زمیں جب تنگ ہوجائے فلک پر جا بنا دینا کسی اچھے سے سیارے کا باشندہ بنا دینا

زمیں جب تنگ ہوجائے فلک پر جا بنا دینا کسی اچھے سے سیارے کا باشندہ بنا دینا

حزیںؔ صدیقی


زمیں جب تنگ ہوجائے فلک پر جا بنا دینا
کسی اچھے سے سیارے کا باشندہ بنا دینا


مجھے تو خیر جیسا چاہو تم ویسا بنا دینا
دلِ دنیا ہے نابینا اسے بینا بنا دینا


میں اک قطرہ ہوں ظاہر ہے سمندر بن نہیں سکتا
تمہاری موج ہے تم چاہو تو دریا بنا دینا


گرے سورج تو میں روکوں اسے اپنی ہتھیلی پر
جب ایسا وقت آئے تو مجھے ایسا بنا دینا


کہیں دھبہ نظر آئے تو اس کو درگزر کرکے
مرے امروز کو آئینہ فردا بنا دینا


ترا بندہ ہوں اور بندہ نوازی شان ہے تیری
جہانِ خیر کا مجھ کو نمائندہ بنا دینا


الٰہی ذات ہے تیری بڑی ہی رحمتوں والی
حزیںؔ کی قبر میں جنت کا دروازہ بنا دینا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے