سبھی کا حاذق، سبھی کا رازق، سبھی کے سینے کی ڈھال تو ہے

سبھی کا حاذق، سبھی کا رازق، سبھی کے سینے کی ڈھال تو ہے

نشترؔ خانقاہی


سبھی کا حاذق، سبھی کا رازق، سبھی کے سینے کی ڈھال تو ہے
مگر مری چشمِ نکتہ جو میں، ذہانتوں کا کمال تو ہے


جو لفظ اب تک ملے ہیں مجھ کو، وہ سب ہیں صورت گری کا ساماں
کہاں سے باندھوں ترا تصور، کہ ماورائے خیال تو ہے


تمام حکمت، تمام دانش، تمام فہم و ذکا کا مظہر
مفسروں کو خبر کہاں ہے، ثبوت تو ہے سوال تو ہے


فراستِ کل کا آئینہ ہے، مرے تصور میں ذات تیری
ذکاوتیں سب ترے لئے ہیں، قسم تری بے مثال تو ہے


مری بصیرت میں جذب ہوکر، وسیلہ سازی سے دے رہائی
یہ عرش و کرسی تمام حادث، قدیم تو لایزال تو ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے