلان کیا ہے کہ شایقین کے اصرار پر وہ گل دستے میں مسائل شرعی، وعظ و نصیحت یا اسلامی ناول کی اشاعت کی غرض سے نثر کے آٹھ صفحات کا اضافہ کر رہے ہیں۔ اس طرح میں گل دستے کی ضخامت ۲۰ کے بجائے ۲۸ صفحات ہو جاے گی۔ ایسی صورت میں گل دستے کی قیمت میں اضافہ ضروری ہے، لیکن اگر ہر صاحب کم از کم چار خریدار بہم پہنچائیں تو ان کے لیے قیمت نہیں بڑھائی جاے گی۔ مہتمم نے خریدار بہم پہنچانے والی تجویز پر زور دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ قارئین پسند کریں گے تو وہ ’’اپنا دلچسپ ناول الحسنات‘‘ گل دستہ کی نذر کر دیںگے۔ آخر میں وضاحت ہے کہ جو صاحب محض گل دستہ لینا چاہیں گے، ان سے سالانہ قیمت ایک روپیا ہی لی جائے گی اور جو صاحب نثری حصے کے حصول کے بھی خواہش مند ہوں گے، ان سے نظر ثانی شدہ قیمت وصول کی جائے گی۔
اس اعلان میں مہتمم نے اپنا ناول ’’الحسنات‘‘ گل دستے میں قسط وار شائع کرنے کی ہامی بھری ہے، لیکن امداد صابری نے تیقن کے ساتھ لکھ دیا ہے کہ اپریل ۱۸۹۷ء کے بعد ناول الحسنات گل دستے میں شائع ہونے لگا تھا، جب کہ ان کی مہیا کردہ معلومات سے یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ انھوںنے مداح النبیﷺ کے اپریل ۱۸۹۷ء کے شمارے کے علاوہ کوئی اور شمارہ بھی دیکھا ہو۔
گل دستے میں مالک گل دستہ کا نام کہیں درج نہیں، لیکن تمام اعلانات بریاں کی جانب سے ہیں ، اس لیے امکان ہے کہ وہی مداح النبیﷺ کے مالک اور مرتّب بھی ہوں۔
سفینۂ نجات (دہلی)
دہلی سے یہ ماہانہ نعتیہ گل دستہ ۱۸۹۷ میں شروع ہوا۔ اس کا جلد ہفتم کا آٹھواں شمارہ بابت اگست ۱۹۰۴ کتب خانہ جامعہ پشاور میں محفوظ ہے اور میرے سامنے اسی کا عکس ہے۔ اس شمارے کے سرورق موجود نہیں۔ جس سے گل دستے کے ضوابط اور معلومات نہیں ملتیں۔ گل دستے کے پشت ورق یعنی آخری صفحے پر کتابوں کا اشتہار ہے جو مہتمم گل دستہ محمد عبدالکریم خاں صادق کی جانب سے ہے۔ صادق ، مطبع حقانی دہلی کے بھی مالک تھے۔ معلوم ہوتا ہے گل دستے کے مالک بھی وہی تھے۔ وہ اُستاد شاعر تھے۔ اُن کے دوشاگردوں کا کلام گل دستے میں ملتا ہے ۔ سفینۂ نجات کے موجودہ شمارے میں رضوانؔ مراد آبادی کے سوا مشمولہ شاعر گمنام اور دوسرے درجے کے ہیں۔ موجودہ شمارہ ساتویں جلد کا آٹھواں شمارہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ گل دستہ کم سے کم چھے سال سے شائع ہورہا تھا۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے سفینۂ نجات کا مقام اشاعت بمبئی لکھا ہے۔٭۲۵ یہ درست نہیں سفینۂ نجات دہلی سے نکلتا تھا۔ انھوں نے اس کے اپریل ۱۹۰۰ کے شمارے میں مولانا آزاد کی نعتیہ غزل شائع ہونے کی اطلاع دی ہے ۔
حواشی و تعلیقات
٭۱۔ اختر شاہنشاہی : ص ۲۸۲ ، تاریخ صحافت اُردو : جلد سوم، ص ۳۷۸
٭۲۔ گل دستۂ ناز ،(بمبئی): ۱۵ جولائی ۱۸۸۵ء ، ص ۱۶
٭ ۳۔ ایضاً، نمبر ۱۴ فروری ۱۸۸۶ء ، ص ۱۸،۱۵ مارچ ۱۸۸۶ء ، ص ۹، ۱۲ اپریل ۱۸۸۶ء ص ۱۳
٭ ۴۔ اُردو کے طرحی رسالے: ص ۵۴
٭۵، ۶۔ پیامِ عاشق (قنوج): اکتوبر ۱۹۰۵ء ، ص ۱۷ حاشیہ
٭ ۷۔ اختر شاہنشاہی : ص ۲۰۲، تاریخ صحافت اُردو: جلد سوم، ص ۳۹۹، گل دستہ صحافت : ص ۲۸۲
٭ ۸۔ گل دستہ فیروز نگار (امراؤتی): دسمبر ۱۸۸۴ء و جنوری۱۸۸۵ء ، ص ۱۸
٭۹۔ تاریخِ صحافت اُردو: جلد سوم، ص ۴۱۹
٭ ۱۰۔ اختر شاہنشاہی: ص ۱۹۹
٭ ۱۱۔ اولاً یہ مضمون ہفتہ وار ہماری زبان (نئی دہلی) کے ۲۲؍ مئی ۱۹۹۶ء کے شمارے میں شائع ہوا ، بعد ازاں ماہ نامہ شام و سحر(لاہور) کے اکتوبر ۱۹۹۸ء کے شمارے میں بھی شائع ہوا (ص ۱۱ تا ۲۱)۔ یہاں اس مضمون سے استفادہ کیا گیا ہے۔
٭۱۲۔ اُردو کے طرحی رسالے: ـ ص ۵۸
٭۱۳۔ گل دستہ منشور شفاعت(بمبئی): جمادی الثانی ۱۳۰۹ء ، ص ۱۶
٭۱۴۔ بمبئی کا ایک قدیم اُردو نعتیہ مشاعرہ (مضمون): ص ۲۱
٭۱۵۔ ایوانِ اُردو کے کتب خانے میں (قسط وار مضمون) :ماہنامہ سب رس (کراچی ): مسلسل صفحات ۱ تا ۷ ، جولائی ۱۹۸۵ء
٭۱۶۔ ایضاً، ص ۵
٭۱۷۔ اُردو کے طرحی رسالے: ص ۵۲،۵۴
٭۱۸۔ انوار محمدی کے تعارف پر مبنی راقم الحروف کا مضمون مجلہ نعت رنگ(کراچی) کے دسویں شمارے بابت اپریل ۲۰۰۰ء، (ص۱۵۸ تا ۱۷۰) میں شائع ہو چکا ہے۔ یہاں اس مضمون سے بھی مدد لی گئی ہے۔
٭۱۹۔رسالہ جلسۂ احبابِ شملہ (شملہ، مطبوعہ مظفرنگر): ۱۰؍ اپریل ۱۸۹۴ء، ص ۴
٭۲۰۔گلزار نعت، ایک نایاب نعتیہ گل دستہ ۰مضمون): مجلہ ’’نعت رنگ‘‘ (کراچی)، شمارہ آٹھ بابت ستمبر ۱۹۹۹ء، ص ۹۴ تا ۹۷
٭۲۱۔گلچیں (گورکھ پور): جنوری ۱۸۹۵ء، ص ۱۸
٭۲۲۔’’اُردو کے طرحی رسالے‘‘ : ص ۶۰
٭۲۳۔ ایضاََ ، ص ۵۵
٭ ۲۴۔ ’’تاریخِ صحافتِ اُردو‘‘ : جلد سوم ، ص ۶۵۵ تا ۶۵۷
٭۲۵۔ ’’کلیاتِ آزاد‘‘ : ص ۲۵، ۴۳
{٭}
0 تبصرے