مہدی عباس جارچوی (کراچی)
منظور نظر جو کہ تری راہ گزر ہے
مطلوب مجھے بس اسی رستے پہ سفر ہے
کس طرح سے نیرنگیٔ عالم کا بیاں ہو
ہر رنگ میں بس تیرے ہی جلوے کا اثر ہے
یہ دستِ طلب اٹھتے ہیں بس تیرے ہی آگے
ہم جیسے فقیروں کو میسر ترا در ہے
تاباں ہیں جو اس نظم کے الفاظ و معانی
توفیق و عطا سے یہ تری کارِ ہنر ہے
وہّاب بھی تو باسط و رزّاق و غنی بھی
محتاج تونگر بھی ترا شام و سحر ہے
صناعی عیاں ہے تری ہر برگ و ثمر سے
مظہر تری قدرت کا ہر اک خشک ہے تر ہے
جس سمت نظر ڈالئے جلوہ ہے اسی کا
دکھلائی نہیں دیتا ہے اللہ مگر ہے
0 تبصرے